Saturday 30 December 2017

کیا شیخ عبد القادر جیلانی کو غوث اعظم کہنا شرک ہے ؟

1 comments
کیا شیخ عبد القادر جیلانی کو غوث اعظم کہنا شرک ہے ؟










کچھ لوگ عقیدہ توحید کی غلط تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں : غوث اعظم صرف اﷲ تعالیٰ ہے ،لہٰذا حضرت شیخ سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ کو غوث اعظم کہنا شرک و کفر ہے ۔ العیاذبا اﷲ من ذالک

اس مغالطہ کا جواب یہ ہے کہ غوث کا معنی مددگار ہے اور ولی کا ایک معنی بھی مددگار ہے ۔ لہٰذا غوث اعظم رحمۃ اﷲ علیہ کا معنی سب سے بڑا ولی اﷲ ہے اور تمام سلاسل روحانیہ کے اولیاء علیہم الرّحمہ کا اتفاق ہے کہ امت مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے سب سے بڑے ولی اﷲ حضرت غوث اعظم شیخ سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ ہیں ۔

اس وضاحت کے بعد واضح ہو گیا کہ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ کو غوث اعظم رحمۃ اﷲ علیہ کہنے کا معنی یہ ہے کہ آپ اولیاء کرام علیہم الرّحمہ میں سے بڑے ولی ہیں جس طرح حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ کو صدیق اکبر اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو فاروق اعظم کہا جاتا ہے ۔یا جیسا کہ ائمہ مجتہدین میں امام ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ کو امام اعظم کہا گیا ہے اور تحریک پاکستان کے قائدین میں سے مسٹر محمد علی جناح کو قائد اعظم کہا جاتا ہے ،تو کیا اگر کوئی کہے کہ صدیق اکبر ،فاروق اعظم ،امام اعظم اور قائد اعظم تو اﷲ ہے ؟ تو ایسے قائل کو جو جواب دیا جائے گا وہی جواب غوث اعظم کے لفظ پر اعتراض کرنے والے کو دیا جائے گا ۔

بلکہ میں کہوں گا کہ جو الفاظ عرف میں بندگان خدا کے لئے بولے جاتے ہیں ان الفاظ کواﷲ تعالیٰ کے لئے بولنا اﷲ تعالیٰ کو شان الوہیت سے نیچے لاکر بندو ں کی صف میں لانے کے مترادف ہو گا ۔

اب آیئے اس موضوع پر فریق مخالف کے اکابرین کے حوالہ جات کی روشنی میں اس مسلہ کو دیکھتے ہیں :

مولانا نواب صدیق حسن خان بھوپالی غیر مقلد کا عقیدہ : علامہ نواب صدیق حسن خان بھوپالی اپنی فارسی زبان کی کتاب ’’بغيدالرائد فی شرح العقائد‘‘ سن اشاعت 1301ھ ہے یعنی آج سے تقریباً 128 سال پہلے کا یہ نسخہ ہے ۔ آیئے اسے کتاب کے ذریعے مولانا نواب صدیق حسن خان بھوپالی کے عقائد کی طرف ایک نظر دوڑاتے ہیں۔

علامہ بھوپالی اپنی اس مذکورہ کتاب کے ص 66 پر قیامت کا تذکرہ کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کا ذکر کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام قیامت کے روز ظاہر ہوگا اور قیامت کے دن کا انعقاد ہی شان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دکھانے کے لئے ہے۔ علامہ بھوپالی لکھتے ہیں :
’’آں روز روز اوست وجاہ جاہِ اوست‘‘
یعنی وہ دن تو دن ہی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہوگا اور قیامت کے دن شان ہی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان ہوگی وہی دیکھنے والی ہوگی۔ پھر لکھتے ہیں : اَللّٰهُمَّ بِحَقِّ جَاهِ مُحَمَّدٍ اِغْفِرْلَنَا.
’’اے اللہ، مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کے صدقے ہماری مغفرت فرما‘‘۔

آج علامہ بھوپالی کے ماننے والے غیر مقلد اہلحدیث حضرات اپنے عقیدے میں ان الفاظ کے ساتھ دعا کرنے کو شرک قرار دیتے ہیں اور ان میں سے بعض یہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے دعا کرنا صرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی تک تھا بعد از وصال جائز نہیں اور یہ احباب حیات النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بھی قائل نہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جسمانی طور پر زندہ نہیں مانتے ۔

تعجب کی بات ہے کہ علامہ بھوپالی کے ماننے والوں میں یہ تبدیلی کس طرح آگئی کہ ان کے امام تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روز قیامت دکھائی جانے والی شان کے وسیلہ سے مغفرت طلب کر رہے ہیں جبکہ ان کے پیروکار اسی عقیدہ کو شرک قرار دے رہے ہیں ۔
اسی کتاب کے صفحہ 79 پر حیات انبیاء علیہم السلام کے حوالے سے ذکر کرتے ہیں کہ : ’’انبیاء اموات نبود، زندہ بود‘‘ ’’انبیاء مردہ نہیں ہوتے، زندہ ہوتے ہیں‘‘۔
پھر لکھتے ہیں کہ ’’ایک بار موت کے وقت ان کی روح جسم سے نکالی جاتی ہے اور اس کے فوری بعد روح، بدن میں لوٹا دی جاتی ہے اور وہ جسم اور روح کے ساتھ قبروں میں زندہ ہوتے ہیں‘‘۔

علامہ بھوپالی کے ذکر کردہ یہ الفاظ ہمارا عقیدہ ہیں جبکہ ان کے ماننے والوں کا عقیدہ یہ ہے کہ (معاذاللہ) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اب حیات نہیں ہیں ، جسمانی طور پر زندہ نہیں ہیں، (معاذاللہ) مٹی ہوگئے صرف روح ہی روح ہے۔ الغرض وہ کلیتاً موت کے قائل ہیں جبکہ مولانا بھوپالی اپنے ماننے والوں کے اس عقیدے کو رد کر رہے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح جسم میں لوٹا دی گئی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حیات ہیں ۔

حکیم الامت دیوبند علامہ اشرف علی تھانوی کا عقیدہ : علامہ اشرف علی تھانوی صاحب نے ’’امداد المشتاق‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات کو جمع کیا اور ان فرمودات کی شرح کی ۔

حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، مولانا قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا خلیل احمد انبیٹھوی اور اکابر علمائے دیوبند کے بھی شیخ ہیں اور یہ سب ان کے خلفاء، مریدین اور تلامذہ میں شمار ہوتے ہیں۔ گویا آپ کُل کے شیخ ہیں اسی لئے ان کو شیخ الکل اور شیخ العرب والعجم بھی کہتے ہیں، حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو بھی ان سے خلافت حاصل ہے گویا آپ مرجع ہیں۔

مولانا تھانوی صاحب امداد المشتاق کے صفحہ 44 پر حضرت امداد اللہ مہاجر مکی کا قول بیان کرتے ہیں کہ حضور سیدنا غوث الاعظم کے کچھ مریدین کشتی میں سفر کر رہے تھے، آپ اس وقت کچھ اولیاء کے ہمراہ بغداد میں موجود تھے، کشتی، طوفان میں غرق ہونے لگی تو حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے توجہ باطنی سے اس کشتی کو غرق ہونے سے بچا لیا۔ تھانوی صاحب لکھتے ہیں ۔
’’ایک دن حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ سات اولیاء اللہ کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے، ناگاہ نظرِ بصیرت سے ملاحظہ فرمایا کہ ایک جہاز قریب غرق ہونے کے ہے، آپ نے ہمت و توجۂ باطنی سے اس کو غرق ہونے سے بچا لیا‘‘۔
لطف کی بات یہ ہے کہ یہ کتاب، مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کی تالیف ہے اور وہ اپنے قلم سے حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی کو ’’حضرت غوث الاعظم‘‘ لکھ رہے ہیں۔ کیا آج ان کے پیروکار حضور سیدنا غوث الاعظم کو غوث الاعظم کہنے کو تیار ہیں؟
اسی کتاب کے صفحہ 71 پر ایک سوال کا جواب دیتے ہیں کہ کسی نے کہا کہ یہ جو مشہور ہے کہ حضور سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی مردوں کو کہتے ’’قُمْ بِاِذْنِیْ‘‘ ’’میرے حکم سے زندہ ہوجا‘‘، تو آپ کے حکم سے مردے زندہ ہوجاتے، کیا اس بات میں کوئی حقیقت ہے ؟
اپنی کتاب میں تھانوی صاحب بحوالہ حضرت امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ اس کا جواب لکھتے ہیں اور پھر اس کو رد نہیں کرتے بلکہ فائدہ میں اس کی تائید کرتے ہیں ۔
جواب لکھتے ہیں : ہاں یہ درست ہے اس لئے کہ حضور سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ قربِ نوافل کے درجے میں تھے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام ’’قُمْ بِاِذْنِ اللّٰه‘‘ (اللہ کے حکم سے زندہ ہوجا) کہہ کر مردہ زندہ کرتے اور آپ قربِ فرائض کے درجے میں تھے، آپ کا مرتبہ اونچا تھا۔ قربِ فرائض کے درجے میں قُمْ بِاِذْنِ اللّٰه کہے تومردے زندہ ہوتے ہیں اور قربِ نوافل کے درجے میں ولی قُمْ بِاِذْنِیْ کہے تو مردے زندہ ہوتے ہیں۔ لہذا اس عقیدے کو کفر اور شرک کہنا جہالت ہے ۔
اسی طرح صفحہ 110 پر تھانوی صاحب لکھتے ہیں کہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی فرماتے ہیں کہ ’’میں جب مکہ گیا (ان کی قبر مبارک بھی مکہ معظمہ، جنت المعلی میں ہے) تو میرے پاس کھانے پینے کا کوئی سامان نہ تھا، فاقے آتے رہے، میں نے ایک دن کسی سے قرض مانگا، اس نے مجھے انکار کر دیا، پریشان تھا۔ (آپ چونکہ سلسلہ چشتیہ میں بیعت تھے) ایک دن مکہ معظمہ میں حضرت خواجہ معین الدین اجمیری چشتی کی زیارت ہوئی اور فرمایا کہ امداد اللہ اب کسی سے قرض نہ مانگنا، آج کے بعد آپ کا خزانہ بھرا رہے گا۔ اس کے بعد کبھی فاقہ نہ آیا، خزانہ بھرا رہتا ہے، لنگر بھی چلتا ہے اور تقسیم بھی کرتا ہوں ۔
اسی طرح صفحہ 78 پر تھانوی صاحب، حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’حضور غوث الاعظم پر ہمیشہ ایک بادل سایہ کئے رکھتا تھا اور یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزہ کی برکت تھی ۔
تھانوی صاحب یہ سب کچھ لکھ کر رد نہیں کرتے بلکہ فائدہ کے عنوان سے ہیڈنگ قائم کرکے اس کی تائید بھی کرتے ہیں ۔
اسی طرح صفحہ 92 پر لکھتے ہیں کہ اولیاء اللہ کے ایام اور عرس کے موقع پر نذر و نیاز کا طریقہ قدیم زمانے سے جاری ہے (حیرت ہے) اس زمانے کے لوگ انکار کرنے لگ گئے ہیں ۔
میلاد شریف کے حوالے سے حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کا قول تھانوی صاحب لکھتے ہیں کہ میلاد شریف کا انعقاد میں بھی کرتا ہوں، شرکت بھی کرتا ہوں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد شریف میں سلام پر قیام بھی کرتا ہوں اور لذت بھی پاتا ہوں۔ کسی نے اس عمل کی دلیل پوچھی تو فرمایا : مولد شریف تمامی اہل حرمین شریفین کرتے ہیں۔ ہمارے لئے تو حرمین شریفین کا عمل ہی کافی ہے اور حجت ہے۔ (یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کے اہلِ حرمینِ شریفین کی بات کررہے ہیں)
یہ چند نمونے میں نے آپ کو مثا ل کے طور پر بیان کئے کہ ان مسالک و مکاتب فکر کے ائمہ کے اصل عقائد یہ تھے ۔ افسوس آج ان ہی کے پیروکار اپنے ائمہ ہی کی عقائد کی تردید کرتے نظر آتے ہیں ۔

تھانوی صاحب نے اپنے پیرومرشد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کے لئے عربی زبان میں استغاثہ لکھا ہے یعنی ان کو مدد کے لئے پکارا اور یہ تھانوی صاحب کی کتاب ’’ارواحِ ثلاثہ‘‘ میں درج ہے لکھتے ہیں :

يَا مُرْشَدِیْ يَا مَوْلَائِیْ يَا مَفْزَئِیْ
يَا مَلْجَیءِ فِی مَبْدَئِیْ وَمَعَادِیْ

اِرْحَمْ عَلَیَّ يَاغَيَاث فَلَيْسَ لِیْ
کَافِیْ سِوَا حُبُّکَ مِنْ ذالِیْ

يَاسَيِّدِی لِلّٰهِ شَيْئًا اِنَّه
اَنْتُمْ لِیْ مَجْدِیْ وَاِنِّیْ جَالِی

تھانوی صاحب اپنے مرشد کے بارے لکھ رہیں ہیں ۔ ’’اے میرے مرشد حاجی امداد اللہ شيئا للّٰه‘‘ مگر جب ہم ’’يا شيخ عبدالقادر جيلانی شيئا للّٰه‘‘ کہیں تو تھانوی صاحب کے پیروکار اسے شرک قرار دیتے ہیں۔ یہی جملے تھانوی صاحب اپنے مرشد کے لئے لکھ رہے ہیں تو اس کو شرک قرار نہیں دیا جاتا۔ اگر یہ شرک ہے تو بشمول تھانوی صاحب سارے ہی مشرک ہیں، کوئی مسلمان نہیں بچتا اور اگر ’’يا حاجی امداد الله مهاجر مکی رحمة الله عليه شيئا للّٰه‘‘ کہنا جائز ہے تو دوسرے اکابر اولیاء کے لئے بھی جائز ہے ۔

پھر تھانوی صاحب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں استغاثہ پیش کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں :

يَاشَفِيْعَ الْعِبَاد خُذْ بِيَدِیْ
اَنْتَ فِی الْاضْطِرَارِ مُعْتَمَدِیْ

’’اے لوگوں کی شفاعت کرنے والے میرے ہاتھ تھام لیجئے۔ مصائب و مشکلات میں آپ پر ہی میں اعتماد و بھروسہ کرتا ہوں‘‘۔

لَيْسَ لِیْ مَلْجَاءِ سِوَاکَ اَغِثْ
مَسَّنِیَ الضُّرُّ سَيِّدِیْ سَنَدِیْ

’’آپ کے سوا میرا کوئی ملجاء نہیں میری مدد کیجئے۔ میں تکلیف میں مبتلا ہوں میرے سردار میری مدد کو پہنچئے‘‘۔

غَشَّنِیَ الدَّهْر يَابن عَبْدِاللّٰه
قُمْ مُغِيْثًا فَاَنْتَ لِیْ مَدَدِیْ

’’یامحمد بن عبداللہ، میرے سرکار سارے زمانے نے مجھے گھیر لیا ہے میرے غوث بن جایئے، میری مدد کیجئے آپ ہی میری مدد ہیں، کوئی میرا نہیں جسے مدد کے لئے پکاروں‘‘۔

دیوبندیوں کا حاجت روا ، غوث اعظم ، دستگیر اور دیوبندی مولوی کے وسیلہ سے دعا

ایصال ثواب جائز،دیوبندی پیروں کے وسیلہ سے دعا بحرمت کہہ کر کرنا جائز، دیوبندی پیر دستگیر بھی ہیں اور مشکل کشاء بھی ۔ ( فیوضات حسینی صفحہ نمبر 68 دیوبندی علماء)

قطب العالم دیوبند غوث اعظم ہے (سب سے بڑا فریاد رس) قطب العام دیوبند نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ثانی ہے ہے ۔ (مرثیہ گنگوہی صفحہ 4 از قلم شیخ الہند دیوبند محمود حسن )

دیوبندیوں کا حاجت روا مشکل کشاء:اب ہم اپنی دین و دنیا کی حاجتیں کہاں لے جائیں وہ ہمارا قبلہ حاجات روحانی و جسمانی گیا۔(مرثیہ گنگوہی صفحہ 7 شیخ الہند دیوبند محمود حسن)

دیوبندیوں کا قطب العالم ، غوث زماں گنج عرفاں دستگیر بیکساں مولوی رشید احمد گنگوہی ہے ۔ (تذکرۃُ الرشید جلد دوم صفحہ 136) کیوں جی یہ شرک نہیں ہے ؟؟

ہم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو غوث اعظم کہیں تو شرک کے فتوے اور دیوبندی اپنے گنگوہی کو غوث الاعظم لکھیں تو جائز۔ تذکرۃ الرشید جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 2) کیوں جی دیوبندیو یہاں شرک ہوا کہ نہیں ؟

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ پر شیطان کے حملے کا مشہور واقعہ لکھتے ہوئے حکیم الامت دیوبند نے آپ کو غوث الاعظم لکھا ۔(امداد المشتاق صفحہ نمبر 77 )

حکیم الامتِ دیوبند نے امداداد المشتاق کے صفحہ نمبر 44 پر تین بار حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃُ اللہ علیہ کو غوث اعظم ، غوث پاک لکھا ۔ کیا یہ بھی مشرک ہوئے ؟

امداد المشتاق کے صفحہ 45 پر حکیم الامتِ دیوبند نے تین بار شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃُ اللہ علیہ حضرت غوث پاک ، حضرت غوث لکھا ۔ یہ مشرک ہوئے کہ نہیں ؟

علامہ احتشام الاحسن کاندھلوی دیوبندی نے اپنی کتاب غوث اعظم کے صفحہ 5 اور صفحہ 8 اور ٹائیٹل پیج پر حضرت شیخ عبد القادری جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو غوث اعظم اور قطب الاقطاب لکھا ۔ کیا یہ بھی مشرک ہوئے ؟

اگر یہی الفاظ مسلمانان اہلسنت نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اور اولیاء کرام علیہم الرّحمہ کےلیئے استعمال کرتے ہیں تو شرک کے فتوے مگر اہنے مردہ مٹی میں مل جانے اور گل سڑ جانے والے مولوی کےلیئے یہ سب کچھ جائز ہے آواز دو انصاف کو انصاف کہاں ہے ؟ اور اب تک کسی دیوبندی عالم اور پر جوش موحد نے اس کتاب پر اور لکھنے والے پر نہ کوئی فتویٰ لگایا اور نہ ہی رد لکھا آخر یہ دہرا معیار کیوں جناب اور امت مسلمہ پر فتوے لگا کر وہی افعال خود اپنا کر منافقت دیکھا کر تفرقہ و انتشار کیوں پھیلایا جاتا ہے آخر کیوں ؟ اصل اسکن پیش خدمت ہیں فیصلہ اہل ایمان خود کریں مسلمانان اہلسنت یہ نظریات رکھیں اور کہیں تو شرک کے فتوے اور دیوبندی خود سب کچھ کریں تو جائز آخر یہ دہرا معیار و منافقت اپنا کر امت مسلمہ میں تفرقہ و انتشار کیوں پھیلایا جاتا ہے ؟

اتحادِ امت کا تیر بہدف نسخہ : سوچیں اگر کم از کم برصغیر پاک و ہند کے لوگ سب کچھ بھلا کر ہر مسلک و مکتب فکر کے بانیان کے عقائد جن کا اوپر تذکرہ ہوا، ان پر اجماع کر لیں اور سارے اس پر عمل پیرا ہو جائیں تو کیا امت میں کوئی تفرقہ باقی رہے گا ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا کلام یا ان کی کتب سے حوالے اس لئے نہیں دیئے کہ ان کے عقائد ہی یہ ہیں اور ان کے ماننے والے بھی انہی عقائد پر عمل پیرا ہیں ۔ پس اگر وہ خیالات جو خود وضع کر لئے گئے اور جن کی بناء پر اختلافات پیدا ہوگئے ہیں اگر تمام علماء ان خیالات کو چھوڑ کر اکابر کی اپنی تحریروں، عبارتوں، عقائد، تصریحات و تائیدات پر مجتمع ہو جائیں تو کم از کم برصغیر پاک و ہند کی حد تک امت مجتمع ہو جاتی ہے اور وحدت کی لڑی میں پروئی جاتی ہے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

1 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔