رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا نسب نامہ اور مختصر خاندانی حالات
حضورِاقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا نسب شریف والد ماجد کی طرف سے یہ ہے:
(۱)حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم (۲) بن عبداللہ (۳) بن عبدالمطلب (۴) بن ہاشم (۵)بن عبد مناف(۶)بن قصی(۷)بن کلاب(۸)بن مرہ(۹)بن کعب (۱۰)بن لوی(۱۱)بن غالب(۱۲)بن فہر(۱۳)بن مالک(۱۴) بن نضر (۱۵) بن کنانہ(۱۶) بن خزیمہ(۱۷) بن مدرکہ(۱۸) بن الیاس (۱۹) بن مضر (۲۰) بن نزار(۲۱) بن معد(۲۲)بن عدنان ۔ (صحیح البخا ری،کتاب مناقب الانصا ر،باب مبعث النبی صلی اللہ علیہ وسلم،ج2،ص573)
اور والدہ ماجدہ کی طرف سے حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا شجره نسب یہ ہے:
(1) حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم(2) بن آمنہ(3)بنت وہب(4) بن عبد مناف(5) بن زہرہ(6) بن کلاب(7) بن مرہ۔(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،اولاد عبد المطلب،ص48)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے والدین کا نسب نامہ ''کلاب بن مرہ '' پر مل جاتا ہے اور آگے چل کردونوں سلسلے ایک ہو جاتے ہیں۔ '' عدنان'' تک آپ کا نسب نامہ صحیح سندوں کے ساتھ باتفاق مؤرخین ثابت ہے اس کے بعد ناموں میں بہت کچھ اختلاف ہے اورحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جب بھی اپنا نسب نامہ بیان فرماتے تھے تو ''عدنان'' ہی تک ذکر فرماتے تھے ۔ (کرمانی بحوالہ حاشیہ بخاری ج 1، ص543)
مگر اس پر تمام مؤرخین کا اتفاق ہے کہ ''عدنان'' حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں، اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فرزند ارجمند ہیں ۔
خاندانی شرافت
حضورِاکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا خاندان و نسب نجابت و شرافت میں تمام دنیا کے خاندانوں سے اشرف و اعلیٰ ہے اور یہ وہ حقیقت ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بدترین دشمن کفار مکہ بھی کبھی اس کا انکار نہ کر سکے۔ چنانچہ حضرت ابو سفیان نے جب وہ کفر کی حالت میں تھے بادشاہ روم ہر قل کے بھرے دربار میں اس حقیقت کا اقرار کیا کہ ''ھو فیناذونسب'' یعنی نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ''عالی خاندان'' ہیں ۔ (صحیح البخاری ، کتاب بدء الوحی ، باب 6، ج1،ص10)
حالانکہ اس وقت وہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بدترین دشمن تھے اور چاہتے تھے کہ اگر ذرا بھی کوئی گنجائش ملے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات پاک پر کوئی عیب لگا کر بادشاہ روم کی نظروں سے آپ کا وقار گرا دیں ۔
مسلم شریف کی روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ''کنانہ'' کو برگزیدہ بنایا اور ''کنانہ'' میں سے ''قریش'' کو چنا ،اور ''قریش'' میں سے ''بنی ہاشم'' کو منتخب فرمایا،اور ''بنی ہاشم'' میں سے مجھ کو چن لیا۔(صحیح مسلم، کتاب الفضائل ، باب فضل نسب النبی صلی اللہ علیہ وسلم...الخ، الحدیث:2276، ص1249) ۔ (مشکوٰۃ فضائل سید المرسلین)
بہر حال یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ :
لَہُ النَّسْبُ الْعَالِیْ فَلَیْسَ کَمِثْلِہٖ
حَسِیْبٌ نَسِیْبٌ مُنْعَمٌ مُتَکَرَّم،
ترجمہ : یعنی حضورِانور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا خاندان اس قدر بلند مرتبہ ہے کہ کوئی بھی حسب و نسب والا اور نعمت و بزرگی والا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مثل نہیں ہے ۔
قریش
حضورِاقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے خاندانِ نبوت میں سبھی حضرات اپنی گوناگوں خصوصیات کی وجہ سے بڑے نامی گرامی ہیں۔ مگر چند ہستیاں ایسی ہیں جو آسمان فضل و کمال پر چاند تارے بن کر چمکے۔ ان با کمالوں میں سے ''فہر بن مالک'' بھی ہیں ان کا لقب ''قریش'' ہے اور ان کی اولاد قریشی ''یا قریش'' کہلاتی ہے۔
''فہر بن مالک '' قریش اس لئے کہلاتے ہیں کہ ''قریش'' ایک سمندری جانور کا نام ہے جو بہت ہی طاقتور ہوتا ہے، اور سمندری جانوروں کو کھا ڈالتا ہے یہ تمام جانوروں پر ہمیشہ غالب ہی رہتا ہے کبھی مغلوب نہیں ہوتا چونکہ ''فہر بن مالک'' اپنی شجاعت اور خداداد طاقت کی بنا پر تمام قبائلِ عرب پر غالب تھے اس لئے تمام اہل عرب ان کو ''قریش'' کے لقب سے پکارنے لگے۔ چنانچہ اس بارے میں ''شمرخ بن عمرو حمیری'' کا شعر بہت مشہور ہے کہ :
وَ قُرَیْشٌ ھِیَ الَّتِیْ تَسْکُنُ الْبَحْرَ بِھَا سُمِّیَتْ قُرَیْشٌ قُرَیْشًا
یعنی ''قریش'' ایک جانور ہے جو سمندر میں رہتا ہے۔اسی کے نام پر قبیلۂ قریش کا نام ''قریش '' رکھ دیا گیا۔(شرح الزرقانی علی المواھب،المقصد الاول فی تشریف اللہ تعالٰی...الخ،ج1،ص144)
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ماں باپ دونوں کا سلسلۂ نسب ''فہر بن مالک'' سے ملتا ہے اس لئے حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ماں باپ دونوں کی طرف سے ''قریشی'' ہیں ۔
ہاشم
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پردادا ''ہاشم'' بڑی شان و شوکت کے مالک تھے۔ ان کا اصلی نام ''عمرو'' تھا انتہائی بہادر ،بے حد سخی، اور اعلیٰ درجے کے مہمان نواز تھے۔ ایک سال عرب میں بہت سخت قحط پڑ گیااور لوگ دانے دانے کو محتاج ہو گئے تو یہ ملکِ شام سے خشک روٹیاں خرید کر حج کے دنوں میں مکہ پہنچے اور روٹیوں کا چورا کرکے اونٹ کے گوشت کے شوربے میں ثرید بنا کر تمام حاجیوں کو خوب پیٹ بھر کر کھلایا۔اس دن سے لوگ ان کو''ہاشم''(روٹیوں کاچورا کرنے والا)کہنے لگے۔(مدارج النبوت ، قسم اول ، باب اول ، ج2،ص8وشرح الزرقانی علی المواھب، المقصد الاو ل فی تشریف اللہ تعالٰی...الخ ،ج1،ص138)
چونکہ یہ ''عبدمناف'' کے سب لڑکوں میں بڑے اور با صلاحیت تھے اس لئے عبد مناف کے بعد کعبہ کے متولی اور سجادہ نشین ہوئے بہت حسین و خوبصورت اور وجیہ تھے جب سن شعور کو پہنچے تو ان کی شادی مدینہ میں قبیلہ خزرج کے ایک سردار عمرو کی صاحبزادی سے ہوئی جن کا نام ''سلمیٰ'' تھا۔اور ان کے صاحبزادے ''عبد المطلب'' مدینہ ہی میں پیدا ہوئے چونکہ ہاشم پچیس سال کی عمر پاکر ملک شام کے راستہ میں بمقام ''غزہ'' انتقال کر گئے۔ اس لئے عبدالمطلب مدینہ ہی میں اپنے نانا کے گھر پلے بڑھے،اور جب سات یا آٹھ سال کے ہو گئے تو مکہ آکر اپنے خاندان والوں کے ساتھ رہنے لگے ۔
عبدالمطلب
حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دادا ''عبدالمطلب''کااصلی نام ''شیبہ'' ہے۔ یہ بڑے ہی نیک نفس اور عابد و زاہد تھے۔ ''غار حرا'' میں کھانا پانی ساتھ لے کر جاتے اور کئی کئی دنوں تک لگاتار خداعزوجل کی عبادت میں مصروف رہتے۔ رمضان شریف کے مہینے میں اکثر غارِ حرا میں اعتکاف کیا کرتے تھے، اور خداعزوجل کے دھیان میں گوشہ نشین رہا کرتے تھے۔ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا نورِ نبوت ان کی پیشانی میں چمکتا تھااور ان کے بدن سے مشک کی خوشبو آتی تھی۔ اہل عرب خصوصاً قریش کو ان سے بڑی عقیدت تھی۔ مکہ والوں پر جب کوئی مصیبت آتی یا قحط پڑ جاتا تو لوگ عبدالمطلب کو ساتھ لے کر پہاڑ پر چڑھ جاتے اور بارگاہِ خداوندی میں ان کو وسیلہ بنا کر دعا مانگتے تھے تو دعا مقبول ہو جاتی تھی۔ یہ لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے سے لوگوں کو بڑی سختی کے ساتھ روکتے تھے اور چور کا ہاتھ کاٹ ڈالتے تھے۔ اپنے دسترخوان سے پرندوں کو بھی کھلایا کرتے تھے اس لئے ان کا لقب ''مطعم الطیر''(پرندوں کو کھلانے والا) ہے۔ شراب اور زنا کو حرام جانتے تھے اور عقیدہ کے لحاظ سے ''موحد'' تھے۔ ''زمزم شریف'' کا کنواں جو بالکل پٹ گیا تھا آپ ہی نے اس کو نئے سرے سے کھدوا کر درست کیا، اور لوگوں کو آب زمزم سے سیراب کیا۔ آپ بھی کعبہ کے متولی اور سجادہ نشین ہوئے۔اصحاب فیل کا واقعہ آپ ہی کے وقت میں پیش آیا ۔ایک سو بیس برس کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی۔(۔شرح الزرقانی علی المواھب، المقصد الاول فی تشریف اللہ تعالٰی...الخ، ج1، ص135۔138مختصراً والمواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،المقصد الاول فی تشریف اللہ تعالٰی...الخ ،ج1،ص155)
اصحابِ فیل کا واقعہ
حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی پیدائش سے صرف پچپن دن پہلے یمن کا بادشاہ ''ابرہہ'' ہاتھیوں کی فوج لے کر کعبہ ڈھانے کے لئے مکہ پر حملہ آور ہوا تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ''ابرہہ'' نے یمن کے دارالسلطنت ''صنعاء'' میں ایک بہت ہی شاندار اور عالی شان ''گرجاگھر'' بنایا اور یہ کوشش کرنے لگا کہ عرب کے لوگ بجائے خانہ کعبہ کے یمن آ کر اس گرجا گھر کا حج کیا کریں۔ جب مکہ والوں کو یہ معلوم ہوا تو قبیلہ ''کنانہ'' کا ایک شخص غیظ و غضب میں جل بھن کر یمن گیا،اور وہاں کے گرجا گھر میں پاخانہ پھر کر اس کو نجاست سے لت پت کر دیا۔ جب ابرہہ نے یہ واقعہ سنا تو وہ طیش میں آپے سے باہر ہو گیا اور خانہ کعبہ کو ڈھانے کے لئے ہاتھیوں کی فوج لے کر مکہ پر حملہ کر دیا۔ اور اس کی فوج کے اگلے دستہ نے مکہ والوں کے تمام اونٹوں اور دوسرے مویشیوں کو چھین لیا اس میں دو سو یا چار سو اونٹ عبدالمطلب کے بھی تھے۔ (شرح الزرقانی علی المواھب،المقصد الاول،عام الفیل وقصۃ ابرھۃ،ج1،ص156۔158)
عبدالمطلب کو اس واقعہ سے بڑا رنج پہنچا۔ چنانچہ آپ اس معاملہ میں گفتگو کرنے کے لئے اس کے لشکر میں تشریف لے گئے۔ جب ابرہہ کو معلوم ہوا کہ قریش کا سردار اس سے ملاقات کرنے کے لئے آیا ہے تو اس نے آپ کو اپنے خیمہ میں بلا لیا اور جب عبدالمطلب کو دیکھا کہ ایک بلند قامت ،رعب دار اور نہایت ہی حسین و جمیل آدمی ہیں جن کی پیشانی پر نورِ نبوت کا جاہ و جلال چمک رہا ہے تو صورت دیکھتے ہی ابرہہ مرعوب ہو گیا۔ اور بے اختیار تخت شاہی سے اُتر کر آپ کی تعظیم و تکریم کے لئے کھڑا ہو گیا اور اپنے برابر بٹھا کر دریافت کیا کہ کہیے، سردار قریش!یہاں آپ کی تشریف آوری کا کیا مقصد ہے؟ عبدالمطلب نے جواب دیا کہ ہمارے اونٹ اور بکریاں وغیرہ جو آپ کے لشکر کے سپاہی ہانک لائے ہیں آپ ان سب مویشیوں کو ہمارے سپرد کر دیجیے۔ یہ سن کر ابرہہ نے کہا کہ اے سردارِ قریش! میں تو یہ سمجھتا تھا کہ آپ بہت ہی حوصلہ مند اور شاندار آدمی ہیں ۔مگر آپ نے مجھ سے اپنے اونٹوں کا سوال کرکے میری نظروں میں اپنا وقار کم کر دیا۔ اونٹ اور بکری کی حقیقت ہی کیا ہے؟ میں تو آپ کے کعبہ کو توڑ پھوڑ کر برباد کرنے کے لئے آیا ہوں، آپ نے اس کے بارے میں کوئی گفتگو نہیں کی۔ عبدالمطلب نے کہا کہ مجھے تو اپنے اونٹوں سے مطلب ہے کعبہ میراگھر نہیں ہے بلکہ وہ خدا کا گھر ہے۔ وہ خود اپنے گھر کو بچا لے گا۔ مجھے کعبہ کی ذرا بھی فکر نہیں ہے۔(۔شرح الزرقانی علی المواھب،المقصد الاول،عام الفیل وقصۃ ابرھۃ،ج1،ص161)
یہ سن کر ابرہہ اپنے فرعونی لہجہ میں کہنے لگا کہ اے سردار مکہ!سن لیجیے! میں کعبہ کو ڈھا کر اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا،اور روئے زمین سے اس کا نام و نشان مٹا دوں گا کیونکہ مکہ والوں نے میرے گرجا گھر کی بڑی بے حرمتی کی ہے اس لئے میں اس کا انتقام لینے کے لئے کعبہ کو مسمار کردینا ضروری سمجھتا ہوں۔ عبدالمطلب نے فرمایا کہ پھر آپ جانیں اورخدا جانے۔ میں آپ سے سفارش کرنے والا کون؟ اس گفتگو کے بعد ابرہہ نے تمام جانوروں کو واپس کر دینے کا حکم دے دیا۔ اور عبدالمطلب تمام اونٹوں اور بکریوں کو ساتھ لے کر اپنے گھر چلے آئے اور مکہ والوں سے فرمایا کہ تم لوگ اپنے اپنے مال مویشیوں کو لے کر مکہ سے باہر نکل جاؤ ۔ اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ کر اور دروں میں چھپ کر پناہ لو۔(۔شرح الزرقانی علی المواھب،المقصد الاول،عام الفیل وقصۃ ابرھۃ،ج1،ص161)
مکہ والوں سے یہ کہہ کر پھر خود اپنے خاندان کے چند آدمیوں کو ساتھ لے کر خانہ کعبہ میں گئے اور دروازہ کا حلقہ پکڑ کر انتہائی بے قراری اور گریہ و زاری کے ساتھ دربار باری میں اس طرح دعا مانگنے لگے کہ :
لَاھُمَّ اِنَّ الْمَرْءَ یَمْنعُ رَحْلَہٗ فَامْنَعْ رِحَالَکَ
وَانْصُرْ عَلٰی اٰلِ الصَّلِیْبِ وَعَابِدِیْہِ اَ لْیَوْمَ اٰلَکَ
ترجمہ : اے اللہ !بے شک ہر شخص اپنے اپنے گھر کی حفاظت کرتا ہے۔ لہٰذا تو بھی اپنے گھر کی حفاظت فرما،اور صلیب والوں اور صلیب کے بچاریوں (عیسائیوں) کے مقابلہ میں اپنے اطاعت شعاروں کی مدد فرما۔ عبدالمطلب نے یہ دعا مانگی اور اپنے خاندان والوں کو ساتھ لے کر پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے اور خدا کی قدرت کا جلوہ دیکھنے لگے۔(شرح الزرقانی علی المواھب،المقصد الاول،عام الفیل وقصۃ ابرھۃ ،ج1،ص157)
ابرہہ جب صبح کو کعبہ ڈھانے کے لئے اپنے لشکر جرار اور ہاتھیوں کی قطار کے ساتھ آگے بڑھا اور مقام ''مغمس'' میں پہنچا تو خود اس کا ہاتھی جس کا نام ''محمود'' تھا ایک دم بیٹھ گیا۔ ہر چند مارا، اور بار بار للکارا مگر ہاتھی نہیں اٹھا۔(شرح الزرقانی علی المواھب،المقصد الاول،عام الفیل وقصۃ ابرھۃ،ج1،ص162)
اسی حال میں قہر الٰہی ابابیلوں کی شکل میں نمودار ہوا اور ننھے ننھے پرندے جھنڈ کے جھنڈ جن کی چونچ اور پنجوں میں تین تین کنکریاں تھیں سمندر کی جانب سے حرم کعبہ کی طرف آنے لگے۔ ابابیلوں کے ان دل بادل لشکروں نے ابرہہ کی فوجوں پر اس زورشور سے سنگ باری شروع کر دی کہ آن کی آن میں ابرہہ کے لشکر، اور اس کے ہاتھیوں کے پرخچے اڑ گئے۔ ابابیلوں کی سنگ باری خداوند قہار و جبار کے قہر و غضب کی ایسی مار تھی کہ جب کوئی کنکری کسی فیل سوار کے سرپر پڑتی تھی تو وہ اس آدمی کے بدن کو چھیدتی ہوئی ہاتھی کے بدن سے پار ہو جاتی تھی۔ ابرہہ کی فوج کا ایک آدمی بھی زندہ نہیں بچا اور سب کے سب ابرہہ اور اس کے ہاتھیوں سمیت اس طرح ہلاک و برباد ہو گئے کہ ان کے جسموں کی بوٹیاں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پر بکھر گئیں ۔چنانچہ قرآن مجید کی ''سورهٔ فیل'' میں خداوند قدوس نے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:
اَلَمْ تَرَ کَیۡفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیۡلِ ؕ﴿۱﴾اَلَمْ یَجْعَلْ کَیۡدَہُمْ فِیۡ تَضْلِیۡلٍ ۙ﴿۲﴾وَّ اَرْسَلَ عَلَیۡہِمْ طَیۡرًا اَبَابِیۡلَ ۙ﴿۳﴾تَرْمِیۡہِمۡ بِحِجَارَۃٍ مِّنۡ سِجِّیۡلٍ ﴿۴﴾۪ۙفَجَعَلَہُمْ کَعَصْفٍ مَّاۡکُوۡلٍ ٪﴿۵﴾ (۔پ30،الفیل:1۔5)
ترجمہ : یعنی(اے محبوب)کیا آپنے نہ دیکھا کہ آپکے رب نے ان ہاتھی والوں کا کیا حال کر ڈالا کیا انکے داؤں کو تباہی میں نہ ڈالا اور ان پر پرندوں کی ٹکڑیاں بھیجیں تاکہ انہیں کنکر کے پتھروں سے ماریں تو انہیں چبائے ہوئے بھُس جیسا بنا ڈالا
جب ابرہہ اور اس کے لشکروں کا یہ انجام ہوا تو عبدالمطلب پہاڑ سے نیچے
اترے اور خدا کا شکر ادا کیا۔ ان کی اس کرامت کا دور دور تک چرچا ہو گیااور تمام اہل عرب ان کو ایک خدا رسیدہ بزرگ کی حیثیت سے قابل احترام سمجھنے لگے۔(شرح الزرقانی علی المواھب،المقصد الاول،عام الفیل وقصۃ ابرھۃ ،ج1،ص164)
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
یہ ہمارے حضور رحمتِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے والد ماجد ہیں ۔یہ عبد المطلب کے تمام بیٹوں میں سب سے زیادہ باپ کے لاڈلے اور پیارے تھے۔ چونکہ ان کی پیشانی میں نور محمدی اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ جلوہ گر تھا اس لئے حسن و خوبی کے پیکر، اور جمالِ صورت و کمال سیرت کے آئینہ دار، اور عفت و پارسائی میں یکتائے روزگار تھے۔ قبیلۂ قریش کی تمام حسین عورتیں ان کے حسن و جمال پر فریفتہ اور ان سے شادی کی خواست گار تھیں۔ مگر عبدالمطلب ان کے لئے ایک ایسی عورت کی تلاش میں تھے جو حسن و جمال کے ساتھ ساتھ حسب و نسب کی شرافت اور عفت و پارسائی میں بھی ممتاز ہو۔ عجیب اتفاق کہ ایک دن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شکار کے لئے جنگل میں تشریف لے گئے تھے ملک شام کے یہودی چند علامتوں سے پہچان گئے تھے کہ نبی آخرالزماں کے والد ماجد یہی ہیں۔ چنانچہ ان یہودیوں نے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بارہا قتل کر ڈالنے کی کوشش کی۔ اس مرتبہ بھی یہودیوں کی ایک بہت بڑی جماعت مسلح ہو کر اس نیت سے جنگل میں گئی کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تنہائی میں دھوکہ سے قتل کر دیا جائے مگر اللہ تعالیٰ نے اس مرتبہ بھی اپنے فضل و کرم سے بچا لیا۔ عالم غیب سے چند ایسے سوار ناگہاں نمودار ہوئے جو اس دنیا کے لوگوں سے کوئی مشابہت ہی نہیں رکھتے تھے،ان سواروں نے آ کر یہودیوں کو مار بھگایا اور حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بحفاظت
ان کے مکان تک پہنچا دیا۔''وہب بن مناف'' بھی اس دن جنگل میں تھے اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھا، اس لئے ان کوحضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بے انتہا محبت و عقیدت پیدا ہو گئی، اور گھر آ کر یہ عزم کرلیا کہ میں اپنی نورِ نظر حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے کروں گا۔ چنانچہ اپنی اس دلی تمنا کو اپنے چند دوستوں کے ذریعہ انہوں نے عبدالمطلب تک پہنچا دیا۔خدا کی شان کہ عبدالمطلب اپنے نورِ نظرحضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے جیسی دلہن کی تلاش میں تھے، وہ ساری خوبیاں حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہابنت وہب میں موجود تھیں۔ عبدالمطلب نے اس رشتہ کو خوشی خوشی منظور کر لیا۔چنانچہ چوبیس سال کی عمر میں حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے نکاح ہو گیااور نور محمدی حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منتقل ہو کر حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے شکم اطہر میں جلوہ گر ہو گیا اور جب حمل شریف کو دو مہینے پورے ہو گئے تو عبدالمطلب نے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کھجوریں لینے کے لئے مدینہ بھیجا،یا تجارت کے لئے ملک شام روانہ کیا، وہاں سے واپس لوٹتے ہوئے مدینہ میں اپنے والد کے ننہال ''بنو عدی بن نجار'' میں ایک ماہ بیمار رہ کر پچیس برس کی عمر میں وفات پا گئے اور وہیں ''دارِ نابغہ'' میں مدفون ہوئے ۔ (زرقانی علی المواہب ج 1 ص101 و مدارج النبوت ، قسم دوم، باب اول ،ج2،ص12۔14)
قافلہ والوں نے جب مکہ واپس لوٹ کر عبدالمطلب کو حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیماری کا حال سنایا تو انہوں نے خبر گیری کے لئے اپنے سب سے بڑے لڑکے ''حارث'' کو مدینہ بھیجا۔ان کے مدینہ پہنچنے سے قبل ہی حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راہی ملک بقا ہو چکے تھے۔ حارث نے مکہ واپس آ کر جب وفات کی خبر سنائی تو سارا گھر ماتم کدہ بن گیااور بنو ہاشم کے ہر گھر میں ماتم برپا ہو گیا ۔خود حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے اپنے مرحوم شوہر کا ایسا پردرد مرثیہ کہا ہے کہ جس کو سن کر آج بھی دل درد سے بھر جاتا ہے ۔روایت ہے کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات پر فرشتوں نے غمگین ہو کر بڑی حسرت کے ساتھ یہ کہا کہ الٰہی !عزوجل تیرا نبی یتیم ہو گیا ۔حضرت حق نے فرمایا: کیا ہوا؟ میں اس کا حامی و حافظ ہوں ۔ (مدارج النبوت ، قسم دوم، باب اول ،ج2،ص14)
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ترکہ ایک لونڈی ''اُم ایمن'' جس کا نام ''برکہ'' تھاکچھ اونٹ کچھ بکریاں تھیں،یہ سب ترکہ حضور سرور عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ملا۔ ''اُمِ ایمن'' بچپن میں حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی دیکھ بھال کرتی تھیں کھلاتیں، کپڑا پہناتیں، پرورش کی پوری ضروریات مہیا کرتیں، اس لئے حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تمام عمر''اُم ایمن'' کی دل جوئی فرماتے رہے اپنے محبوب و متبنٰی غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کا نکاح کر دیا،اور ان کے شکم سے حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدا ہوئے۔(الاستیعاب، کتاب النساء وکناھن، باب الباء ،ج4،ص356ودلائل النبوۃ للبیہقی، باب ذکر رضاع النبی صلی اللہ علیہ وسلم مرضعتہ ...الخ،ج1،ص150)(طالب دعا : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment