Saturday 16 December 2017

بطور عاجزی سگِ مدینہ کہنا کیسا ؟ اعتراض کا جواب

0 comments
بطور عاجزی سگِ مدینہ کہنا کیسا ؟ اعتراض کا جواب









نوٹ : سگ مدینہ کہنے پر مذاق اڑانے والے اور کتا کتا کہنے والے دیابنہ اور وہابیہ کے جہلاء کو جواب فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے انہیں کے بڑوں کی کتابوں کے اسکن لگا کر دیا ہے جو خود کو مدینے کا کتا بلکہ اس سے بھی کمتر کہتے ہیں اب ان جہلا سے گذارش ہے اپنے بڑوں کو بھی کتا کتا اور کتے مذھب والے کہو اور پوسٹیں بناؤ ہمت کرو یہ الفاظ تمہیں سمجھانے کےلیئے لکھے ہیں شاید عقل آجائے ۔

اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ انسان چُونکہ اشرفُ المخلوقات ہے اِس لئے اس کو کسی جانور سے۔ تَشْبِیہ (تَشْ۔بِیْہ )نہیں دی جا سکتی ۔ اس کے بارے میں عرض یہ ہے کہ انسان شکل و صورت میں واقعِی بَہُت اچھّا ہے مگریہ حقیقت ہے کہ جو انسان اللہ رَحمٰن عَزَّوَجَلَّ کا نافرمان اور مُتَّبِعِ شیطٰن ہے وہ یقینا بدترا ز حَیوان ہے ۔ یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا ،بلکہ اللہ تَبارَکَ وَتعالیٰ پارہ 30سورۃُ التِّین آیت نمبر 4اور5میں ارشاد فرمارہا ہے : لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحْسَنِ تَقْوِیۡمٍ ۫﴿۴﴾ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سَافِلِیۡنَ ۙ﴿۵﴾
ترجَمہ : بے شک ہم نے آدمی کو اچھی صورت پر بنایا پھر اسے ہرنیچی سے نیچی حالت کی طرف پھیر دیا ۔

قراآنِ مجید میں انسان کواچّھی صورت پر بنانے کے بعد ہر نیچی سے نیچی حالت پر پھیر دینے کا تذکِرہ کیا گیا ہے ۔ حکیمُ الْاُمَّت حضرتِ مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ آیت نمبر 4 میں انسان کی اچّھی صورت اور جسمانی خوبیوں کا تذکِرہ کرنے کے بعد آیت نمبر 5 کے تَحت فرماتے ہیں : یعنی انسان نے مذکورہ نعمتوں کی قَدر نہ کی اور کُفر و بدعملی اختیار کی ، توہم نے اسے جانوروں سے بدتر، کیڑوں مکوڑوں ، (بلکہ) گندَگیوں سے (بھی) کمتر کردیا کہ اس کا ٹھکانہ دوزخ قراردیا ۔ معلوم ہوا کہ کافِر (بظاہِر انسان نظر آنے کے باوُجُود) جانور سے بدتر ہے ۔ اِلَخ (نور العرفان ص987)

پارہ 8 سورۃُ الْاَعراف آیت 179میں ارشادِ ربُّ العِباد عزوجل ہے : اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْغٰفِلُوۡنَ ﴿۱۷۹﴾
ترجَمہ : وہ چَوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بڑھ کر گمراہ، وُہی غفلت میں پڑے ہیں ۔

حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : معلوم ہوا کہ انسان اگر ٹھیک رہے تو (بعض)فِرشتوں سے بڑھ جاوے ۔ اور اگر اُلٹا چلے تو جانوروں سے بھی بدتر ہوجاوے کہ جانور تو اپنے بُرے بھلے کو جانتا ہے (مگر)یہ نہیں جانتا۔کُتّا (بھی)سونگھ کر منہ ڈالتا ہے مگر یہ انسان بِغیر تحقیق ہی حرام حلال سب کھاجاتا ہے ۔ (نور العرفان ص276)

اامید ہے یہ بات تو سمجھ میں آگئی ہوگی کہ جو انسان خدائے رَحمٰن عَزَّوَجَل کا تابِعِ فرمان ہے وُہی صاحِبِ عظمت و شان ہے ورنہ جو انسان مُتَّبِعِ شیطان ہے وہ بدتر از حیوان ہے ۔ مگرشاید ابھی یہ وَسوَسہ باقی رہے کہ چلئے کُفّار جانور بلکہ جانور سے بھی بدتر سہی مگر مسلمان کو تو اپنے منہ سے خود کو کُتّا وغیرہ نہیں کہنا چاہئے ! اِس ضِمْن میں عرض ہے کہ اگرکوئی مسلمان اپنے آپ کو تواضُع کے طور پر'' کتّا'' کہے یا لکھے تو اِس میں شَرعاً کوئی حَرَج نہیں ۔ بطورِ عاجِزی اپنے لئے اِ س طرح کے الفاظ کا استِعمال بُزُرگوں میں شُروع ہی سے رائج ہے ۔ البتہ ،اپنے منہ میاں مٹّھو بننے یعنی محض اپنے نفس کی خاطِر اپنی بڑائی بیان کرنے کی اجازت نہیں چُنانچِہ پارہ 27 سورۃُ النَّجم آیت نمبر 32 میں اللہ رَحمٰن عَزَّوَجَلَّ کا فرمانِ عبرت نشان ہے :
فَلَا تُزَکُّوۡۤا اَنۡفُسَکُمْ ؕ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی ٪﴿۳۲﴾
ترجَمہ : تو آپ اپنی جانوں کو سُتھرا نہ بتاؤ ،وہ خوب جانتا ہے جو پرہیز گار ہیں۔

اپنے منہ سے خود کو عالِم کہنا :عالِم ہونا بھی خوبی کی بات ہے مگر بِلاضَرورت اپنے منہ سے عالِم بھی اپنے آپ کو عالِم نہ کہے چُنانچِہ فرمانِ مصطَفٰے صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم ہے : مَنْ قَالَ اَنَا عَالِمٌ فَھُوَ جَاھِلٌ. یعنی جو اپنے آپ کو عالِم کہے وہ جاہِل ہے ۔ (المعجم الاوسط للطبرانی ج ۵ ص ۱۳۹ حدیث ۶۸۴۶)

نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بڑھ کر انسان کی عظمت کو کون سمجھ سکتا ہے : خود نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم نے اپنے کرمِ خاص سے بعض صحابۂٔ کرام علیھم الرضوان کو ''انسان ''کے علاوہ کسی اور شے کے لقب سے مُلَقَّب فرمایا مَثَلاً، حُضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم نے اپنے چچا جان سیِّدُ الشُّہداء حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اللہ ورسول کا شَیر قرار دیتے ہوئے فرمایا : میرے پاس جِبریلِ امین (علیہ السلام) آئے انہوں نے بتایا:''ساتوں آسمانوں پر یہ لکھا ہوا ہے کہ حضرتِ حمزہ اللہ اور اس کے رسول کے شَیر ہیں ۔
(المُستَدرک لِلحاکم ج۴ ص۲۰۴ رقم ۴۹۵۰دار المعرفۃ بیروت )

اللہ کی تلوار : نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم نے حضرتِ سیِّدُنا خالِد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سَیْفٌ مِّن سُیُوفِ اللہ ،یعنی'' ا للہ عزوجل کی تلواروں میں سے ایک تلوار'' کا لقب عنایت فرمایا۔ (ماخوذ از صحیح البخاری ج۲ ص۵۴۸ حدیث ۳۷۵۷ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان اس حدیث کے تَحت فرماتے ہیں: ''سَیْفُ اللہ''(یعنی اللہ عزوجل کی تلوار) سے مُراد ہے بڑے بہادُر ، اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت عظمت کے لئے ہے۔ (مراۃ المناجیح ج۸ ص ۱۸۷،ضیاء القراٰن پبلی کیشنز مرکز الاولیاء لاہور)

اے مِٹّی والے : نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم اپنی پیاری حضرت سیّدہ فاطِمۃُ الزَّہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے یہاں تشریف لائے ۔ مولائے کائنات حضرتِ علیُّ الْمرتَضٰی،شَیرِ خدا کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم کو وہاں موجود نہ پاکر شہزادی صاحِبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ان کے بارے میں پوچھا ، عرض کی : مسجد میں گئے ہیں ۔ وہاں تشریف لے گئے ، دیکھا کہ حضرتِ علی رضی اللہ عنہ مِٹّی پر لیٹے ہوئے ہیں اوران کی مبارَک چادر پُشتِ اطہر سے نیچے گری ہوئی ہے ۔ نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم نے اپنے دستِ پُر انوار سے اُن کی پیٹھ مبارَک سے مِٹّی جھاڑتے ہوئے فرمایا : قُمْ اَبَا تُرَابٍ قُمْ اَبَا تُرَابٍ یعنی اٹھو! اے ابو تُراب،اٹھو ، اے ابوتُراب (ابوتُراب یعنی مٹّی والے) ۔ حضرتِ سَہل بن سَعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایاکہ : حضرتِ مولیٰ علی رضی اللہ عنہ کو اپنے ناموں میں سے ابُو تراب ( یعنی مٹّی والے) سب سے زیادہ پسند تھا۔جب انہیں اس کے ساتھ پکارا جاتا تو بَہُت خوش ہوتے تھے ۔ ان کا ابُو تُراب نام نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلّم ہی نے رکھا۔ (صحیح البخاری ج۱، ۲،۴ص۱۶۹، ۵۳۵،۱۵۵حدیث ۴۴۱،۳۷۰۳ ، ۶۲۰۴ )

شَیرِ خدا : شیر ہمّت کی علامت ہے ۔بہادروں کو عُموماً لوگ ''شَیر'' کہہ دیا کرتے ہیں حالانکہ یہ ایک ایسے جانور کا نام ہے جس کا لُعاب (تھوک ) نَجاستِ غَلیظہ ہے اورجُھوٹا ناپاک ۔ یہاں عظمتِ انسانی مَجروح ہوئی یا نہیں ؟
ہرگز نہیں ہوئی ۔ بہادُروں کے افسر ، فاتِحِ خیبر ، حضرتِ علیُّ الْمرتضٰی رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں کا بچّہ بچّہ شَیرِخُدا کہتا ہے ۔ صَدِیّاں بِیت گئیں مگر آج تک کسی عالِم دین نے مولیٰ علی رضی اللہ عنہ کو شَیرِخدا کہنے سے نہیں روکا تو اگر کوئی بطورِ عاجِزی و بسببِ خوفِ خداوندی خود کو سگِ مدینہ کہے تو اُس پر اعتراض کیوں ؟

ابو ہُریرہ کا اصلی نام کیا تھا ؟ مشہور صَحابی حضرتِ ابوہُریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام شاید ہی کسی کو معلوم ہوگا : ''ابو ہُریرہ'' نام نہیں بلکہ کُنْیَت ہے جو بارگاہِ رسالت سے عنایت ہوئی تھی ۔ اور ابوہُریرہ کے معنی ہے : (بلّی والا ،یا) بلّی کا باپ ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اصلی نام مبارَک کے بارے میں شارحِ بُخاری حضرتِ سیِّدناعلامہ عَینی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: ان (یعنی حضرت ابو ہریرہ )کے نام کے بارے میں تقریباً تیس قول ہیں، سب سے قریب تر یہ قول ہے کہ ان کانام عبداللہ یا عبدالرحمٰن ہے ۔ (عمدۃ القاری ج اص ۱۹۴ دارالفکر بیروت)

ایک صَحابی کا لقب سَفینہ (کِشتی) تھا : مشہور صحابی حضرتِ سَیِّدُنا سَفینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اصلی نام ایک قول کے مطابِق ''مِہران ''ہے ۔انہیں بارگاہِ رسالت سے سَفینہ (کِشتی)کا لقب عنایت ہوا اور اسی لقب سے شُہرت پائی ۔ (المنتظم فی تاریخ الملوک والامم لابن الجوزی ج۵ ص۱۴۰،دار الکتب العلمیۃ بیروت)

اُونٹ کا لقب پانے والے صَحابی : حضرت بُرِیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : ایک نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلّم کی مَعِیَّت میں مجھے سفر کی سعادت ملی ہوئی تھی رُفَقائے سفر سے سامان کا باراٹھانا دُشوار ہوگیا ، اُنہوں نے مجھ پر سامان ڈالنا شروع کردیا ، پیارے پیارے نبی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم میرے قریب سے گذرے تو فرمایا: اَنْتَ زَامِلَۃٌ یعنی تم بوجھ اٹھانے والا اُونٹ ہو ۔ ( تاریخ الاسلام للذ ھبی ج۱ص۱۳۴)

ایک صَحابی کا لقب حِمار تھا

بخاری شریف میں ہے: نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم کی ظاہِری حیات میں ایک صحابی تھے جن کا نام عبد اللہ اور لقب حِمار تھا ، وہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم کو ہنسایا کرتے تھے ۔ (صحیح البخاری ج۴ ص۳۳۰ حدیث ۶۷۸۰)

شارِحِ بخاری حضرتِ علامہ مفتی محمدشریف الحق امجدی حمۃ اللہ علیہ نُزہَۃُ القاری جلد 5 صَفْحَہ747 پر لکھتے ہیں : کسی کابُرا لقب رکھنا مَنع ہے ارشاد ہے : وَلَا تَنَابَزُوۡا بِالْاَلْقَابِ ؕ ترجَمہ :اور ایک دوسرے کے بُرے نام نہ رکھو ۔ (پ۲۶ الحجرات۱۱) پھر ان کالقب اس عہدِ مبارَک میں کیسے حمار تھا ؟ بُرالقب رکھنا اِیذا اور اِہانت (یعنی توہین) کا سبب ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی اِس قسم کے نام کسی خاص وجہ سے لوگوں کو پیارے ہوجاتے ہیں مَثَلاً کسی دینی بُزُرگ نے یہ لقب رکھ دیا جیسے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام حُضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم نے '' ا بوتُراب ''(یعنی مِٹّی والا) رکھا ، ظاہر ہے کہ معنئ لُغوی کے اعتبار سے یہ جُملہ توہین کا ہے لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ نام سب سے زیادہ پسند تھا اِسی قَبیل (قِسم) سے ابو ہُریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (یعنی چھوٹی سی بلّی والا) ہے ۔ ذَاتُ النِّطَاقَیْن ( یعنی دو کمر بند والی) عرب کے عُرف میں توہین کا لفظ تھا لیکن جب حُضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم نے حضرت اَسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ذَاتُ النِّطَاقَیْن ( یعنی دو کمر بند والی) کہہ دیا یہ ان کے لئے سرمایۂ افتخار ہوگیا ۔ اسی طرح اِمکان ہے کہ ہوسکتا ہے حُضورِ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم نے کبھی ان کوحِمار فرما دیا یا کسی اور معزَّز نے حِمار کہہ دیا ہو جس کی وجہ سے انہیں یہ نام پسند آگیا ۔ (نزھۃ القاری ج۵ ص ۷۴۷ فرید بک اسٹال لاہور)

کاش میں پَرندہ ہوتا : حضرتِ سیِّدُنا ابو بکر صِدّیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک پرندے کو درخت پر بیٹھے ہوئے دیکھا توفرمایا : اے پرندے تُو بڑاخوش بخت ہے ، وَاللہ کاش میں بھی تیری طرح ہوتا ، درخت پر بیٹھتا ،پھل کھاتا ، پھر اُڑجاتا، تجھ پر کوئی حساب وعذاب نہیں ، خدا کی قسم کاش میں کسی راستے کے کَنارے پر کوئی دَرَخت ہوتا ، وہاں سے کسی اُونٹ کا گذرہوتا ، وہ مجھے منہ میں ڈالتا چباتا پھر نگل جاتا ۔ اے کاش میں انسان نہ ہوتا ۔ (مُصَنَّف ابن ابی شَیبۃج۸ ص ۱۴۴، دارالفکر بیروت) ایک موقع پر فرمایا:''کاش !میں کسی مسلمان کے پہلو کا بال ہوتا ۔ (الزُّھد،للامام احمد بن حنبل ص ۱۳۸ رقم ۵۶۰، دارالغدالجدید مصر)

کاش میری ماں نے ہی مجھ کونہ جنا ہوتا : حضرتِ ابو ذَرغِفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک موقع پر تنکا اٹھاکر فرمانے لگے : کاش میں یہ تنکا ہوتا ، کاش میری ماں نے ہی مجھ کونہ جنا ہوتا ۔ (مُصَنَّف ابن ابی شَیبۃج۸ ص ۱۵۲)

کاش میں پھل دار پَیڑ ہوتا : حضرتِ ابو ذَرغِفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک بار غَلَبۂ خوف کے وَقت فرمانے لگے : خدا کی قسم اللہ عَزَّوَجَلَّ نے جس دن مجھے پیدا فرمایا تھا کاش!اُس دن وہ مجھے ایسا پَیڑ بناد یتا جس کو کاٹ دیا جاتا اور اس کے پھل کھالئے جاتے ۔ (مصنف ابنِ ابی شیبہ ج۸ص۱۸۳)

نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں : اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم اگر تم وہ چیزیں جانتے جو میں جانتا ہوں تو تم تھوڑا ہنستے زیادہ روتے اور اپنی عورَتوں سے بستروں پر لذّت حاصل نہ کرتے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پناہ لیتے ہوئے جنگلوں کی طر ف نکل جاتے حضرتِ ذَرغِفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے : یَا لَیْتَنِیْ کُنْتُ شَجَرَۃً تُعْضَدُ. یعنی ہائے کاش میں درخت ہوتا ، جو کاٹ دیا جاتا ۔ (مشکاۃ المصابیح ج۳ ص ۲۷۲ حدیث ۵۳۴۷ دارالکتب العلمیۃ بیروت)

حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان اس کے تحت فرماتے ہیں:مطلب یہ ہے کہ میں انسان نہ ہوتا جو احکام کے مُکلَّف ہیں اور گناہ کرتے ہیں۔یہ ان لوگوں کا خوف ہے جن کے جنّتی ہونے کی خبر قرآنِ کریم اور صاحِب قراٰن نے دیدی ہے، اب سوچو کہ ہم کس شمار میں ہیں !بات یہ ہے کہ جتنا قُرب زیادہ اتنا ہی خوف زیاد ہ، اللہ اپنا خوف عطا کرے۔ ( مراۃ المناجیح ج۷ ص۵۵ ۱)

ایک موقع پر حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا : کاش میں دُنبہ ہوتا ، مجھے گھر والے خوب فَربِہ کرتے ، مجھے ذَبْح کرتے ، کچھ گوشت بھون لیتے اور کچھ سُکھا لیتے پھر مجھے کھا جاتے ، کاش !میں انسان نہ ہوتا ۔ (حلیۃالاولیاء ج۱ ص۸۸رقم۱۳۶دارالفکر بیروت)

کاش میں بَھیڑ کا بچّہ ہوتا : اسلام کے عظيم سِپہ سالار حضرت ابو عُبیَدہ بن جَرّاح رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنہیں حُضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم نے اِس اُمَّت کا امین فرمایا ۔ اپنے بارے میں کہا کرتے تھے : کاش !میں بَھیڑ کا بچّہ ہوتا ، میرے گھر والے مجھے ذَبح کرڈالتے ، میرا گوشت کھالیتے اور شوربہ پی جاتے ۔ (الطبقات الکبری لابن سعد ج۳ص۳۱۴،۳۱۵دارالکتب العلمیۃ بیروت)

کاش میں راکھ ہوتا : حضرت عِمران بن حَصِین رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن سے فِرشتے آکر ملاقات کرتے اور ان پر سلام بھیجتے ، ان کے بارے میں حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ فرمایا کرتے : کاش میں راکھ ہوتا جسے ہوائیں اُڑالے جاتیں ۔ (الطبقات الکبری لابن سعد ج۴ص۲۱۶ )

کاش میں درخت کا پَتّا ہوتی : امُّ المؤمنین حضرتِ عائشہ صِدّیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے خوفِ خدا کے باعث بجائے انسان کے کبھی دَرَخت ، کبھی دَرَخت کے ایک پتّے توکبھی گھاس تو کبھی خاک کی صورت میں پیدا ہونے کی آرزو فرمائی ۔ (الطبقات الکبری ج ۸ ص ۵۹،۶۰ )

کاش میں دُنبہ ہوتا : مشہور صحابی حضرت ابودَرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک بار فرمانے لگے : موت کے بعد جو کچھ ہونے والا ہے وہ اگر تم جان لو تو کبھی لذیذ غذائیں نہ کھاؤ ، سایہ دارگھروں میں نہ رہو بلکہ ویرانوں کی طرف نکل جاؤ اور تمام عمر رونے دھونے میں بسر کردو ۔ اس کے بعد کہنے لگے : کاش میں درخت ہوتا جسے کاٹ دیا جاتا ۔ ( الزھد، للامام احمد بن حنبل ص۱۶۲، رقم ۷۴۰)
ایک اور روایت کے مطابق یہ فرمایا : کاش میں دُنبہ ہوتا ، مجھے کسی مہمان کیلئے ذَبح کردیا جاتا ، کھالیا جاتااور کِھلادیا جاتا ۔ (تاریخ دمشق لابن عساکِر ج۴۷ص۱۹۳)

صَحابۂ کرام علیھم الرضوان کا خوفِ خدا یقینا ہر صحابی'' عادِل'' غیرِ فاسِقِ اورقَطعی جنَّتی ہے ۔ یقینا یہ حضراتِ قُدسِیّہ عظمتِ انسانی کا مفہوم ہم سے زیادہ سمجھتے تھے ۔ ممکن ہے اِس کے بعد بھی یہ وَسوَسہ باقی رہے کہ کم از کم سگ کے ساتھ تو انسان کو تَشْبِیہ نہ ہی دی جائے اور اِ س ناپاک جانور کی نسبت شہرِ مقدّس مدینۃُ الْمنوَّرہ زادَھَااللہ شَرَفًاوَّ تَعظِیْماً کی طرف کرتے ہوئے خود کو سگِ مدینہ کہنا تو بَہُت بڑی جِسارت ہے جواباً عرض ہے کہ بطورِ عاجِزی اپنے آپ کوسگ یعنی کُتّا کہنے میں کوئی مُضايقہ نہیں ، ایسا کہنا بُزُرگوں سے ثابِت ہے ۔ مدینۂ منوَّرہ زادَھَااللہ شَرَفًاوَّ تَعظِیْماً کی عظمت و شرافت پہ لاکھوں سلام مگر خود قراٰنِ مقدس میں سگِ اَصحابِ کہْف کا ذِکرِ خیر موجود ہے ۔ چُنانچِہ پارہ 15سُورَۃُ الْکَہْف آیت 18 میں ارشاد ہوتا ہے : وَکَلْبُہُمۡ بَاسِطٌ ذِرَاعَیۡہِ بِالْوَصِیۡدِ ۔
ترجَمہ : اور ان کا کتّا اپنی کلائیاں پھیلائے ہوئے ہے غار کی چوکھٹ پر ۔

اولیاء کی صُحبتِ با بَرَکت اور سگ : حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان مذکورہ آیتِ کریمہ کے تَحت فرماتے ہیں:اس سے معلوم ہوا کہ بُزُرگوں کی صحبت کا کتّے پر اتنا اثر ہوا کہ اس کا ذِکر عزّت سے قراٰن میں آیااور اس کے نام کے وظیفے پڑھے جانے لگے اس کو دائمی زندَگی نصیب ہوئی ۔ مِٹّی اسے نہیں کھاتی ۔ تو جس انسان کو نبی کی صحبت نصیب ہو اس کا (یعنی صحابی کا) کیا پوچھنا یہ بھی معلوم ہوا کہ تمام عبادات سے بڑھ کر (عبادت) اچّھی صحبت اختیار کرنا ہے کہ اس کا فائدہ انسانوں تک (ہی) محدود نہیں ۔ (نور العرفان ص۴۷۰)

تفسیرُ الْقُرطُبی جلد 5 صَفْحہ 269پر ہے : اہلِ خیر سے مَحبَّت کرنے والا ضرور اُس کی برکتیں حاصل کرتا ہے ، ایک کتّے نے نیک بندوں سے مَحبَّت کی اور ان کی صحبت اختیار کی تو اللہ تبارَکَ وَ تعالیٰ نے اُس کا ذِکر اپنی پاکیزہ کتاب (قراٰنِ مجید) میں فرمایا ۔
یک زمانہ صُحبتِ با اولیاء
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا
ترجمہ : ایک ساعت اولیاءُاللہ کی صحبت میں گزار لینا سوسال کی خالص عبادت سے بہتر ہے ۔

اَصحابِ کَہْف کی تعدادمیں مُفسّرین کا اِختلاف ہے مگرقراٰنِ پاک کے اندر اِس کے بیان میں ہر بار سگِ اَصحابِ کَہف کا ذِکرِ خیر ضَرور کیا گیا ہے چُنانچِہ پارہ 15سورۃُ الْکَہْف آیت 22 میں ارشاد ہوتا ہے : سَیَقُوۡلُوۡنَ ثَلٰثَۃٌ رَّابِعُھُمْ کَلْبُھُمْ ۚ وَ یَقُوۡلُوۡنَ خَمْسَۃٌ سَادِسُھُمْ کَلْبُھُمْ رَجْمًۢا بِالْغَیۡبِ ۚ وَ یَقُوۡلُوۡنَ سَبْعَۃٌ وَّ ثَامِنُھُمْ کَلْبُھُمْ ؕ قُل رَّبِّیۡۤ اَعْلَمُ بِعِدَّتِہِمۡ مَّا یَعْلَمُھُمْ اِلَّا قَلِیۡلٌ ۬۟ فَلَا تُمَارِ فِیۡھِمْ اِلَّا مِرَآءً ظَاہِرًا ۪ وَّلَا تَسْتَفْتِ فِیۡہِمۡ مِّنْھُمْ اَحَدًا ﴿٪۲۲﴾
ترجَمہ : اب کہیں گے کہ وہ تین ہیں چوتھا ان کا کُتّااور کچھ کہیں گے پانچ ہیں چھٹا ان کا کُتّا، بے دیکھے اُلاؤ تُکَّابات3؎، اور کچھ کہیں گے سات ہیں آٹھواں ان کا کتّا ،تم فرماؤ میرا رب ان کی گنتی خوب جانتا ہے،انہیں نہیں جانتے مگر تھوڑے تو ان کے بارے میں بحث نہ کرو مگر اتنی ہی بحث جو ظاہِر ہوچکی اوران کے بارے میں کسی کتابی سے کچھ نہ پوچھو۔

سگِ اصحابِ کَہْف داخِلِ جنّت ہوگا : سگِ اَصحابِ کہف بڑا خوش نصیب ہے ، بُزُرگوں کی صُحبت کی بَرَکت سے یہ جنّت میں داخِل ہوگا ۔ حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : چند جانور جنّت میں جائیں گے حضور (علیہ السلام) کی اونٹنی قَصوا ، اَصحابِ کہف کا کُتّا ، صالح علیہ السلام کی اُونٹنی ، حضرتِ عیسٰی (علیہ السلام) کا دراز گوش ۔ جیسا کہ بعض روایات میں ہے ،شیخ سعدی فرماتے ہیں شعر : سگ اصحاب کہف رَوزَے چند پئے نیکاں گرِفتِ مَردَم شُد ۔
ترجمہ : چند روز اصحابِ کہف کی صحبت کی برکت سے ان کا کتّا انسانی صورت میں داخل جنت ہو گا) ۔ (مراۃ المناجیح ج۷ ص ۵۰۱)

سگِ اصحابِ کہف بلعم بن باعور کی صورت میں داخِلِ جنت ہو گا : اعلیٰحضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اَصحابِ کَہْف رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا کتَّا بلعم باعُور کی شکل بنا کر جنّت میں جائے گا اور وہ اس کتّے کی شکل ہوکر دوزخ میں پڑے گا ۔ اُس (یعنی اصحابِ کَہْف کے کُتّے) نے محبوبانِ خدا کا ساتھ دیا ، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اُس کو انسان بناکر جنّت عطا فرمائی ۔ اور اُس (یعنی بلعم باعُور) نے محبوبانِ خدا سے عداوت کی (وہ) بنی اسرائیل میں بَہُت بڑا عالم تھا، مُستجابُ الدَّعوات تھا (یعنی اِس کی دعائیں قَبول ہوتی تھیں) لوگوں نے اس کو بَہُت سا مال دیا کہ موسیٰ علیہ السلام کیلئے بددعا کرے۔خبیث لالچ میں آ گیا اور بد دعا کرنی چاہی جو الفاظ موسیٰ علیہ السلام کیلئے کہنا چاہتا تھا ، اپنے لئے نکلتے تھے ۔ اللہ نے اس کو ہلاک کردیا ۔ (ملفوظاتِ اعلی حضرت حصّہ ۳ص۲۷۹ تا۲۸۰،فرید بک اسٹال مرکز الاولیاء لاہور)

کتّے کے حملے کا خطرہ ہو تو : صدرُ الافاضِل حضرتِ علامہ مولیٰنا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : تفسیرِ ثعلبی میں ہے جو کوئی ان کلمات وَکَلْبُہُمۡ بَاسِطٌ ذِرَاعَیۡہِ بِالْوَصِیۡدِ ۔ کولکھ کر اپنے ساتھ رکّھے کُتّے کے ضَرر سے اَمْن میں رہے ۔ (تفسیرخزائن العرفان ص۴۷۲) اگرکُتّا بھونکتا ہوا لپکے، حملہ آور ہو تو یہی قراٰنی کلمات پڑھ لیجئے ۔ اِن شاءَ اللہ وہ کچھ نہ بگاڑسکے گا ۔

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ارشا : مشہور صَحابی حضرت عبدا للہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : میں امیرُ المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظَم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بے انتِہا مَحَبَّت کرتا ہوں ، میں خوفِ خدا عزوجل رکھنے والا ہوں ، اگر مجھے پتا چل جائے کہ حضرتِ سیِّدُنا فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی سگ (کُتّے ) سے مَحَبَّت فرماتے ہیں تو میں بھی اُس سگ (کُتّے ) سے مَحَبَّت کروں ، میں آخِری دم تک سیِّدُنا فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خادِم ہوں ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی ج۹ ص ۱۶۴ رقم ۸۸۱۴دار احیاء التراث العربی بیروت )

ابنِ حَجَر یعنی پتّھر کا بیٹا : دنیائے اسلام کی ایک زبردست عَبْقَری شخصیت ، یگانۂ رُوزگار عالمِ دین حضرتِ عَلّامہ ابنِ حَجَر ھَیتَمی مَکّی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اصلی نام کے بجائے آپ کو '' ابنِ حَجر '' کہا جاتا ہے، کیوں ؟ شرفِ ملّت حضرت علامہ محمد عبدالحکیم شَرَف قادِری علیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : عَلامہ اِبنِ حَجَر ھَیْتَمِی مَکّی ر َحِمَہُ اللہ تعالٰی کوابنِ حَجَر (4) اس لیے کہا گیا کہ ان کے دادا شُہرت اور بہادُری کے ساتھ خاموش طَبع تھے صرف بوقتِ ضَرورت ہی بات کرتے تھے اِس لیئے ان کو (حجر یعنی) پتّھر سے تَشبِیہ دی گئی ۔ (الزّواجر مترجم ص۳۶)

حضرتِ عبد الرّحمٰن جامی رحمۃ اللہ علیہ کا جذبہ عشق : عام قاعِدہ ہے کہ جس سے مَحَبَّت ہوتی ہے اُس سے نسبت رکھنے والی ہر چیز سے اُلفت ہوجاتی ہے ۔ ہمیں چُونکہ مدینے والے آقا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم سے مَحَبَّت ہے اِس لئے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم کے شہرِ مقدَّس مدینۂ پاک سے بھی پیار ہے اسی پیار و ناز کے رنگ میں اپنے آپ کو سگِ مدینہ کہنا کہلوانا عاشِقانِ رسول کا طُرَّۂ امتیاز ہے چُنانچِہ عارِف بِاللہ سیِّدی امام عبد الرحمن جامی رحمۃ اللہ علیہ بارگاہِ رسالت میں عرض کرتے ہیں :
سَگَتْ را کاش جامیؔ نام بُودے
کہ آید بَرزَبانت گاہے گاہے
ترجمہ : کاش آپ کے کُتّے کا نام جامی ہوتا تاکہ کبھی کبھی آپ کی زَبانِ پاک پر آجاتا ۔

حافظ شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کی تڑپ : ایران کے مشہور صُوفی شاعِرشمسُ الدّین محمد المعروف حافِظ شیرازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بارگاہِ رسالت میں عرض گذارہیں :
شُنِیدَمْ کہ سَگاں را قَلادَہ مَے بَندِی
چَرا بَہ گردَنِ حافِظ نَمے نہی رَسنے
ترجمہ : میں نے سنا ہے آپ نے اپنے کتّوں کے گلے میں پٹّا ڈال رکھا ہے تو حافظ کی گردن میں رسی کیوں نہیں ڈال دیتے ۔

حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ منقبتِ غوثِ اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم میں فرماتے ہیں :
سگِ درگاہِ جیلانی بہاؤالدین ملتانی
لِقائے دینِ سلطانی محی الدین جیلانی

بڑے بڑے بزرگوں نے اپنے آپ کو بطور عاجِزی نبیِکریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم اور اولیاءُ اللہ کا ''سگ'' کہا ، کہتے اور لکھتے ہیں ، کیا یہ سارے کے سارے عظمتِ انسانی اور اشرفُ المخلوقات کے مفہوم سے ناواقِف تھے؟ ہرگز نہیں ۔

مرا ہوا کتا ہونے کی تمنّا کا اِنعام : حضرتِ علامہ امام یوسف بن اسمٰعیل نبہانی رحمۃ اللہ علیہ نَقل کرتے ہیں ، حضرت شیخ محمد بُدَیرِی دِمْیَاطِی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میرے دادا جان عليہ رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد کسی نے خواب میں انہیں ریت کے ٹِیلے پر کھڑا دیکھ کر عرض کی : ما فَعَلَ اللہ بِکَ ؟ یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کے ساتھ کیا مُعامَلہ فرمایا ؟ جواب دیا : اللہ تعالیٰ نے میری مغفِرت فرمادی اور ریت کے جتنے ذَرّات میرے قدموں تلے ہیں اتنے افراد کی شَفاعت کی اجازت بھی مرحَمَت فرمائی ہے ۔ خواب دیکھنے والے نے پوچھا : کس نیکی کے سبب یہ مقام پایا ؟ فرمایا :
میں جب بھی کسی مَرے ہوئے کُتّے کو دیکھتا تو کہتا : کاش یہ مرا ہوا کتّا میں ہی ہو تا ۔ اَلحَمدُ للہ میرا یہ قول مقبول ہو گی ا۔ ( جامعِ کراماتِ اولیا ء ج ۱ ص۳۴۴)
نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا 84 با ر دیدار : اللہ تعالیٰ کے نیک بندے خوف الہٰی کی وجہ سے کیسی کیسی عاجِزانہ باتیں فر ما جاتے ہیں یقینا اشرفُ المخلوقات کے معنیٰ یہ حضرات ہم سے کہیں زیادہ سمجھتے تھے ۔ یہ ایمان افروز حکایت ''جامِعِ کراماتِ اولیاء '' میں ہے ۔ اِس کتاب کے مصنِّف حضرتِ امام یوسُف نبہانی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں اِسی جامِع کراماتِ اولیاء جلد اوّل کے صَفْحَہ 67 پر آپ کے تعارف میں لکھا ہے : امام یوسُف نبہانی رحمۃ اللہ علیہ کا سفید داڑھی والانور برساتا چہرہ یادِ الہٰی عزوجل کے جلووں سے جگماتا رہتا ، ادب کے ساتھ دوزانو بیٹھنے کی عادتِ کریمہ تھی ، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی شان و عظمت کی تو بات ہی کیا ہے ، آ پ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زَوجۂ محترمہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیھا کو خواب میں 84 بار جنابِ رسالت مآب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم کا دیدار ہوا تھا ۔ ایک شاگرد ِرشید کو حضرت امام یوسُف نبہانی رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت نصیب ہوئی جن سے حضرت مرحوم نے اپنی وفات کاواقِعہ بیان کیا جو اسی طرح عوام وخواص میں مشہور ہوا ۔ حضرت امام یوسُف نبہانی رحمۃ اللہ علیہ کی رِحلَت شریف اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن کی وفاتِ حسرت آیات کے دس سال بعد یعنی ۱۳۵۰ ھ مطابِق 1931ء میں ہوئی۔ ( جواہرِ البِحار ص ۱۲)(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔