غنیۃ الطالبین کے متعلق امام اہلسنت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرّحمہ کا مؤقف
مسئلہ ۷۵: حضور قطب الاقطاب سیدنا ومولانا محبوب سبحانی غوث الصمدانی رحمۃ اﷲ علیہ نے جو اپنے رسالہ غنیۃ الطالبین میں مذہبِ حنفیہ کو گمراہ فرقہ میں مندرج فرمایا ہے اس کو اچھی طرح سے حضور واضح فرما کر تسکین و تشفی بخشیں کہ وسوسہ و خطراتِ نفسانی و شیطانی رفع ہوجائیں ، عبدالعظیم نامی ضلع غازیپور کے باشندے نے ایک رسالہ تصنیف کیا ہے جس میں رسالہ تقویۃ الایمان عرف تفویۃ الایمان کے مضمون کو مکتوبات مخدوم الملک رحمۃ اﷲ علیہ و مجدد الف ثانی رحمۃ اﷲ علیہ اور بھی بزرگان دین کے مکتوبات سے دکھلایا ہے وثابت کیا ہے کہ ان بزرگوں نے اپنے مکتوبات میں تقویۃ الایمان سے بھی سخت سخت الفاظ نام بنام لکھاہے کہ اﷲ چاہے تو فلاں کو مردود کردے و فرعون و نمرود کو چاہے مقبول کرے، سینکڑوں کعبہ تیار کردے وغیرہ وغیرہ۔اب خاکسار عرض کرتا ہے کہ یا تو کوئی رسالہ ان کے جواب میں شائع فرمایا ہو تو بذریعہ ریلوے ڈاک پارسل ارسال ہو یا واضح خلاصہ جواب ارقام ہو والسلام مع الاکرام۔غنیۃ الطالبین کے مضامین سے زیادہ اس لیے انتشار ہے کہ دونوں حضرات سے تعلق و رشتہ و ایمان و ایقان کا سلسلہ ملحق ہے، حنفی اگر مذہب ہے تو قادری مشرب ہے، اب ذرا بھی ان دونوں پیشوا کی طرف سے ریب و شک دامنگیر ہوا کہ بہت بڑا حملہ ایمان پر ہونے کا خوف و ڈر ہے، ﷲ میرے حالِ زار پر رحم فرمائیں اس وقت میرے لیے بہت بڑا امتحان مدنظر ہے۔ زیادہ حد ادب۔
الجواب : بسم اﷲ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلّی علٰی رسولہ الکریم مکرم کرم فرما اکرمکم اﷲ تعالٰی وعلیکم السلام ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
اولاً کتاب غنیۃ الطالبین شریف کی نسبت حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا تو یہ خیال ہے کہ وہ سرے سے حضور پرنور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تصنیف ہی نہیں مگر یہ نفی مجرد ہے۔ اور امام حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے تصریح فرمائی کہ اس کتاب میں بعض مستحقین عذاب نے الحاق کردیا ہے،
فتاوٰی حدیثیہ میں فرماتے ہیں: وایّاک ان تغتربما وقع فی الغنیۃ لامام العارفین و قطب الاسلام والمسلمین الاستاذ عبدالقادر الجیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ فانہ دسہ علیہ فیہا من سینتقم اﷲ منہ والا فہو برئ من ذلک ۔۱
یعنی خبردار دھوکا نہ کھاناا اس سے جو امام اولیاء سردارِ اسلام و مسلمین حضور سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی غنیہ میں واقع ہوا کہ اس کتاب میں اسے حضور پر افتراء کرکے ایسے شخص نے بڑھا دیا ہے کہ عنقریب اللہ عزوجل اس سے بدلہ لے گا ، حضرت شیخ رضی اللہ تعالٰی عنہ اس سے بَری ہیں۔
( ۱ ؎ الفتاوی الحدیثیۃ مطلب ان مافی الغنیۃ للشیخ عبدالقادر مطبعۃ الجمالیہ مصر ص ۱۴۸)
ثانیاً اسی کتاب میں تمام اشعریہ یعنی اہلسنت و جماعت کو بدعتی ، گمراہ ، گمراہ گر لکھا ہے کہ:خلاف ماقالت الاشعریۃ من ان کلام اﷲ معنی قائم بنفسہ واﷲ حسیب کل مبتدع ضال مضل ۔۲
بخلاف اس کے جو اشاعرہ نے کہا کہ اﷲ تعالٰی کا کلام ایسا معنی ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور اﷲ تعالٰی ہر بدعتی، گمراہ و گمراہ گر کے لیے کافی ہے۔(ت)
( ۲ ؎ الغنیۃ لطالبی طریق الحق فصل فی اعتقاد ان القرآن حروف مفہومۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۹۱)
کیا کوئی ذی انصاف کہہ سکتا ہے کہ معاذ اﷲ یہ سرکار غوثیت کا ارشاد ہے جس کتاب میں تمام اہلسنت کو بدعتی ، گمراہ گمراہ گر لکھا ہے اس میں حنفیہ کی نسبت کچھ ہو تو کیا جائے شکایت ہے۔ لہذا کوئی محلِ تشویش نہیں۔
ثالثاً پھر یہ خود صریح غلط اور افترا بر افترا ہے کہ تمام حنفیہ کو ایسا لکھا ہے غنیۃ الطالبین کے یہاں صریح لفظ یہ ہیں کہ:ھم بعض اصحاب ابی حنیفۃ ۔۳وہ بعض حنفی ہیں۔
( ۳ ؎ الغنیۃ لطالبی طریق الحق فصل واما الجہمیۃ الخ ادارہ نشرو اشاعت علوم اسلامیہ پشاور ۱/ ۹۱ )
اس نے نہ حنفیہ پر الزام آسکتا ہے نہ معا ذا للہ حنفیت پر ، آخر یہ تو قطعاً معلوم ہے اور سب جانتے ہیں کہ حنفیہ میں بعض معتزلی تھے، جیسے زمخشری صاحبِ کشاف و عبدالجبار و مطرزی صاحبِ مغرب و زاہدی صاحبِ قینہ و حاوی و مجتبےٰ ، پھر اس سے حنفیت و حنفیہ پر کیا الزام آیا۔ بعض شافعیہ زیدی رافضی ہیں اس سے شافعیہ و شافعیت پر کیا الزام آیا۔ نجد کے وہابی سب حنبلی ہیں پھر اس سے حنبلیہ و حنبلیت پر کیا الزام آیا، جانے دو رافضی خارجی معتزلی وہابی سب اسلام ہی میں نکلے اور اسلام کے مدعی ہوئے پھر معاذ اﷲ اس سے اسلام و مسلمین پر کیا الزام آیا۔
رابعاً کتاب مستطاب بھجۃ الاسرار میں بسندِ صحیح حضرت ابوالتقی محمد بن ازہرصریفینی سے ہے مجھے رجال الغیب کے دیکھنے کی تمنا بھی مزارِ پاک امام احمد رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حضور ایک مرد کو دیکھا دل میں آیا کہ مردانِ غیب سے ہیں وہ زیارت سے فارغ ہو کر چلے یہ پیچھے ہوئے ان کے لیے دریائے دجلہ کا پاٹ سمٹ کر ایک قدم بھر کا رہ گیا کہ وہ پاؤں رکھ کر اس پار ہوگئے انہوں نے قسم دے کر روکا اور ان کا مذہب پوچھا، فرمایا:حنفی مسلم وما انا من المشرکین ہر باطل سے الگ مسلمان، اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔
یہ سمجھے کہ حنفی ہیں ، حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بارگاہ میں عرض کے لیے حاضر ہوئے حضور اندر ہیں دروازہ بند ہے ان کے پہنچتے ہی حضور نے اندر سے ارشاد فرمایا : اے محمد ! آج روئے زمین پر اس شان کا کوئی ولی حنفی المذہب نہیں ۔۱
( ۱ ؎ بہجۃ الاسرار ذکر فصول من کلامہ مرصعا بشیئ من عجائب احوالہ مختصرا دارالکتب العلمیہ بیروت ص ۱۵۲)
کیا معاذ اﷲ گمراہ بدمذہب لوگ اولیاء اﷲ ہوتے ہیں جن کی ولایت کی خود سرکار غوثیت نے شہادت دی، وہ وہابی رسالہ نظر سے نہ گزرا، یہاں چند امور واجب اللحاظ ہیں۔
اولاً وہ کلمات جو ان کتب سے مخالف نے نقل کیے اسمعیل دہلوی کے کلمات ملعونہ کے مثل ہوں ورنہ استشہاد مردود ، یہاں یہ نکتہ بھی یاد رہے کہ بعض متحمل لفظ جب کسی مقبول سے صادر ہوں بحکم قرآن انہیں معنی حسن پر حمل کریں گے، اور جب کسی مردود سے صادر ہوں جو صریح تو ہینیں کرچکا ہو تو اس کی خبیث عادت کی بنا پر معنی خبیث ہی مفہوم ہوں گے کہ:کل اناء یترشح بما فیہ صرح بہ الامام ابن حجر المکی رحمۃ اﷲ تعالٰی ۔ہر برتن سے وہی کچھ باہر آتا ہے جوا س کے اندر ہوتا ہے، امام حجر مکی رحمۃ اﷲ علیہ نے اس کی تصریح فرمائی ہے۔
ثانیاً وہ کتاب محفوظ مصؤن ہونا ثابت ہو جس میں کسی دشمنِ دین کے الحاق کا احتمال نہ ہو جیسے ابھی غنیۃ الطالبین شریف میں الحاق ہونا بیان ہوا، یونہی امام حجۃ الاسلام غزالی کے کلام میں الحاق ہوئے اور حضرت شیخ اکبر کے کلام میں تو الحاقات کا شمار نہیں جن کا شافی بیان امام عبدالوہاب شعرانی نے کتاب الیواقیت والجواہر میں فرمایا او ر فرمایا کہ خود میری زندگی میں میری کتاب میں حاسدوں نے الحاقات کیے، اسی طرح حضرت حکیم سنائی و حضرت خواجہ حافظ و غیرہما اکابر کے کلام میں الحاقات ہونا شاہ عبدالعزیز صاحب نے تحفہ اثناء عشریہ میں بیان فرمایا ، کسی الماری میں کوئی قلمی کتاب ملے اس میں کچھ عبارت ملنی دلیل شرعی نہیں کہ بے کم و بیش مصنف کی ہے پھر اس قلمی نسخہ سے چھاپا کریں تو مطبوعہ نسخوں کی کثرت کثرت نہ ہوگی اور ان کی اصل وہی مجہول قلمی ہے جیسے فتوحات مکیہ کے مطبوعہ نسخے۔
ثالثاً اگر بہ سند ہی ثابت ہو تو تو اترو تحقیق درکار امام حجۃ الاسلام غزالی وغیرہ اکابر فرماتے ہیں:لاتجوز نسبۃ مسلم الٰی کبیرۃ من غیر تحقیق، نعم یجوز ان یقال قتل ابن ملجم علیّا فان ذٰلک ثبت متواترا۔۱بلا تحقیق مسلمان کی طرف گنا ہِ کبیرہ کی نسبت کرنا جائز نہیں ، ہاں یوں کہنا جائز ہے کہ ابن ملجم نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو قتل کیا، کیونکہ یہ خبر متواتر سے ثابت ہے۔
( ۱؎ احیاء العلوم کتاب آفات اللسان الافۃ الثامنۃ اللعن مطبعۃ المشہد الحسینی القاہرہ ۳/ ۱۲۵)
جب بے تحقیق تام عام مسلمان کلمہ گو کی طرف گناہ کی نسبت ناجائز ہے تو اولیاء کرام کی طرف معاذ اﷲ کلمہ کفر کی نسبت بلا ثبوت قطعی کیسے حلال ہوسکتی ہے۔
رابعاً سب فرض کرلیں تو اب وہابی کے جواب کا حاصل یہ ہوگا کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی توہین بری نہیں کہ فلاں فلاں نے بھی کی ہے کیا یہ جواب کوئی مسلمان دے سکتا ہے، بفرض غلط توہین جس سے ثابت ہو وہ ہی مقبول نہ ہوگا نہ یہ کہ معاذ اﷲ اس کے سب توہین مقبول ہوجائے ۔ولا حول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم واﷲ تعالٰی اعلم ۔ نہ گناہ سے بچنے کی طاقت ہے اور نہ ہی نیکی کرنے کی قوت مگر بلند وعظمت والے اﷲ کی توفیق سے ، واﷲ تعالٰی اعلم ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید ج۲۹ صفحہ ۲۲۳،رضا فاؤنڈیشن لاہور)۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
غنیۃ الطالبین کس کی تصنیف ہے ؟ وہابیہ کے مکر و فریب کا جواب مفصّل جواب ۔ https://www.facebook.com/DrFaizChishti/photos/a.752631108160983.1073741828.752625121494915/1581819378575481/?type=3
No comments:
Post a Comment