ولادت و بعثت سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا وسیلہ
نبی پاک علیہ السلا م کی دنیا میں تشریف آوری سے قبل پچھلی امتیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے وسیلہ جلیلہ سے دعا کرتے تو رب تعالی اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے انکی خالی جھولیوں کو مراد سے بھر دیتا۔
وَلَمَّا جَآءَہُمْ کِتٰبٌ مِّنْ عِنۡدِ اللہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمْ ۙ وَکَانُوۡا مِنۡ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوۡنَ عَلَی الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ۚ فَلَمَّا جَآءَہُمۡ مَّا عَرَفُوۡا کَفَرُوۡا بِہٖ ۫ فَلَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکٰفِرِیۡنَ ۔
ترجمہ : اور جب ان کے پاس اللّٰہ کی وہ کتاب (قرآن) آئی جو ان کے ساتھ والی کتاب (توریت) کی تصدیق فرماتی ہے اور اس سے پہلے اسی نبی کے وسیلہ سے کافروں پر فتح مانگتے تھے تو جب تشریف لایا ان کے پاس وہ جانا پہچانا اس سے منکر ہو بیٹھے تو اللّٰہ کی لعنت منکروں پر ۔ (سورہ البقرۃ آیت 89)
سیدنا آدم علیہ السلام نے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وسیلہ سے دعاء فرمائی تھی اس کا ذکر اشارۃً اور صراحۃً قرآن کریم اور احادیث شریفہ میں موجود ہے چنانچہ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر:37 میں ہے: فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ-
ترجمہ : پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمے سیکھ لئے تو اللہ نے ان کی توبہ قبول کی ،بیشک اللہ وہی بہت توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم فرمانے والا ہے-(سورۃ البقرہ،37)
مذکورہ آیت کریمہ میں جن کلمات کے سیکھنےکا ذکر ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی ان کلمات کے متعلق " مستدرک علی الصحیحین ، معجم اوسط طبرانی،، دلائل النبوة للبيهقي، مجمع الزوائد، كنز العمال ، تفسير در منثور, تفسیر روح البیان، میں روایت مذکور ہے : عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لما اقترف آدم الخطيئة قال : يا رب أسألك بحق محمد لما غفرت لي ، فقال الله : يا آدم ، وكيف عرفت محمدا ولم أخلقه ؟ قال : يا رب ، لأنك لما خلقتني بيدك ونفخت في من روحك رفعت رأسي فرأيت على قوائم العرش مكتوبا لا إله إلا الله محمد رسول الله فعلمت أنك لم تضف إلى اسمك إلا أحب الخلق إليك ، فقال الله : صدقت يا آدم ، إنه لأحب الخلق إلي ادعني بحقه فقد غفرت لك ولولا محمد ما خلقتك هذا حديث صحيح الإسناد -
ترجمہ : سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب حضرت آدم علیہ السلام سے لغزش ہوئی تو انہوں نے اللہ کے حضور معروضہ کیا:ائے میرے پروردگار ! میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرتا ہوں تو مجھے بخش دے،اللہ تعالی نے فرمایا:ائے آدم !تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے جانتے ہو ابھی تو وہ دنیا میں تشریف نہیں لائے ہیں؟ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا:ائے میرے رب!تو نے جب مجھے اپنے دست قدرت سے پیدا کیا اور اپنی روح خاص مجھ میں پھونکی تو میں نے اپنا سر اٹھایا تو دیکھا کہ قوائم عرش پر " لا إله إلا الله محمد رسول الله " لکھا ہوا پایا،تو میں جان گيا کہ تو نے اپنے نام مبارک کے ساتھ انہیں کا نام پاک ملایا ہے جو ساری مخلوق میں سب سے زیادہ تجھے پسندیدہ ومحبوب ہیں۔اللہ تعالی نے فرمایا:اےآدم ! تم نے سچ کہا ،بیشک وہ ساری مخلوق میں میرے پاس سب سے زیادہ محبوب ترین ہیں،تم ان کے وسیلہ سے دعا کرو میں ضرور تم کو مغفرت عطا کرؤنگا،اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا نہ کرتا- اس حدیث کی سندصحیح ہے ۔ (مستدرک علی الصحیحین، كتاب تواريخ المتقدمين من الأنبياء والمرسلين، حدیث نمبر : 4194 - )(معجم اوسط طبراني حديث نمبر:6690)(لائل النبوة للبيهقي، حدیث نمبر: 2243)(مجمع الزوائد، ج،8ص،198 ،حديث نمبر:13917 دار الفکر بیروت )(كنز العمال، كتاب الفضائل حديث نمبر: 32138)(تفسير در منثور, سورة البقرة:37مکتبۃ الرشد)
تشریح : جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی بعثت (دنیا میں تشریف آوری) سے قبل آپ کے وسیلے سے دعا کرنا جائز تھا تو آپ علیہ السلام کی وفات ظاہری کے بعد ممانعت کیونکر بغیر کسی دلیل کے مانی جائے ۔
سبحان اللہ ذرا غور فرمائیے کہ انسان کوجب زمین پر بھیجا گیا تو رب تعالی نے انسان کی سب سے پہلی دعا جو قبول فرمائی وہ حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ تھی اور وہ دعا بھی ہمارے نبی علیہ السلام کےوسیلہ سے قبول فرمائی گئی ۔
اور کل بروز قیامت میدان حشر میں بھی سب سے پہلی دعا جو قبول کی جائے گی وہ بھی نبی علیہ السلام کے وسیلے سے کی جائے گی تمام لوگ انبیاء کرام علیھم السلام کی خدمت میں حاضر ہونگے مگر لوگوں کی مراد پوری ہمارے نبی علیہ السلام فر مائیں گے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم رب تعالی سے جلد حساب شروع فرمانے کی دعا فرمائیں گے اور رب تعالی دعا قبول فرمائے گا اور یہ نعمت بھی اپنے محبوب علیہ السلام کے وسیلہ سے عطا فرمائے گا ۔
درحقیقت بات یہ ہے کہ رب تعالی اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کو اس قدر پسند فرماتا ہے کہ آپ علیہ السلام کو وجہ تخلیق کائنات بتلایا اور جب انسان کو زمین پر اتارا تو نبی علیہ السلام کی شان دیکھائی جب انسان کوقبر میں اتارا جاتا ہے تو وہاں بھی اپنے نبی کی شان دیکھاتا ہے اور جب حشر کا میدان ہوگا وہاں بھی اپنے نبی علیہ السلام کی دعا سےحسا ب شروع فرماکر ان کی شان دیکھائے گا کوثر عطا و مقام محمود عطافرماکر اپنے حبیب علیہ السلام کی شان دیکھائے گایہ نبی علیہ السلام کو رب نے ایسے اوصاف عطا فرمائے ہیں کہ ایسی شان کسی اور نبی علیہ السلام کو رب کائنات جل جلالہ نے عطا نہ فرمائی ۔
حضرت عبداللہ بن دینار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کو حضرت ابوطالب کا یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا : وہ گورے مکھڑے والے (محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہ جن کے چہرہ انور کے توسّل سے بارش مانگی جاتی ہے، یتیموں کے والی، بیواؤں کے سہارا ہیں ۔
حضرت عمر بن حمزہ کہتے ہیں کہ حضرت سالم (بن عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہم) نے اپنے والد ماجد سے روایت کیا ہے : کبھی میں شاعر کی اس بات کو یاد کرتا اور کبھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس کو تکتا کہ اس (رخِ زیبا) کے توسل سے بارش مانگی جاتی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (منبر سے) اترنے بھی نہ پاتے کہ سارے پرنالے بہنے لگتے۔ مذکورہ بالا شعر حضرت ابوطالب کا ہے ۔
(أخرجه البخاری في الصحيح، کتاب : الاستسقاء، باب : سُؤَالِ النَّاسِ الإِمَامَ الإستسقاءَ إذا قَحَطُوا، 1 / 342، الرقم : 963، وابن ماجه في السنن، کتاب : إقامة الصلاة والسنة فيها، باب : ما جاء في الدعاء في الاستسقاء، 1 / 405، الرقم : 1272، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 93، الرقم : 5673، 26، والبيهقي في السنن الکبری، 3 / 352، الرقم : 6218. 6219، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 14 / 386، الرقم : 7700، والعسقلاني في تغليق التعليق، 2 / 389، الرقم : 1009، وابن کثير في البداية والنهاية، 4 / 2، 471، والمزي في تحفة الأشراف، 5 / 359، الرقم : 6775)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ وہ یہ اشعار پڑھا کرتی تھیں اور ابو بکر رضی اللہ عنہ (ان شعار کے بارے میں) فیصلہ فرماتے تھے : وہ گورے (مکھڑے والے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) جن کے چہرے کے توسّل سے بارش مانگی جاتی ہے۔ جو یتیموں کے والی، بیواؤں کے سہارا ہیں ۔
تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ شعر سن کر فرمایا : اﷲ تعالیٰ کی قسم! اس سے مراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات والا صفات ہی ہیں ۔
امام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اس کے رجال ثقہ ہیں ۔
(أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 7، الرقم : 26، وابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 279، الرقم : 26067، 6 / 535، الرقم : 31967، وفي کتاب الأدب، 1 / 381، الرقم : 414، وابن سعد في الطبقات الکبری، 3 / 198، والمروزي في مسند أبي بکر رضی الله عنه، 1 / 91، الرقم : 39، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 272، والذهبي في ميزان الاعتدال، 5 / 158)
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب حضرت آدم علیہ السلام سے خطا سرزد ہوئی، تو انہوں نے (بارگاہ الٰہی میں ) عرض کیا : اے پروردگار! میں تجھ سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں کہ میری مغفرت فرما، اس پر اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : اے آدم! تو نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کس طرح پہچان لیا حالانکہ ابھی تک میں نے انہیں پیدا بھی نہیں کیا؟ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا : اے پروردگار! جب تو نے اپنے دستِ قدرت سے مجھے تخلیق کیا اور اپنی روح میرے اندر پھونکی، میں نے اپنا سر اٹھایا تو عرش کے ہر ستون پر لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ، مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ لکھا ہوا دیکھا۔ تو میں نے جان لیا کہ تیرے نام کے ساتھ اسی کا نام ہو سکتا ہے جو تمام مخلوق میں سب سے زیادہ تجھے محبوب ہے۔ اس پر اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : اے آدم تو نے سچ کہا ہے مجھے ساری مخلوق میں سے سب سے زیادہ محبوب وہی ہیں، اب جبکہ تم نے ان کے وسیلے سے مجھ سے دعا کی ہے تو میں نے تجھے معاف فرما دیا اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہوتے تو میں تجھے بھی تخلیق نہ کرتا ۔ امام حاکم نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے ۔
(أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 672، الرقم : 4228، والبيهقي في دلائل النبوة، 5 / 489، والقاضي عياض في الشفا، 1 / 227، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 7 / 437، وابن تيمية في مجموع الفتاوی، 2 / 150، وأيضاً في قاعدة جليلة في التوسل والوسيلة : 84، وابن کثير في البداية والنهاية، 1 / 131، 2 / 291، 1 / 6، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 6، وابن سرايا في سلاح المؤمن في الدعاء، 1 / 130، الرقم : 206)
علامہ ابن تیمیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت میسرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : (یا رسول اللہ!) آپ کو نبوت کب ملی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (میں اس وقت بھی نبی تھا) جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کیا اور پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے اسے سات آسمانوں میں تقسیم کر دیا، پھر اللہ تعالیٰ نے عرش کو تخلیق کیا اور اس کی پیشانی پر لکھا : مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ، ’’محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اﷲ تعالیٰ کے رسول اور آخری نبی ہیں.‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے جنت کو تخلیق کیا کہ جہاں اس نے حضرت آدم و حوا علیہما السلام کو بسایا تھا، تو جنت کے دروازوں، درختوں کے پتوں، خیموں اور محلات پر میرا نام لکھا۔ اس وقت حضرت آدم علیہ السلام ابھی روح اور جسم کے درمیان تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا فرمایا تو انہوں نے عرش پر میرا نام لکھا ہوا دیکھا، تب اللہ تعالیٰ نے انہیں خبر دی کہ (اے آدم!) وہ تیری اولاد کے سردار ہیں۔ اس لیے جب شیطان نے انہیں بہکایا تو انہوں نے توبہ کی اور میرے نام سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ اختیار کیا۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب حضرت آدم علیہ السلام سے (بغیر ارادہ کے) لغزش سرزد ہوئی تو انہوں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور عرض گزار ہوئے : (یا اﷲ!) اگر تو نے مجھے معاف نہیں کیا تو میں (میرے محبوب) محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے تجھ سے سوال کرتا ہوں (کہ تو مجھے معاف فرما دے) تو اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی : (اے آدم!) محمد مصطفی کون ہیں؟ حضرت آدم نے عرض کیا : (اے مولا!) تیرا نام پاک ہے، جب تو نے مجھے پیدا کیا تو میں نے اپنا سر تیرے عرش کی طرف اٹھایا وہاں میں نے ’’لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ، مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ‘‘ لکھا ہوا دیکھا، لہٰذا میں جان گیا کہ یہ ضرور کوئی بڑی عظیم المرتبت ہستی ہے، جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ ملایا ہے، پس اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی : ’’اے آدم! وہ (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہاری نسل میں سے آخری نبی ہیں، اور ان کی امت بھی تمہاری نسل کی آخری امت ہو گی، اور اگر وہ نہ ہوتے تو میں تجھے بھی پیدا نہ کرتا ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الصغير، 2 / 182، الرقم : 992، وفي المعجم الأوسط، 6 / 313، الرقم : 6502، وابن تيمية في مجموع الفتاوی، 2 / 151، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 253، والسيوطي في جامع الأحاديث، 11 / 94)
علامہ ابن تیمیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب آدم علیہ السلام سے خطا سرزد ہو گئی، تو انہوں نے اپنا سر اٹھایا اور عرض کیا : اے میرے رب! میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسل سے تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ تو میری خطاء معاف کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی طرف وحی کی : محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا ہیں؟ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کون ہیں؟ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کی : مولا! جب تو نے میری تخلیق کو مکمل کیا تو میں نے اپنا سر تیرے عرش کی طرف اٹھایا تو اس پر لکھا ہوا تھا : ’’لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ، مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ‘‘ تو میں جان گیا بے شک وہ تیری مخلوق میں سب سے بڑھ کر عزت و مرتبہ والے ہیں۔ تبھی تو، تو نے ان کا نام اپنے نام کے ساتھ جوڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ہاں اور میں نے تیری مغفرت فرما دی اور وہ تیری نسل سے آخری نبی ہوں گے، اور اگر وہ نہ ہوتے تو میں تجھے پیدا ہی نہ کرتا ۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضي اﷲ عنہما نے فرمایا : خیبر کے یہودی غطفان قبیلے سے برسرپیکار رہا کرتے تھے، پس جب بھی دونوں کا سامناہوا یہودی شکست کھا گئے۔ پھر یہودیوں نے اس دعا کے ذریعے پناہ مانگی : اے اللہ ہم تجھ سے امی نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے سوال کرتے ہیں جنہیں تو نے آخری زمانہ میں ہمارے لیے بھیجنے کا ہم سے وعدہ فرمایا ہے کہ ان کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔ راوی کہتے ہیں : پس جب بھی وہ دشمن کے سامنے آئے تو انہوں نے یہی دعا مانگی اور غطفان (قبیلہ) کو شکست دی۔ لیکن جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معبوث ہوئے تو انہوں نے (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت اتاری : حالانکہ اس سے پہلے وہ خود اے محمد! آپ کے وسیلے سے کافروں پر فتح یابی کی دعا مانگتے تھے ۔ (أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 289، الرقم : 3042، والآجري في الشريعة : 448، والبيهقي في دلائل النبوة، 2 / 76)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے قبل یہود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے اوس وخزرج پر فتح مانگا کرتے تھے، مگر جب اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوعرب سے ظاہر کیا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منکر ہو گئے۔ ایک مرتبہ بنو سلمہ کے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور بشر بن براء بن معرور رضی اﷲ عنھما نے انہیں کہا : اے یہود ! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اسلام لے آؤ، جب ہم اہل شرک تھے تو تم نام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہم پر فتح مانگا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت اور سیرت کو ہم پر پیش کیا کرتے تھے۔ یہ سن کر سلام بن مشکم نے کہا : یہ وہ نبی نہیں جس کا ذکر ہم کرتے تھے اور جو صفات ہم بیان کیا کرتے تھے، وہ اس میں نہیں۔ اس پر اللہ تعالی نے یہ آیت اتاری : ’’اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے وہ کتاب (القرآن) آئی جو اس کتاب (تورات) کی اصلاً تصدیق کرنے والی ہے جو ان کے پاس موجود تھی، حالانکہ اس سے پہلے وہ خود (نبی آخرالزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان پر اترنے والی کتاب قرآن کے وسیلے سے) کافروں پر فتحیابی کی دعا مانگتے تھے۔ سو جب ان کے پاس وہی نبی (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اوپر نازل ہونے والی کتاب قرآن کے ساتھ) تشریف لے آیا جسے وہ (پہلے ہی سے) پہچانتے تھے تو اسی کے منکر ہو گئے، پس ایسے دانستہ انکار کرنے والوں پر اللہ کی لعنت ہے ۔
(أخرجه أبو نعيم في دلائل النبوة، 1 / 52، الرقم : 44، والعسقلاني في الإصابة، 2 / 383، الرقم : 2390، والطبري في جامع البيان، 1 / 411، وابن أبي حاتم في تفسيره، 1 / 172، الرقم : 905، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1 / 125، والسيوطي في الدر المنثور، 1 / 217.) (وذکر المفسرون في تفاسيرهم هذا الحديث بألفاظ مختلفة وبروايات مختلفة ومن تلک التفاسير : الطبري في جامع البيان، 1 / 23، 325، والبغوي في معالم التنزيل، 1 / 93، والزمخشري في الکشاف، 1 / 164، وابن الجوزي في زاد المسير، 1 / 114، والرازي في التفسير الکبير، 3 / 180، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 2 / 27، والبيضاوي في أنوار التنزيل، 1 / 228، والنسفي في مدارک التنزيل، 1 / 61، والخازن في لباب التأويل في معاني التنزيل، 1 / 65، وابن حبان الأندلسي في البحر المحيط، 1 / 303، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1 / 116، 124، ونظم الدرر في تناسب الآيات والسور، 2 / 36، والسيوطي في الجلالين : 14، وأبو السعود في إرشاد العقل السليم، 1 / 128، وإسماعيل حقي في روح البيان، 1 / 179، والقاضي ثناء اﷲ في تفسير المظهري، 1 / 94، والشوکاني فيفتح القدير، 1 / 112، والآلوسي في تفسير روح المعاني، 1 / 320، وتفسير المنار، 1 / 381، ومجاهد بن جبير المخزومي في التفسير، 1 / 83)
عَنْ عَلِيٍّ الْأَزْدِيِّ رضی الله عنه قَالَ : کَانَتِ الْيَهُوْدُ تَقُوْلُ : اَللَّهُمَّ ابْعَثْ لَنَا هَذَا النَّبِيَّ يَحْکُمُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ النَّاسِ يَسْتَفْتِحُوْنَ بِهِ أَي يَسْتَنْصِرُوْنَ بِهِ عَلَی النَّاسِ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَالطَّبَرِيُّ.
حضرت علی ازدی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ یہود کہا کرتے تھے : اے اللہ ! ہمارے لئے اس نبی (امّی) کو بھیج جو ہمارے اور لوگوں کے درمیان فیصلہ کرے، ان کے ذریعہ ( اور وسیلہ سے) فتح طلب کرتے تھے یعنی ان کے وسیلہ سے لوگوں پر غلبہ مانگا کرتے تھے۔‘‘ اس حدیث کو امام بیہقی اور طبری نے روایت کیا ہے ۔
(أخرجه البيهقي في دلائل النبوة، 2 / 76، والطبري في جامع البيان، 1 / 411، وابن کثير في البداية والنهاية، 2 / 274)
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : أَوْحَی اﷲُ إِلَی عِيْسَي عليه السلام، يَا عِيْسَی، آمِنْ بِمُحَمَّدٍ، وَأْمُرْ مَنْ أَدْرَکَهُ مِنْ أُمَّتِکَ أَنْ يُؤْمِنُوْا بِهِ، فَلَوْلَا مُحَمَّدٌ، مَا خَلَقْتُ آدَمَ، وَلَولَا مُحَمَّدٌ، مَا خَلَقْتُ الْجَنَّةَ وَلَا النَّارَ. وَلَقَدْ خَلَقْتُ الْعَرْشَ عَلَی الْمَاءِ فَاضْطَرَبَ، فَکَتَبْتُ عَلَيْهِ : لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ، فَسَکَنَ.رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْخَـلَالُ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ وَ وَافَقَهُ الذَّهَبِيُّ.
حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل فرمائی : اے عیسیٰ! حضرت محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آؤ، اور اپنی امت کو بھی حکم دو کہ جو بھی ان کا زمانہ پائے تو (ضرور) ان پر ایمان لائے۔ (جان لو!) اگر محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نہ ہوتے، تو میں حضرت آدم (علیہ السلام) کو بھی پیدا نہ کرتا۔ اور اگر محمد مصطفی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نہ ہوتے، تو میں نہ جنت پیدا کرتا اور نہ دوزخ، جب میں نے پانی پر عرش بنایا تو اس میں لرزش پیدا ہو گئی، لہٰذا میں نے اس پر لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲ ِ لکھ دیا تو وہ ٹھہر گیا ۔ اس حدیث کو امام حاکم اور خلال نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے اور امام ذہبی نے بھی ان کی تائید کی ہے ۔
(أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 671، الرقم : 4227، والخلال في السنة، 1 / 261، الرقم : 316، والذهبي في ميزان الاعتدال، 5 / 299، الرقم : 6336، والعسقلاني في لسان الميزان، 4 / 354، الرقم : 1040، و ابن حيان في طبقات المحدثين بأصبهان، 3 / 288)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حضرت آدم علیہ السلام ہند میں نازل ہوئے اور (نازل ہونے کے بعد) انہوں نے وحشت و تنہائی محسوس کی تو (ان کی وحشت و تنہائی دور کرنے کے لئے) جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور اذان دی : اَﷲُ أَکْبَرُ اَﷲُ أَکْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ ۔ دو مرتبہ کہا ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اﷲِ ۔ دو مرتبہ کہا پس حضرت آدم علیہ السلام نے دریافت کیا : محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کون ہیں؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا : آپ کی اولاد میں سے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ۔ اس حدیث کو امام ابو نعیم، ابن عساکر اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔
(أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء، 5 / 107، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 271، الرقم : 6798، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 7 / 437)
حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : جب (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجداد کے قبیلہ میں سے ایک قبیلہ) معد بن عدنان کی تعداد چالیس افراد تک پہنچ گئی تو انہوں نے سیدناحضرت موسیٰ علیہ السلام کے لشکر پر حملہ کر دیا اور اسے لوٹ لیا۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کے لئے بدعا کی : یا رب! یہ بنو سعد ہیں، جنہوں نے میرے لشکر کے ساتھ لڑائی کی ہے۔ پس اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰں پر وحی نازل کی اور فرمایا : اے موسیٰ! ان کے لئے میری بارگاہ میں بدعا نہ کرنا کیونکہ ان کی نسل میں سے ہی نبی اُمی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوں گے، جو ڈر سنانے والے اور میری جنت کی بشارت دینے والے ہیں، اور انہی کی نسل میں سے وہ امّتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، جس پر رحم کیا گیا ہے، جو اﷲ تعالیٰ سے تھوڑا رزق پانے پر بھی خوش ہو گی، اور اﷲ تعالیٰ ان کے تھوڑے عمل پر (بھی) ان سے راضی ہو گا۔ اﷲ تعالیٰ انہیں محض کلمہ توحید’’لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ‘‘ کے اقرار پر جنت میں داخل فرمائے گا، کیونکہ ان کے نبی، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بن عبد اﷲ بن عبد المطلب ہیں۔ جو اپنے رہن سہن میں عاجزی و انکساری کرنے والے ہیں۔ جن کی خاموشی میں بھی حکمت و دانشمندی ہے۔ وہ حکمت و دانائی سے کلام فرماتے ہیں اور حلم و بردباری والے ہیں۔ میں نے انہیں ان کی امت میں بہترین طبقہ قریش میں سے پیدا فرمایا، پھر انہیں قریش میں سے پسندیدہ خاندان بنو ہاشم میں پیدا کیا، پس وہ بہترین لوگوں میں بہترین تر ہیں، اور بہتری کی طرف پیش قدمی فرمانے والے ہیں، اور ان کی امت بہتری کی طرف بڑھنے والی ہے ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 8 / 140، الرقم : 7629، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 218)
حضرت جلہمہ بن عرفطہ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ میں مکہ مکرمہ آیا، اس زمانے میں اہلِ مکہ قحط میں مبتلا تھے، پس قریش نے حضرت ابو طالب سے کہا کہ پورا علاقہ قحط زدہ ہو گیا ہے، اور لوگ قحط میں مبتلا ہیں، پس آپ جلدی تشریف لائیں اور بارش کے لئے دعا کریں۔ تب حضرت ابو طالب دعا کے لئے نکلے، اور ان کے ساتھ ایک اتنا خوبصورت لڑکا تھا، گویا سورج کالی گھٹا سے نکلا ہو اور اس کے اردگرد دیگر بچے تھے۔ پس حضرت ابو طالب نے اس لڑکے (محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو تھاما، اور اس کی پشت کو کعبہ سے لگا دیا، اور اپنی انگلیوں سے اس لڑکے کی طرف اشارہ کیا اس وقت آسمان میں بادلوں کا نام و نشان نہ تھا، پس بادل ادھر ادھر سے اکٹھے ہونا شروع ہو گئے، اور پھر موسلا دھار بارش ہوئی، جس کی وجہ سے وادی پانی سے بھر گئی اور ہر طرف خوب خوشحالی و فراخی ہو گئی، اس بارے میں حضرت ابو طالب نے یہ اشعار کہے تھے :
وَأَبْيَضَ يُسْتَسْقَی الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ
ثِمَالُ الْيَتَامَی عِصْمَةٌ لِلْأَرَامِلِ
يَلُوْذُ بِهِ الْهُـلَّاکُ مِنْ آلِ هَاشِمِ
فَهُمْ عِنْدَه فِي نِعْمَةٍ وَفَوَاضِلِ
ترجمہ : وہ گورے مکھڑے والے (محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کہ جن کے چہرئہ انور کے وسیلہ سے بارش طلب کی جاتی ہے، جو یتیموں کے ملجا اور بیواؤں کے فریاد رس ہیں۔ بنو ہاشم کے ہلاک زدہ لوگ جن کی پناہ مانگتے ہیں۔ پس وہ (بنو ہاشم) ان کے ہوتے ہوئے خوب نعمتوں اور فراخی میں ہیں۔‘‘امام سیوطی نے فرمایا کہ اسے امام ابن عساکر نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه السيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 146، والحلبي في السيرة، 1 / 190)(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment