Wednesday 27 December 2017

وسیلہ کا جواز احادیث مبارکہ کی روشنی میں

0 comments
وسیلہ کا جواز احادیث مبارکہ کی روشنی میں
























حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک شخص نے ننانوے آدمیوں کو قتل کیا، پھر وہ یہ پوچھتا پھرتا تھا کہ کیا اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ اس نے ایک راہب کے پاس جا کر یہ سوال کیا کہ کیا اس کے لئے توبہ (کی کوئی گنجائش) ہے؟ اس راہب نے کہا : تمہاری توبہ قبول نہیں ہو سکتی۔ یہ سن کر اس (شخص) نے اس راہب کو بھی قتل کر دیا اور اس نے پھر سوال کرنا شروع کیا اور وہ اس بستی سے نکل کر دوسری بستی کی طرف جانے لگا جس میں کچھ نیک لوگ رہتے تھے۔ جب اس نے اس راستہ کا کچھ حصہ طے کیا تھا تو اسے موت نے آ لیا۔ اس نے اپنا سینہ پہلی بستی سے کچھ دور کر لیا (اور اس بستی کی طرف کر دیا)۔ اسی حال میں اسے موت آ گئی۔ پھر رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں میں (اس کی روح لے جانے پر) بحث ہوئی۔ وہ ایک بالشت کے برابر نیک آدمیوں کی بستی کے قریب تھا۔ سو اسے نیک لوگوں کی بستی سے لاحق کر دیا گیا۔ ایک اور روایت میں اضافہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس (برے لوگوں کی) بستی کو حکم فرمایا : تو (اس کی نعش سے) دور ہو جا اور اس (نیک لوگوں کی) بستی کو حکم فرمایا : تو (اس کی نعش سے) قریب ہو جا ۔
(أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : التوبة، باب : قبول توبة القاتل وإن کثر قتله، 4 / 2119، الرقم : 2766، وأبو يعلی في المسند، 2 / 305، الرقم : 1033)

حضرت اسیر بن جابر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ اہل کوفہ ایک وفد لے کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ وفد میں ایک ایسا آدمی بھی تھا جو حضرت اویس رضی اللہ عنہ سے مذاق کرتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا یہاں کوئی قرن کا رہنے والاہے؟ یہ سن کر وہ شخص حاضر ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تمہارے پاس یمن سے ایک شخص آئے گا اس کا نام اویس رضی اللہ عنہ ہو گا۔ یمن میں اس کی والدہ کے سوا کوئی نہیں ہو گا۔ اسے برص کی بیماری تھی، اس نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی، تو اللہ تعالیٰ نے ایک دینار یا درہم کے برابر سفید داغ کے سوا باقی (برص کے) داغ اس سے دور کر دیئے، تم میں سے جس شخص کی اس سے ملاقات ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ اس سے تمہاری مغفرت کی دعا کرائے ۔
(أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل أويس القرنی، 4 / 1968، الرقم : 2542، وأبو نعيم في حلية الاولياء، 2 / 79، وابن سعد في الطبقات الکبری، 6 / 162، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 123، والذهبي في ميزان الاعتدال، 1 / 447.)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص نماز کے ارادے سے اپنے گھرسے نکلے اور یہ دعا مانگے : {اَللَّهُمَّ، إِنِّي أَسْأَلُـکَ بِحَقِّ السَّائِلِيْنَ عَلَيْکَ وَأَسْأَلُـکَ بِحَقِّ مَمْشَايَ هَذَا، فَإِنِّي لَمْ أَخْرُجْ أَشَرًا وَلَا بَطَرًا وَلَا رِيَاءً وَلَا سُمْعَةً وَخَرَجْتُ اتِّقَاءَ سُخْطِکَ وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِکَ، فَأَسْأَلُـکَ أَنْ تُعِيْذَنِي مِنَ النَّارِ وَأَنْ تَغْفِرَ لِي ذُنُوْبِي إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلَّا أَنْتَ}
ترجمہ : اے اللہ ! میں تجھ سے تیرے سائلین کے وسیلہ سے سوال کرتاہوں اور میں تجھ سے (نماز کی طرف اٹھنے والے) اپنے قدموں کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں۔ بے شک میں نہ کسی برائی کی طرف چلا ہوں نہ تکبر اور غرور سے، نہ دکھاوے اور نہ کسی دنیاوی شہرت کی خاطر نکلا ہوں۔ میں توصرف تیری ناراضگی سے بچنے کے لئے اور تیری رضا کے حصول کے لئے نکلا ہوں۔ سو میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے دوزخ کی آگ سے نجات دے، میرے گناہوں کو بخش دے۔ بے شک تو ہی گناہوں کو بخشنے والا ہے‘‘۔ تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور ستر ہزار فرشتے اس کی مغفرت کی دعا کرتے ہیں ۔
(أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : المساجد والجماعات، باب : المشی إلی الصلاة، 1 / 256، الرقم : 778، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 21، الرقم : 11172، وابن الجعد في المسند، 1 / 299، الرقم : 2031، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 25، رقم : 29202، وابن السني في عمل اليوم والليلة، 1 / 30، الرقم : 83، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 135، الرقم : 488.)

حضرت یعلی بن سیابہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک سفر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک جگہ قضائے حاجت کا ارادہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور کے دو درختوں کو حکم دیا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے ایک دوسرے سے مل گئے (اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے پردہ بن گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے پیچھے قضائے حاجت فرمائی)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں دوبارہ حکم دیا تو وہ اپنی اپنی جگہ پر واپس آ گئے۔ پھر ایک اونٹ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں اپنی گردن کو زمین پر رگڑتا ہوا حاضر ہوا۔ وہ اتنا بلبلایا کہ اس کے اردگرد کی جگہ گیلی ہو گئی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ یہ اونٹ کیا کہہ رہا ہے؟ اس کا خیال ہے کہ اس کا مالک اسے ذبح کرنا چاہتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے مالک کی طرف آدمی بھیجا (کہ اسے بلا لائے۔ جب وہ آ گیا تو) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا : کیا یہ اونٹ مجھے ہبہ کرتے ہو؟ اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ! مجھے اس سے بڑھ کر اپنے مال میں سے کوئی چیز محبوب نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تم سے اس کے معاملہ میں بھلائی کی توقع رکھتا ہوں۔ اس صحابی نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں اپنے تمام مال سے بڑھ کر اس کا خیال رکھوں گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر ایک قبر سے ہوا جس کے اندر موجود میت کو عذاب دیا جا رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسے گناہ کبیرہ کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک درخت کی ٹہنی طلب فرمائی اور اسے اس قبر پر رکھ دیا اور فرمایا : جب تک یہ ٹہنی خشک نہیں ہو جاتی اسے عذاب میں تخفیف دی جاتی رہے گی ۔ اس حدیث کو امام احمد اور ابن حمید نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کی اسناد حسن ہے۔
(أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 172، الرقم : 17595، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 154، الرقم : 405، والخطيب البغدادي في موضح أوهام الجمع والتفريق، 1 / 272، الرقم : 271 والنووي في رياض الصالحين، 1 / 243، الرقم : 243، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 / 144، 145، الرقم : 3431، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 6.)

حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کی سواری جنگل بیاباں میں گم ہو جائے تو اس (شخص) کو (یہ) پکارنا چاہیے : اے اﷲ تعالیٰ کے بندو! میری سواری پکڑا دو، اے اﷲتعالیٰ کے بندو! میری سواری پکڑا دو. بے شک اﷲ تعالیٰ کے بہت سے (ایسے) بندے اس زمین میں ہوتے ہیں، وہ تمہیں تمہاری سواری پکڑا دیں گے ۔
(أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 103، الرقم : 29818، وأبو يعلی في المسند، 9 / 177، الرقم : 5269، والطبراني في المعجم الکبير، 10 / 217، الرقم : 10518، 17 / 117، الرقم : 290، وابن السني في عمل اليوم والليلة، 1 / 455، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 330، الرقم : 1311، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 132.)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ بے شک اللہ تعالیٰ کے بعض فرشتے، انسان کے اعمال لکھنے والے فرشتوں کے علاوہ، ایسے بھی ہیں جو درختوں کے پتوں کے گرنے تک کو لکھتے ہیں، پس تم میں سے جب کوئی کسی جگہ (کسی بھی مشکل میں) جائے، جہاں بظاہر اس کا کوئی مددگار بھی نہ ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ پکار کر کہے : اے اللہ کے بندو، اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے، ہماری مدد کرو، تو پس اس کی مدد کی جائے گی۔ اور حضرت روح کی روایت میں ہے کہ بے شک زمین پر اللہ تعالیٰ کے بعض فرشتے ایسے ہیں جنہیں حَفَظَۃ (حفاظت کرنے والے) کا نام دیا جاتا ہے، اور جو زمین پر گرنے والے درختوں کے پتوں تک کو لکھتے ہیں، پس جب تم میں سے کوئی کسی جگہ محبوس ہو جائے یا کسی ویران جگہ پر اسے کسی مدد کی ضرورت ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ یوں کہے : اے اللہ کے بندو! اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے، ہماری مدد کرو، پس اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو اس شخص کی (فوراً) مدد کی جائے گی ۔ اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس حدیث کے رجال ثقہ ہیں ۔
( أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 91، الرقم : 29721، والبيهقي في شعب الإيمان، 6 / 128، الرقم : 7697، 1 / 183، الرقم : 167، والمناوي في فيض القدير، 1 / 307، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 132.)

حضرت اسامہ بن عمیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ فجر کی دو رکعت نماز ادا کی اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہی کھڑے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو رکعتوں میں آہستہ آواز میں قراء ت فرمائی، حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے سنا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (نماز سے فارغ ہو کر) یہ دعا مانگ رہے ہیں : ’’اے جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رب! میں دوزخ سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ تین مرتبہ فرمایا ۔ اس حدیث کو امام حاکم، ابو یعلی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کی سند میں عباد بن سعید نامی راوی ہے اسے امام ابن حبان نے الثقات میں ذکر کیا ہے ۔
(أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 721، الرقم : 6610، وأبو يعلی في المسند، 8 / 213، الرقم : 4779، والطبراني في المعجم الکبير، 1 / 195، الرقم : 520، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 4 / 205. 206، الرقم : 1422. 1423، وابن سرايا في سلاح المؤمن في الدعاء، 1 / 349، الرقم : 647، والهيثمي في مجمع الزوائد، 2 / 219، والحسيني في البيان والتعريف، 1 / 150، الرقم : 398.)

حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کی کوئی شے گم ہو جائے، یا تم میں سے کوئی مدد چاہے اور وہ ایسی جگہ ہو کہ جہاں اس کا کوئی مدد گار بھی نہ ہو، تو اسے چاہیے کہ یوں پکارے : اے اﷲتعالیٰ کے بندو! میری مدد کرو، اے اﷲتعالیٰ کے بندو! میری مدد کرو، یقینا اﷲ تعالیٰ کے ایسے بھی بندے ہیں جنہیں ہم دیکھ نہیں سکتے (لیکن وہ لوگوں کی مدد کرنے پر مامور ہیں)۔ اور (راوی بیان کرتے ہیں کہ) یہ آزمودہ بات ہے ۔ اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کے رجال ثقہ ہیں ۔
( أخرجه الطبرانی في المعجم الکبير، 17 / 117، الرقم : 290، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 132، والمناوي في فيض القدير، 1 / 307.)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک اللہ تعالیٰ کے کچھ خاص بندے ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مخلوق کی حاجت روائی کے لئے خاص فرمایا ہے۔ لوگ گھبرائے ہوئے اپنی حاجتیں ان کے پاس لے کر آتے ہیں (اور وہ ان کی حاجت روائی کرتے ہیں)۔ اللہ تعالیٰ کے وہ خاص بندے عذابِ الٰہی سے امان میں ہیں ۔ اس حدیث کو امام ابونعیم، طبرانی اور قضاعی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کی سند میں احمد بن طارق راوی کے متعلق ہے میں نہیں جانتا جبکہ باقی تمام رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں ۔
(أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء، 3 / 225، والطبراني في المعجم الکبير، 12 / 358، الرقم : 13334، والقضاعي في مسند الشهاب، 2 / 117، الرقم : 1007، والنرسي في ثواب قضاء حوائج الإخوان، 1 / 80، الرقم : 42، وإسناده صحيح، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 54 / 5، الرقم : 6559، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 / 262، الرقم : 3966، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 192، والمناوي في فيض القدير، 2 / 477.)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت فاطمہ بنت اسد بن ہاشم رضی اﷲ عنہا جو کہ حضرت علی بن ابی طالب کرم اﷲ وجہہ کی والدہ ماجدہ ہیں فوت ہوئیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں (قبرستان) تشریف لے گئے اور ان کے سرہانے کھڑے ہو گئے اور فرمایا : اﷲ تعالیٰ تجھ پر رحم فرمائے۔ اے میری ماں! تو میری ماں کے بعد میری ماں (کی طرح ہی) تھی اور تو مجھے شکم سیر کرتی تھی اور مجھے کپڑے پہناتی تھی اور میری خاطر خود پھٹے پرانے کپڑے پہن لیتی تھی اور اپنے آپ کو اعلیٰ چیزوں سے محروم رکھتی تھی اور مجھے کھلاتی تھی اور اس سارے عمل سے تو اﷲ تعالیٰ کی رضا اور جنت کی طلب رکھتی تھیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین دفعہ انہیں غسل دینے کا حکم فرمایا۔ پس جب کافور ملا پانی پہنچا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اسے انڈیلا پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا کرتہ مبارک اتارا اور انہیں پہنا دیا اور اس چادر کے ذریعے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تھی انہیں کفن پہنایا پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت اسامہ بن زید، ابو ایوب انصاری، عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہم اور ایک حبشی غلام کو قبر کھودنے کے لیے فرمایا۔ انہوں نے قبر کھودی اور جب لحد تک پہنچے تو اسے خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دستِ اقدس سے کھودا۔ اور اس کی مٹی اپنے ہاتھوں سے نکالی اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لحد کے کھودنے سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے اندر لیٹ گئے پھر فرمایا : اﷲ تعالیٰ وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اور وہ زندہ ہے اسے کبھی موت نہیں آنی۔ اے اﷲ! میری والدہ فاطمہ بنت اسد کو بخش دے اور اسے اس کی حجت کی تلقین فرما اور اپنے نبی اور مجھ سے قبل انبیاء کے واسطہ سے اس کی قبر اس پر کشادہ فرما پس بے شک تو سب سے زیادہ رحم فرمانے والا ہے پھر اس پر چار تکبیریں پڑھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اور حضرت عباس اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں لحد میں اتارا ۔ اس حدیث کو امام ابونعیم اور طبرانی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کی سند میں روح بن صلاح راوی ہے اسے امام ابن حبان اور حاکم نے ثقہ قرار دیا ہے ۔۔۔ اس کے علاوہ تمام رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں ۔
(أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء، 3 / 121، والطبراني في المعجم الکبير، 24 / 351، الرقم : 871، وفي المعجم الأوسط، 1 / 67، الرقم : 189، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 257.)۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

وسیلہ اور راویت دارمی پر اعتراض کا جواب

نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے وصال کے بعد ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے وسیلے سے دعا کا فرمایا۔مسند دارمی جلد1صفحہ 227)۔(اس روایت کے رجال ثقہ ہیں )
منکرین احادیث کے جاہلانہ اعتراض کا جواب انہی کے عالم سے۔
توسل کے متعلق سنن دارمي والی حدیث عائشہ (رضي الله عنها)کا دفاع.
زبیرعلی زئی نے مشکوٰۃ کی تحقیق میں سنن دارمی کی اس روایت کا رد کیا ہے.
حدیث : حدثنا : ‏ ‏أبو النعمان ‏ ‏، حدثنا : ‏ ‏سعيد بن زيد ‏ ‏، حدثنا : ‏عمرو بن مالك النكري ‏ ‏، حدثنا : ‏ ‏أبو الجوزاء أوس بن عبد الله ‏ ‏قال :" قحط ‏ ‏أهل ‏ ‏المدينة ‏ ‏قحطاً ‏ ‏شديداً فشكواً إلى ‏ ‏عائشة ‏ ‏فقالت : إنظروا قبر النبي (صلی اللہ علیہ وسلم) ‏فإجعلوا منه ‏ ‏كوى ‏ ‏إلى السماء حتى لا يكون بينه وبين السماء سقف ، قال : ففعلوا فمطرنا مطراً حتى نبت العشب وسمنت الإبل حتى ‏ ‏تفتقت ‏ ‏من الشحم فسمي عام ‏ ‏الفتق".
‏ترجمہ:ابی الجوزاء“ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ مدينہ ميں شديد قحط پڑ گيا بعض لوگ حضرت عائشہ كى خدمت ميں گئے اور ان سے چارہ جوئی كے ليے كہا_ حضرت عائشہ نے فرمايا جاؤ پيغمبر اكرم ؐ کی قبر پر چلے جاؤ اور قبر والے كمرے كى چھت ميں سوارخ كرو، اس انداز ميں كہ آسمان اندر سے نظر آئے اور پھر نتيجہ كى انتظار كرو لوگ گئے انہوں نے اسى انداز ميں سوراخ كيا كہ آسمان وہاں سے نظر آتا تھا; بارش برسنا شروع ہوگئی اس قدر بارش برسى كہ كچھ ہى عرصہ ميں بيابان سرسبز ہوگئے اور اونٹ فربہ ہوگئے.اور اس سال کا نام عام الفتق یعنی (خوشحالی کا سال) رکھا گیا۔(مشکاۃ مصابیح بتحقیقی / جلد ٣ / باب فضائل و شمائل / صفحہ ٤٧٨ / رقم ٥٩٥٠ / طبع دھلی)
اعتراض : وقال ابن عدی (الکامل: ۴۱۱): حدّث عنه عمرو بن مالک قدر عشرۃ أحادیث غیر محفوظة.
امام ابن عدی ﷫نے فرمایا ہے کہ ابو الجوزاء سے عمرو بن مالک نے تقریباً دس غیر محفوظ احادیث بیان کی ہیں۔" (تھذیب التھذیب لابن حجر: ۳۳۶/۱)
جواب : یہ جرح مردود ہے. اسکا جواب مہشور ناصبی کفایت اللہ سنابلی نے یوں دیا ہے وہ ابن عدی کے اس کلام پر یوں کہتا ہے : "عرض ہے دس احادیث کوئی بڑی تعداد نہیں کہ اس وجہ سے اس طریق ( زیر بحث حدیث کی سند بھی یہی ہے ) کو ضعیف کہا جائے .نیز یہ فیصلہ بھی صرف امام ابن عدی کا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان احادیث میں قصور النکری کا نہیں بلکہ انکے نیچھے رواہ کا ہو جیسا کہ امام ابن حبان نے صراحت کرتے ہوئے کہا : عمرو بن مالک النکری, ابو مالک , یہ یحییٰ بن عمرو کے والد ہے, انکی حدیث میں نکارت ان سے انکے بیٹے کی روایات میں ہے اور یہ فی النفس صدوق ہے ۔( مشاھیر علماء الامصار صفحہ ١٥٥ )
ابن حبان کی وضاحت سے معلوم ہوا کہ عمرو بن مالک النکری کی ان روایات میں نکارت ہیں جنہیں اس سے ان کے بیٹے نے روایت کیا ہے. لہذا ھم اس نکارت کی ذمہ داری خود عمرو بن مالک النکری پر نہیں ڈال سکھتے.یہی وجہ ہے کہ دیگر محدثین نے انہیں علی الطلاق ثقہ قرار دیا". حوالہ : نوار البدر فی وضع الیدین علیٰ الصدر – کفایت اللہ سنابلی / صفحہ 212 / طبع ممبئ - (محقق حسین سلیم الدرانی نے اس حدیث کے بارے میں کہا ۔ "رجاله ثقات" حوالہ : سنن دارمي- جلد ١ / صفحہ ٢٢٧ / رقم 227)

غیر مقلد حافظ زبیر علی زائی کے شاگرد شیخ غلام مصطفیٰ امن پوری نے امام نسائی کی کتاب ” وفاۃ النبی ؐ پر تحقیق کرتے ہوئے سنن دارمی کی ایک روایت کا رد کیا ہے.روایت اس طرح ہے : ‏ ‏أبو النعمان ‏ ‏، حدثنا : ‏ ‏سعيد بن زيد ‏ ‏، حدثنا : ‏عمرو بن مالك النكري ‏ ‏، حدثنا : ‏ ‏أبو الجوزاء أوس بن عبد الله ‏ ‏قال : قحط ‏ ‏أهل ‏ ‏المدينة ‏ ‏قحطاً ‏ ‏شديداً فشكواً إلى ‏ ‏عائشة ‏ ‏فقالت : إنظروا قبر النبي (ص) ‏فإجعلوا منه ‏ ‏كوى ‏ ‏إلى السماء حتى لا يكون بينه وبين السماء سقف ، قال : ففعلوا فمطرنا مطراً حتى نبت العشب وسمنت الإبل حتى ‏ ‏تفتقت ‏ ‏من الشحم فسمي عام ‏ ‏الفتق.
ابی الجوزاء“ سے نقل ھوا ھے کہ ایک مرتبہ مدينہ ميں شديد قحط پڑ گيا بعض لوگ حضرت عائشہ كى خدمت ميں گئے اور ان سے چارہ جوئی كے ليے كہا_ حضرت عائشہ نے فرمايا جاؤ پيغمبر اكرم ؐ کی قبر پر چلے جاؤ اور قبر والے كمرے كى چھت ميں سوارخ كرو، اس انداز ميں كہ آسمان اندر سے نظر آئے اور پھر نتيجہ كى انتظار كرو لوگ گئے انہوں نے اسى انداز ميں سوراخ كيا كہ آسمان وہاں سے نظر آتا تھا; بارش برسنا شروع ہوگئی اس قدر بارش برسى كہ كچھ ہى عرصہ ميں بيابان سرسبز ہوگئے اور اونٹ فربہ ہوگئے ۔
(سنن دارمی-امام دارمی : ١ /١٥٨ / رقم ٩٣ , مشکاۃ مصابیح -امام تبریزی : ٥٩٥٠)
نیچھے غلام مصطفیٰ صاحب نے اسکو ضعیف کہا ہے وہ کہتے ہے : اسکی سند ضعیف ہے.اسکے راوی عمرو بن مالک النکری ( ثقہ حسن الحدیث ) کی روایت ابو الجوزاء سے غیر محفوظ ہوتی ہے.یہ روایت بھی ایسی ہی ہے. حافظ ابن حجر لکھتے ہے : امام ابن عدی نے فرمایا ہے کہ عمرو بن مالک النکری نے ابو الجوزاء سے تقریباً دس غیر محفوظ احادیث نقل کی ہے – ( تہذیب التہذیب ١ /٣٣٦ ) ( وفاۃ النبی للنسائی بتحقیقی / صفحہ 235-236 / طبع پاکستان )
ان کے استاد شیخ زبیر علی زائی نے بھی مشکواۃ کی تحقیق میں اس روایت کو اسکی وجہ سے ضعیف کہا ہے ۔ (مشکاۃ مصابیح بتحقیقی / جلد ٣ / باب فضائل و شمائل / صفحہ ٤٧٨ / رقم ٥٩٥٠ / طبع دھلی )
لیکن ان دونون کی یہ جرح مردود ہے. اسکا جواب مہشور ناصبی سلفی کفایت اللہ سنابلی نے یوں دیا ہے وہ ابن عدی کے اس کلام پر یوں کہتے ہے : عرض ہے دس احادیث کوئی بڑی تعداد نہیں کہ اس وجہ سے اس طریق ( زیر بحث حدیث کی سند بھی یہی ہے ) کو ضعیف کہا جائے .نیز یہ فیصلہ بھی صرف امام ابن عدی کا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان احادیث میں قصور النکری کا نہیں بلکہ انکے نیچھے رواہ کا ہو جیسا کہ امام ابن حبان نے صراحت کرتے ہوئے کہا : عمرو بن مالک النکری, ابو مالک , یہ یحییٰ بن عمرو کے والد ہے, انکی حدیث میں نکارت ان سے انکے بیٹے کی روایات میں ہے اور یہ فی النفس صدوق ہے ۔ (مشاھیر علماء الامصار صفحہ ١٥٥ )

ابن حبان کی وضاحت سے معلوم ہوا کہ عمرو بن مالک النکری کی ان روایات میں نکارت ہیں جنہیں اس سے ان کے بیٹے نے روایت کیا ہے. لہذا ھم اس نکارت کی ذمہ داری خود عمرو بن مالک النکری پر نہیں ڈال سکھتے.یہی وجہ ہے کہ دیگر محدثین نے انہیں علی الطلاق ثقہ قرار دیا ۔ ( نوار البدر فی وضع الیدین علیٰ الصدر – کفایت اللہ سنابلی / صفحہ 212 / طبع ممبئ )
نوٹ : اسکا مقدمہ مہشور اھل الحدیث عالم ارشاد الحق الاثری نے لکھا ہے

ام المومنین جناب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور ان کی بہن اسماء بنت ابی بکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کرتے سے بیماری میں شفا حاصل کرتی تھیں

صحیح مسلم اللباس والزينة تحريم استعمال إناء الذهب والفضة على الرجال والنساء
حدثنا يحيى بن يحيى أخبرنا خالد بن عبد الله عن عبد الملك عن عبد الله مولى أسماء بنت أبي بكر وكان خال ولد عطاء قال أرسلتني أسماء إلى عبد الله بن عمر فقالت بلغني أنك تحرم أشياء ثلاثة العلم في الثوب وميثرة الأرجوان وصوم رجب كله فقال لي عبد الله أما ما ذكرت من رجب فكيف بمن يصوم الأبد وأما ما ذكرت من العلم في الثوب
فإني سمعت عمر بن الخطاب يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إنما يلبس الحرير من لا خلاق له فخفت أن يكون العلم منه وأما ميثرة الأرجوان فهذه ميثرة عبد الله فإذا هي أرجوان فرجعت إلى أسماء فخبرتها فقالت هذه جبة رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخرجت إلي جبة طيالسة كسروانية لها لبنة ديباج وفرجيها مكفوفين بالديباج فقالت هذه كانت عند عائشة حتى قبضت فلما قبضت قبضتها وكان النبي صلى الله عليه وسلم يلبسها فنحن نغسلها للمرضى يستشفى بها ۔
ترجمہ : حضرت اسماء کے مولیٰ عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر نے کسروانی طیلسان کا جبہ نکالا جس کے گریبان اور چاکوں پر ریشم کا کپڑا لگا ہوا تھا۔ کہنے لگیں: یہ ام المومنین جناب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا۔ جب وہ فوت ہوئیں تو یہ جبہ میرے قبضے میں آ گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کو پہنتے تھے۔ اور اب ہم بیماروں کہ لیے اس کو دھوتے ہیں اور اس سے بیماروں کے لیے شفاء طلب کرتے ہیں۔
(مسلم، الصحيح، کتاب اللباس والزينة، باب : تحريم استعمال إناء الذهب والفضة علي الرجال، 3 : 1641، رقم : 2069)(أبوداود، السنن، کتاب اللباس، باب : الرخصة في العلم وخيط الحرير، 4 : 49، رقم : 4054)(بيهقي، السنن الکبريٰ، 2 : 423، رقم : 4010)
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں : وفي هذا الحديث دليل علي استحباب التبرک بآثار الصالحين وثيابهم.
ترجمہ : اس حدیث میں آثارِ صالحین اور ان کے ملبوسات سے حصولِ تبرک کے جائز و پسندیدہ ہونے کی دلیل ہے۔(نووي، شرح علي صحيح مسلم، 14 : 44)
کیا اب بھی کوئی ام المومنین جناب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور ان کی صحابیہ بہن حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کی گواہی کو جھٹلا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تو ایک طرف، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کرتہ تک اتنا بابرکت تھا کہ مدینے کے صحابہ بیماری کی حالت میں اس سے شفا حاصل کرتے تھے (حالانکہ بیماری سے شفا دینا اصل میں اللہ کا کام ہے۔)
کیا ام المومنین جناب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اسماء بنت ابی بکر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس جبہ سے فائدہ طلب کر کے اس کو اللہ کا شریک بنا دی ا؟
اور انہوں نے اللہ سے براہ ِراست بیماری سے شفا کیوں نہیں مانگ لی ؟
خود سوچیے کہ جب انہوں نے جبہ سے بیماری کے خلاف مدد طلب کی تو کیا یہ مدد حقیقی معنوں میں تھی؟ یا پھر انہوں نے یہ مدد حقیقی معنوں میں اللہ سے ہی طلب کی تھی اور جبہ سے مدد مانگنے کا مطلب صرف اور صرف یہ تھا کہ اس کے وسیلے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی برکت بھی شامل ہو جائے جس کے بعد اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی مقبولیت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ؟

انتہائی اہم اصول: ظاہری عمل بمقابلہ چھپی ہوئی نیت

اگرچہ کی ام المومنین جناب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور اسماء بنت ابی بکر نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جبہ سے شفا طلب کرتے ہوئے اللہ کا نام تک نہیں لیا، مگر پھر بھی تمام مسلمان (بشمول اہلحدیث حضرات) یہ یقین رکہتے ہیں کہ ان دونوں نے ایسا کر کے شرک نہیں کیا ہے۔
اس قسم کے اعمال کو سمجھنے کے دو طریقے ہیں : ظاہری عمل کی بنیاد پر فتویٰ دینا کہ شفا حقیقی معنوں میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جبہ سے طلب کی جا رہی تھی اور شرک کیا جا رہا تھا ۔
عمل کے پیچھے چھپی ہوئی باطنی نیت کو دیکہنا جو یہ بتا رہی ہے کہ جبہ سے شفا کے لیے مدد مانگنا مجازی معنوں میں تھا اور اصل مدد حقیقی معنوں میں اللہ سے ہی طلب کی جا رہی تھی۔ اور یہ باطنی نیت وہ چیز ہے جسے عمل کے ظاہر پر فوقیت حاصل ہے اور ہر عمل کا دار و مدار اس کے ظاہر پر نہیں ہے بلکہ اس کی نیت پر ہے۔

اسی لئے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے

مگر اہلحدیث حضرات نے اسکا بالکل الٹ کیا اور یہ عقیدہ گھڑا کہ : اعمال کا دارومدار اُن کے ظاہر پر ہے ۔ لاحول واللہ قوۃ اللہ باللہ

رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مدد طلب کرنے کا مطلب اُنکی شفاعت کے ذریعے مدد طلب کرنا ہے ۔

جب ہم رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مدد طلب کر رہے ہوتے ہیں تو یہ مجازی معنوں میں ہوتا ہے اور باطنی نیت یہی ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے درخواست ہے کہ وہ اللہ کے حضور ہمارے حق میں دعا فرما کر ہماری مدد فرمائیں۔

اہلحدیث حضرات کی دوہرے معیار (ڈبل سٹینڈرڈ)

اگرچہ کہ اہلحدیث حضرات میں انتہا درجہ کی ظاہر پرستی کی بیماری پائی جاتی ہے، مگر پھر بھی ام المومنین جناب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اسماء بنت ابی بکر کے معاملے میں وہ اس قابل ہیں کہ اس عمل کے پیچھے چھپی ہوئی ان کی باطنی نیتوں کو سمجھ سکیں۔ مگر جب ہمارا معاملہ آتا ہے اور ہم رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مجازی معنوں میں مدد طلب کرتے ہیں کہ وہ اپنی شفاعت/دعا کے ذریعے ہماری مدد فرمائیں(اور حقیقی معنوں میں ہم اللہ سے ہی مدد طلب کر رہے ہوتے ہیں) تو یہی اہلحدیث حضرات ایسی کسی باطنی نیت کا انکار کر رہے ہوتے ہیں اور وہ تمام آیات ہم پر چسپاں کرنے لگتے ہیں جو کہ کفار اور ان کے بتوں کے لیے نازل ہوئی ہیں۔
اور اگر اب بھی ان کا خیال ہے کہ وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں، تو پھر وہ ان آیات کو جنابِ عائشہ اور اسماء بنت ابی بکر پر چسپاں کیوں نہیں کرتے؟ مثلاً یہ آیت کہ:
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تچھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔

اور اسی طرح قران کو وہ تمام آیات بھی ان پر چسپاں کیوں نہیں کرتے جس میں اللہ فرما رہا ہےکہ اللہ کے سوا کوئی انہیں نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان۔

قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكُمْ شَيْئًا وَلَا يَضُرُّكُمْ ۔ (القران 21:66) (ابراہیم نے) کہا، „تو کیا تم اللہ کے سوا ایسوں کی عبادت کرتے ہو جو تمہیں کسی قسم کا فائدے پہنچا سکیں اور نہ نقصان ؟ ۔ اگر یہ ڈبل سٹینڈرڈ اور منافقت نہیں ہے تو اور کیا ہے ؟ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔