Monday, 11 December 2017

لفظ عشق کے استعمال پر اعتراض کا جواب

لفظ عشق کے استعمال پر اعتراض کا جواب

























عربی زبان میں عشق کی معنی یہ ھیں

(1)۔ تعلق خاطر، چاہت،لگاو،اور چسپدگی ۔

(2)۔دو چیزوں کو مظبوطی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ باندھ دینا ۔

موخر الذکر معنی کی رعایت سے کمال الفت و محبت کو عشق کہا جاتا ھے۔۔۔۔۔ یعنی چاھت کا وہ نقطہ عروج جو جذبات کے نشیب و فرآز سے پاک ھو۔

عربی زبان میں محبت کے معنی ھیں " تعلق، خاطر،چاہت ،لگاو،پسندیدگی ۔

محبت کا کوئی پیمانہ نہیں اس میں ہزار نشیب و فرآز ہیں اس لیے قرآن میں جب "محبت کا زکر کیا گیا تو اس کی تفصیل بھی بتلا دی گی۔ ارشاد ھوا : آپ کہہ دیجے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمھاری بیویاں اور تمھارا کنبہ اور وہ مال جو تم نے کماے ہیں اور وہ تججارت جس میں نکاسی نہ ھونے کو تم کو اندیشہ ھو اور وہ گھر جن کو تم پسند کرتے ھو۔۔۔ تم کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیارے ھوں تو منتظر رہوں۔یہاں تک کہ اللہ تعالی اپنا حکم بھیج دے اور اللہ بے حکمی کرنے والے لوگوں کو انکے مقصد تک نہیں پہنچاتا۔ ( سورہ توبہ۔ آیت24)

اس آیت شریفہ میں جو شرح محبت بیان کی گی ھے، وہ صرف " محبت" کی خاطر اپنا تن من دھن سب کچھ لٹا دینا ۔

لفظ محبت میں کنیکی تعلق کا اندیشہ کار فرما ھے، جب کہ عشق۔ دلی تعلق کی غمازی کررہا ھے ۔ قرآن ایسی محبت کا طلب گار نہیں جو ہر سعادت مند ماتحت کو اپنے افسر سے ھوتی ھے، یا رعیت کو بادشاہ سے ، بلکہ ایسہی محبت کا طالب ہے ، جو ہر عاشق کو اپنے معشوق سے ہوتی ھے بلکہ اسے بھی بڑھ کر۔ملاذم یا رعیت اپنے نفس کے لیے اپنے افسر سے محبت کرتے ھیں۔ قرآن کا مطالبہ یہ ھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو چاھو اور اس کمال سے اخلاص کے ساتھ چاھو کہ سوائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چاہیت کے دل سے ساری چاہیتیں معدوم ہوجائیں ۔

دو عالم سے کرتی ھیں بیگانہ دل کو
عجب چیز ھے لذت آشنائی

محترم قارئین : عشق کے معنی بھی چاہت کے اور محبت کے معنی بھی چاہت کے تو دنوں کو استعمال کرنے میں اتنا کچھاو کیون اس کہ بھی ایک بنیادی وجہ لغہ فارسی ھے۔ بھت سے دوستوں کو لغہ فارسی سے بھت چڑ ھے کیوں کہ یہ اولیا اکرام کہ ذبان ھے ۔۔ اس وقت اس پر بحث کرنا قائیرین کو مین نقطہ سے دور کرنا ھو گا اس لیے اس پر کبھی ذندگی نے ساتھ دیا اور وقت ملا تو پھر کچھ لکھے گے ۔

اب آتے ھیں اس معقصد کی جانب۔ کہ لفظ "عشق" کا استعمال قرآن کی روشنی میں صحیح ھے کہ نہیں ۔ اگر کوئی لفظ اس معنی و مفہوم کی صحیح ترجمانی کرتا ھے۔جو مقصوس قرآن ھے، تو پھر اس لفظ کو معنی کے اعتبار سے مقصود قرآن سمجھا جاے گا۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر اس پر اصرار کیا جاے کہ وہی لفظ استعمال کیا جاے، جو قرآن نے استعمال کیا ھے، تو سوال کیا جاسکتا ھے۔کہ لفظ " خدا" لفظ " نماز،" روزہ اور لفظ سود قرآن میں کہاں ھیں۔۔۔? پس چاھیے کہ عقائد و فقہ کہ اردو اور فارسی کی کتابوں سے ان الفاط کو نکال دیا جاے اور ان کہ جگہ وہی الفاظ استعمال کئے جائیں جو قرآن نے استعمال کیے ھیں، لیکن ایسا نہیں کیا جاے گا۔ حالانکہ اختیاط کا تقاضا تو یہ تھا جو قرآن نے استعمال کیے ھیں انہیں کو استعمال کیا جاتا کیونہ کہ علم و فن کی ہر اصطلاح اپنے الگ معنی و مفہوم رکھی ھے اور یہ معنی و مفہوم عام لغت میں نہیں بلکہ ھر اصطلاح اپنے الگ معنی و مفہوم رکھتی ھے اور یہ معنی و مفہوم عام لغت میں نہیں بللکہ اس فن کی لغت میں ھی مل سکتے ھیں مگر ایسے الفاظ کے لیے بھی مترادفات کو تسلیم کیا گیا ھے اور بے دھڑک استعمال کیا گیا ھے اور لفظ"عشق" کے لیے یہ احتیاط کہ اسکو قرآن میں تلاش کیا جارھا ھے۔۔۔۔ اگر اسکو تلاش کیا جاسکتا ۔تو پھر ان الفاط کو بدرجہ اولی تلاش کیا جانا چاھے جو اوپر مذکور ھوئے۔

عشق رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم سے مرآد وہی وارفتگی و شیفتگی اور جزبہ جان نثاری ھے، جو مطلوب و مقصود قرآن ھے اور جس کا سورہ توبہ میں بیان بھی کیا گیا ھے ۔ اس لیے " حب رسول" کہ جگہ"عشق رسول" کہنا زیادہ قریب ھو گا ۔ جب ھم عشق رسول کہتے ھیں تو آیت مذکورہ کا مفہوم بجلی بن کر ہماری نظروں میں کوند جاتا ھے اور ساری توانائیاں ایک نقطہ " عشق " پر مرکوز ہوجاتی ھیں ۔

علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ اور لفظ عشق کا استعمال

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم ِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اجالا کر دے

ہر کہ عشقِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم سامانِ اوست
بحر و بردر گوشہ دامانِ اوست

نگاہ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآن وہی فرقاں وہی یٰسین وہی طہٰ

جب ہمارے سنی بھائی نبی پاک کیلے عشق اور عاشقان رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو ان پہ کڑی تنقید کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ عشق کا لفظ بازاری لفظ ہے یہ صنف نازک کیلیئے استعمال کیا جاتا ہے کیا تم لوگ اپنی ماں بہن بیٹی کیلیئے یہ لفظ استعمال کر سکتے ہو کہ بہن کا عاشق ماں کا یا بہن کا۔ اگر نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کیلیئے کوئی لفظ استعمال کرنا ہے تو لفط پیار یا محبت اسعمال کرو۔اسکا جواب دینے سے پہلے ہم لفظَ پیار،محبت اور عشق میں فرق دیکھتے ہیں ۔

پیار۔ یہ ہمیں کسی سے بھی ہو سکتا ہے عورت کو مرد سے یا مرد کو عورت سے بھائی کو بہن سے یا بہن کو بھائی سے ماں باپ کو اولاد سے یا اولاد کو ماں باپ سے استاد کو شاگرد سے یا شاگرد کو استاد سے نیک لوگوں سے اللہ سے رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے۔لیکن جب عام طور پر دو پیار کرنےوالے لڑکا لڑکی جب انگلش میں ایک جملہ استعمال کرتے ہیں آئی لو یو تو اسکا مطلب ہوتا ہے میں تم سے پیار کرتا ہوں یا کرتی ہوں اسکا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ میں تم سے عشق کرتا ہوں یا عشق کرتی ہوں لڑکا لڑکی عام طور پر ایک دوسرے کو یہی کہتے ہیں میں تم سے پیار کرتا یا کرتی ہوں۔عشق کا لفظ عام طور پر استعمال نہیں کیا جاتا دو ناسمجھ دل ایک دوسرے کو یہ کہہ کر پیغام دیتے ہیں کہ میں تم سے پیار کرتا یا کرتی ہوں معزرت کیساتھ کونسا لفظ بازاری ہوا۔پیار کا یا عشق کا۔پیار جس سے ہو وہ اسکا یار ہوتا محبت جس سے ہو وہ اسکا محبوب ہوتا ہے اور عشق جس سے ہو وہ اسکا مشتاق ہوتا ہے یعنی ملنے کیلے بے تاب ہوتا ہے۔پیار،محبت اور عشق میں کونسا لفظ بازاری ہے میں تو کہوں گا پیار کا لفظ کیونکہ دو نا سمجھ جوان دل زیادہ تر اپنی گفتگو میں پیار کا لفظ استعمال کرتے ہیں عشق کا نہیں ۔

محبت ۔ محبت کا مطلب ہے حب محبت کا معاملہ بھی یہی کہ محبت ہمیں اپنے تمام عزیزوں سے ہوسکتی ہےاپنے پیاروں سے ہو سکتی ہے اللہ رسول سے ہوسکتی ہے،ماں باپ دوست احباب بہن بھائی غرضیکہ ہر کسی سے ہو سکتی دو ناسمجھ دل اس لفظ کا استعمال بھی کرتے ہیں مجھے تم سے محبت ہے پیار ہے کبھی عشق بھی کہتے ہیں لیکن تب جب پیار اور محبت انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو حبیب کہہ کر پکارا ہے حبیب وہ ہوتا ہے جس سے حب ہو محبت ہو اور جو محبوب ہو اور جب محبت انتہا کو پہنچ جاتی تو یہ عشق بن جاتا ہے اور عشق پیار اور محبت سے پاکیزہ جزبہ ہوتا ہے۔عشق میں کوئی ہوس نہیں ہوتہ جبکہ جس سے پیار یا محبت ہو تو عام مرد و عورت کو کوئی نہ کوئی ہوس بھی ضرور ہوتی ہے چاہے جسموں کے ملاپ کی ہوس ہو یا روحوں کے میلاپ کی۔لیکن عشق کسیی ہوس کے جزبے سے پاک جزبہ ہے ۔

عشق ۔ عشق کی دو اقسام ہیں عشق مجازی اور عشق حقیقی۔عشق ایسا جزبہ ہے کہ جسمیں انسان بے لوث ہوتا ہے کسی کی خااطر جان لے بھی سکتا ہے اور جان دے بھی سکتا ہے جب حضرت ابراہیم کو آگ میں پھینکا گیا تو انہوں نے زندگی کی کوئی پروا نہ کی اور اپنی زندگی داؤ پہ لگا دی اس پروا نہ کرنیکا نام عشق ہے۔جب حضرت اسمایل پر انکے والد حجرت ابراہیم نے چھری پھیرنے کا ارادہ کی ذبح کنیکا ارادہ کیا تو بے چوں چراں ذبح ہونے کیلے اپنی زندگی کی پروا کیے بغیر چپ چاپ لیٹ گئے اس پروا نہ کرنے کا نام عشق ہے۔یہ عشق حقیقی کی مثالیں ہیں ۔

عشق مجازی میں کوئی اپنے محبوب کی خاطر مجنوں بن جاتا ہے کوےئ فرہاد بن جاتا ہے کوئی رانجھا بن جاتا ہے اس مجازی عشق میں کوئی ہوس نہیں ہوتی کوئی جسمانی ہوس کی طلب نہیں ہوتی اس طلب نہ ہونیکا نام عشق ہے لیکن یہ عشق مجازی ہے۔جبکہ عشق حقیقی میں سب کچھ اللہ رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی خاطر قربان کترنیکا نام عشق حقیقی اللہ کی خاطر جو انبیا نے قربانیاں دیں یہ عشق حقیقی کی زندہ مثالیں ہیں ۔ جب اللہ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے فرمایا اے حبیب اگر آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو بنانا مقصود نہ ہوتا تو میں کچھ بھی نہ دو جہاں میں اور تمام جہاں میں یہاں تک کہ اپنے آپکو بھی ظاہر نہ کرتا یہ عشق اللہ کا اپنے حبیب کیلے ہے کہ اللہ اپنے حبیب کی خاطر خود کوبھی ظاہر نہ کرتا اور خود کو ازل سے لیکر چھپائے رکھتا۔کسی کی خاطر اپنے آپکو دنیا سے چھپا دینا ظاہر نہ کرنیکا نام عشق ہے ۔

دوسری طرف نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے جو اللہ سے عشق کیا اسکی مثال دو جہاں میں کہیں نہیں ملتی اپنی پیاری بیٹی جگر گوشہ رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم حضرت فاطمہ زہرا خاتون جنت بتول رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اور علی رضی اللہ عنہ اور محمد صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے لاڈلے نواسے کو قربان کر دیا چھے مہینے کے حسین ع کے بیٹے علی اصغر کو قربان کر دیا حالانکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم جانتے تھے کہ حسین ع کیوں کہاں اور کیسے شہید کیے جائیں گے کیا اگر اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم چاہتے تو اپنے پیارے نواسے حسین ع کی آل اولاد کو بچانے کیلئے دعا نہیں کر سکتے تھے کیا اللہ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی دعا کو رد کرنا تھا یہ قربانی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا اللہ سے عشق ہے کہ اپنے نواسے کی پیاری آل اوکاد کی زندگی کا سوال کرنا تو دور کی بات سوچا تک نہیں یہ نہ سوچنا نہ سوال کرنا عشق ہے۔جو نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اللہ سے کیا ۔

اس طرف حضرت حسین نے بھی اللہ کو انکے حبیب صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا واسطہ نہیں دیا کہ انکو آل اولاد کو اللہ بچا لے اللہ کی بارگاہ میں کوئی سوال نہیں کیا اور اللہ کی راہ میں اپنی آل اولاد سمیت چپ چاپ قربان ہو گئے اس قربانی کا نام عشق ہے جو اللہ اور اسکے پیار حبیب نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے کیا ۔

اس طویل بحث کے بعد ایک بات تو روز عیاں کی طرح واضح ہو گئے ہو گی عشق پاک جزبے کا نام ہے اسمیں کوئی ہوس کوئی غرض نہیں ہوتی بس اللہ اسکے محبوب کی خوشنودی دیکھی جاتی ہے ۔

اہل اسلام جو لفظ عشق نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے لیے استعمال کرتے ہیں یہ بالکل شریعت کے مطابق ہے۔پیار میں ہوس ہوسکتے محبت میں بھی کوئی ضرورت ہوسکتی ہے لیکن عشق میں کوئی ہوس نہیں ہوتی صرف الہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی خوشنودی ہوتی ہے ۔

جہاں تک یہ سوال ہے کہ عشق لفظ اپنی ماں بہن بیٹی کیلے استعمال کر سکتے ہو تو جب پیار جیسا بازاری لفظ جو دو ناسمجھ جوان لوگ بات بات پہ استعمال کر سکتے ہیں محبت جیسا لفظ استعمال کر سکتے ہیں یہ نا سمجھ جوان لوگ تو اپنے محبوب کیلے بھی یہی لفظ اور اپنی ماں بہن بیٹی کیلیے بھی تو عشق تو ایک پاک جزبہ ہے ۔
عشق ایسا جزبہ ہے کہ جسکی خاطر جان دی بھی جا سکتی ہے اور لی بھی جا سکتی لیکن پیار اور محبت کے جزبے میں ضروری نہیں کہ جان دی جا سکے یا لی جا سکے ماں بہن بیتی سے بھی عشق ہوسکتا ہے کہ انسان اپنی ماں اور بہن کی حرمت و عزت کی خاطر کسی کی جان لے بھی سکتا ہے اور دے بیھی ستا ہے ۔
جب کتا اپنے مالک کی خاطر اپنی جان داؤ پہ لگا سکتا ہے تو یہ کتے کا مالک سے کیا ہے یہ کتے کا اپنے مالک سے صرف پیار نہیں عشق ہے کیوں جان کی بازیاں صرف عشق کی جزبے میں لگائیئ جاتی ہیں جب چڑیا اپنے سے ہزار گنا بڑے عقاب سے اپنے بچوں کی خاطر اپنے بچوں کی جان بچانے کی خاطر عقاب پہ حملہ کر سکتی ہے تو یہ پروا نہ کرنا کیا پے صرف پیار ہے نہیں یہ اپنے بچوں کیلیئے مامتا ہے عشق ہے جو اپنی جان کی پروا نہیں کرتی۔یہ پروا نہ کرنا عشق ہے۔جب بے بے زبان جانداروں کو اپنے بچوں سے عشق ہو سکتا ہے تو ہمیں اپنی بہن بیٹی اور ماں سے عشق کیوں نہیں ہوسکتا۔پیار تو لڑکوں کو ہر دوسری لڑکی سے ہوجاتا ہے لیکن جب انہیں کسی صنف نازک سے عشق ہو گا تو ہر طرح کی ہوس نفسانی ہوس ختم ہو جائے گی۔اس ہوس کے خاتمے کا نام عشق ہے ۔
اکثر وہابیوں دیو بندیو سے جب بحث ہوتی ہے تو جب ہم سنی مسلمان اپنےلیے عاشق رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو یہ لوگ ہمیں کہتے ہیں کہ تم جو محمد صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم کےلیئے عاشق رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم استعمال کرتے ہو یہ بازاری لفظ ہے یہ صنف نازک کیلے استعمال کیا جاتا ہے تم کتنی گھٹیا بازاری زبان اور لفظ نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم کیلے استعمال کرتے ہو ۔ قرآن میں کہاں عشق کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔کیا تم اپنی ماں بہن بیٹی کیلے یہ لفظ استعمال کر سکتے ہو ۔

تو ان کو جواب دینے سے پہلے میں بتا دوں قرآن و حدیث میں اللہ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم کو حبیب کہہ کر پکارا ہے محبوب لفظ اسی سے دریافت ہوتا ہے اور یہی محبوب لفظ صنف نازک کیلے استمال کیا جاتا ہے کیا اللہ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم کو محبوب کہہ کے معاذ اللہ ثم معاذ اللہ بازاری زبان میں نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم سے خطاب کیا ہے ۔ حبیب اسکو کہتے ہیں جو محبوب ہو محبوب لفظ حبیبسے نکلتا ہے اور محبوب وہ ہوتا ہے جس سے محبت ہو عشق ہو ۔ شاعر اپنے عاشق کیلے محبوب کا لفظ استعمال کرتا ہے ۔ اب دیابنہ اور وہابیہ سے گذارش ہے تم اپنی ماں ، بہن اور بیٹی کو محبوبہ کہہ کر کیوں نہیں بلاتے ہو ؟

اس پہ بات کرنے سے پہلے کہ ہم سنی کیا بازاری لفظ استعمال کرتے ہیں آئیں دیکھتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم اللہ تعالی کے محبوب تھے یا نہیں کیا اللہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم کا عاشق تھا یا نہیں آئیں دیکھتے ہیں ۔ کیا قرآن و احادیث میں نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم کو حبیب نہیں کہا گیا ۔ کیا اللہ پاک کے محبوب بندے اور رسول اور محبوب ہستی نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم نہیں ہیں ۔ کیا اللہ نے قرآن میں نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم کی جان کی قسم نہیں کھائی اور جان کی قسم بھی اسی کی کھائی جاتی ہے جو جان سے زیادہ پیارا ہوتا ہے عزیز ہوتا ہے اور جان سے پیارا اور عزیز بھی وہی ہوتا ہے جسکا کوئی عاشق ہوتا ہے یا جسکا وہ محبوب ہوتا ہے۔ کیا قرآن میں اللہ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم کی زلفوں کی قسم نہیں کھائی۔کیا اللہ نے پیار سے نبی پاک کیلے یا ایّھاالمدثر کہہ کر نہیں پکارا ۔ کیا اللہ نے حدیث میں یہ نہیں فرمای مفہوم حدیث ا اے میرے حبیب صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم اگر میں آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم کو نہ بناتا تو کچھ بھی نہ بناتا نہ امین نہ آسمان نہ عرش فرش نہ جن نہ انس نہ جنت نہ دوزخ غرض کچھ نہیں میں اپنے آپ کو بھی چھپا دیتا اپنے آپکو بھی ظاہر نہیں کرتاالمصنف ، مواہب الدنیہ ، نشرالطیب) ۔

کیا اتنی بڑی بات کوئی کسی کیلے کہہ سکتا ہے کہ میں اپنے آپکو بھی ظاہر نہیں کرتا ایسا وہی کر سکتا ہے جسکا وہ محبوب ہو جسکیلے وہ بات کر رہا ہے یا وہ اسکا عاشق ہو جسکی خاطر وہ ہستی اتنی بڑی بات کر رہی ہے۔جب اللہ پاک نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم کا عاشق ہے ۔ جب اللہ پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم کے محبوب نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم ہیں تو ہم مسلمانان اہلسنت و جماعت اللہ کی اس سنت اس طریقے پہ عمل کیوں نہ کریں کیوں نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم کو اپنی زندگی کی محبوب ہستی نہ کہیں کیوں ہم سنی خود کو نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم کا عاشق نہ کہیں ۔ اور جب اللہ تعالیٰ نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم کو حبیب کہتا ہے تو حبیب وہی ہوتا ہے جو محبوب ہوتا ہے اور محبوب وہی ہوتا ہے جسکا کوئی عاشق ہوتا ہے ۔ اگر اللہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم کا عاشق ہے تو ہم اللہ پاک کے اس طریقے سنت سے روگردانی کیوں کریں اگر اللہ کے محبوب نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم ہیں تو ہم سنیوں کے محبوب بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم ہیں اور ہم اللہ کی سنت پہ عمل کرتے ہوےئ عاشق رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم ہیں ۔
کیا اللہ قرآن میں حدیث میں حبیب کہہ کے نہیں پکارتا کیا محوب لفظ حبیب لفظ سے دریافت نہیں ہوتا اور کیا محبوب وہی نہیں ہوتا جسکا کوئی عاشق ہو کیا اللہ پاک نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم کیلے حبیب کا لفظ استعمال کر کے معاذ اللہ ثم معاذ اللہ بازاری زبان میں نعاذ باللہ خطاب کر رہا ہے۔اللہ پاک کا جو محبوب صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم ہمارے بھی وہ محبوب ہیں جو اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں ۔ ہم سنی بھی اسی محبوب صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم کے عاشق ہیں ۔ اللہ تعالیٰ جن کا محب ہے ۔ اور ہم مسلمانان اہلسنت و جماعت عاشقان رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم ۔
عشق اور لفظ عاشق پہ فتوی لگانے والوں وہابیو دیوبندیو اللہ تعالیٰ نے جو حبیب لفظ قرآن اور احادیث میں استعمال کیا ہے جسکا مطلب محبوب ہوتا ہے اور محبوب بھی وہی ہوتا ہے جسکا کوئی عاشق ہوتا ہے اس پہ فتوی لگا سکتے ہو اللہ کے اس لفظ حبیب کو چیلنج کر سکتے ہو ایسا سوچو گے بھی تو اللہ تمہیں عبرت کا نشان بنا دئیگا ۔ بےشک
اللہ ہمیں نبی پاک کا سچا عاشق رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم بنا دے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم کے گستاخوں کو نیست و نابود کر دے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان بد مذہبوں سے بچائے جو نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے عشق کو نعوذ بااللہ بازاری لفظ سے تعبیر کرتے ہیں اللہ انہیں سچ جھوٹ حق و باطل پہچاننے اور ان میں تمیز کرنیکی توفیق دے ۔ اللہ ہم مسلمانان اہل سنت و جماعت کو سچا عاشق رسول بنائے تاکہ ہم دشمنان رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا ایسے ہی منہ توڑ جواب دیتے رہیں ۔ آمین یا رب العالمین ۔ جزاک اللہ ۔ دعا گو و طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...