ہر بدعت گمراہی ہے اور غیر مقلد وہابیوں کی نماز میں بدعت
اپنی اس بدات کا ثبوت قرآن و حدیث سے دیں بصورت دیگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے اس فرمان : كل بدعة ضلالة ۔ ترجم : ہر بدعت گمراہی ہے ۔ ( صحیح مسلم جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 592) کے تحت گمراہ ہیں ۔
امام کے پیچھے فاتحہ فرض : غیر مقلد اہلحدیث وہابی حضرات امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کو فرض قرار دیتے ہیں جو کہ سخت ترین بدعت ہے ۔
غیر مقلدین کا فتوی”فاتحہ خلف الامام فرض ہے اور اس کے بغیر نماز نہیں“۔
(فتاوے علماء حدیث حصہ 2 ص 120)
نہ یہ قرآن سے ثابت ہے کہ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنی فرض ہے اور نہ پڑھنے والے کی نماز نہیں نہ ہی حدیث سے ثابت ہے لہٰذا یہ بدعت میں شامل ہے ۔
فاتحہ خلف الامام کے سلسلہ میں یہ فرقہ ایک حدیث پیش کرتا ہے عبد اللہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی جو کہ صحیح نہیں اور محدث الوہابیہ شیخ ناصر الدین البانی صاحب جو کہ اس فرقہ کے اب تک کے سب سے بڑے عالم ، محدث، شمار ہوتے ہیں انہوں نے بھی اعتراف کیا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے ۔ (دیکھئے البانی صاحب کی تحقیق سنن ابی داؤد جلد 1 ص 217)
اس سلسلے میں یہ جاہل غیر مقلدین صحیح بخاری سے بھی ایک حدیث بطور دلیل پیش کرتے ہیں جس میں لکھا ہے کہ : جس نے فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں“ جبکہ ان اندھے غیر مقلدین کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ پوری حدیث صحیح مسلم کتاب الصلاۃ میں موجود ہے اور مکمل موجود ہے کہ : أَخْبَرَهُ، أَنَّ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ، أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِأُمِّ الْقُرْآنِ» [ص:296] وَحَدَّثَنَاهُ إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، قَالَا: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ وَزَادَ فَصَاعِدًا ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم فرماتے ہیں جس نے فاتحہ اور کچھ زائد قرآن نہ پڑھا اس کی نماز نہیں ۔( صحیح مسلم جلد 1 صفحہ 373 مترجم اردو حدیث نمبر 781 ) ۔
اس سے معلوم ہو گیا کہ یہ حدیث اکیلے نمازی کیلئے ہے نہ کہ مقتدی کیلئے ۔ اس کے علاوہ غیرمقلدین کے پاس کوئی ایک بھی دلیل موجود نہیں جس سے معلوم ہو کہ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنی فرض ہے اور نہ پڑھنے والے کی نماز نہیں ہو گی جیسا کہ ان لوگوں نے اس پر فتوے دے رکھے ہیں۔ ہمارا اس فرقے کی جاہل عوام سے آسان سا سوال ہے کہ آپ لوگوں نے امام کے پیچھے فاتحہ فرض ہے کا حکم کہاں سے لیا ہے ذرہ تحقیق کرکے بتائیں ؟
یاد رہے فرقہ غیر مقلد اہل حدیث کی ایک نئی شاخ جو کہ کچھ سال پہلے وجود میں آئی مسعودی فرقہ جو کہ اپنے آپ کو جماعت المسلمین کہتا ہے اس جماعت کے بہت سوں نے اب ترک قرات خلف الامام کی طرف رجوع کر لیا ہے ۔(ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
غیر مقلد اہلحدیث حضرات سورة الفاتحہ خلف الامام کو واجب کہتے ہیں اور دلیل میں یہ حدیث مبارکہ پیش کرتے ہیں : جس شخص نے سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی۔ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ" . (بخاری۷۵۶)
اس حدیث پاک کی مکمل تحقیق ملاحظہ فرمائیں
(1) اس حدیث میں مقتدی یعنی امام کے پیچھے کی صراحت نہیں ہے۔ دیگر احادیث کی بنا پر اس حدیث کا تعلق منفرد اور امام سے ہے نہ کہ مقتدی سے۔ اگر امام بھی نہ پڑھے گا تو پھر کسی کی نماز بھی نہ ہو گی۔ (ان احادیث کی تفصیل آگے ُرھیں)
(2) اگر اس کو مقتدی کے لئے بھی سمجھا جائے تو اس کا تعارض قرآن سے پیدا ہوتا ہے جو کہتا ہے کہ "جب قرآن پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو۔" واذا قری القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا" اور یہ بات واضح ہے کہ سورہ فاتحہ بھی قرآن کا جزو ہے۔
(3) اگر اس کو مقتدی پر محمول کیا جائے تو یہ خود بخاری شریف کی دوسری روائت کے خلاف ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امام (نہ کہ تم اور امام) «غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کہے تو تم «آمين» کہو۔ (بخاری۷۸۲) اگر مقتدی بھی فاتحہ پڑھے گا تو اس پر دو دفعہ آمین واجب ہوگی۔ ایک دفعہ امام سے ولا الضالین سن کر دوسری دفعہ اپنے ولا الضالین کے بعد۔
(4) بخاری شریف کی ایک دوسری روائت جس میں امام کے پیچھے امور کی صراحت ہے اس میں آیا ہے کہ "امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ پس جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ رکوع میں جائے تو تم بھی رکوع میں جاؤ اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور اگر کھڑے ہو کر تمہیں نماز پڑھائے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو" ۔ (بخاری۳۷۸) اس روائت میں جن امور میں امام کی پیروی کرنی ہے وہ سب بتائے گئے ہیں مگر قرات قرآن و سورہ فاتحہ میں پیروی کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔
(5) اس کو مقتدی کے لئے بھی سمجھنا بخاری شریف کی ایک اور روائت کے بھی خلاف ہے جس میں آیا ہے کہ " وہ (ایک صحابی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف (نماز پڑھنے کے لیے) گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت رکوع میں تھے۔ اس لیے صف تک پہنچنے سے پہلے ہی انہوں نے رکوع کر لیا، پھر اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تمہارا (رکعت پانے کا) شوق اور زیادہ کرے لیکن دوبارہ ایسا (صف میں شامل ہونے سے پہلے رکوع میں چلے جانا) نہ کرنا۔ (بخاری ۷۸۳)۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جو رکوع میں مل جائے اسے رکعت مل جاتی ہے اگرچہ اس نے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی ہوتی۔
(6) یہی روائت دیگر کتب احادیث میں فصاعدا اور فمازاد کے ساتھ بھی آئی ہے ""لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَصَاعِدًا" مسلم۸۸۷، " لَا صَلَاةَ إِلَّا بِقِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَمَا زَادَ .ابوداود۸۲۱)
یعنی "سورہ فاتحہ اور قرآن میں سے مزید کچھ" اس حدیث کو منفرد اور امام کے لئے ہونے کی وضاحت کرتی ہے۔ کیونکہ وہی دونوں سورہ فاتحہ کے بعد مزید کچھ پڑھتے ہیں۔ مقتدی تو "قرآن میں سے مزید کچھ" اہل حدیث حضرات کے ہاں بھی نہیں پڑھتے ۔
(7) کئی صحابہ، تابعین و آئمہ نے بھی اس حدیث کو منفرد پر محمول کیا ہے ۔ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَصَاعِدًا . قَالَ سُفْيَانُ: لِمَنْ يُصَلِّي وَحْدَهُ.
اس شخص کی نماز نہیں جس نے سورۃ فاتحہ اور کوئی اور سورت نہیں پڑھی سفیان کہتے ہیں: یہ اس شخص کے لیے ہے جو تنہا نماز پڑھے ابوداود۸۲۳)
جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ، فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ
جس نے کوئی رکعت پڑھی اور اس میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی تو اس کی نماز نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو ترمذی ۳۱۲)
أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، فَقَالَ: مَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ إِذَا كَانَ وَحْدَهُ ،
ترجمہ : احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے فرمان ”سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی“ کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ اکیلے نماز پڑھ رہا ہو تب سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہو گی ۔ ( جامع ترمذی ۳۱۲)(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment