Sunday 17 December 2017

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ پر ڈاکٹر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

0 comments
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ پر ڈاکٹر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

وہابی دیوبندی اہل سنت و جماعت پر وہی  پرانے بے بنیادی الزامات دہرانے سے بعض نہیں آتے جن کے جوابات ہمارے پیشواؤں نے دے کر وہابی دیوبندی علماء کی زبانوں پر تالے لگا لگا دیئے، انہی الزامات میں سے ایک الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ نے علامہ اقبال و قائد اعظم کی تکفیر کی آئیے اس الزام کا ہم تفصیلی جائزہ لیتے ہیں ۔

علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف فتوی دینے کے سلسلے میں تجانبِ اہل السنتہ کا حوالہ دیا جاتا ہے۔(ظہیر: البریلویۃ ص ٧۔٥۔٢) حالانکہ یہ مولانا محمد طیب کی انفرادی رائے تھی جسے علماء اہل سنت کی جماعتی طور پر تائید حاصل نہیں ہوئی۔ شخص واحد کی انفرادی رائے کو پوری جماعت پر ٹھوس دینا کسی طرح بھی قرینِ انصاف نہیں ہے۔ 

احسان الٰہی ظہیر لکھتے ہیں : 'ہم یہ عقائد و معتقدات اور ان کے دلائل خود احمد رضا بریلوی ، ان کے خواص اور اس گروہ کے خواص و عوام کے نزدیک معتمد حضرات اور ان نمایاں شخصیات سے نقل کرینگے جو ان کے نزدیک بغیر کسی اختلاف کے مسلم ہوں'' (ظہیر: البریلویۃ ص٥٦) 

اَب ان لوگوں سے کون پوچھے کہ تجانب اہل السنتہ کے مصنف مولانا محمد طیب کہاں کی مسلم نمایاں اور غیر متنازع فیہ شخصیت ہیں؟ خود ظہیر صاحب نے بریلویوں کے جن زعماء کا ذکر کیا ہے۔ (ظہیر: البریلویۃ ص ٤۔٥١) ان میں مولانا محمد طیب کا ذکر نہیں ہے، یہ کہاں کی دیانت ہے کہ ان کے اقوال تمام اہل سنت کے سر تھوپ دئے جائیں ؟ 

علامہ غلام رسول سعیدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : مولانا طیب صاحب ہمدانی مصنف تجانبِ اہلِ سنت ''علمی اعتبار سے کسی گنتی اور شمار میں نہیں ہیں، وہ مولانا حشمت علی کے داماد تھے اور ان کا مبلغ علم فقط اتنا تھا کہ وہ شرقپور کی ایک چھوٹی سی مسجد کے امام تھے اور بس! '' تجانب اہل سنت میں جو کچھ انہوں نے لکھا، وہ ان کے ذاتی خیالات تھے، اہل سنت کے پانچ ہزار علماء و مشائخ نے بنارس کانفرنس میں قرار داد قیام پاکستان منظور کرکے مولانا حشمت علی کے سیاسی افکار اور تجانب اہل سنت'' کے مندرجات کو عملاً رد ّکر دیا تھا، لہٰذا سیاسی نظریات میں ایک غیر معروف مسجد کے غیر معروف امام (مولانا طیب) اور غیر مستند شخص کے سیاسی خیالات کو سوادِ اعظم اہل سنت پر لاگو نہیں کیا جا سکتا ، نہ یہ شخص ہمارے لیے حجت ہے اور نہ اس کے سیاسی افکار''۔ (غلام رسول سعیدی، علامہ: ماہنامہ فیضان ، فیصل آباد شمارہ اپریل ١٩٧٨ء ، ص ٢٨۔٢٧)

استاذی المکرّم غزالی زماں علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : تجانبِ اہل سنت کسی غیر معروف شخص کی تصنیف ہے جو ہمارے نزدےک قطعاً قابلِ اعتماد نہیں ہے، لہٰذا اہل سنت کے مسلمات میں اس کتاب کو شامل کرنا قطعاً غلط اور بے بنیاد ہے اور اس کا کوئی حوالہ ہم پر حجت نہیں ہے ، سالہا سال سے یہ وضاحت اہل سنت کی طرف سے ہو چکی ہے کہ ہم اس کے کسی حوالہ کے ذمہ دار نہیں''( قلمی یا دداشت ، حضرت غزالی زماں علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ ، تحریر ٢٩ اکتوبر ١٩٨٤ء محفوظ نزدراقم(شرف قادری) ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔