حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم یہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ حاضر ہیں،جواب آیا حبیب کو حبیب کے پاس داخل کردو حبیب حبیب کا مشتاق ہے ۔(تاریخ دمشق جلد 30 صفحہ 436 )الحمد للہ جو عقیدہ صدیق اکبر و صحابہ رضی اللہ عنہم کا ہے وہی ہمارا ہے ۔
(1) عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه قَالَ : لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا بَکْرٍ الْوَفَاةُ أَقْعَدَنِي عِنْدَ رَأْسِهِ وَقَالَ لِي : يَا عَلِيُّ، إِذَا أَنَا مِتُّ فَغَسِّلْنِي بِالْکَفِّ الَّذِي غَسَّلْتَ بِهِ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَحَنِّطُوْنِي وَاذْهَبُوْا بِي إِلَی الْبَيْتِ الَّذِي فِيْهِ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَاسْتَأْذَنُوْا فَإِنْ رَأَيْتُمُ الْبَابَ قَدْ يُفْتَحُ فَادْخُلُوْا بِي وَإِلَّا فَرُدُّوْنِي إِلٰی مَقَابِرِ الْمُسْلِمِيْنَ حَتّٰی يَحْکُمَ اﷲُ بَيْنَ عِبَادِهِ قَالَ : فَغُسِّلَ وَکُفِّنَ وَکُنْتُ أَوَّلَ مَنْ يَأْذُنُ إِلَی الْبَابِ فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، هٰذَا أَبُوْ بَکْرٍ مُسْتَأْذِنٌ فَرَأَيْتُ الْبَابَ قَدْ تَفَتَّحَ وَسَمِعْتُ قَاءِـلًا يَقُوْلُ : أَدْخِلُوا الْحَبِيْبِ إِلٰی حَبِيْبِهِ فَإِنَّ الْحَبِيْبَ إِلَی الْحَبِيْبِ مُشْتَاقٌ. رَوَاهُ بْنُ عَسَاکِرَ وَالسُّيُوْطِيُّ.
ترجمہ : حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے بیان فرمایا : جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے مجھے اپنے سرہانے بٹھایا اور فرمایا : اے علی! جب میں فوت ہو جاؤں تو آپ خود مجھے اپنے ان ہاتھوں سے غسل دینا جن ہاتھوں سے آپ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دیا تھا اور مجھے (بھی وہی) خوشبو لگانا اور (میری میت) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ اقدس کے پاس لے جانا اگر تم دیکھو کہ (خود بخود) دروازہ کھول دیا گیا ہے تو مجھے وہاں دفن کر دینا ورنہ واپس لا کر عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا اس وقت تک کہ جب اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ نہ فرما دے (یعنی قیامت نہ آ جائے۔ اور پھر ان کی خواہش کے مطابق ہی) انہیں غسل اور (متبرک خوشبو والا) کفن دیا گیا اور (حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ) سب سے پہلے میں نے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دروازے پر پہنچ کر اجازت طلب کی اور عرض کیا : یارسول اﷲ ! یہ ابو بکر ہیں جو اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ پھر میں نے دیکھا کہ روضہ اَقدس کا دروازہ (خود بخود) کھل گیا اور میں نے سنا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے۔ حبیب کو اس کے حبیب کے ہاں داخل کردو۔ بے شک حبیب بھی ملاقاتِ حبیب کے لیے مشتاق ہے۔ (أخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق،30 / 436، والسيوطي في الخصائص الکبری، 2 / 492)
(2) حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حیات طیبہ کے آخری لمحات میں آپ کی بارگاہ میں حاضرتھا ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے ارشاد فرمایا : اے علی جب میرا انتقال ہوجائے تو مجھے بھی اُسی مبارک برتن سے غسل دینا جس برتن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو غسل دیا گیا تھا۔ پھر مجھے کفن دے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی قبر انور کی جانب لے جانا اور بارگاہ رسالت سے یوں اجازت طلب کرنا : اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللہِ! ھٰذَا اَبُوْبَکْر یَسْتَاْذِنُ ۔
یعنی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ! آپ پر سلام ہو، ابوبکر آپ کی خدمت میں حاضر ہیں اور اجازت چاہتے ہیں ۔ اگر روضہ اقدس کادروازہ کھلے تو مجھے اس میں دفن کر دینااور اگر اجازت نہ ملے تو مسلمانوں کے قبرستان (جنۃ البقیع) میں دفن کر دینا ۔
حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ : حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غسل و کفن کے معاملات سے فارغ ہونے کے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وصیت کے مطابق روضہ محبوب کے دروازے پر حاضرہوا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی بارگاہ میں یوں عرض کی : ’’ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ابو بکر آپ سے اجازت کے طالب ہیں ۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جیسے ہی میرے الفاظ مکمل ہوئے تو میں نےدیکھا کہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا دروازہ کھل گیا اور اندر سے آواز آئی : اَدْخِلُوْا الْحَبِیْبَ اِلَی الْحَبِیْبَ یعنی محبو ب کو محبوب سے ملادو ۔ چنانچہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نبی کریمصلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے پہلو میں دفنا دیا گیا ۔ (الخصائص الکبریٰ، باب حیاتہ فی قبرہ۔۔الخ، ج۲، ص۴۹۲، السیرۃ الحلبیۃ، باب یذکر فیہ مدۃ مرضہ۔۔۔الخ، ج۳، ص۵۱۷، لسان المیزان، حرف العین المھملۃ، من اسمہ عبد الجلیل ، ج۴، ص۲۲۱)۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment