حضرت منصور حلاج رحمۃ اللہ علیہ پر وہابیہ کے اعتراض کا جواب (حصّہ اوّل)
حضرت منصور حلاج رحمۃ اللہ علیہ کے نعرہ انالحق پر غیر مقلد وہابیوں نے اپنی لگائی گئی ڈیوٹی کے مطابق جس طرح انبیاء علیہم السّلام صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم اور اولیاء اللہ و فقہا اسلام علیہم الرّحمہ پر اعتراضات کرنا لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنا ہے ۔ (پڑھیئے ہمفرے کے اعترافات) اسی سلسلہ میں حضرت منصور حلاج رحمۃ اللہ علیہ پر انتہائی بیہودہ گندی زبان استعمال کرتے ہوئے اعتراض کیا ہے اور کرتے ہیں ۔ ہم الحمد للہ علمی ، بحوالہ اور مہذب جواب دینگے ان کی طرح گندی گھٹیا غلیظ و بیہودہ زبان استعمال نہیں کرینگے ۔ جواب کا حصّہ اوّل پیش خدمت ہیں ساتھ ساتھ ہم کوشش کرینگے مکمل حوالہ جات کے اسکن بھی ساتھ پیش کیئے جائیں گے ان شاء اللہ العزیز ۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے آمین ۔ طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔
معروف مستشرق آر، اے، نکلسن نے اپنی شہرہ آفاق تحقیق ’’تاریخ ادبیاتِ عرب‘‘میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کی علمی صحبت کے فوائد تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ: ’’ہمارے لئے مفید ہوگا کہ اگر ہم چندلمحات مسلمانوں کے آخری صوفی وعالم شیخ عبدالوہاب شعرانی کے ساتھ گزاریں۔ وہ (امام شعرانی) ایک ایسے محقق اورمفکر عالِم ہیں کہ اُن کے اَثرات موجودہ دور میں بھی نمایاں طریقے سے محسوس کئے جارہے ہیں‘‘۔ (Literary History of the Arabs, By R.A. Nicholson, Page # 464 Cambridge University Press)
حضرت منصور حلاج رحمۃ اللہ علیہ کے نعرہ "انا الحق"کے بارے میں ڈاکٹر نکلسن کی مشہور عالم کتاب Idea of Personality in Sufismکا ایک اقتباس آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے نہایت سادہ الفاظ میں منصور حلاج کے نعرہ "انا الحق" کی وضاحت کی ہے : اگرچہ حضرت حلاج رحمۃ اللہ علیہ نے انا الحق کا نعرہ لگایا جس کا مطلب یہ ہے کہ میں حق ہوں لیکن وہ بھی نہایت پرزور الفاظ میں اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی وراء الوراء ہے اور خالق و مخلوق ایک نہیں ہو سکتے " "حضرت حلاج کے "انا الحق"کا مطلب یہ نہ تھا کہ میں خدا ہوں بلکہ یہ تھا کہ میں حق ہوں ،یعنی سچ ﴿کریٹیو ٹرتھ﴾ یہ نظریہ ہمہ اوست کے سراسر خلاف ہے کیونکہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہبے کہ انسان خدا کا مظہر ہے یہ نظریہ حضرت عیسی علیہ السلام کے ان کلمات کے تقریبا مطابق ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ جس نے مجھے دیکھا خدا کو دیکھا لیکن یہ نظریہ جسے حلول کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اسلام میں جڑ نہ پکڑ سکا اسے حضرت حلاج اور ان کے مریدین نے ہی ختم کر دیا تھا ۔ صوفیاءعلیمہ الرّحمہ کا بیان ہے کہ حضرت حلاج کو اس لیئے شہید نہیں کیا گیا تھا کہ وہ حلولی تھے بلکہ اس لیئے کہ انہوں نے حق تعالی کا راز فاش کر دیا ۔
ڈاکٹر نکلسن اسی کتاب میں آگے چل کر حلاج کی پابندی شریعت کے بارے میں لکھتے ہیں : جب حسین بن منصور حلاج کو پھانسی دینے کے لئے لایا گیا تو انہوں نے دارو رسن کو دیکھ کر قہقہہ لگایا اور اس زور سے ہنسے کہ آنکھوں سے پانی بہنے لگا اس کے بعد انہوں نے لوگوں کی طرف دیکھا اور اپنے پیر بھائی اور دوست ابو بکر شبلی کو دیکھ کر دریافت کیا کہ کیا آپ کے پاس مصلی ہے انہوں نے جواب دیا ہاں یا شیخ انہوں نے کہا اسے بچھا دو اس کے بعد حلاج نے آگے بڑھ کر دو رکعت نماز ادا کی ۔
ڈاکٹر نکلسن آگے چل کر لکھتے ہیں : ایک دفعہ شیخ منصور بن حلاج رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ منصور کی مسجد میں گئے اور لوگوں کو پکار کر کہا آؤ میں تمہیں ایک بات بتاتا ہوں یہ سن کر بے شمار لوگ آپ کے گرد جمع ہو گئے ان میں سے کچھ آپ سے محبت کرتے تھے اور کچھ آ پ سے نفرت کرتے تھے آپ نے فرمایا اللہ نے میرا خون تم پر حلال کیا ہے پس مجھے قتل کر ڈالو اس پر ایک بزرگ نے جن کا نام عبدالودود بن سعید بن عبدالغنی تھا آگے بڑھ کر کہا اے شیخ ہم ایسے شخص کو کس طرح قتل کر سکتے ہیں جو نماز پڑھتا ہے روزے رکھتا ہے اور قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے حلاج رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا نماز پڑھنے روزے رکھنے اور تلاوت کلام پاک سے قتل ممنوع نہیں ہو جاتا مجھے قتل کرو تاکہ تم کو انعام ملے اور میں آرام کروں اس سے تم غازی بن جاؤ گے اور میں شہید اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسلمان جو منصور حلاج رحمۃ اللہ علیہ کو غیرشرعی کہتے ہیں اور وہ غیر مسلم جو الزام لگاتے ہیں کہ صوفیاء علیہم الرّحمہ نے جب اسلام کو روحانیت سے خالی دیکھا تو دوسرے مذاہب سے اسے حاصل کر کے اسلام سے منحرف ہو گئے سراسر لغو اور بے بنیاد ہے اور تعصب کا نتیجہ ہے ۔
آپ نے دیکھا کہ ڈاکٹر نکلسن جیسے محقق جو اوائل عمر میں مواد کی عدم فراہمی کی وجہ سے تصوف پر اعتراضات کی بوچھاڑ کرنے میں پیش پیش تھے اب کس طرح تحقیق مزید کی بدولت اس حقیقت کا اعتراف کر رہے ہیں کہ حضرت حلاج رحمۃ اللہ علیہ جیسے انا الحق کا نعرہ لگانے والے صوفی نے مرتے دم تک نماز روزہ اور تلاوت کی سختی سے پابندی کی اور شریعت اسلامی کو قائم رکھا ۔
شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ "تذکرۃ الاولیاء" میں لکھتے ہیں کہ : حسین بن منصور حلاج رحمۃ اللہ علیہ قید و بند میں تھے تو ابن عطاء رحمۃ اللہ علیہ آئے اور کہا کہ : آپ نے جو کچھ کہا ہے اس سے معذرت کر لیں"۔ حسین بن منصور حلاج رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ "جس نے یہ بات (انا الحق) کہی ہو اُس سے کہو کہ معذرت کر لے ۔ اس پر ابن عطاء رحمۃ اللہ علیہ رونے لگے ۔
مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ "مثنوی معنوی" میں لکھتے ہیں کہ : جس طرح حضور اقدس صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا مشت خاک پھینکنا جنگ بدر میں خدا تعالیٰ کا پھینکنا تھا ، اسی طرح منصور حلاج رحمۃ اللہ علیہ کا انا الحق کہنا دراصل منصور رحمۃ اللہ علیہ کی آواز نہ تھی بلکہ وہ خدائے حقیقی کی ذات کی آواز تھی ، جس میں منصور رحمۃ اللہ علیہ فنا ہو چکے تھے ۔
ہفت شہرعشق راعطاگشت ماہنوااندرغم یک کوچہ ایم
اورمثنوی مولوی معنوی میں ان کا کلام بطورحجت کے لاتے ہیں اور اس کی شرح فرماتے ہیں۔
مولانارومی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی۶۷۲ھ) آپ نے مثنوی مولوی معنوی میں ان لوگوں کوبہت بُرا بھلا کہا ہے جنہوں نے ابن منصور رحمۃ اللہ علیہ کو ناحق سولی دی، چنانچہ فرماتے ہیں : چون قلم در دست غدارے بود لاجرم منصور بر دارے بود
جب قلم کسی غدار کے ہاتھ میں ہوگا تولامحالہ منصورسولی پرہوگا
اس میں غدار سے مراد وزیرحامدالعباس ہے جو منصوربن حلاج رحمۃ اللہ علیہ کا دشمن ہو گیا تھا ، جس نے علماء کو ان کی تکفیر پرمجبورکیا ۔ نیزمنصور حلاج رحمۃ اللہ علیہ کی مدح میں مزید فرماتے ہیں کہ :
بود انا الحق در لب منصور نور بود انا الله در لب فرعون زور
’’اناالحق‘‘ منصورکے لب پرنورتھا ’’میں خداہوں‘‘فرعون کے لب پر جھوٹ تھا
آن انا منصور، رارحمت بُدہ ایں انا فرعون،را لعنت بُدہ
وہ انامنصورکےلئے(باعث)رحمت تھا یہ انافرعون کے لئے (موجب)لعنت تھا
گفت فرعونے "انا الحق"، گشت پست گفت منصورے "انا الحق" و برَست
کسی فرعون نے اناالحق کہاوہ پست ہوا کسی منصورنے اناالحق کہاوہ بالاہے
آن انا را لعنه الله، در عقب ویں انا را رحمه الله، اے محب
اس اناکے لئے اﷲتعالیٰ کی لعنت درپےہے اوریہ انااےدوست! اﷲکی رحمت ہے
مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کی جلالت شان علمائے ظاہراورعلمائے باطن دونوں کے نزدیک مسلم ہے، ان کا منصور بن حلاج رحمۃ اللہ علیہ کو ماننا اور مدح و ثنا کرنا ، حضرت منصور بن حلاج رحمۃ اللہ علیہ کے صوفی ، عارف و مقبول ہونے کی کافی دلیل ہے ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)۔(بقیہ حصّہ دوم میں ان شاء اللہ)
No comments:
Post a Comment