نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِستغاثہ کی نفی کرنے والوں کو جواب
امام مقری ، امام طبرانی اور محدث ابو شیخ کی بارگاہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم میں فریاد :ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی بارگاہ میں فریاد کی یارسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم خرچ ختم ہوگیا ہے ایک علوی آیا اور کہا تم میری شکایت کرتے ہو ۔ (تذکرۃُ الحفّاظ جلد 1 ،2 صفحہ 659 ترجمہ اردو وہابی عالم اور عربی جلد نمبر 3 صفحہ نمبر )
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں ایک منافق مسلمانوں کی اِیذا رسانی کرتا اور اُن کے لئے طرح طرح کی تکالیف کھڑی کرنے میں کوشاں رہتا۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنھم نے صحابہ سے فرمایا کہ آؤ ہم مل کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں اِس منافق کے خلاف اِستغاثہ کریں۔ جب یہ بات سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ نے فرمایا : إنّه لا يُستغاثُ بی و إنّما يُستغاثُ باﷲِ . ترجمہ : مجھ سے اِستغاثہ نہیں کیا جاتا اور صرف اللہ سے ہی اِستغاثہ کیا جاتا ہے ۔ (مجمع الزوائد، 10 : 159)
اِس حدیثِ مبارکہ کا مفہوم سمجھنے اور اِس کی شانِ وُرود تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ماسواء اللہ سے اِستغاثہ کو قطعی طور پر ممنوع قرار دے دیا ہے، پس اَب اگر کوئی غیراللہ سے مدد مانگے گا تو مُشرک قرار پائے گا۔
حدیثِ مبارکہ کا صحیح مفہوم : اِس ایک حدیثِ مبارکہ کو اِس کے حقیقی مفہوم میں رکھ کر بے شمار آیات و اَحادیث اور عملِ صحابہ کے خلاف کیا گیا ہے۔ وہ آیات و اَحادیث جن میں صریح اَلفاظ میں اِستغاثہ مِن دُون اللہ کا حکم پایا جاتا ہے (جن میں سے چند ایک کا تفصیلی ذکر ہم اُوپر کر آئے ہیں) اِس حدیث کے حقیقی مفہوم پر عمل کرنے کی صورت میں اِن تمام آیات و اَحادیث کو سِرے سے بالائے طاق رکھنا پڑ رہا ہے۔ شریعتِ اِسلامیہ کا مسلّمہ اُصول ہے کہ جب کوئی حدیث قرآن مجید یا دیگر اَحادیثِ متواترہ کے خلاف اَحکام ظاہر کرے تو اُن کے مابین تطبیق پیدا کرنے کی کوشش جاتی ہے اور اگر حقیقی معنی کے ساتھ تطبیق ممکن نہ ہو تو تاویلاً اُس مختلف فیہ حدیث کو مجازی معنی پر محمول کر کے صریح آیات و اَحادیثِ مبارکہ کے ساتھ اُس کا تعارُض ختم کیا جاتا ہے۔ یہی صورت کچھ یہاں بھی ہو گی۔
یہاں اِس حدیث سے مُراد اصل اِعتقاد میں توحید کی حقیقت کو ثابت کرنا ہے اور وہ یہ کہ مُغیث و مُستعانِ حقیقی فقط اللہ ربّ العزّت کی ذات ہے اور بندۂ بشر اِستغاثہ کے معاملہ میں صرف ایک وسیلہ اور واسطہ ہے۔
یہ حدیثِ مبارکہ صرف زِندہ کے ساتھ اِستعانت و اِستغاثہ کے خاص ہونے پر بھی دلالت نہیں کرتی جیسا کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے، بلکہ اِس حدیث کا ظاہر تو زِندہ و مُردہ کی تفریق سے ماوراء غیراللہ سے ہمیشہ اِستغاثہ کو منع کرتا ہے، جس کی تاوِیل اور ضرورتِ تاوِیل ہم اُوپر ذکر کر آئے ہیں۔ اِمام اِبنِ تیمیہ نے بھی اپنے فتاویٰ میں یہی بات ذکر کی ہے اور واضح کیا ہے کہ بعض اَوقات اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام سے کچھ لوگ غیرمُرادی معانی اَخذ کرنے لگ جاتے ہیں جبکہ دُوسرے مقامات اُن کے اِس اخذِ مسئلہ کا رَدّ کر رہے ہوتے ہیں۔ منافق کی اِیذاء رَسانی اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنھم کا اُس کے خلاف حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں اِستغاثہ بھی اِسی قبِیل سے ہے۔ اگر اِس حدیثِ مبارکہ کی یہ تاوِیل و تشریح نہ کر دی جائے تو اِس حدیث کا دیگر آیات و اَحادیث اور عملِ صحابہ سے براہِ راست تعارض لازم آئے گا۔ کتبِ حدیث میں جا بجا درج ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دُعا کراتے، آپ کے وسیلۂ جلیلہ سے اِستسقاء کرتے اور وہ اِستغاثہ بالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تمام اُمت سے بڑھ کر تھے۔ صحیح بخاری میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھم کا قول مذکور ہے کہ بسا اَوقات میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رُخِ انور کی زیارت کے دَوران حضرت ابوطالب کا یہ شعر یاد کرتا جس میں مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بارِش طلب کر رہے ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مِنبر سے نیچے اُترنے سے پہلے بارِش کا پانی پرنالوں سے بہہ نکلتا، وہ شعر یہ ہے :
وَ أبيض يُستسقی الغمامُ بوجهه
ثمال اليتامٰی عِصمة للأراملِ
ترجمہ : اور وہ حسیں جس کے رُخِ تاباں کے طفیل بارِش طلب کی جاتی ہے، جو یتیموں کا والی اور بیواؤں کا سہارا ہے ۔ (صحيح البخاری، کتاب الاستسقاء، 1 : 137)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھم کا اِس محبت بھرے شعر کو گنگنانا ظاہر کرتا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کس قدر وارفتگی کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعلقِ عشق و محبت رکھتے تھے اور جب کبھی اُن پر کوئی مُشکل و مصیبت آن پڑتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اِستغاثہ و اِستعانت اور اِستمداد کے لئے کھنچے کھنچے چلے آتے تھے۔
جب عملِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے اِس حدیثِ مختلف فیہ کی وضاحت میسر آ رہی ہے اور وہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے عین موافق بھی ہے تو پھر اِن نادان دوستوں کی تشریحات اور فتویٰ ہائے کفر و شِرک کو کس طرح غایتِ توحید سمجھا جا سکتا ہے! توحید کا قرآنی تصور ہرگز اِس بات کی اِجازت نہیں دیتا کہ فقط ایک مختلف فیہ حدیث پر عمل کرتے ہوئے اور باقی تمام تعلیماتِ اِسلام سے اِغماض برتتے ہوئے جمیع اُمت مسلمہ پر کفر و شِرک کا بہتان باندھا جائے۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment