Wednesday 13 December 2017

تسکین الخواطر فی مسئلۃ الحاضر والناظر لفظ حاضر و ناظر کے معنیٰ کی تحقیق

1 comments
تسکین الخواطر فی مسئلۃ الحاضر والناظر لفظ حاضر و ناظر کے معنیٰ کی تحقیق

حاضر کا مادہ ’’حضر‘‘ اور ناظر کا مادہ ’’نظر‘‘ ہے۔ حضر سے ’’الحضور‘‘ مصدر بنا۔ جس سے حاضر مشتق ہوا۔ حضر، حضور اور حاضر کے بہت سے معنے کتب لغت میں مرقوم ہیں۔ مثلاً حضر کے معنی پہلو، نزدیکی، صحن، حاضر ہونے کی جگہ وغیرہ ہیں اور حاضر کے معنیٰ شہروں اور بستیوں میں رہنے والا، بڑا قبیلہ وغیرہ آتے ہیں۔ یہ تمام معانی منجد مختار الصحاح اور مجمع بحار الانوار وغیرہ کتابوں میں درج ہیں۔ (۱)
ان کے علاوہ جن معنیٰ سے ہماری بحث خصوصیت کے ساتھ متعلق ہے، ان کی تفصیل یہ ہے۔ حضر، حضرۃ، حضور سب کے معنیٰ ہیں سامنے ہونا اور حاضر کے معنیٰ ہیں سامنے ہونے والا۔
جو چیز کھلم کھلا بے حجاب آنکھوں کے سامنے ہو اسے حاضر کہتے ہیں۔ منجد، صراح اور مختار الصحاح میں ہے کہ حضرۃ اور حضور غیبۃ کی ضد ہیں۔ (۱) اور لغتِ قرآن کی مشہور کتاب مفردات (۲) امام راغب اصفہانی میں یہ بھی لکھا ہے کہ جو چیز سامنے نہ ہو یعنی حواس سے دور آنکھوں سے پوشیدہ ہو اسے غائب اور غیب کہتے ہیں۔ جب یہ ثابت ہوگیا کہ حاضر غائب کی ضد ہے اور اس کے بعد یہ بھی معلوم ہو گیا کہ غائب اسے کہتے ہیں جو حواس سے دور ہو اور نگاہوں کے سامنے نہ ہو تو اب یہ بات ثابت ہو گئی کہ حاضر اسی کو کہا جائے گا جو حواس سے پوشیدہ نہ ہو اور کھلم کھلا بے حجاب آنکھوں کے سامنے موجود ہو۔
ہمارے اس روشن بیان سے ناظرین کرام نے اچھی طرح سمجھ لیا ہو گا کہ لفظ حاضر اپنے حقیقی لغوی معنی کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی شان کے ہرگز لائق نہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ شہروں اور بستیوں میں رہنے اور قبیلہ ہونے سے پاک ہے۔ جتنے معانی لفظ حاضر کے منقول ہوئے اللہ تعالیٰ ان سب سے منزّہ و مبرّا ہے۔ قرآن کریم شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ حواس اور نگاہوں کے ادراک سے بھی بلند و بالا ہے۔
دیکھئے قرآن مجید میں ہے۔
لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ وَھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ o
ترجمہ: آنکھیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں وہ تمام آنکھوں کا ادراک فرماتا ہے اور وہ لطیف و خبیر ہے۔
حاضرکے بعد لفظ ’’ناظر‘‘ کے معنیٰ کی تحقیق سنیٔے۔ مختار الصحاح (۱) میں ہے آنکھ کے ڈیلے کی سیاہی کو جس میں آنکھ کا تل ہوتا ہے، ناظر کہتے ہیں اور کبھی آنکھ کو ناظرہ کہا جاتا ہے۔
ناظر کا ماخذ نظر ہے۔ مفرداتِ راغب، مختار الصحاح، منجد اور صراح میں نظر کے حسب ذیل معنیٰ(۲) منقول ہیں۔
کسی امر میں تدبر اور تفکر کرنا، کسی چیز کا اندازہ کرنا، آنکھ کے ساتھ کسی چیز میں غور و تامل کرنا اور کسی چیز کا ادراک کرنے یا اسے دیکھنے کی غرض سے بصر و بصیرت کو پھیرنا۔ اس کے علاوہ نظر سے کبھی تامل و تلاش کے معنی بھی مراد لئے جاتے ہیں اور کبھی اس سے وہ معرفت اور رؤیت مراد ہوتی ہے جو تلاش کے بعد حاصل ہو۔
امام راغب اصفہانی (۱) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں کی طرف نظر فرمانے کے معنیٰ دیکھنا نہیں بلکہ صرف یہ معنیٰ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر احسان فرماتا ہے اور انہیں اپنی نعمتیں پہنچاتا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشادفرمایا
وَلَا یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ وَلَا یَنْظُرُ اِلَیْہِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ط
ترجمہ: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کفار سے کلام نہ فرمائے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گا۔
مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دِن کافروں پر اللہ تعالیٰ کا کوئی انعام واحسان نہ ہو گا۔
تفسیر روح المعانی (۲) میں اسی آیۂ کریمہ کی تفسیر میں ہے ’’لَا یَنْظُرُ اِلَیْہِمْ‘‘ کے معنیٰ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ’’کفار‘‘ پر مہربانی اور رحم نہیں فرمائے گا۔ اس کے بعد صاحب تفسیر (۳) فرماتے ہیں کہ جس کے حق میں لفظ ’’نظر‘‘ کا استعمال جائز نہیں (جیسا کہ اللہ تعالیٰ) اس کے لئے اگر یہ لفظ کبھی استعمال ہوا ہے تو وہ اپنے اصلی معنیٰ سے مجرد ہے اور صرف احسان کے معنیٰ میں ہے۔
لغت حدیث کی مشہور کتاب مجمع بحار الانوار (۱) میں ہے کہ حدیث پاک ’’اِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ اِلیٰ صُوَرِکُمْ‘‘ الیٰ اخر الحدیث میں نظر کے معنی دیکھنا نہیں بلکہ یہاں پسندیدگی رحمت اور مہربانی مراد ہے۔ اس کے بعد صاحب بحار الانوار فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نظر کے یہ معنی ہیں کہ وہ اپنے بندوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیتا ہے اور ان کا محاسبہ فرماتا ہے۔
اس روشن اور مدلل بیان کو پڑھ کر ہمارے ناظرین کرام نے اچھی طرح سمجھ لیا ہو گا کہ ان دونوں لفظوں کے اصلی اور حقیقی معنیٰ اللہ تعالیٰ کے شایان شان نہیں بلکہ ان معانی سے اللہ تعالیٰ کا پاک ہونا یقینی امر ہے۔
اس کے بعد یہ حقیقت خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ جب حاضر و ناظر کے اصلی معنیٰ سے اللہ تعالیٰ کا پاک ہونا واجب ہے تو ان لفظوں کا اطلاق بغیر تاویل کے ذات باری تعالیٰ پر کیوں کر ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسمایٔ حسنیٰ میں حاضر و ناظر کوئی نام نہیں اور قرآن و حدیث میں کسی جگہ حاضر و ناظر کا لفظ ذات باری تعالیٰ کے لئے وارد نہیں ہوا نہ سلف صالحین نے اللہ تعالیٰ کے لئے یہ لفظ بولا۔ کوئی شخص قیامت تک ثابت نہیں کر سکتا کہ صحابہ کرام یا تابعین یا آئمہ مجتہدین نے کبھی اللہ تعالیٰ کے لئے حاضر و ناظر کا لفظ استعمال کیا ہو۔
اور اسی لئے متاخرین کے زمانہ میں بعض لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر کہنا شروع کیا تو اس دور کے علماء نے اس پر انکار کیا بلکہ بعض علماء نے اس اطلاق کو کفر قرار دے دیا۔ بالآخر یہ مسئلہ (کہ اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر کہنا کفر ہے یا نہیں) جمہور علماء کے سامنے پیش ہوا تو انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ چونکہ اس میں تاویل ہو سکتی ہے اس لئے یہ اطلاق کفر نہیں اور تاویل یہ کی ’’حضور‘‘ کو مجاز اعلم کے معنی میں لیا جائے اور ’’نظر‘‘ کے مجازی معنی رؤیت مراد لے لئے جائیں۔ اس تاویل کے بعد جب اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر کہا جائے گا تو یہ اطلاق علیم و بصیر اور عالم من یریٰ کے معنیٰ میں ہو گا۔ ملاحظہ فرمایئے در مختار اور شامی (۱)
رہا یہ سوال کہ یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ بعض علماء نے اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر کہنا کفر قرار دے دیا تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ صاحب درمختار کا ’’یا حاضر یا ناظر لیس بکفر‘‘ کہنا ہی اس امر کی روشن دلیل ہے کہ بعض علماء نے اس کو کفر کہا تھا ورنہ صاحب در مختار کا یہ قول بالکل لغو اور بے معنی قرار پائے گا کیوں کہ جب تک کوئی امر قابل انکار اور لائق تردید موجود نہ ہو اس وقت تک انکار اور تردید ممکن ہی نہیں! دیکھئے آج تک کسی نے یہ نہیں لکھا کہ اللہ تعالیٰ کو رحمن و رحیم کہنا کفر نہیں کیوں؟ محض اس لئے کہ کبھی کسی نے اللہ تعالیٰ کو رحمن و رحیم کہنا کفر قرار ہی نہیں دیا۔ معلوم ہوا کہ بعض علماء نے اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر کہنا اسی لئے کفر قرار دیا تھا کہ ان دونوں لفظوں کے لغوی معنی اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق نہیں لیکن جمہور علماء نے ان کو لغوی معنیٰ سے پھیر کر تاویل کر لی اور تاویل کے بعد حاضر و ناظر کے اطلاق کو اللہ تعالیٰ کے حق میں جائز رکھا۔ اس تحقیق سے روز روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ بغیر تاویل کے اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر کہنا قطعاً جائز نہیں۔
اس کے بعد یہ بات بڑی آسانی سے سمجھ میں آ سکتی ہے کہ جو لوگ رسول اکرم ﷺ کے حق میں حاضر و ناظر کے اطلاق کو کفر و شرک کہتے ہیں یا تو وہ حاضر و ناظر کے معنی نہیں سمجھتے یا انہوں نے اللہ تعالیٰ کو اپنے جیسا سمجھ لیا ہے کہ ایسے الفاظ کو اللہ تعالیٰ کے لئے خاص کرتے ہیں جن کے معنیٰ لغوی صرف بندوں کے لائق ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حق میں ان کا تصور بھی نہیں ہو سکتا۔ فَاِلَی اللّٰہِ الْمُشْتَکٰی۔
ممکن ہے اس مقام پر یہ اعتراض کیا جائے کہ فی زمانہ لفظ حاضر و ناظر، سمیع و بصیر اور علیم و خبیر یا بالفاظ دیگر ’’عالم ومن یریٰ‘‘ (جاننے والا اور دیکھنے والا) کے معنیٰ میں اللہ تعالیٰ پر اطلاق کیا جاتا ہے۔ اس لئے حضور کے حق میں اس کا استعمال انہی معنیٰ کا وہم پیدا کرے گا۔ لہٰذا حضور ﷺ کو حاضر و ناظر کہنا موہم شرک ہے۔
اس کے جواب میں اگرچہ اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ معترض کے ایہام شرک کی جڑیں ان ہی آیات قرآنیہ سے کٹ جاتی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کو اپنے خاص ناموں مثلاً رؤف، رحیم، شہید وغیرہ سے موسوم کیا ہے۔ مگر مزید اطمینان کے لئے گزارش ہے کہ جس امر کو آپ ایہام شرک کی بنیاد قرار دے رہے ہیں بعینہٖ وہی امر قرآن مجید کی روشنی میں حضور سید عالم ﷺ کے لئے ثابت ہے۔ دیکھئے سمیع، بصیر، علیم، خبیر، عالم اور من یریٰ سب کا اطلاق حضور نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس پر قرآن مجید میں موجود ہے۔ آیہ کریمہ ’’اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ‘‘ پ ۱۵ رکوع نمبر ۱ میں حضور نبی کریم ﷺ کو سمیع و بصیر کہا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے قول ’’فَاسْئَلْ بِہٖ خَبِیْراً‘‘ پ ۱۹ ع ۳ سے حضور ﷺ کا خبیر ہونا ثابت ہے اور ’’وَہُوَ بِکُلِّ شَیئٍ عَلِیْمٌ‘‘ پ ۱ ع ۳ نیز (۱) ’’فَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ‘‘ پ ۱۳ ع ۳ میں حضور ﷺ کو علیم فرمایا گیا ہے۔
علیٰ ہٰذا القیاس آیۂ کریمہ ’’فَسَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمْ وَرَسُوْلُہٗ‘‘ میں یریٰ کا فاعل اللہ تعالیٰ اور رسول کریم ﷺ دونوں ہیں یعنی اللہ تعالیٰ بھی لوگوں کے عمل دیکھتا ہے اور حضور ﷺ بھی دیکھتے ہیں۔
اب بتائیے کہ قرآن کریم کی روشنی میں نبی کریم ﷺ کی ذات مقدسہ پر سمیع و بصیر، علیم و خبیر اور ’’عالم ومن یریٰ ‘‘کا اطلاق ثابت ہوا یا نہیں، اس کے بعد آپ کے ایہام شرک کی بنیادیں کہاں ہیں؟
شاید ہمارے ناظرین کرام کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا ہو کہ آیاتِ منقولہ کی تفسیر میں کسی مفسّر کا حوالہ نہیں دیا گیا تو اس کے متعلق عرض ہے کہ ان آیاتِ قرآنیہ سے حضور ﷺ کے حق میں اطلاقاتِ مذکورہ کے قول میں مجھے منفرد نہ سمجھئے بلکہ مندرجہ ذیل مفسرین کریم و علمائے اعلام اس قول میں میرے ساتھ ہیں
۱: علامہ اسماعیل حنفی آفندی حقی صاحب تفسیر روح البیان
۲: علامہ سید محمود الوسی حنفی بغدادی صاحب تفسیر روح المعانی
۳: علامہ ابو البقاء ۴: علامہ حلبی
۵: علامہ طیبی ۶: علامہ سبکی
۷: شیخ اجل شاہ عبدالحق محدث دہلوی ۸: علامہ زرقانی
۹: علامہ صاوی
اگر آپ کو یقین نہ ہو تو ان کی اصلی عبارات مع خلاصہ ملاحظہ فرمائیے۔
۱: تاویلات نجمیہ میں ہے کہ آیۂ کریمہ ’’اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ‘‘ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نبی کریم ﷺ وہ سمیع و بصیر ہیں جس کے متعلق حدیث قدسی میں وارد ہے کہ ’’میں اس کی سمع ہو جاتا ہوں تو وہ مجھ سے سنتا ہے اور میں اس کی بصر ہو جاتا ہوں تو وہ مجھ سے دیکھتا ہے‘‘ لہٰذا آیۂ کریمہ کی تحقیق یہ ہوئی کہ ’’ہم نے اپنے عبد مقدس کو اس لئے معراج کرائی کہ ہم اسے اپنی وہ نشانیاں دکھائیں جو ہمارے جلال و جمال کے ساتھ خاص ہیں’’ بے شک وہی عبد مقدس (محمد مصطفیٰ ﷺ) ہماری سمع کے ساتھ سمیع اور ہماری بصر کے ساتھ بصیر ہیں۔ بیشک وہ ہمارا کلام ہماری سمع سے سنتے اور ہمارا جمال ہماری بصر سے دیکھتے ہیں۔ (۱)
۲: ’’اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ‘‘ کی ضمیر جب رسول اللہ ﷺ کی طرف لوٹائی جائے جیسا کہ ابو البقاء نے بعض علماء سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ‘‘ کے معنیٰ یہ ہیں کہ نبی کریم ﷺ ہمارا کلام سننے والے اور ہماری ذات کو دیکھنے والے ہیں۔ علامہ حلبی نے کہا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی طرف اس ضمیر کا راجع کرنا بعید نہیں۔ اس کے بعد صاحب روح المعانی فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کے غیر پر سمیع و بصیر کا اطلاق ممنوع نہیں۔ جیسا کہ بعض لوگ وہم کرتے ہیں۔ نہ اس آیت میں ممنوع ہے نہ مطلقاً۔ علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ آیۂ کریمہ ’’اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ‘‘ میں ایسی ضمیر کا لانا جو دونوں امور کا احتمال رکھتی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف بھی راجع ہو سکتی ہے اور حضور نبی کریم ﷺ کی طرف بھی اس بات کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ہے کہ حضور ﷺ نے رب العزت کی ذات پاک کو دیکھا اور اس کے کلام مبارک کو اسی کے سمع مبارک سے سنا جیسا کہ ابھی ابھی حدیث قدسی ’’کُنْتُ لَہٗ سَمْعًا‘‘ میں اشارہ گزر چکا ہے۔ لہٰذا اس امر کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ (۱)
۳: بصیر (۲) علیم کے معنیٰ میں ہے۔ امام سبکی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ‘‘ کی تفسیرمیں نقل فرمایا ہے کہ یہ ضمیر نبی کریم ﷺ کے لئے ہے اور ان دونوں صفتوں کے ساتھ نبی کریم ﷺ کو موصوف کرنے کے یہ معنیٰ ہیں کہ حضور ﷺ سمع و بصر کی ان دونوں صفتوں میں کامل ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی ان نشانیوں کا ادراک کیا جا سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے حبیب ﷺ کو دکھانا چاہتا ہے۔ لہٰذا آیۂ کریمہ کے روشن معنیٰ یہ ہیں کہ نبی کریم ﷺ اللہ تعالیٰ کے کلام کو بلا واسطہ سننے والے اور اس کے نورِ جمال کو اپنی عین بصر سے دیکھنے والے ہیں اور یہ وہ کمال ہے جس کے ساتھ حضور ﷺ مختص ہیں۔
۴: (۱) ’’وَہُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ‘‘ یعنی نبی کریم ﷺ تمام چیزوں کو جاننے والے ہیں خواہ ذاتِ الٰہی کی شانیں ہوں یا احکام خداوندی ہوں یا اللہ تعالیٰ کی صفات اور افعال و آثار ہوں۔ حضور ﷺ نے تمام علوم ظاہر و باطن، اول و آخر کا احاطہ فرمایا ہے اور حضور ﷺ ’’فَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ‘‘ کا مصداق ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی افضل ترین رحمتیں اور کامل ترین تحفے ان پر نازل ہوئے۔
۵: (۲) قولِ خداوندی ’’فَاسْئَلْ بِہٖ خَبِیْرًا‘‘ کے معنیٰ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے متعلق کسی ایسی ہستی سے سوال کرو جو اس کی صفات کا عالم ہو۔ وہ تمہیں مخفی علوم سے خبردار کرے گا اور اختلاف مسائل کے اعتبار سے خبیر مختلف ہو جاتا ہے۔ اگر سائل نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام ہوں تو خبیر اللہ تعالیٰ ہے اور اگر سائل حضور کے اصحابِ کرام ہوں تو خبیر خود نبی کریم ﷺ ہیں اور اگر سائل تابعین ہوں تو خبیر صحابہ کرام ہوں گے جو نبی ﷺ سے علم حاصل کر کے خبر دیں گے اور حضور ﷺ اللہ تعالیٰ سے علم لے کر خبیر ہوں گے۔
علاوہ ازیں یہ چاروں اسمایٔ مبارکہ سمیع و بصیر، علیم و خبیر جن کو ایہامِ شرک کی بنیاد قرار دے رہیں ہیں، حضور سید عالم ﷺ کے اسمائے مبارکہ میں شامل ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے!
مدارج النبوۃ (۱) ، مواہب اللدنیہ (۲) ، زرقانی شریف (۳)
حضور سید عالم ﷺ کی تو بڑی شان ہے۔ قرآن کریم کو ملاحظہ فرمائیے اس میں حضرت اسحاق علیہ السلام کو علیم فرمایا ہے۔ سورئہ ذاریات میں ہے ’’وَبَشَّرُوْہُ بِغُلاَمٍ عَلِیْمٍ‘‘ (فرشتوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو غلام علیم (اسحاق علیہ السلام) کی بشارت دی) اور سنیے! قرآنِ کریم میں انسان کے متعلق فرمایا ’’فَجَعَلْنَاہُ سَمِیْعًام بَصِیْرًا‘‘ اس مقام پر یہ کہنا کہ یہ جعل کی قید سے مقید ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کے بنانے سے انسان سمیع و بصیر بنا) ہمارے لئے قطعاً مضر نہیں کیوں کہ ہم حضور ﷺ کو جعلِ خداوندی کے بغیر سمیع و بصیر نہیں مانتے لیکن قید جعل کا الفاظ میں ہونا ضروری نہیں۔ جیسا کہ آیت کریمہ ’’اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ‘‘ میں حسب تصریحات علمائے مفسرین حضور ﷺ سمیع و بصیر ہیں۔ مگر جعل یعنی بنانے کی قید الفاظ میں مذکور نہیں۔
حضور سید عالم ﷺ کے لئے جو لفظ حاضر و ناظر بولا جاتا ہے، اس کے معنیٰ بیان کرتے ہوئے بعض حضرات نے فرطِ عقیدت کی بنا پر تصرفات، استمداد اور علم غیب تینوں مسئلوں کو حاضر و ناظر کے مفہوم میں شامل کر دیا ہے اور اس طرح حاضر و ناظر کا مسئلہ مختلف مسائل کا ایک معجون مرکب بن کر رہ گیا ہے اور اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ بحث و مناظرہ کے وقت مدعی و مجیب کے لئے بیان دعویٰ میں مشکلات پیش آئیں اس لئے ضروری ہے کہ تفصیلات سے قبل نفس مسئلہ کے مفہوم کی وضاحت کر دی جائے
اس مقام پر سب سے پہلے یہ گزارش ہے کہ حضور ﷺ کے تصرفات اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے استمداد اور حضور کا عالم ما کان وما یکون ہونا تینوں باتیں اپنی جگہ حق اور عین صواب ہیں لیکن یہ تینوں مسئلے الگ الگ مستقل حیثیت رکھتے ہیں۔ حاضر و ناظر کے مفہوم میں داخل نہیں۔ اگر زندگی باقی رہی تو انشاء اللہ العزیز ان میں سے ہر مسئلہ پر علیحدہ رسالہ لکھا جائے گا اور بفضلہٖ تعالیٰ دلائل قاہرہ کی روشنی میں حضور ﷺ کے تصرفات اور حضور سے استمداد کے جواز اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ’’عالم ما کان وما یکون‘‘ کے ثبوت پر کلام کیا جائے گا، جس کو پڑھ کر ہر اہل فہم پر حقانیت اور صداقت واضح ہو جائے گی لیکن سرِ دست چوں کہ اس ایک ہی مسئلہ کی وضاحت مقصود ہے اس لئے دوسرے مسائل سے علیحدہ رہتے ہوئے صرف حاضر و ناظر کے مفہوم کی توضیح کی جاتی ہے۔ خوب غور سے ملاحظہ فرمائیے:
حضور ﷺ کے لئے جو لفظ حاضر و ناظر بولا جاتا ہے، اس کے یہ معنے ہرگز نہیں کہ نبی کریم ﷺ کی بشریت مطہرہ ہر جگہ ہر ایک کے سامنے موجود ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح روح اپنے بدن کے ہر جزو میں موجود ہوتی ہے اسی طرح روحِ دو عالم ﷺ کی حقیقت منورہ ذراتِ عالم کے ہر ذرہ میں جاری و ساری ہے، جس کی بنا پر حضور ﷺ اپنی روحانیت اور نورانیت کے ساتھ بیک وقت متعدد مقامات پر تشریف فرما ہوتے ہیں اور اہل اللہ اکثر و بیشتر بحالت بیداری اپنی جسمانی آنکھوں سے حضور کے جمالِ مبارک کا مشاہدہ کرتے ہیں اور حضور ﷺ بھی انہیں رحمت اور نظر عنایت سے مسرور و محظوظ فرماتے ہیں۔ گویا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اپنے غلاموں کے سامنے ہونا سرکار کے حاضر ہونے کے معنیٰ ہیں اور انہیں اپنی نظر مبارک سے دیکھنا حضور کے ناظر ہونے کا مفہوم ہے۔
سید عالم ﷺ کی قوتِ قدسیہ اور نورِ نبوت سے یہ امر بعید نہیں کہ آن واحد میں مشرق و مغرب، شمال و جنوب، تحت وفوق تمام جہات و امکنہ بعیدہ متعددہ لاتعد ولا تحصیٰ میں سرکار اپنے وجودِ مقدس بعینہٖ یا جسم اقدس مثالی کے ساتھ تشریف فرما ہو کر اپنے مقربین کو اپنے جمال کی زیارت اور نگاہ کرم کی رحمت و برکت سے سرفراز فرمائیں۔
حاضر و ناظر کے مسئلہ میں منکرین کی طرف سے عموماً یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ حاضر و ناظر ہونا خاص صفت خداوندی ہے اور خدا کی کوئی صفت غیر خدا کے لئے ثابت کرنا شرک ہے۔ اس کے جواب میں گزارش ہے کہ مخالفین کا یہ اعتراض بہت پرانا اور بے حد فرسودہ ہے۔ صرف حاضر و ناظر کا مسئلہ نہیں بلکہ کمالات رسالت سے تعلق رکھنے والے تمام مسائل کا انکار اسی شرک کا سہارا لے کر کیا جاتا ہے۔ گویا الزام شرک کا یہ اعتراض ایک مغالطہ عامۃ الورود ہے جو ہر مقام اور ہر موقع پر بلا کسی تامل کے وارد کر دیا جاتا ہے۔
اس کے متعلق گزارش ہے کہ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی صفت کسی غیر کے لئے ثابت کرنا شرک ہے لیکن اس کے ساتھ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ صفاتِ خداوندی مستقل اور بالذات ہوتی ہیں۔ خدا کی کوئی صفت عطائی اور غیر مستقل نہیں۔ بندوں کے لئے کسی مستقل بالذات صفت کا حصول قطعاً نا ممکن اور محال ہے۔
اس مقام پر یہ عرض کر دینا مناسب ہو گا کہ اس بحث میں صفاتِ خداوندی سے ہمارے نزدیک وہی صفات مراد ہیں جن کا ظہور بندوں میں دین متین اور عقل سلیم کی روشنی میں ممکن ہے ورنہ وجوبِ وجود اور غنائے ذاتی کا ظہور بندوں کے حق میں قطعاً محال ہے اس لئے ہمارا ایمان ہے کہ صفت الوہیت (جو غنائے ذاتی کو مستلزم ہے) کا ظہور غیر اللہ کے لئے محالِ عقلی اور ممتنع بالذات ہے اور جس شخص کا یہ عقیدہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو وصف الوہیت عطا فرما دیا ہے وہ مشرک اور ملحد ہے۔ مشرکین اور مومنین کے مابین بنیادی فرق یہی ہے کہ مشرکین غیر اللہ کے لئے عطائے الوہیت کے قائل تھے جس کی عطا عقلاً نقلاً و شرعاً محال ہے اور مومنین کسی مقرب سے مقرب ترین حتیٰ کہ حضور سید المرسلین ﷺ کے حق میں بھی الوہیت اور غنائے ذاتی کے قائل نہیں ہیں۔
یاد رکھئے! اللہ تعالیٰ جو کسی مخلوق کو کوئی کمال عطا فرماتا ہے تو اس کے متعلق صرف یہ اعتقاد مومن ہونے کے لئے کافی نہیں کہ یہ کمال اللہ کا دیا ہوا ہے۔ اتنی بات تو مشرکین بھی اپنے معبودوں کے حق میں تسلیم کرتے تھے بلکہ مومن ہونے کے لئے ضروری ہے کہ عطائے خداوندی کا عقیدہ رکھتے ہوئے یہ اعتقاد بھی رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کمال کسی مخلوق کو عطا فرمایا ہے وہ عطا کے بعد حکمِ خداوندی، ارادہ اور مشیت ایزدی کے ماتحت ہے۔ ہر آن خدا تعالیٰ کی مشیت اس کے ساتھ متعلق ہے اور اس بندے کا ایک آن کے لئے بھی خدا تعالیٰ سے بے نیاز اور مستغنی ہونا قطعاً محال اور ممتنع بالذات ہے۔
مختصر یہ کہ مخلوق کے ہر کمال اور بندے کی ہر صفت کے متعلق مومن کا یہی اعتقاد ہے کہ یہ کمال اور یہ خوبی اللہ کی دی ہوئی ہے اور یہ بندہ اپنے اس کمال و خوبی میں علی الاطلاق مشیت جزئیہ کے ماتحت ہے اور کسی حال میں معبود حقیقی سے مستغنی اور بے نیاز نہیں۔
الحاصلبندے کو کسی امر میں اللہ تعالیٰ کی مشیت جزئیہ کے ماتحت نہ سمجھنا یا اس کو کسی حال میں کسی اعتبار سے اللہ تعالیٰ سے مستغنی اور بے نیاز قرار دینا شرک جلی اور کفر خالص ہے اور اس کے بر خلاف اعتقاد رکھنا عین ایمان ہے۔ استقلال اور عدم استقلال کے درمیان یہی فرق ہے جس کو ہم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا اور یہ بیان ایسا ہے کہ جو حضرات اس بحث میں ہمارے مد مقابل سمجھے جاتے ہیں ان کے اکابر اور مُسَلَّم علماء بھی ہمارے ساتھ ہیں۔
البتہ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ وہ اپنے مقبول بندوں میں ایسی صفات کریمہ پیدا کر دے جن کو کمالاتِ خداوندی کی تجلی اور صفاتِ ایزدی کا ظہور کہا جاسکے۔ ایسی صفات کو صفاتِ خداوندی قرار دینا ابلہ فریبی ہے کیوں کہ خدائے قدوس کی کوئی صفت حادث اور غیر مستقل نہیں ہو سکتی اور اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں میں جو صفات تسلیم کی گئی ہیں وہ خلق خداوندی سے مانی گئی ہیں۔ جو چیز مخلوق اور حادث ہو اس میں استقلالِ ذاتی کا وصف کیوں کر پایا جا سکتا ہے۔ لہٰذا ان صفاتِ مخلوقہ کو صفاتِ خداوندی کہنا بندے کو خدا یا خدا کو بندہ بنانے کے مترادف ہے۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

1 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔