Wednesday, 13 December 2017

ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا حسن و جمال

ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا حسن و جمال

فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی کی طرف سے غلامان رسول صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی خدمت میں بے مثال تحفہ برائے کرم کاپی کرنے والے احباب مضمون میں کسی قسم کی کانٹ چھانٹ نہ کریں کاپی کرنے کی مکمل اجازت ہے ۔

حضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات حسن و کمال کا سرچشمہ ہے۔ کائناتِ حُسن کا ہر ہر ذرّہ دہلیزِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادنیٰ سا بھکاری ہے۔ چمنِ دہر کی تمام رعنائیاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے دم قدم سے ہیں۔ ربِ کریم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہ جمالِ بے مثال عطا فرمایا کہ اگر اُس کا ظہورِ کامل ہو جاتا تو اِنسانی آنکھ اُس کے جلووں کی تاب نہ لا سکتی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمالِ حسن و جمال کو نہایت ہی خوبصورت اَنداز میں بیان کیا ہے۔

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رأيتُ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في ليلة إضحيان، فجعلت أنظر إلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و إلي القمر، و عليه حلة حمراء، فإذا هو عندي أحسن من القمر ۔
ترجمہ : ایک رات چاند پورے جوبن پر تھا اور اِدھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تشریف فرما تھے۔ اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرخ دھاری دار چادر میں ملبوس تھے۔ اُس رات کبھی میں رسول اللہا کے حسنِ طلعت پر نظر ڈالتا تھا اور کبھی چمکتے ہوئے چاند پر، پس میرے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاند سے کہیں زیادہ حسین لگ رہے تھے ۔ (ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 118، ابواب الأدب، رقم : 2811)

حضرت براء بن عازب صفرماتے ہیں : ما رأيتُ من ذي لمة أحسن في حلّة حمراء من رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ۔ ترجمہ : میں نے کوئی زلفوں والا شخص سرخ جوڑا پہنے ہوئے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ حسین نہیں دیکھا ۔ (مسلم، الصحيح، 4 : 1818، کتاب الفضائل، رقم : 2337)
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے کسی شخص نے پوچھا : أکان وجه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم مثل السيف ؟ ۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ مبارک تلوار کی مثل تھا ؟ تو اُنہوں نے کہا ۔ لا، بل مثل القمر ۔ نہیں‘‘، بلکہ مثلِ ماہتاب تھا ۔ (ترمذي، الشمائل المحمديه : 2، باب ما جاء في خلق رسول اﷲ)

حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اﷲ عنہا مکہ مکرمہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعداز وِلادت پہلی زیارت کے تاثرات بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے حسن و جمال کی وجہ سے میں نے جگانا مناسب نہ سمجھا پس میں آہستہ سے ان کے قریب ہو گئی۔ میں نے اپنا ہاتھ ان کے سینہ مبارک پر رکھا پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرا کر ہنس پڑے اور آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھنے لگے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں سے ایک نور نکلا جو آسمان کی بلندیوں میں پھیل گیا ۔ (الانوار المحمديه : 29)

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ دلرُبا کو چاندی سے ڈھال کر بنائی گئی دِیدہ زیب اشیاء سے تشبیہ دیتے ہوئے حضرت انس اور حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (مجموعی جسمانی حسن کے لحاظ سے) یوں معلوم ہوتے تھے گویا چاندی سے ڈھالے گئے ہیں ۔ (بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 241)

کسی آنکھ میں مشاہدۂ حسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاب نہ تھی ربِ کائنات نے وہ آنکھ تخلیق ہی نہیں کی جو تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کا مکمل طور پر مشاہدہ کر سکے۔ اَنوارِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس لئے پردوں میں رکھا گیا کہ اِنسانی آنکھ جمالِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاب ہی نہیں لا سکتی۔ اللہ ربّ العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حقیقی حسن و جمال مخلوق سے مخفی رکھا ۔

اِمام زرقانی رحمۃ اللہ نے اپنی کتاب میں امام قرطبی رحمۃ اﷲ علیہ کا یہ ایمان افروز قول نقل کیا ہے : حضور کا حسن و جمال مکمل طور پر ہم پر ظاہر نہیں کیا گیا اور اگر آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تمام حسن و جمال ہم پر ظاہر کر دیا جاتا تو ہماری آنکھیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوؤں کا نظارہ کرنے سے قاصر رہتیں ۔ (زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 5 : 241)

نبی بے مثال صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کا ذکرِ جمیل حضرت عَمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اِن اَلفاظ میں کرتے ہیں : میرے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کوئی شخص محبوب نہ تھا اور نہ ہی میری نگاہوں میں کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حسین تر تھا، میں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس چہرہ کو اُس کے جلال و جمال کی وجہ سے جی بھر کر دیکھنے کی تاب نہ رکھتا تھا۔ اگر کوئی مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محامد و محاسن بیان کرنے کے لئے کہتا تو میں کیونکر ایسا کرسکتا تھا کیونکہ (حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ جہاں آرا کی چمک دمک کی وجہ سے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آنکھ بھر کر دیکھنا میرے لئے ممکن نہ تھا ۔ (مسلم، الصحيح، 1 : 112، کتاب الإيمان، رقم : 121)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں : حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرِ انور سے لے کر قدمِ پاک تک نور ہی نور تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حُسن و جمال کا نظارہ کرنے والے کی آنکھیں چندھیا جاتیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسمِ اَطہر چاند اور سورج کی طرح منوّر و تاباں تھا۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوہ ہائے حسن لباس بشری میں مستور نہ ہوتے تو رُوئے منوّر کی طرف آنکھ بھر کر دیکھنا ناممکن ہو جاتا ۔(مدارج النبوة، 1 : 137)

شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ : میرے والدِ ماجد شاہ عبدالرحیم رحمۃ اﷲ علیہ کو خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی تو اُنہوں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! زنانِ مصر نے حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھ کر اپنے ہاتھ کاٹ لئے اور بعض لوگ اُنہیں دیکھ کر بیہوش بھی ہو جاتے تھے، لیکن کیا سبب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر ایسی کیفیات طاری نہیں ہوتیں۔ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’میرے اللہ نے غیرت کی وجہ سے میرا جمال لوگوں سے مخفی رکھا ہے، اگر وہ کما حقہ آشکار ہو جاتا تو لوگوں پر محوِیت وبے خودی کا عالم اِس سے کہیں بڑھ کر طاری ہوتا جو حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھ کر ہوا کرتا تھا ۔ (الدرّ الثمين : 39)

بقول شاعر

خدا کی غیرت نے ڈال رکھے ہیں تجھ پہ ستر ہزار پردے
جہاں میں لاکھوں ہی طور بنتے جو اِک بھی اُٹھتا حجاب تیرا

حسنِ سراپا کے بارے میں حضرت اویسِ قرنی رضی اللہ عنہ کا قول

سرخیلِ قافلۂ عشق حضرت اویسِ قرنی رضی اللہ عنہ کے بارے میں رِوایت منقول ہے کہ وہ اپنی والدہ کی خدمت گزاری کے باعث زندگی بھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں بالمشافہ زیارت کے لئے حاضر نہ ہو سکے، لیکن سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ والہانہ عشق و محبت اور وارفتگی کا یہ عالم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر صحابہ کرام رضوان اﷲ علیھم اجمعین سے اپنے اُس عاشقِ زار کا تذکرہ فرمایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو ہدایت فرمائی کہ میرے وِصال کے بعد اویسِ قرنی رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر اُسے یہ خرقہ دے دینا اور اُسے میری اُمت کے لئے دعائے مغفرت کے لئے کہنا ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وِصال کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کے لئے اُن کے آبائی وطن ’قرن‘ پہنچے اور اُنہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان سنایا۔ اثنائے گفتگو حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ نے دونوں جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنھم سے پوچھا کہ کیا تم نے کبھی فخرِ موجودات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دِیدار بھی کیا ہے؟ اُنہوں نے اِثبات میں جواب دِیا تو مسکرا کر کہنے لگے ۔ لَمْ تَرَيَا مِن رسولِ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم اِلَّا ظِلَّه ۔ ترجمہ : تم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کا محض پرتو دیکھا ہے ۔ ( جواهر البحار، 3 : 67)۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...