Saturday 26 September 2015

تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیکرِ دلنشیں

تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیکرِ دلنشیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے سیدنا اِمام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ اپنے ماموں حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں : ۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عظیم المرتبت اور بارعب تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ اقدس چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا تھا، قد مبارک متوسط قد والے سے کسی قدر طویل تھا لیکن لمبے قد والے سے نسبتاً پست تھا۔ سرِ اقدس اعتدال کے ساتھ بڑا تھا، بال مبارک قدرے بل کھائے ہوئے تھے، سر کے بالوں میں سہولت سے مانگ نکل آتی تو رہنے دیتے ورنہ مانگ نکالنے کا اہتمام نہ فرماتے، جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال مبارک زیادہ ہوتے تو کانوں کی لو سے متجاوز ہو جاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ مبارک چمکدار، پیشانی کشادہ، ابرو خمدار، باریک اور گنجان تھے، ابرو مبارک جدا جدا تھے، ایک دُوسرے سے ملے ہوئے نہیں تھے۔ دونوں کے درمیان ایک مبارک رگ تھی جو حالتِ غصہ میں ابھر آتی۔ بینی مبارک مائل بہ بلندی تھی اور اُس پر ایک چمک اور نور تھا، جو شخص غور سے نہ دیکھتا وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلند بینی والا خیال کرتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک گھنی تھی، رخسار مبارک ہموار (اور ہلکے) تھے، دہن مبارک اِعتدال کے ساتھ فراخ تھا، سامنے کے دانتوں میں قدرے کشادگی تھی۔ سینے سے ناف تک بالوں کی ایک باریک لکیر تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردن مبارک اتنی خوبصورت اور باریک تھی (جیسے کسی گوہرِ آبدار کو تراشا گیا ہو اور) وہ رنگ و صفائی میں چاندی کی طرح سفید اور چمکدار تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعضاء مبارک پُرگوشت اور معتدل تھے اور ایک دُوسرے کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھے۔ پیٹ اور سینہ مبارک ہموار تھے (لیکن) سینۂ اقدس فراخ (اور قدرے اُبھرا ہوا) تھا، دونوں شانوں کے درمیان مناسب فاصلہ تھا۔ جوڑوں کی ہڈیاں قوی تھیں، بدن مبارک کا جو حصہ کپڑوں سے باہر ہوتا روشن نظر آتا۔ ناف اور سینہ کے درمیان ایک لکیر کی طرح بالوں کی باریک دھاری تھی (اور اس لکیر کے علاوہ) سینۂ اقدس اور بطن مبارک بالوں سے خالی تھے، البتہ بازوؤں، کندھوں اور سینہ مبارک کے بالائی حصہ پر کچھ بال تھے، کلائیاں دراز تھیں اور ہتھیلیاں فراخ، نیز ہتھیلیاں اور دونوں قدم پُرگوشت تھے، ہاتھ پاؤں کی انگلیاں تناسب کے ساتھ لمبی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تلوے قدرے گہرے اور قدم ہموار اور ایسے صاف تھے کہ پانی ان سے فوراً ڈھلک جاتا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلتے تو قوت سے قدم اٹھاتے مگر تواضع کے ساتھ چلتے، زمین پر قدم آہستہ پڑتا نہ کہ زور سے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سبک رفتار تھے اور قدم ذرا کشادہ رکھتے، (چھوٹے چھوٹے قدم نہیں اٹھاتے تھے)۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلتے تو یوں محسوس ہوتا گویا بلند جگہ سے نیچے اتر رہے ہیں۔ جب کسی طرف توجہ فرماتے تو مکمل متوجہ ہوتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر پاک اکثر جھکی رہتی اور آسمان کی نسبت زمین کی طرف زیادہ رہتی، گوشۂ چشم سے دیکھنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادتِ شریفہ تھی (یعنی غایتِ حیا کی وجہ سے آنکھ بھر کر نہیں دیکھتے تھے)، چلتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنھم کو آگے کر دیتے اور جس سے ملتے سلام کہنے میں خود ابتدا فرماتے۔
1. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 35 - 38، رقم : 8
2. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 154، رقم : 1430
3. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 155
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 273
5. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 35، رقم : 24
6. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 422
7. ابن کثير، شمائل الرسول : 50، 51
8. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 286، 287
9. ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 191
10. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 130
11. مقريزي، اِمتاع الآسماع، 2 : 177
12. ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 155
13. ابن حبان، الثقات، 2 : 145
14. ابن حبان، اخلاق النبيا، 4 : 282
15. ذهبي، ميزان الاعتدال في نقد الرجال، 7 : 258، رقم : 9743

No comments:

Post a Comment

غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں

غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں محترم قارئینِ کرام : بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ وہابی تو اللہ تعالیٰ کا نام ...