Monday, 4 December 2017

غنیۃ الطالبین کس کی تصنیف ہے ؟ وہابیہ کے مکر و فریب کا جواب مفصّل جواب

غنیۃ الطالبین کس کی تصنیف ہے ؟ وہابیہ کے مکر و فریب کا جواب مفصّل جواب

قدیم دور سے ہی یہ چیز زیر بحث رہی ہے کہ ’’غنیۃ الطالبین‘‘کا مصنف کون ہے ؟ بعض حضرات اسے سیدنا غوث اعظم پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی تصنیف قرار دیتے رہے ہیں اور کئی دوسرے بزرگ اس کو آپ کی تصنیف تسلیم نہیں کرتے یاکم از کم محرّف وغیر معتبر مانتے ہیں جس سے کتاب کی اہمیت اور ثقاہت برقرار نہیں رہتی ذیل میں دونوں مؤقف پیش خدمت ہیں ۔

پہلا مؤقف : ایک مؤقف یہ ہے کہ’’ غنیۃ الطالبین‘‘حضرت پیران پیر کی تصنیف ہے ۔ درج ذیل حضرات کا یہی مؤقف ہے ، ان کی عبارات ملاحظہ ہوں !

امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہٗ النورانی فرماتے ہیں:
’’حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہٗ درکتاب غنیۃ کہ از مصنّفات ایشاں است میفرماید‘‘(مکتوبات شریفہ،دفتر دوم مکتوب ۶۷)

شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہٗ غنیۃ میں فرماتے ہیں اور یہ ان کی تصانیف سے ہے ۔
حاجی خلیفہ نے بھی الغنیہ کو آپ کی کتاب لکھا ہے۔(کشف الظنون جلد۲صفحہ ۱۲۱۹)

حافظ ابن تیمیہ نے بھی اسی بات کو لکھا ہے۔(فتاویٰ ابن تیمیہ جلد۵صفحہ۱۵)

حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے:وقد صنّف کتاب الغنیۃ وفتوح الغیب وفیھما أشیاء حسنۃ،ولکن ذکر فیھما أحادیث کثیرۃ ضعیفۃ وموضوعۃ۔(البدایۃ والنھایہ ج۱۲ ص۲۵۲ ،مکتبہ المعارف بیروت،دوسرا نسخہ جلد۲صفحہ۲۰۸ دارابن حزم)
آپ نے الغنیہ اور فتوح الغیب کتابیں تصنیف کی ہے اور ان میں اچھی چیزیں ہیں لیکن ان میں بہت زیادہ حدیثیں ضعیف اور موضوع ہیں۔

علامہ محمد بن یحیٰ تاذفی لکھتے ہیں : ولہ کتاب الغنیۃ لطالبی طریق الحق۔(قلائد الجواہر ص۷)یعنی غنیۃ الطالبین آپ کی کتاب ہے۔

عمر رضا کحالہ نے تسلیم کیا ہے کہ الغنیہ حضرت جیلانی علیہ الرحمۃ کی کتاب ہے ۔
(معجم المؤلفین ج۴ص۳۰۷ )

ایسے ہی اسماعیل باشا بغدادی نے بھی اسے تسلیم کیا ہے(ہدیۃ العارفین ج ۱ص ۵۹۶)

حضرت شاہ ولی اللہ محد ث دہلوی کہتے ہیں : حضرت غوث اعظم قدس سرہٗ در کتاب غنیۃ الطالبین وضع تعیین کردہ اند۔(ہمعات ص۲۳حیدر آباد، سندھ)
حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کتاب غنیۃ الطالبین میں وضع کی تعیین کی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دوسرا مؤقف : الغنیہ‘‘کے متعلق دوسرا مؤقف یہ ہے کہ یہ کتاب حضرت شاہ بغداد شیخ عبد القادر جیلانی علیہ الرحمۃ کی تصنیف نہیں ہے،بلکہ آپ کی طرف منسوب ہے یا کم از کم تحریف شدہ ضرور ہے،اس مؤقف کے قائلین کے اقوال ملاحظہ ہوں !

شیخ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں : ہرگز نہ ثابت شدہ کہ ایں تصنیف آنجناب است اگرچہ انتساب باآنحضرت دارد۔(حاشیہ نبراس ص۴۷۵)
یہ ہر گز ثابت نہیں ہو سکا کہ یہ کتاب (غنیۃ الطالبین)آپ کی تصنیف ہے اگرچہ اس کی نسبت ان کی طرف کی جاتی ہے۔

علامہ عبدالعزیز پرہاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں : ولا یغرنک وقوعہ فی غنیۃ الطالبین منسوبۃ الی الغوث الاعظم عبدالقادر الجیلانی قدس سرہ العزیز غیر صحیحۃ والا حادیث الموضوعۃ فیھا وافرۃ۔(النبراس ص۴۵۵)
اس حدیث کے غنیۃ الطالبین میں واقع ہونے سے تجھے دھوکہ نہ ہو ،جو کہ حضرت غوث اعظم عبدالقادر جیلانی قدس سرہٗ العزیز کی طرف منسوب ہے ،کیونکہ یہ نسبت صحیح نہیں اور اس میں موضوع احادیث وافر مقدار میں موجود ہیں۔

حضرت علامہ نظام الدین ملتانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں : (غنیۃ الطالبین)بڑے بڑے علماء دین ومؤرخین نے لکھا ہے کہ یہ کتاب حضرت سید عبدالقادر جیلانی کی نہیں ہے یہ کوئی اور عبدالقادر ہے۔چنانچہ مولوی عبدالعزیز ملتانی نے کتاب کوثر النبی اور مولوی غلام قادر بھیروی نے کتاب نورربانی کے اختتام پر لکھا ہے کہ یہ کتاب غنیۃ الطالبین جو مشہور ہے پیر صاحب کی نہیں اور بڑے بڑے بزرگان دین کی زبانی سنا گیا ہے کہ یہ کتاب پیر محی الدین سید عبدالقادررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی نہیں ان کی کتاب واقعی فتوح الغیب ہے۔اورمولوی عبدالحکیم فاضل سیالکوٹی اسی کے ترجمہ فارسی میں لکھتے ہیں کہ یہ عبارت کسی مبتدع نے ملادی ہے۔اور میرا بھی یہی خیال ہے ۔ (جامع الفتاوٰی،المعروف انوار شریعت ص۲۳۵ جلد اول حصّہ پنجم)
یعنی اس کتاب میں ترمیم واضافہ ہوا ہے اور یہ محرف تبدیل شدہ ہے۔

اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے اس کے متعلق سوال ہوا ،سوال و جواب دونوں درج ذیل ہیں:مسئلہ ۷۵:از کلکتہ ڈاک خانہ بالی گنج کڑایا وڈ نمبر ۱۰۱ مسئولہ فیض محمد تاجردربازار مستری ہادی مرحوم۔حضور قطب الاقطاب سیدنا ومولانا محبوب سبحانی غوث الصمدانی رحمۃ اللہ علیہ نے جو اپنے رسالہ غنیۃ الطالبین میں مذہب حنفیہ کو گمراہ فرقہ میں مندرج فرمایا ہے اس کو اچھی طرح سے حضور واضح فرما کر تسکین وتشفی بخشیں کہ وسوسہ نفسانی وشیطانی رفع ہو جائیں … الخ
الجواب…بسم اللہ الرحمٰن الرحیم،نحمدہٗ ونصلی علی رسولہ الکریم۔مکرم کرم فرما اکرمکم اللہ تعالیٰ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ!
اولاً: کتاب غنیۃ الطالبین شریف کی نسبت حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا تو یہ خیال ہے کہ وہ سرے سے حضور پر نور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تصنیف ہی نہیں مگر یہ نفی مجرد ہے،اور امام ابن حجر مکی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تصریح فرمائی ہے کہ اس کتاب میں بعض مستحقین عذاب نے الحاق کردیا ہے۔فتاویٰ حدیثیہ میں فرماتے ہیں:
وایّاک ان تغتر بما وقع فی الغنیۃ لامام العارفین وقطب الاسلام والمسلمین الاستاذ عبدالقادر الجیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فانہ دسہ علیہ فیھا من نیتقم اللہ منہ والا فھو برئی من ذلک
(الفتاویٰ الحدیثیہ،مطلب أن مافی الغنیۃ للشیخ عبدالقادر،مطبعۃ الجمالیۃ مصر ص۱۴۸)
یعنی خبردار دھوکا نہ کھانا اس سے جو امام الاولیاء سردار اسلام ومسلمین حضور سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی ص کی غنیۃمیں واقع ہوا کہ اس کتاب میں اسے حضور پر افتراء کر کے ایسے شخص نے بڑھا دیا ہے کہ عنقریب اللہ عزوجل اس سے بدلہ لے گا حضرت شیخ ص اس سے بری ہیں۔
ثانیًا:اسی کتاب میں تمام اشعریہ یعنی اہلسنّت وجماعت کو بدعتی ،گمراہ،گمراہ گر لکھا ہے کہ:…خلاف ماقالت الاشعریۃ من ان کلام اللہ معنًی قائم بنفسہٖ واللہ حسیب کل مبتدع ضال مضل۔(الغنیۃ الطالبی طریق الحق،بیروت ج۱ص۱ ۹ )
بخلاف اس کے جو اشاعرہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا کلام ایسا معنیٰ ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور اللہ تعالیٰ ہر بدعتی،گمراہ وگمراہ گر کے لیے کافی ہے(ت)
کیا کوئی ذی انصاف کہہ سکتا ہے کہ معاذاللہ یہ سرکار غوثیت کا ارشاد ہے جس کتاب میں تمام اہلسنّت کو بدعتی ،گمراہ ،گمراہ گر لکھا ہے اس میں حنفیہ کی نسبت کچھ ہو تو کیا جائے شکایت ہے،لہٰذا کوئی محل تشویش نہیں…الخ ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید ج۲۹ص۲۲۳،رضا فاؤنڈیشن لاہور)

علامہ ملتانی اور فاضل بریلوی علیہما الرّحمہ کی عبارات سے واضح ہوا کہ : بڑے بڑے علماء ومؤرخین نے لکھا ہے کہ یہ کتاب حضرت غوث پاک کی نہیں ۔

مولانا عبدالعزیزملتانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ’’کوثر النبی‘‘ میں یہی لکھا ہے۔

مولانا غلام قادر بھیروی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کتاب ’’نور ربانی‘‘کے اختتام پر یہی بتایا ہے۔

بڑے بڑے بزرگان دین نے زبانی بھی یہی فرمایا ہے۔

علامہ عبدالحکیم فاضل سیالکوٹی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس کتاب کے ترجمہ فارسی میں اسے الحاقی (ملاوٹ والی کتاب) تسلیم کیا ہے۔

حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے استاذ جلیل علامہ مرابن حجر مکی لکھتے ہیں : وایّاک أن تغتر أیضاً بما وقع فی’’الغنیۃ‘‘لامام العارفین وقطب الاسلام والمسلمین الاستاذ عبدالقادر الجیلانی،فانہ دسہ علیہ فیھا من سینتقم اللہ منہ والا فھو برئی من ذلک وکیف تروج علیہ ہذہ المسألۃ الواھیۃ مع تضلعہٖ من الکتاب والسنۃ وفقہ الشافعیۃ والحنابلۃ حتی کان یفتی علی المذہین ھذاماانضم لذک من أن اللہ من علیہ من المعارف والخوارق الظاہرۃ والباطنۃ وماأنبا عنہ ماظہر علیہ وتواتر من احوالہٖ…الخ۔(الفتاویٰ الحدیثیہ ۲۷۱،مطلب:أن مافی(الغنیۃ)للشیخ عبدالقادر قدس سرہٗ مدسوسۃ علیہ من بعض الممقوتین)
ترجمہ : امام العارفین،قطب الاسلام والمسلمین،استاذ عبدالقادر جیلانی کی تصنیف غنیہ میں جو کچھ مذکور ہے وہ تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے،کیوں کہ یہ بات کسی نے بطور سازش کتاب میں شامل کردی ہے اور اللہ تعالیٰ اس شخص سے انتقام لے گا،ورنہ حضرت شیخ اس سے بری ہیں،یہ بے بنیاد مسئلہ ان کی طرف کس طرح منسوب کیا جاسکتا ہے جبکہ وہ کتاب وسنت اور فقہ شافعیہ اور حنابلہ میں کامل دسترس رکھتے تھے، حتی کہ دونوں مذہبوں پر فتویٰ دیتے تھے۔اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ظاہری اور باطنی معارف وخوارق سے نوازرکھاتھا اور ان کے احوال تواتر کے ساتھ منقول ہیں ۔

مرجٔہ کے بارہ فرقوں میں’’بعض اصحاب ابی حنفیہ‘‘کا جملہ موجود ہے،جس کا رد کرتے ہوئے علامہ عبدالحکیم فاضل سیالکوٹی نے اپنے’’ترجمہ فارسی‘‘میں یہ نوٹ لکھا ہے:حنفیہ کا مرحبئہ کے فرقوں میں ذکر کرنا اور یہ کہنا کہ ان کے نزدیک ایمان معرفت اور اقرار کا نام ہے،احناف کے مذہب کے خلاف ہے جو ان کی کتابوں میں ثابت ہے ،ہو سکتا ہے کہ بعض اہل بدعت نے احناف کی دشمنی میں یہ عبارت حضرت شیخ قدس سرہٗ کے کلام میں داخل کردی ہو۔(اردو دائرہ المعارف ج۱۲ص۹۳۲ از قاضی عبدالنبی کوکب علیہ الرحمۃ)

غنیۃ الطالبین کے متعلق یہی مؤقف فتاویٰ فیض الرسول صفحہ۱۵۶،۱۵۵ پر لکھا گیا ہے۔

ممدوح وہابیہ مولانا عبدالحی لکھنوی لکھتے ہیں : ان الغنیۃ الیس من تصانیف الشیخ محی الدّین رضی اللہ عنہ انہ لم یثبت ان الغنیۃ من تصانیفہٖ و ان اشتھر انتسابھا الیہ۔
(الرفع والتکمیل فی الجرح والتعدیل )
ترجمہ : بے شک غنیۃ الطالبین حضرت شیخ محی الدین جیلانی علیہ الرحمۃ کی نہیں ہے کیو نکہ آج تک ثابت نہیں ہو سکا کہ یہ آپ کی تصانیف میں سے ہے اگرچہ اس کی نسبت آپ کی طرف بہت مشہور ہو چکی ہے ۔

مخالفین کا اعتراف

اس دوسرے مؤقف پر چند مخالفین کی عبارات بھی ملاحظہ ہوں

غیر مقلد وہابی حکیم فیض عالم صدیقی غیر مقلد نے لکھا ہے : ’’غنیۃ الطالبین‘‘حنبلی مذہب کی ایک انسا ئیکلوپیڈیا ہے مگر اس کتاب میں بھی یاران طریقت نے ’’تصوف کے باب‘‘کے عنوان سے ایسی پیوندکاری کی ہے جس کا جواب نہیں…شیعوں کے چند ذہین ترافراد نے تقیہ کی آڑ میں پیرجیلانی کی مریدی کا بھروپ بھر کر آپکی اس تصنیف میں تصوف کا باب بڑھا کر آپ کی تعلیم کو مسخ کرنے کی کوشش کی۔(اختلاف امت کا المیہ ص۳۳۱)
یعنی غنیۃ الطالبین حنبلی فقہ کی کتاب ہے اور ہے بھی محرّف وتبدیل شدہ ،

غیر مقلد وہابی عالم مبشر حسین لاہوری نے بھی لکھا ہے : مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس اقتباس کے بارے میں یہ مؤقف اپنایا جائے کہ یہ شیخ کی کتاب میں کسی اورنے شامل کردیا ہوگا۔اور ویسے بھی یہ بات معقول ہے کہ جب متعصبین نے احادیث وضع کرنے یا کتب احادیث میں تحریف کرنے میں خوف خدا کا لحاظ نہیں رکھا تو شیخ کی کتاب میں ایسی بات کا پیوند لگانے میں یہ خوف ان کے لیے کیسے مانع ہو سکتا ہے ۔(غنیۃ الطالبین صفحہ)

ثابت ہوا کہ کتاب کی حیثیت مشکوک ہے

محدث العصر غیر مقلد وہابیہ حافظ زبیر علیزئی نے لکھا ہے : سوال:کیا ’’غنیۃ الطالبین‘‘نامی کتاب شیخ عبدالقادر جیلانی سے ثابت شدہ ہے اور شیخ عبدالقادر کا محدثین اور ائمہ جرح وتعدیل کے نزدیک کیا مقام ہے ؟
الجواب:غنیۃ الطالبین کتاب کے بارے میں علمائے کرام کا اختلاف ہے لیکن حافظ ذہبی (متوفی ۷۴۸ ھ)اور ابن رجب الحنبلی (متوفی ۷۹۵ھ )دونوں اسے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی کتاب قرار دیتے ہیں (دیکھیئے کتاب العلوللعلی الغفار للذہبی ص ۱۹۳ ، الذ یل علی طبقات الحنابلۃ لابن رجب ا/ ۲۹۶)اور یہی راحج ہے۔
تنبیہ:مروجہ غنیۃ الطالبین کے نسخے کی صحیح ومتصل سند میرے علم میں نہیں ہے ۔واللہ اعلم ۔ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کا علمائے حدیث وائمہ اسلام کے نزدیک بہت بڑا مقام ہے ۔ (ماہنامہ الحدیث حضرو نمبر ۴۳ ص۷)
ان کی اس کتاب میں ضعیف اور موضوع روایات بھی موجود ہیں۔(ماہنامہ الحدیث حضرو نمبر ۴۳ ص۸)

ثابت ہواکہ موجودہ کتاب ان کے نزدیک بھی ابھی تک غیر مستند ہے

علامہ جمیل احمد نذیری دیوبندی نے لکھا ہے

اولاً غنیۃ الطالبین شیخ عبدالقادر جیلانی کی کتاب نہیں ان کی طرف غلط منسوب ہے۔(رسول اکرم اکا طریقہ نماز ص۲۲۰)۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...