تصادم کی بجائے مکالمے کی ضرورت (Preferring Dailogue on Clash)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آج کی جدید سیاسی فکر نے بین الاقوامی تعلقات اور بین الملل روابط ثقافت کو قرار دیا ہے۔ ہر قوم کی اپنی نمایاں اور انفرادی ثقافتی شناخت ہوتی ہے لحاظہ جہاں کہیں ثقافتی اقدارمیں اختلاف و تضاد واقع ہو گا، ثقافتی شناخت کو ترجیح دینے کے ناطے یہ تصادم پر منتج ہو گا۔ ثقافت کے اس کردار کا ذکر کرتے ہوئے ایک مغربی مصنف لکھتا ہے :
Toynbee's influence on Huntington is clear throughout his treatment of what civilizations are and why they are important. Civilizations, Huntington explains, are broad cultural entities that unite individuals around common mores, traditions and institutions. As such, they are "the most enduring of human associations," and are therefore the foundations of long-term historical continuity Because civilizations are, after blood and tribe, the most important factors binding individuals together into potential political identities, they are naturally the most important actors in the field of global politics.(1)
’’تہذیبوں کی نوعیت اور ان کی اہمیت بیان کر نے کے پورے عمل کے دوران ہنٹٹنگٹن پر ٹوائن بی کا اثر بڑا واضح ہے۔ ہنٹٹنگٹن کی وضاحت کے مطابق تہذیبیں وسیع ثقافتی حقیقتیں ہیں جو افراد کو مشترک سماجی اقدار، طور طریقوں، روایات اور اداروں پر متحد کرتی ہیں۔ اس طرح سے یہ انسانی ہم آہنگی اور وابستگی کی دیرپا بنیادیں ہیں اور اس لئے یہ طویل المیعاد تاریخی تسلسل کی بنیاد بھی ہیں ۔چونکہ تہذیبیں خون اور قبیلے کے رشتے کے بعد افراد کو مخفی سیاسی شناخت میں منسلک کرنے کرنے والی سب سے موثر ترین عوامل ہیں، سو قدرتی طور پر یہ عالمی سیاست کے میدان میں بہت ہی اہم عوامل ہیں۔‘‘
(1) Christian Stracke, The Clash of Civilizations and the Remaking of the World Order, Journal of International Affairs, vol. 51, 1997.
تاریخی ارتقاء پر نظر رکھنے والے اہل علم سے یہ امر پوشیدہ نہیں کہ مغرب کا تصادم کا یہ تصور نیا نہیں بلکہ صدیوں پرانا ہے :
The clash thesis is not novel. It draws upon a tradition that emerged in Europe at the birth of the nation-state and accompanied European expansion across the world. This was the idea that, notwithstanding the intense rivalry between such states, people of Europe held in common attributes superior to those of all other human beings. Expressed in the "civilizing" missions of specific states these gave meaning to colonialism and had the effect of complementing ideologies of nation which were of immense importance in cohering unstable domestic populations. The idea of a civilizing Europe was as important "at home" as it was abroad : it was indeed a "security" measure much like Huntington's defense of U.S. interests in the 1990s. Here "civilization" has an ideological function in the classical sense : it is part of a body of ideas which endorse relations of inequality and of domination of a majority of people by a small number of others.(1)
’’تصادم کا نظریہ کوئی نئی بات نہیں۔ اس کی بنیاد اس روایت پر ہے جو یورپ میں قومی سیاست کی ابتداء سے وجود میں آئی اور دنیا پر یورپی توسیع کے ساتھ بڑھتی گئی۔ یہ تصور یوں تھا کہ ان ریاستوں کے مابین شدید رقابت کے باوجود یورپ کے لوگوں نے بقیہ عالم انسانیت سے کچھ فائق خصوصیات اختیار کرلیں۔ کچھ خاص ریاستوں کے تہذیبی مشن کے اظہار کے مطابق انہوں نے نوآبادیت کو معنی دیا اور قوم کی تکمیل کرنے والے نظریات پر اس کا اثر ہوا جو کہ غیر مستقل مقامی آبادی کے باہمی ربط کے قیام میں نمایاں اہمیت کا حامل تھا۔ ایک تہذیب پذیر یورپ کا تصور جتنا اندرون ملک عام تھا اتنا بیرون ملک بھی۔ یہ بلاشبہ ایک طرح کا حفاظتی اقدام تھا جیسا کہ 1990ء کی دہائی میں ہنٹٹنگٹن نے امریکی مفادات کا دفاع کیا۔ یہاں کلاسیکل معنوں میں تہذیب کا ایک نظریاتی عمل ہے۔ یہ ان تصورات پر مشتمل ہے جو غیر مساویانہ تعلقات اور اکثریتی آبادی پر دوسری قوم کے چند لوگوں کے غلبے کی توثیق کرتے ہیں۔‘‘
(1) Philip Marfleet, The "Clash" Thesis : War and Ethnic Boundaries in Europe , Arab Studies Quarterly, vol. 25, 2003.
ثقافتی شناخت کی بنیاد پر پیدا ہونے والے موجودہ عالمی تصادم کی جڑیں حصول بقا کو لاحق خوف میں موجود ہیں۔مغربی دنیا بزعم خویش اپنے ثقافتی نظام کیلئے اسلام کی ثقافتی اقدار کو ایک خطرہ تصور کرتی ہیں :
For Huntington, the clash of civilizations was an historic development. The history of the international system had been essentially about the struggles between monarchs, nations, and ideologies within Western civilization. The end of the cold war inaugurated a new period, where non-Westerners were no longer the helpless recipients of Western power, but now counted amongst the movers of history. The rise of civilizational politics intersected four long-run processes at play in the international system :
1. The relative decline of the West.
2. The rise of the Asian economy and its associated 'cultural affirmation', with China poised to become the greatest power in human history.
3. A population explosion in the Muslim world, and the associated resurgence of Islam.
4. The impact of globalization, including the extra ordinary expansion of transnational flows of commerce, information, and people.
The coincidence of these factors was forging a new international order.(1)
’’ہنٹٹنگٹن کے مطابق تہذیبوں کا تصادم ایک تاریخی عمل ہے۔ بین الاقوامی نظام کی تاریخ شہنشاہوں، قوموں اور مغربی تہذیب میں بھی نظریات کے مابین جدوجہد پر مشتمل ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے نے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ جہاں غیر مغربی طاقتوں کے سامنے محض بے یارو مددگار اثر قبول کرنے والے ہی نہ تھے بلکہ اب وہ تاریخ کی حرکت کا حصہ بھی تھے۔ تہذیبی سیاست کے عروج نے بین الاقوامی نظام میں 4 طویل المیعاد رُو بہ عمل عوامل کو متاثر کیا :
مقابلتاً مغرب کا زوال
ایشائی معیشت کا عروج، اس کا چین کے ساتھ ثقافتی تعاون ہوتے ہوئے انسانی تاریخ کی عظیم ترین طاقت بننے کا امکان
مسلم دنیا میں آبادی کا اضافہ اور اسلام کا عروج
عالمگیریت کے اثرات جس میں بین الممالک تجارت، اطلاعات اور لوگوں کی غیر معمولی پھیلاؤ اور تبادلہ شامل ہیں۔
(1) Simon Murden, Sulture in World Affairs in John Baylis & Steve Smith's The Globalization of World Politics, OUP, 2001, p. 461-2.
ان تمام عوامل کی بیک وقت موجودگی ایک نئے بین الاقوامی نظام کو تشکیل دے رہی ہے۔‘‘
اسی تصور کو دوسرے مقام پر یہ مفکر یوں بیاں کرتا ہے
Huntington observed that Islam had particularly 'bloody borders', a situation that would continue until Muslim population growth slowed in the second or third decade of the twenty-first century. At the 'macro-level', a more general competition for capabilities and influence was evident, with the principal division between the 'West' and, to varying degrees, the 'Rest'. According to Huntington, the hegemony of the West was most contested by the two most forceful non-Western civilizations, the Sinic and Islamic. Resistance to the West was most evident over issues such as arms control and the promotion of Western political values. Western efforts to project their democracy and human rights were widely regarded as a form of non-imperialism.(1)
’’ہنٹنگٹن نے بیان کیا کہ اسلام بطور خاص خونی سرحدوں کا حامل ہے۔ یہ صورتحال جاری رہے گی تاوقتیکہ اکیسویں صدی کی دوسری یا تیسری دہائی میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ کم نہ ہو جائے۔ بڑی سطح پر مغرب اور بقیہ دنیا کے درمیان واضح تقسیم کے ساتھ اہلیتوں اور اثر رسوخ کیلئے عمومی مقابلہ بڑا واضح ہے۔ ہنٹنگٹن کے مطابق مغرب کی برتری کو دو بہت ہی طاقتور غیر مغربی تہذیبوں یعنی چینی، اور اسلامی کے مقابلے کا سامنا ہے۔ مختلف مسائل مثلاً تخفیف اسلحہ اور مغرب کی سیاسی اقدار کے فروغ میں ان کی طرف سے مزاحمت بہت ہی نمایاں ہے۔‘‘
(1) Simon Murden, Sulture in World Affairs in John Baylis & Steve Smith's The Globalization of World Politics, OUP, 2001, p. 462.
تاہم مغرب کاتہذیبی تصادم کا یہ تصور اپنے تاریخی پس منظر کے علاوہ ان مغالطوں کا مرہون منت بھی جس کا اس نظریے کو تشکیل دینے والے شکار ہیں :
Huntington's anti-modern perspective, which rejects the dominant modern notion of history as progress and instead proposes history as continuity, is even more radically anti-modern considering his general treatment of civilizations as actors. Any truly modern, post-Wittgenstein understanding of civilization would necessarily include the concept of civilization as construct, which implies first the inherent artificiality of any civilization and second the constant potential for the innovation of civilizational content. Such a view of innovation within civilizations is perhaps best seen in a standard modern understanding of the history of Western civilization as a progressive fusion of classical, Christian and Enlightenment ideals, the latter being rooted in the past but in some important sense new and unprecedented. Under this modern conception, Western civilization, with all its internal divisions and constant innovational struggles, would have an extraordinarily difficult time trying to behave as a unitary actor.(1)
’’ہنٹٹنگٹن کا غیر جدید تناظر جو تاریخ کے ترقی پذیر ہونے کی جدید غالب تصور کی نفی کرتا ہے اور اس کے بجائے اسے ایک تسلسل قرار دیتا ہے۔ یہ تہذیب کو ایک عامل سمجھنے کے تصور سے بھی زیادہ جدیدیت مخالف تصور ہے۔ تہذیب کا کوئی بھی وٹگنسٹائن کے بعد کا جدید فہم تہذیب کے ساخت ہونے کے تصور پر مشتمل ہے۔ جو اولاً تہذیب کی اندرونی مصنوعیت اور ثانیاً تہذیب کے اختراع کی مستقل اہلیت پر مشتمل ہے۔ تہذیب میں اختراع کا ایسا تصور بہتر طور پر مغربی تہذیب کی تاریخ کے جدید فہم میں دیکھا جا سکتا ہے۔ جو کلاسیکل، عیسائی اور روشن خیالی کے تصورات کی ترقی پذیر آمیزش پر مشتمل ہے۔ جن میں سے آخر الذکر کی جڑیں تو ماضی میں ہیں لیکن کئی اہم حوالوں سے یہ نیا اور عدیم النظیر ہے۔ جدید تصورات کے مطابق مغربی تہذیب اپنی تمام تر اندرونی تقسیم اور مستقل اختراعی جدوجہد کے باعث ایک واحد عامل کے طور پر روبہ عمل ہونے کے لیے غیر معمولی مشکلات سے دو چار ہے۔‘‘
(1) Christian Stracke; The Clash of Civilizations and the Remaking of the World Order, Journal of International Affairs, vol. 51, 1997.
اندریں حالات یہ اندازہ کرنا کوئی مشکل امر نہیں کہ اگر موجودہ عالمی حالات آگے بڑتے رہے تو اس عالمی تصادم کا انجام کیا ہو گا گویا آج انسانیت کو اپنی بقا کے لئے ایک ایسے عالمی نظام کی ضرورت ہے جس کی بنیاد تصادم کی بجائے مکالمہ ہو۔ اور یہ ضروت صرف اسلام پوری کر سکتا ہے جس نے پہلے دن سے تعالوا الی کلمۃ سواء بیننا وبینکم کا منشور عطا کر کے ایک وسیع بنیاد فراہم کر دی۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب
اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
شانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کی روشنی میں محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْ...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...
No comments:
Post a Comment