بغیرعلم کے فتویٰ دینا اور بلا تحقیق فتویٰ لینا کیسے ہے ؟
حضرت عبداللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہما راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا۔ اللہ تعالیٰ علم کو (آخری زمانہ میں) اس طرح نہیں اٹھالے گا کہ لوگوں (کے دل و دماغ) سے اسے نکال لے بلکہ علم کو اس طرح اٹھاے گا کہ علماء کو (اس دنیا سے) اٹھالے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنالیں گے ان سے مسئلے پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے لہٰذا وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)(صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 101, - علم کا بیان : علم کس طرح اٹھا لیا جائے گا)
مختصر شرح حدیث : اس حديث میں واضح طور پر فتویٰ دينا علماء كا كام قرار ديا گیا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ لوگ ان سے مسائل شرعیہ پوچھیں وہ ان کا حکم بتائیں، اور لوگ اس پر عمل کریں، یہی حاصل ہے تقلید (ائمہ و علماء) کا.
نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے (بعد کے) ایک ایسے زمانہ کی خبر دی، جس میں علماء مفقود ہوجائیں گے، اور (فقہِ دین - قرآن:9/122) جاہل قسم کے لوگ فتویٰ دینے شروع کردیں گے ، یھاں سوال یہ ہے کہ اس دور میں احکامِ شریعت پر عمل کرنے کی سوائے اس کے اور کیا صورت ہو سکتی ہے کہ وہ لوگ گذرے ہوے (علم و عمل میں معتبر) علماء کی تقلید کریں ، کیونکہ جب زندہ لوگوں میں کوئی عالم نہیں بچا تو کوئی شخص براہِ راست قرآن و سنّت سے احکام مستنبط کرنے کا اہل رہا ، اور نہ ہی کسی (معتبر) زندہ عالم کی طرف رجوع کرنا اس کی قدرت میں ہے ، کیونکہ کوئی عالم موجود ہی نہیں ، لہذا احکامِ شریعت پر عمل کرنے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں رہتی کہ جو علماء وفات پاچکے ہیں اس کی تصانیف وغیرہ کے ذریعہ ان کی تقلید کی جائے .
لہٰذا یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب تک علماءِ اہلِ اجتہاد موجود ہوں اس وقت ان سے مسائل معلوم کے جائیں ، اور ان کے فتووں پر عمل کیا جائے ، اور جب کوئی علم باقی نہ رہے تو نااہل لوگوں کو مجتہد سمجھہ کر ان کے فتوؤں پر عمل کرنے کی بجائے گذشتہ علماء میں سے کسی کی تقلید کی جائے.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا۔ جس آدمی کو بغیر علم کے فتویٰ دیا گیا ہوگا تو اس کا گناہ اس آدمی پر ہوگا جس نے اس کو (غلط) فتویٰ دیا ہے اور جس آدمی نے اپنے بھائی کو کسی ایسے کام کے بارے میں مشورہ دیا جس کے متعلق وہ جانتا ہے کہ اس کی بھلائی اس میں نہیں ہے تو اس نے خیانت کی ۔
(ابوداؤد:3657، )(ابن ماجہ:53،)(دارمي:164، )(حاکم:436، احمد:8266،) (بيهقى:20140+20111،)(جامع بیان العلم:1625، )(صحيح الجامع الصغير: 6068، المشكاة:242، الإتحاف:19964]
اگر تقلید جائز نہ ہوتی اور کسی کے فتوے پر بلا تحقیقِ دلیل عمل جائز نہ ہوتا ، جو حاصل ہے تقلید کا ، تو گناہ گار ہونے میں مفتی کی کیا تخصیص تھی ؟ بلکہ جس طرح مفتی کو غلط فتویٰ بتانے کا گناہ ہوتا ہے ، اسی طرح سائل کو دلیل کی تحقیق نہ کرنے کا گناہ ہوتا۔ پس جب شارع صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے باوجود تحقیقِ دلیل نہ کرنے کے عاصي (گناہ گار) نہیں ٹھہرایا تو جوازِ تقلید يقينا ثابت ہوگیا .
حدیث کے دوسرے جزء کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی آدمی نے اپنے کسی بھائی کی بد خواہی اس طرح چاہی کہ اسے اس چیز کا مشورہ دیا جس کے بارے میں اسے معلوم ہے کہ اس کی بھلائی اس میں نہیں ہے بلکہ دوسرے امر میں ہے تو یہ اس کی خیانت ہے وہ اپنے غیر اخلاقی وغیر شرعی عمل کی بنا پر خائن کہلاے گا ۔
بغیر علم کے عقائد و مسائل پر بحث کرنے والے غور فرمائیں کہیں وپ اس گناہ میں مبتلا تو نہیں ہیں ؟ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment