اسلام کا تصور عدل
عدل و انصاف : انسان ایک معاشرتی حیوان یا یوں کہیں کہ ہمیشہ سے مدنی الطبع رہا ہے اور اپنی فطرت میں جماعتی زندگی کا محتاج ہے ۔ بغیر اجتماعیت کے اس کی زندگی نا ممکن ہے۔انسان اپنی پیدائش سے لے کر موت تک معاشرے کا محتاج ہے۔ اس کا جسم عقل اور خلق جیسے اہم عطیات بھی خالق کائنات نے جماعتی علائق کیلئے عطا فرمائے ہیں۔ دنیا میں آتے ہی خاندان میں آنکھ کھولتا ہے ۔ اپنی پرورش کے لیے دوسروں کا محتاج ہوتا ہے (بھائی ، بہن ، یا رشتہ دار وغیرہ کا) پھر ہوش سنبھالتے ہی اسے ایک سوسائٹی سے ، ایک برادری سے ، ایک قوم سے ، ایک تمدن سے ، نظام معیشیت سے اور نظام سیاست سے واسطہ پڑتا ہے۔
نیز فرد یا انسان اپنی ہر متعلقہ شے مثلا خوراک، لباس،مکان اور زندگی کے ہر دوسرے شعبے میں جماعت کا دست نگر ہے۔ اور اگر اس سے وہ تمام علائق حذف کر دیے جائیں جو جماعت کی بدولت اس کو حاصل ہوتے ہیں تو پھر اس کے پاس کچھ بھی نہیں رہتا۔اس کی حثییت ہی ختم ہو جاتی ہے انسان کے اعمال اغراض اور عادات کی جماعتی زندگی کے بغیر کوئی قیمت نہیں ہے۔
تھوڑے سے غور وفکر سے یہ بات سمجھ آجاتی ہے کہ فرد دوسرے کی زندگی پر اثر انداز ہوتا یے اور ان سے متاثر بھی ہوتا ہے اور اس لیے اس کو فطری طور پر مدنی الطبع تسلیم کر لیتا ہے چنانچہ جماعت کا وجود افراد پر موقوف ہے اور افراد جماعت کے ہر فرد کا نفع و نقصان پر اثر انداز ہوتا ہے اور دونوں ایک دوسرے کے سہارے قائم و دائم ہیں غرض انسان کے بے شمار روابط ہیں جو ایک ایک انسان کو دوسرے انسانوں سے اس سے جوڑے ہوتے ہیں ان کی درستی پر ہی ایک ایک انسان کی،ایک معاشرے کی اور مجموعی طورپر تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کا انحصار ہے اور وہ اللہ ہی ہے جو انسانوں کو ان کے لیے روابط کیلیے صحیح اور منصفانہ اور پائیدار اصول و حدود بتاتا ہے جہاں انسان اس کی ہدایت سے بے نیاز ہو کر خود مختار بنااور اس نے بزعم خود انصاف کرنا چاہا تو پھر نہ کوئی مستقل اصول باقی رہتا ہے اور نہ انصاف و راستی جس معاشرے سے انصاف غائب ہو جائے وہ معاشرہ افراتفری خود غرضی اور ظلم و تشدد کی مثال بن جاتا ہے۔
عدل و انصاف زندگی کی بو قلموں رعنائیوں اور دل اویزیوں کی جان ہے اگر عدل و انصاف کے سوتے خشک ہو جائیں تو سارا گلشن ہستی اجڑ کر رہ جائے۔ یہ عالمگیر صداقت ہے جو ہر شک و شبہ سے بالا تر ہے اور جسے ہر کوئی تسلیم کرتا ہے حتیٰ کہ وہ ظالم و سفاک لوگ جن کی بربریت اور ستم رانیوں نے شرف انسانیت کی دھجیاں بکھیریں وہ بھی یہ نہیں کہہ سکے کہ عدل وانصاف سے ظلم و عدوان بہتر ہے بلکہ جہاں تک ان سے بن پڑا وہ اپنی چیرہ دستیوں کو بھی عدل وانصاف کا لباس پہنا کر پیش کرتے رہے۔
جب کبھی بھی ہم اقوام عالم کے دستاویزات ، دساتیر اور قوانین پر تنقیدی نگاہ ڈالیں گے یا ڈالتے ہیں تو بجز حیرت و حسرت کے کچھ حاصل نہ ہو گاحیرت اس لیے کہ انسانی عقل و شعور نے اسے قبول کیا اور حسرت اس لیئے کہ بے کس ومجہور اقوام پر عدل کے نام پر کتنے ظلم ڈھائے گئے ہر عدل کے نام پر طلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے گئے ہر معاشرے میں جھوٹے امتیازات اور ظالمانہ مراعات کے صنم کدے آباد نظر آتے ہیں مگر لوگ ہیں کہ فرط محبت و فرط عقیدت سے ان کے گرد محو طواف ہیں جس جگہ عدل کا یہ عالم ہو وہاں عدل کا فرضی وجود تو ہو سکتا ہے مگر حقیقی وجود نہیں ہو سکتا جو خیرات و برکات کا سر چشمہ ہے جس کے کھنے اور خشک سائے میں ستم رسیدہ انسانوں کو سکون نصیب ہوتا ہے ۔
ہر حق شناس پر یہ بات اظہر من الشمس ہونی چاہیے کہ عدل و انصاف کا جو جامع نظریہ اسلام نے پیش کیا اور جس کا نمونہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ ہے اس کی نظیر دنیا کے قدیم و جدید دساتیر اور مجموعہ ہائے قوانین پیش نہیں کرسکتے ۔ صرف اسلامی نظام عدل کی برتری گزشتہ زمانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ انسانیت کا کارواں چودہ صدیاں بعد بھی اس مقام تک نہیں پہنچ سکا جس پر آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے فیض یافتہآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ فیض اورحسن تربیت سے عرب کے اکھڑ مزاج جاہل بدو پہنچ گئے تھے۔
عدل لغت کی روشنی میں۔
کتب لغات میں عدل کے جو معانی و مفاہیم بیان کیے گئے ہیں وہ درج ذیل ہیں
۱:عدل کا معنیٰ برابری ،مساوات ،انصاف نصیر اورمانند ہے
(فیروز اللغات ص ۸۹۱ فیروز پبلشنگ)
عدل کا معنیٰ دو کونوں کی برابری ہے
(المنجد ص۶۳۶ کتب خانہ دار الاشاعت کراچی)
سمع باب سے اس کا معنیٰ امور میں میانہ روی ،قائم مقام ٹھہرانا ،فدیہ مساوات ہے۔
ضرب باب سے اس کا معنیٰ تیر کو سیدھا کرنا ہے۔
(المنجد از لوئیس معلوف ص ۷۸۲ مطبوعہ دار الاشاعت ،المفردات ص ۳۲۵مطبوعہ کراچی،المصباح المنیر مطبوعہ مصر جلد ۲ ص ۲۱،تاج العروس مطبوعہ مصر جلد۹ ص۸،اسلامی اصلاحات ص۱۶۵،الفروق اللغویہ ص۱۷۵،ص۲۶۲)
امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں کہ عدل وہ لفظ ہیجو مساوات اور برابری کو چاہتا ہے۔
(الذریعۃ الی مکارم الشریعۃ ص ۲۴۴)
امام یمنی فرماتے ہیں کہ عدل واجب التعمیل احکام پر عمل درآمد کا نام ہے اور عدل یہ ہے کہ حق کو تسلیم کیا جائے اور ظلم کا خاتمہ کردیا جائے : العدالت کے ضمن میں اس کا معنیٰ راہ حق پر مستقیم ہونا انصاف و تقویٰ ۔(اسلامی اصطلاحات ص۱۶۵)
امام راغب اصفہانی کے نزدیک عدل کی پانچ اقسام ہیں
(1) وہ عدل جع خالق و مخلوق کے درمیان دائر ہے جس کا مطلب مخلوق خالق کے احکامات کو جانے پھر مانے ۔
(2) وہ عدل جو انسان کے اندر ہو مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات نفسانی کے مقابلے میں عقل کے تقاضوں کے مطابق زندگی گزارے ۔
(3) وہ عدل جو انسان اور اپنے بڑوں کے درمیان دائر ہے ان کی وصیتوں ،نصیحتوں پر عمل کرنا ۔
(4) وہ عدل جو لوگوں کے درمیان ہوتا ہے معاملات ،معاشرت و مضاربت میں ھقوق قور عدل و برابری کا لحاظ رکھنا ۔
(5) وہ عدل جع سلطنت اور حکومت کے متعلق ہے بادشاہ رعایا سے مساوات و خیر خواہی کا معاملہ کرے ۔ (الذریعۃ الی مکارم الشریعۃص ۲۴۴)
عدل قرآن حکیم کی روشنی میں
خالق کائنات ،مالک کائنات ،اللہ رب العزت نے اپنی لاریب اور پاک منزہ کتاب میںں کئی مقامات پر عدل و مساوات کا حکم فرمایا ہے۔مگر جگہ کی قلت کے باعث چند آیات کریمہ بمعہ ترجمہ یہ ہیں ارشاد ربانی ہے کہ :فاحکم بین الناس بالحق(سورہ ص آیت ۲۶)
ترجمہ : تم لوگوں میں حق (سچ)کے ساتھ حکم کرو ۔
واذاحکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل ۔ (سورۃ النساء آیت نمبر۵۸)
ترجمہ : اور یہ کہ جب تم لوگوں میں فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو
ان اللہ یامر بالعدل والاحسان ۔ (سورۃ النحل آیت نمبر ۹۰)
ترجمہ : بے شک اللہ تعالیٰ عدل و احسان کا حکم دیتا ہے ۔
عدل و انصاف فرض ہے افراط و تفریط سے اجتناب عدل و انصاف ہے عدل و انصاف اقوال میں بھی ہے اور افعال میں بھی عدل کا احاطہ بڑا وسیع ہے ہر نوع کا عدل فرض ہے ۔ ( احکام القرآن جلد ۳ ص۱۹۰،الکشاف جلد ۲ ص ۸۶ ،تفسیرابن کثیر جلد ۲ ص۵۸۶،الجامع الاحکام القرآن جلد ۱۰ ص۱۶۶)
اللہ تعالی نے عدل کو بہت اعلیٰ اور ادنیٰ کے درمیان رکھا ہے اس میں افراط و تفریط نہیں ۔ (ابن اثیر تفسیرالقرآن جلد سوم ص ۱۷۲ دارالکتب العلمیہ بیروت)
اسلامی طرز زندگی یا نظام حیات محض عبادت کے چندطریقوں یا اخلاقیات کے کچھ اصولوں کا نام نہیں یہ ایک ایسا طرز عمل ہے جو اسلامی زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہے اس نظام حیات کا ہر نظریہ اور اصول جامع ،کامل اور ہمہ گیر ہے یہ زمان و مکان کی قید سے آزاد اور ہر انسان کیلئے نہ صرف قابل عمل ہے بلکہ اس حیات و معار کی اصلاح کا واحد ضامن ہے عدل وانصاف نص قطعی سے ثابت ہے جیسا کہ اوپر چند آیات طیبات رقم کی گئی ہیں ۔
عدل اور تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
مطلق عدل کے بارے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ’’میری امت اس وقت تک سر سبز رہے گی اب تک اس میں تین خصلتیں باقی رہیں گی ایک تو یہ کہ جب وہ بات کریں تو وہ سچ بولیں گے دوسرا جب وہ فیصلہ کریں گے تو انصاف کو ہاتھ سے نہ جانے دیں گے تیسرا یہ کہ جب ان سے رحم کی درخواست کی جائے گی تو کمزور پر رحم کریں گے ۔ (اسوہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ڈاکٹر محمد عبدالحی ص۵۴۶ )
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’انصاف کرنے والوں کو قرب الہی میں نوری ممبر عطا ہوں گے ۔ ( خزائن العرفان سورۃ النساء ۵۸ ،صحیح مسلم شریف کتاب الامارۃ رقم الحدیث۱۸۲۷ دار الاسلام ریاض)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ’’قیامت کے دن اللہ سے سب سے زیادہ قریب اور اللہ کو سب سے پیارا امام عادل ہوگااور سب سے نا پسندیدہ ظالم حکمران ہے ۔ (مشکوۃ شریف،امام ترمذی جامع ترمذی شریف ،فیصلوں کا بیان عادل امام ۔رقم الحدیث ۱۳۵۳،)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ’’ظالم حکمران کے سامنے حق و عدل کی بات کہنا افضل ترین جہاد ہے ۔ (ترمذی شریف)
المختصر عدل و انصاف کی تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بہت تاکید ہے ۔
عدل کی اقسام
عدل ہماری پوری زندگی پر محیط ہے سہولت کی خاطر ہم اس کو دو بڑے شعبوں میں تقسیم کرتے ہیں ۔ (1) انفرادی عدل ۔ (2) اجتماعی عدل
اجتماعی عدل
اسلام کے عدل اجتماعی کی بنیاد باہمی تعاون ،ہم آہنگی ،ہمدردی وخیر خواہی کے جذبے پر ہے۔جو معاشرے میں رہنے والے مختلف حیثیتوں کے مالک (حامل)انسانوں کو باہم مربوط اور متوازن بنا کر ایک آکائی میں پرو دیتا ہے حدیث شریف کے الفاظ ’’جسد واحد‘‘ اور’’بنیان مرصوص‘‘ہیں۔اجتماعی عدل کو مندرجہ ذیل شعبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔
عائلی زندگی اور عدل اجتماعی کا تصور
عائلی زندگی پورے معاشرے کی بنیاد ہے وہ گھرانہ جنت کا نمونہ ہوتا ہے کہ جس میں میاں بیوی والدین اور اولاد ایک دوسرے کے باہمی حقوق عدل و انصاف سے اداکرتے ہیں ازدواجی زندگی میں عدل کی سب سے زیادہ ضرورت اس شخص کو ہوتی ہے جس کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں کیونکہ جیسا وہ ایک بیوی اس کی اولاد کی طرف زیادہ دھیان دے گا ان کی زیادہ نگہداشت کریگا تو باقی عدم عدل و انصاف کا شکار ہو ں گے ۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عائلی زندگی میں عدل وانصاف کی عمدہ مثال قائم کی ہے عائلی زندگی میں عدل و انصاف کو قائم رکھ کر اس گھر کو جنت بنایا جا سکتا ہے ۔ ورنہ جب گھرانہ عدم توازن اور انتشار کا شکار ہو گا تو اس گھرانہ کا سکون ختم ہو جائے گا گھریلو افراد میں حسد و بغض کے جذبات پیدا ہو جائیں گے بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح نہ دی جائے اور اولادکے درمیان بڑے چھوٹے کے حقوق میں تفاوت نہ کرنا چاہیئے کیونکہ تمام اولاد والدین کیساتھ یکساں نسبت رکھتی ہے ۔
زوجہ کے ساتھ عدل و انصاف
اسلام نے ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت ان میں عدل وانصاف کے ساتھ مشروط کی ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے خاوند کے متعلق ارشاد فرمایا ہے جو عدل نہیں کرتا کہ : جو ازواج میں عدل و انصاف نہیں کرتا اور اس نے ان کے حقوق میں عدل نہ رکھا تو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ادھا جسم گر گیاہو گا ۔ (الترغیب والترھیب جلد دوم حصہ اول ص۴۷ ،آفاقی تہذیب وتمدن ص۱۶۱،جامع ترمذی جلد ۱ص۱۳۶،تفسیر طبری ج ۵ ص۲۵۳،الدر المثور ج۲ ص۲۳۳،ابوداؤد شریف باب القسم بین النساء ج ۱ ص۲۹۰)
لیکن ظاہر ہے یہاں عدل وانصاف سے مراد ظاہری عدل ہے قلبی عدل نہیں کیونکہ دل پر کسی اختیار نہیں ہاں باقی غذا،لباس،رہائش، ظاہری سلوک میں عدل مطلوب ہے۔محسن کائنات فخر موجودات زینت بزم کائنات حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ صد یقہ کائنات حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھافرماتی ہیں کہ’’حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب( باریاں )تقسیم فرماتے تو عدل و انصاف فرماتے اور کہتے تھے کہ اے اللہ یہ میری تقسیم ہے ان میں جن کا مجھے اختیار ہے اور ان چیزوں کے بارے میں جن کامجھے اختیار نہیں ناراض نہ ہونا‘‘
(الترغییب والترھیب کتاب النکاح جلد دوم حصہ اول ص۴۷،سنن نسائی شریف،ابی داؤد السنن کتاب النکاح باب فی القسم بین النساء حدیث نمبر ۲۱۳۴،دارالاسلام للنشر والتوزیع ،ریاض۱۹۹۹، الترمذی کتاب النکاح باب ما جاء فی التسویۃ بین الضرائرحدیث نمبر ۱۱۴۰، ملتبہ دارالاسلام ،ابن ماجہ کتاب النکاح باب فی القسمۃ بین النساء حدیث نمبر ۱۹۷۱ مکتبہ دارالاسلام )
بیوی پر شوہر اور شوہر پر بیوی کے حقوق و فرئض اللہ تعالیٰ اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متین اور مقرر فرمائے ہیں جس معاشرے میں انہیں ملحوظ رکھا جائے گاوہاں پیار و محبت ،امن و سلامتیاور سکون و اطمینان کے سدا بہار پھول مسکرائیں گے اور جس معاشرے میں انہیں ملحوظ نہ رکھا جائے جس میں عدل و انصاف کو روا نہ رکھا جائیگا تو وہ جہنم بن جائے گااگر ماں کیحقوق بیوی کو دے دئے جائیں تب بھی عدل نہیں ہو گا۔
اولاد کے ساتھ عدل وانصاف
باپ بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح (فوقیت)نہ دے ولد کا لفظ بیٹا اور بیٹی دونوں شامل ہیں ( والولد اسم یجمع الواحد والکثیر والذکر والانثی ٰ)لہذا دونوں کے حقو ق ایک جیسے ہیں۔
( لسان العرب جلد دوم ص۴۳۵۳)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ’’من کانت لہ انثیٰ فلم یئدھا ولم یھنھا ولم یؤثر ولدہ علیھا ادخلہ اللہ الجنۃ‘‘(جس کی لڑکی ہو پھر وہ اس لڑکی کو زندہ درگور نہ کرے نہ اس کو ذلیل سمجھے اور نہ لڑکے کو اس پر تر جیح دے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کریگا۔
(ابوداؤد شریف ، الترغیب والترھیب جلد دوم حصہ اول ص۵۳مترجم شرح السنہ ،مسلم شریف)
سنن نسائی کی روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
’’اعدلوا بین ابنائکم،اعدلوا بین ابنائکم‘‘
(سنن نسائی شریف کتاب النحل باب ذکر اختلاف الفاظ الناقلین حدیث نمبر ۳۷۱۶،مکتبہ دارالسلام ریاض)
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ’’جس نے دو بچیوں کو پالا پوسا میں اور وہ جنت میں ان دو انگلیوں کی طرح ہوں گے ‘‘شہادت کی اور ساتھ والی انگلی سے اشارہ کیا
(الترغیب والترھیب جلد دوم حصہ اول ص ۵۲،ترمذی شریف حدیث نمبر ۱۹۸۱ باب ما جاء فی النفقۃ علی البنات)
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ’’ تم اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو یہاں تک کہ بوسہ لینے میں بھی‘‘
(ابن النجار ،قانون شریعت ص۵۰۸)
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ’’اپنی اولاد کا اکرام کرو اور اچھے اداب سکھاؤ‘‘اور فرمایا کہ ’’اپنی اولاد کو برابری دواگر میں کسی کو فضیلت دیتا تو لڑکیوں کو دیتا‘‘اور فرمایا کہ ’’عطیہ میں اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو جس طرح تم چاہتے ہو وہ سب احسان و مہربانی میں تمہارے ساتھ عدل کریں ۔ (قانون شریعت ص۵۰۸)
المختصر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عائلی زندگی میں عدل وانصاف قائم کرنے کی بہت تاکید کی ہے اگر عائلی زندگی میں عدل وانصاف کو ملحوظ خاطر رکھیں گے تو گھرانہ جنت کا منظر پیش کریگااور اگر عدل و انصاف کو ملحوظ خاطر نہ رکھیں گے تووہ گھرانہ فساد و انتشار کا شکار ہو جائے گا اور جہنم کا منظر پیش کریگا ۔
معاشرتی زندگی میں عدل وانصاف
عائلی زندگی کے بعد معاشرتی زندگی میں بھی عدل بہت ضروری ہے باہمی تعلقات اور دیگر معاملات میں اگر عدل کو ملحوظ خاطر نہ رکھا جائے تو معاشرہ عدم توازن اور انتشار کا شکار ہو جائے گااسلام معاشرتی عدل و انصاف کا درس دیتا ہے اس کی نظر میں تمام ابن آدم انسانی شرف میں برابر ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ کسی کے حق میں ادب واحترام کا پہلو زیادہ ہے اور کسی کے حق میں شفقت ومحبت کا پہلو زیادہ ہے عمر میں بڑے احترام کے زیادہ حقدار ہیں اور کم عمر شفقت ومحبت کے زیادہ حقدار ہیں معاشرتی حقوق میں سب سے نازک پہلو یتیموں کے حقوق کا ہے کیونکہ اکثر لوگ یتیموں کی کفالت و پرورش کے بہانے ان کا مال غصب کر جاتے ہیں اسلام کی نظر میں یہ پسندیدہ نہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ( وان تقوموا للیتمیٰ بالقسط)اور تم یتیموں کے بارے میں عدل و انصاف کو ملحوظ رکھو ۔
یتیم : حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نی یتیموں کی کفالت اور پرورش کی بہت تاکید فرمائی ہے حضعر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خودبھی ان کی تربیت فرمائی اور ان کا بن کا دکھایا ۔۔۔ساتھ یھ اپنے ماننے والوں کو بھی بڑت دلکش اور مؤثر پیرائے میں یتیم پروری کی تعلیم و تلقین فرامائی اور ترغیب دی ۔
(The Oxford Encylopaedia Of ModrenIslamic World Oxford University Press New York 1955 Vol 4 Page 367)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’جو شخص یتیم کی کفالت کرے وہ یتیم اسی گھر کا ہو یا غیر کا۔میں اور وہ جنت میں اس طرح ہوں گے‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہادت والی انگلی اور بیچ والی انگلی سے اشارہ کیااور دونوں انگلیوں میں تھوڑاسا فاصلہ کیا ۔ (ابن حبان جلد ۲ ص ۲۰۷ رقم الحدیث ۴۶۰،معجم الکبیر جلد ۶ ص ۱۷۳ رقم الحدیث ۵۹۰۵،موطا امام مالک جلد ۲ ص ۹۴۸ رقم الحدیث ۱۷۰۰،بخاری شریف باب یتیم کی پرورش کرنے کی فضیلت حدیث نمبر ۹۴۳،ترمذی شریف باب ماجاء فی رحمۃ الیتیم و کفالتہ حدیث نمبر ۱۹۸۳،شرح السنہ ،مسند امام احمد جلد ۵ ص ۳۳۳ رقم الحدیث ۲۲۸۷۱ ،مسلم شریف کتاب الذھد والرقاق باب الاحسان الی الارملۃوالمسکین حدیث نمبر ۷۳۳۷،الترغیب والترھیب جلد دوم حصہ اول ص۵۶۵،نقوش رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نمبر مدیر محمد طفیل ناشر ادارہ فروغ اردو لاہور ج ۶ص ۷۷۳)
اسی طرح آقا کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرما یا کہ’’مسلمانوں کا سب سے بہتر گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ احسان کیا جائے اور سب سے براگھر وہ ہے جس میں یتیم کیساتھ برا سلوک کیا جائے ۔ (ابن ماجہ شریف۔ابواب الادب حق الیتیم،ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سید فضل الرحمان کراچی زوار اکیڈمی پبلی کیشنز ص۵۷۰)
حضور نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ ’’اے معاذ!میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو سچ بولو وعدے وفا کرو امانتیں ادا کرو ‘خیانت چھوڑ دو‘یتیم پر رحم کرو‘پڑوسی کی حفاظت کرو‘غصہ پی جاؤ‘ عاجزی اختیار کرو‘ سلام کرو‘ گفتگو میں نرمی اختیار کرو‘ ایمان میں ثابت قدم رہو‘قرآن میں تدبر و تفکر کرو‘ آخرت سے محبت کروحساب سے ڈرو اور امیدیں کم کرواور اچھے کام کرو اور میں تمہیں روکتا ہوں کہ کسی مسلما ن کو گالی نہ دوسچے کی تکذیب اور جھوٹے کی تصدیق نہ کروانصاف پرور حکمران کی نافرمانی نہ کرواے معاذ رضی اللہ عنہ ہر جگہ اللہ کو یاد کروہر گناہ سے توبہ کرو پوشیدہ ہے تو پوشیدہ اور اعلانیہ ہے تو اعلانیہ توبہ کرو ۔ (حلیۃ الاولیاء جلداول ص ۳۰۴)
آقا کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرما یا کہ’’تین افراد عرش کے سائے میں ہوں گے ان میں سے ایک وہ ہیجو اپنے مال سے اچھا کھانا تیار کرے اور یتیموں کو کھلائے ۔ (تفسیر روح البیان جلد اول ص ۸۹)
بوڑھوں کے بارے میں تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
جوانوں کو چاہیئے کہ وہ معمر عمر رسیدہ افراد کی ان کے بڑھاپے اور معمر ہونے کی وجہ سے عزت کریں ان کے سامنے ادب ولحاظ سے رہیں۔
آقا کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرما یا کہ’’جو نوجوان کسی بوڑھے کی اس کے بڑھاپے کی وجہ سے عزت کریگاتو اللہ تعالیٰ اس کے بڑھاپے میں دوسرے نوجوانوں کو اس کی عزت کے لئے مقرر کردے گا ۔ (ترمذی شریف ،تسہیل اعجب الامداد فی مکفرات حقوق العباد ص۵۰،مشکوۃ شریف جلد ۲ ص۴۲۳)
آقا کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرما یا کہ’’بوڑھے مسلمانوں کی تعظیم و توقیربھی اللہ تعالیٰ کی عزت و تکریم ہے ۔ (بہیقی شریف،ابوداؤد شریف السنن الکبرٰی ج ۸ ص۱۶۳ ،جامع الصغیر ج۱ص۱۴۹،الترغییب والترھیب)
آقا کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرما یا کہ’’جو بڑوں کا ادب نہیں کرتا وہ ہمارے طریقے پر نہیں ۔ (ترمذی شریف ابواب البر والصلۃ باب ما جاء فی رحمۃ الصبیان،المسند لاحمد ج ۵ ص۳۲۳،کنز العمال ۰۸۹۵ج ۳ص۱۶۵،مشکل الاثار للطحاوی ج ۲ص ۱۳۳،مجمع الزوائد ج۱ص۱۲۷)
عامۃ الناس کے بارے میں تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اخوت اسلامی کا رشتہ ملحوظ خاطر رکھے عدل و انصاف کے ساتھ پیش آئیکسی مسلمان پر ظلم نہ کرے اگر کوئی دوسرا ظلم کرے تو اپنے مسلمان بھائی کو بے یارو مددگار نہ چھوڑے اس کی مدد کرے ۔ آقا کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرما یا کہ’’ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے نہ خود اس پر ظلم کرے نہ اس کو بے یارومددگار چھوڑے ۔ (تسہیل اعجب الامداد فی مکفرات حقوق العباد ص۵۲)
جن جن صورتوں میں شریعت نے سزاؤں یا لڑائیوں کی اجازت دی ہے ان صورتوں میں خبردور حد سے نہ بڑھے ہر گز ظلم نہ کرے عدل وانصاف سے کام لے یہ شریعت اسلام کی مقدس تعلیم کی رو سے ہر انسان کا ہر انسان پر حق ہے ۔ آقا کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرما یا کہ’’یعنی رحم کرنے والوں پہ رحمان رحم کرتا ہے تم لوگ زمین والوں پہ رحم کرو تو آسمان والا تم پر رحم کرے گا ۔ (فلسفہ اخلاق ص ۵۲۷ مکتبہ رھمانیہ لاہور مشکوۃ شریف جلد دوم ص ۴۲۳ مجتبائی،ترمذی شریف باب ما جاء فی رحمۃ الناس حدیث نمبر ۱۹۸۹)
ناپ تول میں عدل وانصاف
اسلام نے ناپ تول میں بھی (تجارت ،خرید وفروخت) عدل وانصاف کو ملحوظ رکھنے کا حکم دیا ہے۔کاروبار میں وزن وپیمانہ کی اہمیت مسلمہ ہے اگر ناپ تول میں کمی کی جائے یا ملاوٹ کی جائے یا مال میں نقص پیدا کیا جائے تو معاشرے میں ناانصافی اور بددیانتی کی فضا جنم لیتی ہے ۔جس سے پورا معاشرہ متاثر ہوتا ہے چنانچہ قرآن پاک نے اس برائی پر خاص وجہ دیتے ہوئے عدل وانصاف کا حکم دیا ہے ۔ ارشاد ربانی ہے کہ : ’’واوفوالکیل والمیزان بالقسط‘‘ (سورہ انعام ۱۵۲) ۔ ترجمہ : اور ناپ تول کو پورا کرو ۔
آقا کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرما یا کہ’’جو شخص اشیاء میں ملاوٹ کرے وہ ہم میں سے نہیں ۔ (مظاہر حق جدید جلد دوم ص ۱۰۵،مخزن الاخلاق ص۵۹،اکسیر ھدایت اردو ترجمہ کیمیائے سعادت ص۱۶۵ دار الاشاعت کراچی )
آقا کریم علیہ الصلوۃ والسلام ایک دفعہ بازار سے گزر رہے تھے کہ ایک دکان پر غلہ کو دیکھا اس میں ھاتھ ڈالا تو وہ اندر سے گیلا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کہ یہ گیلا کیوں ہے؟ تو اس نے کہا کہ بارش کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں کو غلہ دیتے وقت دھوکہ میں نہ رکھنا ۔ (او کما قال علیہ الصلوٰۃ والسلام) ۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی نبوت سے پہلے بھی ہمیشہ دوسرے لوگوں کے ساتھ اپنے لین دین میں منصف اور ایماندار تھے ۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تاجر لوگ قیامت والے دن ایماندار اٹھائے جائیں گے سوائے اس کے جو متقی ہو اور لوگو ں کے ساتھ احسان کرے اور سچ بولے‘‘ (ترمذی ،ابن ماجہ و دارمی)
غیر مسلموں کے ساتھ عدل وانصاف
اسلام صرف اپنوں کے ساتھ ہی عدل کی تلقین نہیں کرتا بلکہ غیر مسلموں اور دشمنوں کے ساتھ بی عدل و انصاف کو ملحوظ رکھنے کی تلقین کرتا ہے نیز عدل وانصاف کے وقت ہر قسم کے تعصب ،عنا، حسد و رقابت اور کینہ و دشمنی کو نظر انداز کرنے کی تاکید کرتا ہے ارشاد ربانی ہے کہ’’ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ عدل نہ کروعدل کرو یہ تقویٰ کے قریب ہے ۔ (سورہ مائدہ آیت نمبر۸)
یہود ونصاریٰ اسلام کے کھلے دشمن تھے اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم فرمایا کہ ’’و امرت لاعدل بینکم‘‘(سورہ شوریٰ آیت نمبر ۱۵)اور مجھے حکم ملا ہے کہ میں تمھارے درمیان عدل کروں ۔
ایک مرتبہ ایک مسلمان اور یہودی کے درمیان جھگڑا ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں کی باتیں سن کر ان میں یہودی کے حق میں فیصلہ فرمایا ۔ (ابن اثیر جلد ۳ص ۱۶۰ ،رحمۃ اللعالمین ص ۱۳۴،تاریخ اسلام اکبر شاہ نجیب آبادی ص ۲۰۲)
اسلام میں عدل اجتماعی کا ایک نکتہ مساوات انسانی ہے اسلام کی نظر میں یہ سماجی عدل کی اہم بنیاد ہے نہ دولت نہ خون نہ عہدہ نہ منصب نہ نسلی امتیاز نہ علاقہ نہ مذہب کوئی بھی چیز معیار فضیلت نہیں اسلام ایسے ہر تعصب سے پاک ہے اس کے نزدیک تمام اجسام انسانی مٹی سے بنے ہیں قبائل اور نسلیں محض تعارف کے لئے ہیں یہ اسلام کا ہی طرہ امتیاز ہے کہاس میں سب کو برابری کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عدل و انصاف کرتے وقت عربی و عجمی، خادم و آقا، مسلم و کافر کے درمیان امتیاز نہیں برتا ۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کسی کالے کو گورے پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں سوائے تقویٰ کے ۔ (تاریخ اسلام ص ۸۶سٹنڈرڈ بک ھاؤس لاہورفتح الباری ابن حجر عسقلانی ص۲۰۱۱،سیرت النبی شبلی نعمانی مکتبہ مدینہ ۹۳۲،مرقاۃ المفاتیح ملا علی قاری مکتبہ امدادیہ ۱۴۸۳، الطبعۃ الخیریہ مصر ،خطبہ حجۃ الوداع ڈاکڑنثار احمد ص ۲۳۲ بیب الحکمت لاہور ۲۰۰۸ ء،ابن کثیر ،کنزالعمال۵/۱۵۹۔۱۶۶دائرہ معارف اسلامیہ حیدرآباد دکن۱۹۵۴ ء،السیرۃ النبویہ ابن ہشام دارالاحیاء بیروت۱۹۹۵ ء جلد ۴ ص ۲۵۹ تا ۲۶۰ ،بخاری شریف کتاب الحدودص۸/۲۸۶ ، مسنداحمد ج۶ص۵۷۰ رقم الحدیث۲۲۹۷۸دارالاحیاء بیروت، سیارہ ڈائجسٹ انبیائے کرام نمبر ص ۴۴۴)
عدالتی عدل وانصاف اور تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
عدل وانصاف کی خاص طور پر ضرورت عدالتی معاملات میں ہوتی ہے کیونکہ یہاں ہی حق و باطل ،جائز وناجائز صحیح و غلط میں فرق کیا جاتا ہے اس لئے اسلام نے عدالتی معاملات کے ہر پہلو میں عدل و انصاف اپنانے کی تلقین کی ہے اسی طرح گواہ کو بھی چاہیے کہ وہ سچی گواہی دے اس میں دوستی و قرابت داری کا قطعاََ لحاظ نہ رکھا جائے بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی و رضا کا طلب گار ہو ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’ اور جب تم گواہی (بات)کہو تو عدالت کو ملحوظ رکھو چاہے کوئی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو‘‘
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عدل کرنے میں اس حد تک احتیاط کی تاکید فرمائی ہے کہ’’ کوئی حاکم دو شخصوں کے درمیان اس وقت تک فیصلہ نہ کرے جب تک کہ وہ غصہ کی حالت میں ہو ۔ (مسند امام شافعی حدیث نمبر ۱۶۸۰،۱۶۸۱۔ المسند ،دارالمعرفۃ بیروت ،الجامع الصغیر مصر حدیث نمبر ۱۷۱۷،ترمذی شریف بیرو ت حدیث نمبر۱۱۳۴، السنن الکبریٰ دار الکتب العلمیہ حدیث نمبر ۵۹۶۲، صحیح ابن حبان دارالفکر بیروت حدیث نمبر ۵۰۷۰،السنن بیروت حدیث نمبر ۳۵۹۰)
اسلام ہمیں کسی کے ساتھ امتیازی سلوک کی اجازت نہیں دیتا چاہیے ظالم ہو چاہے کتنا طاقتور ہو چاہے وہ حکمران ہی کیوں نہ ہو سب اسلام کی نظر میں برابر ہیں وراثت کا مسئلہ ہو یا جائیداد کا الغرض کوئی بھی مسئلہ ہو کسی بھی قسم کا ہو انصاف کرنا چاہیئے۔
طبرانی حضرت امام باھلی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : تم مجھے پانچ چیزوں کی ضمانت دو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں : (1) وراثت کی تقسیم میں ناانصافی نہ کرو ۔ (2) لوگوں کو اپنی طرف سے انصاف دو ۔ (3) ۔دشمن کے مقابلے میں بزدلی نہ دکھاؤ ۔ (4) مال غنیمت میں خیانت نہ کرو ۔ (5) ظالم اور مظلوم کے درمیان عدل کرو ۔ ( شرح صحیح مسلم )
محسن کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عدل وانصاف
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عد ل وانصاف ،امانت و پاکبازی،اور سچائی کا یہ حال تھا کہ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ امانت دار ،سب سے بڑھ کر عادل اور سب سے بڑھ کر پاکباز اور راست گو تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر ایک کا پوراپورا حق دلایااعلان نبوت سے قبل ہی آپ عادل امین اور صادق مشہور تھے ۔ (مترجم شفا شریف جلدا ول ص ۱۲۴ مکتبہ اعلیٰ حضرت لاہور)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمنوں کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عدل و نصاف پر پورا اعتماد تھاچنانچہ مشرکین مکہ اپنے پچیدہ جھگڑوں کا فیصلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہی کرواتے ۔
حلف الفضول ایک مہذبانہ و شریفانہ معاہدہ تھا جو کمزور افراد اور اپنے حقوق کے دفاع کے لئے تھایہ معاہدہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوششوں کے نتیجہ میں ہوا۔ یہ معاہدہ جنگ فجار سے واپسی پر ہوا شرکاء معاہدہ نے اللہ تعالیٰ کو گواہ بناتے ہوئے عہد کیا کہ : جبتک دریا میں صفوف کے بھگونے کی شان باقی ہے ہم مظلوم کا ساتھ دیں گے تا آنکہ اس کا حق ادا کر دیا جائے ۔ (سیارہ ڈئجسٹ عکس سیرت نمبر اپریل ۲۰۰۰ ء ص ۴۷،تاریخ اسلام ص ۱۳ سٹنڈرڈ بک ھاؤس لاہور،السھیلی الروض الانف جلد ۱ ،سیرۃابن ہشام ج۱ ص۷۸،۷۹۔مجلہ عثمانیہ جلد ۱۱ ص ۱۹ شمارہ ۲،۱۔طبقات ابن سعد جلد ۱ ص ۱۸۳ ۱۹۸۳ ء،تاریخ الجاھلیہ ڈاکٹر عمر فروخ ص ۱۳۲ دارالعلم بیروت،رسول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی زندگی ڈاکٹر حمید اللہ ص۵۸ ۱۹۸۷ ئدارالاشاعت کراچی،مختصر سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ص ۴۶،۴۷۔ضیا ء النبی ج۲ ص ۱۲۰ تا ۱۲۳ ضیاء القرآن)
حجر اسود کی تنصیب : خانہ کعبہ کی تعمیر نو کا تنازعہ بڑا تاریخی ہے حجر اسود کے نصب کرنے میں قبائل مکہ میں جھگڑا کھڑا ہو گیا یہاں تک کہ انہوں نے تلواریں سونت لیں بالآخر معاملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لایا گیااور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مسئلہ کوبڑی خوش اسلوبی سے حل فرما دیا اور جھگڑا ختم ہو گیا ۔ (ضیا ء النبی جلد دوم ص۱۵۲، سیارہ ڈائجسٹ انبیائے کرام نمبر ص ۴۰۹ ،تاریخ اسلام ص ۱۴ سٹینڈرڈ بک ھاؤس لاہور،مختصر سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ص ۵۳،۵۲ جامعہ اثریہ جہلم،مترجم سیرت ابن ہشام جلد ایک ،طبقات ابن سعد جلد ایک ص ۲۰۶ نفیس اکیڈمی ،رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سلیمان ندوی ص ۲۲ ،تاریخ طبری ۔محمد جریر طبری ج ۲ ص۴۱،رحمۃ العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سلیمان منصور پوری ص ۱۳۷دارالاشاعت کراچی اگست ۱۹۹۹ ء،تاریخ ابن خلدون اردو ج ۱ ص ۳۶،شرح المواہب اللدنیہ ج ۱ ص ۲۰۳ تا ۲۰۶،سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلد ۱ ص۲۱۰،سیرۃ النبویہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلد ایک۱ ص۲۰۱،آفاقی تہذیب وتمدن ص ۱۰۶،مترجم شفا شریف جلد اول ص ۱۲۵ مکتبہ اعلیٰ حضرت،)
بنو مخزوم کی عورت کی چوری
ایک مرتبہ بنو مخزوم کی ایک معزز گھرانے کی ایک فاطمہ نامی عورت نے چوری کی مقدمہ حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس لایا گیا قریش اپنی عزت کے پیش نظر چاہتے تھے کہ اس کو سزا نہ ملے مختلف اصحاب اور پھر حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے سفارش کروائی گئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ انور غصہ سے سرخ ہو گیا اور فرمایا کہ ’’بنی اسرائیل اس وجہ سے ہی تباہ ہوئے کہ وہ بااثر آدمیوں کے معاملے میں نرمی برتتے اور غرباء کے معاملے میں سختی کر کے انہیں سزا دیتے پھر فرمایا کہ اللی کی قسم اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں اس کا ھاتھ بھی کاٹ دیتا ‘‘چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق اس کا ھاتھ کاٹ دیا گیا ۔ (سیرت مجمع کمالات ص ۲۷۹ پروفیسر عبد الجبار شیخ ادارہ تعلیمات سیرت سیالکوٹ ۱۹۹۵، مدارج النبوت حصہ اول ص ۱۰۸ ، شفا شریف ص ۱۰۳،شمائل ترمذی ص۲۱،بخاری شریف کتاب الحدود باب کراھیۃ الشفاۃ ،مظاہر حق نواب محمد قطب دین جلد سوم ص۶۳۰،بخاری شریف کتاب الحدود باب اقامۃ الحدود علی الشریف والوضیع،صحیح مسلم کتاب الحدود باب قطع السارق الشریف رقم ۴۴۱۰،رحمۃ اللعالمین ج ۱ ص ۸۵،ترمذی کتاب الحدود ج ۴ ص۸۳،اخلاق محسنیٰ طبع مرزا ابراہیم شیرازی)
عدل کریں : ایک بار ایک بدو نے کہا کہ آپ عدل نہیں کررہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرامایا کہ’’میں عدل نہیں کروں گا تو کون کریگا ؟ (معارج النبوت ص ۶۲۷، شفاشریف ص ۳۱۱، رحمۃ اللعالمین حصہ اول ص ۲۶۰،شرقاوی فتح المبدی مصطفیٰ البابی حلبی جلد ۲ ص۳۴۰ ۱۳۳۷ ھ مصر،صحیح بخاری کتاب فرض الخمس باب ومن الدلیل علی ان الخمس رقم الحدیث ۳۱۳۸،مدارج النبوت حصہ اول ص ۱۰۸،شفا شریف ۱۰۳،شمائل ترمذیص۲۱ )
بدلہ لے لو: ایک بار حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ھاتھ میں پتلی سی چھڑی تھی آپ علیہ الصلوہ والسلام نے ایک شخص کو ہٹایا اتفاق سے لکڑی کا سرا اس کے منہ پر(ایک روایت میں پیٹ) پر جا لگا اور خراش آگئی اسی وقت فرمایا کہ بدلہ لے لو اس نے عرض کی کہ حضور میں نے آپ کو معاف کیا ۔ (معارج النبوت ص۶۲۷، شفا شریف ص ۳۱۱،رحمۃ اللعالمین حصہ اول ص۲۶۰)
خطبہ حجۃ الوداع : حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں عدل ،امن وسلامتی حریت فکروعمل ،آزادی عقیدہ ،محبت ورواداری اور عورتوں کے حقوق کے تحفظ کا اعلان کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح فضیلت صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہے ۔ (اسلام کا سنہر ی دورص ۲۹،تاریخ اسلام ص ۸۶سٹنڈرڈ بک ھاؤس لاہورفتح الباری ابن حجر عسقلانی ص۲۰۱۱،سیرت النبی شبلی نعمانی مکتبہ مدینہ ۹۳۲،مرقاۃ المفاتیح ملا علی قاری مکتبہ امدادیہ ۱۴۸۳، الطبعۃ الخیریہ مصر ،خطبہ حجۃ الوداع ڈاکڑنثار احمد ص ۲۳۲ بیب الحکمت لاہور ۲۰۰۸ ء،ابن کثیر ،کنزالعمال۵/۱۵۹۔۱۶۶دائرہ معارف اسلامیہ حیدرآباد دکن۱۹۵۴ ء،السیرۃ النبویہ ابن ہشام دارالاحیاء بیروت۱۹۹۵ ء جلد ۴ ص ۲۵۹ تا ۲۶۰ ،بخاری شریف کتاب الحدودص۸/۲۸۶ ، مسنداحمد ج۶ص۵۷۰ رقم الحدیث۲۲۹۷۸دارالاحیاء بیروت، سیارہ ڈائجسٹ انبیائے کرام نمبر ص ۴۴۴، سیرت ابن ہشام جلد دوم ص ۲۷)
ظلمتیں کافور ہو جائیں فضائے دہر سے
اس طرح پھیلے رخ شاہ ہدیٰ کی روشنی
اسوۂ خیر البشر کے نور سے ہو مستنیر
دہر میں چمکے اسی اک نقش پا کی روشنی
ایچ جی ویلز اپنی تالیف’’A Concisc History Of The World‘‘ میں آقا کریم علیہ الصلوۃ والسلام کے عدل کے حوالے سے خراج تحسین پیش کرتا ہے کہ : انسانی آزادی ، بھائی چارے اور مساوات (برابری) کے وعظ تو دنیا میں پہلے بھی بھت کہے گئے ہیں چنانچہ مسیح نامری لے یہاں بھی وہ بکثرت موجود ہیں لیکن اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں ہے کہ ان اصولوں پر بالفصل ایک معاشرہ تاریخ انسانی میں پہلی بار قائم کیا محمد نے(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ (اسلام میں عدل اجتماعی کی اھمیت ص۱۴)
المختصر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ساری زندگی میں عدل پر مبنی ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عدل وانصاف کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے ۔
اسلامی نظام عدل اور برٹش نظام عدل میں فرق : یہاں پر ضروری ہے کہ ہم اسلامی نظام عدل اور برٹش رائج الوقت رومن نظام عدل کا موازنہ کریں۔رائج الوقت رومن اور برٹش نظام عدل کا کوئی بھی نکتہ اسلامی نظام عدل کے خدوخال سے نہیں ملتا اور دونوں نظاموں میں اتنی وہمی مماثلت بھی نہیں جتنی کہ ڈارون کی فریب خوردہ نگاہ کو بندر اور انسان میں نظر آتی ہے بہرحال ہم یہاں پر صرف چند نکات پر فرق جانچتے ہیں۔
(1) اسلام میں اقتدار اعلیٰ خاص اللہ کے لئے ہے جبکہ رومن نظام میں بادشاہ کے لئے ہے ۔
(2) اسلامی نظام میں جزاو سزا اللہ کا حق ہے قاضی اللہ کا نائب ہے جبکہ رومن نظام میں جج بادشاہ کا نمائندہ ہے ۔
(3) اسلامی نظام عدل میں جج کے لئے اسلام اور ایمان کی شرط ہے جبکہ رومن نظام میں کافر بھی جج بن سکتا ہے ۔
(4) اسلامی نظام عدل میں احکام شریعت کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرنے والا قاضی نہیں ہو سکتا جبکہ رومن نظام میں یہ رکاوٹ نہیں ۔
(5) اسلامی نظام عدل میں لالچ اور دباؤ میں دی جانے والی شہادت ناقابل قبول ہے جبکہ رومن نظام عدل میں اجرت اور دھمکی کی گواہی پر بھی فیصلے ہوتے ہیں۔
(6) اسلامی نظام میں عدل اللہ کا حکم ہے اس لئے قاضی ان قوانین شریعت کے مطابق کاروائی کرے گاجو اللہ کی وحی پر مبنی ہیں جبکہ رومن نظام عدل میں جج ان قوانین عدلیہ کا پابند ہے جو انسانی فکر پر مبنی ہیں ۔
(7) اسلامی نظام عدل میں فیصلے کی بنیاد مقرر کردہ نصاب شہادت کے مطابق ان عادل گواہوں کی گواہی پر ہے جو مسلمان ہوں جس معاملے میں شہادت دے رہے ہوں اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوجس طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خائن اورخائنہ اورکسی دشمن کی گواہی کو رد فرمایا ہے جبکہ رومن نظام میں فیصلہ گواہوں کے بیان پر ہے ۔
صرف دو قتل : اسلامی نظام عدل کا ہی نتیجہ تھا کہ گجرات کے بادشا ہ احمد شاہ کے دور میں صرف دو قتل ہوئے ۔ (برصغیر پاک و ہند میں اسلامی نظام عدل عبدالحفیظ ص۱۷۰ مطبوعہ اسلام آباد)
عدل کے فوئد وثمرات : عدل و انصاف کے بے شمار فوائد و ثمرات ہیں چیدہ چیدہ درج ذیل ہیں۔
استحکام معاشرہ : عدل و انصاف سے معاشرہ کو استحکام حاصل ہوتا ہے حقدار کو اس کا حق مل جاتا ہے ۔
معاشرتی مساوات : اسلام کی نظر میں مال و دولت رنگ و نسل ملت و مذہب اور عقیدہ کی بنیاد پر کسی کو ترجیح نہیں دی جاتی تمام کو ایک نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
دنیا کی کامیابی : عدل و انصاف اختیار کرنے سے افراط و تفریط سے انسان بچ جاتا ہے یہ ناقابل تردید حقیقت ہے ہے کہ اعتدال کی راہ ہی زندگی میں کامیابی کی ضامن ہے۔
اجر آخرت : عدل و انصاف ایک عظیم اخلاقی فریضہ ہے اسے اللہ کے ھاں خاص مقام حاصل ہے قرآن میں جگہ جگہ جہاد کی فضیلت بیان ہوئی ہے اس لئے حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے عادل بادشاہ کو قیامت کے روز سایہ خدا میں رہنے کی بشارت سنائی ہے جس دن کوئی سایہ نہ ہوگا ۔ حقوق کی حفاظت : عدل سے کمزور طبقوں کے حقو ق کا تحفظ ہو جاتا ہے ۔ المختصر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اسلام نے عدل و انصاف کا معیار بلند رکھا ہے ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment