Wednesday 27 December 2017

سود کی حرمت و گناہ اور نقصانات احادیث مبارکہ کی روشنی میں

0 comments
سود کی حرمت و گناہ اور نقصانات احادیث مبارکہ کی روشنی میں

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا : سات چیزوں سے بچو جو کہ تباہ وبرباد کرنے والی ہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم وہ سات چیزیں کیا ہیں ؟ ارشاد فرمایا :(1) شرک کرنا (2) جادو کرنا (3) اسے ناحق قتل کرنا کہ جس کا قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے حرام کیا (4) سود کھانا (5) یتیم کا مال کھانا (6) جنگ کے دوران مقابلہ کے وقت پیٹھ پھیرکربھاگ جانا (7) اور پاکدامن ، شادی شدہ، مومن عورتوں پر تہمت لگانا ۔
(صحیح البخاری، کتاب الوصایا، باب قول اللہ تعالیٰ ان الذین یاکلون اموال الیتمی۔۔الایۃ، الحدیث:2766، ج 2،ص242)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ تعالیٰ اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے ۔ (کتاب الکبائر للذھبی، الکبیرۃ الثانیۃ عشرۃ، ص69)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا نے فرمایا : جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے ۔ (کتاب الکبائر للذھبی، الکبیرۃ الثانیۃ عشرۃ، ص 70)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا : شبِ معراج میں ایک ایسی قوم کے پاس سےگزرا، جن کے پیٹ کمروں کی طرح (بڑے بڑے) تھے، جن میں سانپ پیٹوں کے باہر سے دیکھے جا رہے تھے۔ میں نے جبرائیل سے پوچھا:”یہ کون لوگ ہیں؟ “انہوں نے عرض کی:”یہ سود خور ہیں ۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات، باب التغلیظ فی الربا، الحدیث:2273،ج3،ص72 )

آج ہمارے پیٹ میں اگر معمولی سا کیڑا چلا جائے، تو طبیعت میں بھونچال آ جاتا ہے۔ قیامت کا یہ سخت عذاب کیسے برداشت کریں گے ؟ سود کھانے والے لوگوں کے پیٹ اتنے بڑے ہوں گےجیسا کہ کسی مکان کے کمرے ہوں ۔ ان میں سانپ اور بچھو وغیرہ ہوں گے ۔ کس قدر بھیانک عذاب ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سود کی آفت سے محفوظ فرمائے آمین ۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، اس کی تحریر لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا کہ یہ سب (گناہ میں) برابر ہیں ۔ (صحیح مسلم، کتاب المساقات، باب لعن آکل الربا و موکلہ، الحدیث:1598،ص862 )

اے سودی کھاتے لکھنے اور سود پر گواہ بننے والو دیکھو کس قدر وعید مروی ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا : بے شک سود کے 72 دروازے ہیں، ان میں سے کمترین ایسے ہے جو کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے ۔
(المعجم الاوسط، الحدیث:7151، ج5،ص227)

ایک روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا : سود کے 70 دروازے ہیں ، ان میں سے کم تر ایسا ہے جیسے کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے ۔ (شعب الایمان، الحدیث:5520،ج4،ص394 )

امام احمد رضا خان محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ ج 17، ص 307 پر اس حدیثِ پاک کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : تو جو شخص سود کا ایک پیسہ لینا چاہے اگر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا ارشاد مانتا ہے تو ذرا گریبان میں منہ ڈال کر پہلے سوچ لے کہ اس پیسہ کا نہ ملنا قبول ہے یا اپنی ماں سے ستر ستر (70) بار زنا کرنا ۔ سود لینا حرام قطعی و کبیرہ و عظیمہ ہے جس کا لینا کسی طرح روا نہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ، ج17، ص 307 )

اس پُر فتن دور میں بعض افراد سود (Interest) کے بارے میں بہت کلام کرتے ہیں اور طرح طرح سے سودی معاملات میں راہیں نکالنے کی کوشش کرتے ہیں ، کبھی کہتے ہیں کہ سود کی اتنی سخت روایات اور وعیدوں کی کیا حکمت ہے؟ کبھی کہتے ہیں اگر سودی کاروبار بند کر دیں گے تو بین الاقوامی منڈی (International Market) میں مقابلہ کیسے کر سکیں گے؟ کبھی کہتے ہیں دوسری قوموں سے پیچھے رہ جائیں گے۔ اور کبھی انتہائی کم شرحِ سود (Interest rate) کی آڑ لے کر لوگوں کو اکساتے ہیں، طرح طرح کی بد ترین راہیں کھولنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

امام احمد رضا خان محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ شریف میں اسی قسم کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :” کافروں نے اعتراض کیا تھا : (اِنَّـمَا الْبَـیۡعُ مِثْلُ الرِّبٰوا ۘ) بےشک بیع بھی تو سود کی مثل ہے ۔ تم جو خریدو فروخت کو حلال اور سود کو حرام کرتے ہو ان میں کیا فرق ہے ؟ بیع میں بھی تو نفع لینا ہوتا ہے ۔
یہ اعتراض نقل کرنے کے بعد اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نقل کیا : (وَاَحَلَّ اللہُ الْبَیۡعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ( یعنی اللہ نے حلال کی بیع اور حرام کیا سود ۔ اور پھر ارشاد فرمایا : ”تم ہوتے ہو کون ؟ بندے ہو ، سرِ بندگی خم کرو ۔ حکم سب کو دیئے جاتے ہیں ، حکمتیں بتانے کے لئے سب نہیں ہوتے ، آج دنیا بھر کے ممالک میں کسی کی مجال ہے کہ قانون ملکی کی کسی دفعہ پر حرف گیری کرے کہ یہ بےجا ہے ، یہ کیوں ہے ؟ یوں نہ ہونا چاہئے ، یوں ہونا چاہئے ۔ جب جھوٹی فانی مجازی سلطنتوں کے سامنے چون وچرا کی مجال نہیں ہوتی تو اس ملک الملوک، بادشاہِ حقیقی، اَزَلی، اَبدی کے حضور کیوں اور کس لئے، کا دم بھرنا کیسی سخت نادانی ہے ۔
(فتاویٰ رضویہ، ج17، ص359)

اور جو ان احکامات کو قید و بند سے تعبیر کرتا ہے کہ یہ کیسی قیود ہم پر لازم کر دی گئیں؟ اسے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سمجھا رہے ہیں :”جو آج بے قیدی چاہے کل نہایت سخت قید میں شدید قید میں گرفتار ہو گا۔ اور جو آج احکام کا مُقیَّد رہے کل بڑے چَین کی آزادی پائے گا ۔
اس کے بعد ارشاد فرماتے ہیں کہ دنیا مسلمان کے لئے قید خانہ ہے، کافر کے لئے جنت، مسلمانوں سے کس نے کہا کہ کافروں کی اموال کی وسعت اور طریقِ تحصیلِ آزادی اور کثرت کی طرف نگاہ پھاڑ کر دیکھے۔ اے مسکین !تجھے تو کل کا دن سنوارنا ہے : یَوْمَ لَا یَنۡفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوۡنَ ﴿ۙ۸۸﴾ اِلَّا مَنْ اَتَی اللہَ بِقَلْبٍ سَلِیۡمٍ ﴿ؕ۸۹﴾
جس دن نہ مال نفع دے گا نہ اولاد، مگر جو اللہ کے حضور سلامتی والے دل کے ساتھ حاضر ہوا ۔ (پ19،الشعراء:88،98)
اے مسکین! تیرے رب نے پہلے ہی تجھے فرمادیا ہے : وَ لَا تَمُدَّنَّ عَیۡنَیۡکَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَا بِہٖۤ اَزْوَاجًا مِّنْہُمْ زَہۡرَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا۬ۙ لِنَفْتِنَہُمْ فِیۡہِ ؕ وَ رِزْقُ رَبِّکَ خَیۡرٌ وَّ اَبْقٰی ۔ (پ16،طہ:131)

اپنی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھ اس دنیاوی زندگی کی طرف جو ہم نے کافروں کے کچھ مردوں و عورتوں کے برتنے کو دی تا کہ وہ اس کے فتنہ میں پڑ ے رہیں اور ہماری یاد سے غافل ہوں اور تیرے رب کا رزق بہتر ہے اور باقی رہنے والا ۔
(فتاویٰ رضویہ، ج17، ص360)۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔