Saturday, 26 September 2015

حضرت سیدنا خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ

حضرت سیدنا خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کا نام ہونٹوں پر آتا ہے تو دیدۂ و دل میں خوشبو کے چراغ جھلملانے لگتے ہیں اور پلکیں اس عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احترام میں جھک جاتی ہیں ۔ حضرت اویسِ قرنی رضی اللہ عنہ قرن کے رہنے والے تھے ۔ وہ اپنی ضعیف والدہ کو تنہا چھوڑ کر طویل سفر اختیار نہیں کر سکتے تھے اور پھر یہ خیال بھی دامنگیر تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پہنچ کر نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلووں کی تاب بھی لاسکوں گا کہ نہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اویس قرنی رضی اللہ عنہ سے بے حد محبت تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان تھا کہ قرن میں اویس نام کا ایک شخص ہے ، جو روزِ محشر بنو ربیعہ اور بنو مضر کی بھیڑوں کے بالوں کی تعداد کے برابر میری اُمت کے لوگوں کی شفاعت کرے گا ۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اس غلام سے کتنی محبت فرماتے ہوں گے ۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إن خير التابعين رجلٌ يقال له أويس ، وله والدة ، وکان به بياض ۔ فمروه فليستغفرلکم ۔
ترجمہ : تابعین میں سب سے افضل شخص ایک آدمی ہے ، جس کا نام اویس ہو گا ، اور اُس کی والدہ (حیات) ہے ، اُس کو برص کی بیماری ہے ، پس اُس سے کہو کہ وہ تمہارے لیے مغفرت کی دُعا کرے ۔ (مسلم، الصحيح، 4 : 1968، کتاب فضائل الصحابه، رقم : 22542)(حاکم،)(المستدرک، 3 : 456، رقم : 35720،چشتی)(احمد بن حنبل، المسند، 1 : 438)(ابن سعد، الطبقات الکبري، 6 : 5163)(ابن حجر عسقلاني، الاصابه، 1 : 220)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اس عاشقِ رسول کے پاس پہنچ گئے ، اس وقت حضرت اویسِ قرنی رضی اللہ عنہ بارگاہِ خُداوندی میں سجدہ ریز تھے۔ اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں نبی کریم اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلام پہنچایا اور نبی کریم اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت کی خاطر دعا کےلیے عرض کیا ۔ (ابن ابی شيبه، المصنف، 6 : 397، رقم : 232344)(ابو يعلي، المسند، 1 : 187، 188، رقم : 3212)(بيهقي، شعب الايمان، 5 : 321، رقم : 46798،چشتی)(ابونعيم، حلية الاولياء، 2 : 80 - 582)(ابنِ عساکر، تاريخ، 6 : 145 - 166)

یمن کے ایک شہر میں بوسیدہ لباس میں کوئی مستانہ وار جارہا ہے ۔ شہر کے آوارہ بچے اس کے پیچھے تالیاں بجاتے اور آوازے کستے چلے آرہے ہیں ، بچوں نے کنکر بھی مارنا شروع کردیئے ۔ لیکن حیرت ہے کہ یہ فقیر کنکریاں مارنے والوں کو نہ روکتا ہے نہ ٹوکتا ہے۔ مسکراتے اور زیر لب گنگناتے وہ اپنی دھن میں چلا جارہا ہے۔ اچانک کسی جانب سے ایک بڑا پتھر اس کے سر سے آٹکراتا ہے۔ زخم سے خون کی ایک پتلی سے لکیر جب پیشانی کو عبور کرنے لگتی ہے تو وہ رک جاتا ہے۔ پھرپتھر مارنے والے بچوں کی طرف رخ کرکے کہتا ہے ۔
میرے بچو بڑے پتھر نہ مارو چھوٹی کنکریاں مار کر دل بہلاتے رہو ۔ بس ایک ہی پتھر سے اندیشہ اتر گیا۔ ایک منہ پھٹ لڑکا آگے بڑھتے ہوئے کہتا ہے ۔
نہیں میرے بیٹے ایسی کوئی بات نہیں ۔ میں چاہتا ہوں تمہارا شغل جاری رہے اور میرا کام بھی چلتا رہے۔ کنکریوں سے خون نہیں بہتا۔ پتھر لگنے سے خون بہنے لگتا ہے جس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور بغیر وضو کے میں اپنے محبوب کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوسکتا ۔
یمن کے شہر قرن میں ایک کوچے سے گزرنے والے یہ درویش عشق و مستی کی سلطنت کے بادشاہ حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ تھے۔ کعبہ محبت کا طواف کرنے والوں کا جب بھی ذکر چھیڑے گا تو حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی سرفہرست رہے گا ۔
حضرت خواجہ پر ہر وقت سکر اور مستی کی ایک کیفیت طاری رہتی تھی جس کی وجہ سے عوام الناس آپ کو مجنون تصور کرتے، مذاق اڑاتے اور بچے پتھر مارتے۔ چنانچہ آپ کی ولایت اور محبوبیت کا حال لوگوں سے پوشیدہ رہا ۔
ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ ’’مرقات شرح مشکوۃ‘‘ میں آپ رضی اللہ عنہ کی ولایت کے اخفا کی وجہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت خواجہ مستجاب الدعوات تھے۔ چنانچہ ایسے لوگوں کی خدمت میں ہر نیک و بد شخص دعا کا طالب ہوتا ہے اور جمالی اولیاء اللہ کسی کو انکار نہیں کرسکتے یہ ممکن نہ تھا کہ نیک کے لئے دعا کرتے اور بروں کو نظر انداز کردیتے چونکہ یہ بات حکمت الہٰی کے خلاف تھی اس لئے ان کا حال مستور رہا ۔

حضرت سیدنا خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کا تذکرہ سرکارِ دو عالم نور مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی احادیث میں بھی ملتا ہے ۔چند احادیث کو حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ نے اپنی تصنیف ”جمع الجوامع“ میں حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ نے شرح مشکوٰة کے آخر ی باب تذکرہ یمن و شام کے تحت اور حضرت ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ نے رسالہ معدن العدنی میں تحریر فرمایا ہے ۔ان احادیث کا مفہوم کچھ اس طرح ہے ۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
 سرکار دو عا لم نور مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا کہ قبیلہ مراد کا ایک شخص ہے اس کا نام اویس ہے وہ تمہارے پاس یمن کے وفود میں آئے گا۔ اس کے جسم پر برص کے داغ تھے جو سب مٹ چکے ہیں صرف ایک داغ جو درہم کے برابر ہے باقی ہے وہ اپنی والدہ ماجدہ کی بہت خدمت کرتا ہے جب وہ اللہ عزوجل کی قسم کھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو پور اکرتا ہے ۔اگر تم اس کی دعائے مغفرت لے سکو تو لینا ۔(مسلم)
حضرت ابن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا : تابعین میں میرا بہترین دوست اویس قرنی (رضی اللہ عنہ ) ہے ۔ (حاکم ،ابن سعد)
سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا کہ : تابعین میں میرا دوست اویس قرنی رضی اللہ عنہ ہے ۔ اس کی ماں ہو گی جس کی وہ خدمت کرتا ہوں گا اگر وہ اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر بات کرئے تو اللہ تعالیٰ اس کی قسم پوری کرتا ہے ۔اس کے جسم پر ایک سفید فاغ ہو گا ۔اے صحابہ !(رضوان اللہ اجمعین ) تم اگر ملو تو اس سے دعا کروانا ۔ (مسلم)
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا : میری امت میں میرا دوست اویس قرنی (رضی اللہ عنہ ) ہے ۔ (ابن سعد)
سرکار مدینہ سرور قلب و سینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا : میری امت میں بعض ایسے بھی ہیں جو برہنہ رہنے کے سبب مسجد میں نہیں آسکتے ۔ ان کا ایمان لوگوں سے سوال کرنے نہیں دیتا ۔ انہیں میں سے اویس (رضی اللہ عنہ) اور ہرم بن حیان (رضی اللہ عنہ ) ہیں ۔ (ابن نعیم)
سرکار مدینہ راحت قلب و سینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا : میری اُمت میں ایک اویس (رضی اللہ عنہ ) نامی شخص ہو گا ۔ ربیع و مضر (قبیلے) کے آدمیوں کے برابر میری اُمت کی شفاعت کرے گا ۔ (ابن عدی)
سرکار دو عالم نور مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا : میری امت میں سے ایک شخص کی شفاعت سے قبیلہ مضر اور قبیلہ ربیع کے آدمیوں سے زیادہ لوگ بہشت میں جائیں گے اور اس کا نام اویس (رضی اللہ عنہ ) ہو گا ۔ (ابن شبیہ ، مستدرک از ابن عباس )
مدنی تاجدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا : میری امت میں ایک شخص ہو گا جس کو لوگ اویس بن عبد اللہ قرنی (رضی اللہ عنہ ) کہتے ہیں ۔ تحقیق اس کی دعائے مغفرت سے میری اُمت قبیلہ ربیع و قبیلہ مضر کی بھیڑ بکریوں کے بالوں کے برابر تعداد میں بخش دی جائے گی ۔ (ابن عباس)
سرکار مدینہ راحت قلب وسینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  یمن کی طرف رخ فرماتے سینہ مبارک سے کپڑا اٹھا تے اور فرماتے :” میں یمن کی طرف نسیم رحمت پاتا ہوں ۔ (حضرت امام شافعی رحمة اللہ علیہ اور حضرت ومولانا روم رحمة اللہ علیہ نے تصریح فرمائی ہے کہ یہاں ارشاد اشارہ حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی طرف ہے )
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا : تابعین میں سے بہت ایک شخص ہے جس کا نام اویس (رضی اللہ عنہ ) ہے اس کی ایک ضعیف والدہ ہے ۔ اویس (رضی اللہ عنہ )کے ہاتھ پر برص کا نشان ہے ۔ پس جب تم اس سے ملو تو اسے کہنا کہ امت کے حق میں مغفرت کی دعا کرے ۔ (مسلم ۔ انو نعیم)(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اس حدیث مبارکہ میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو پہلے ہی سے فرمای دیا کہ تم حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ سے ملو گے بلکہ ملنے کی ترغیب بھی دلا دی اور امت کے حق میں دعائے مغفرت کرانے کا حکم بھی فرما دیا ۔
اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو ہر امتی کے حالات کا علم ہے خواہ وہ کہیں بھی کسی بھی حال میں ہوا ۔ اس لئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے سیدنا حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کا نہ صرف نام بلکہ ان کی بیماری کی تفصیلات اور جسم پر ایک سفید داغ اس کے مقام اور اس کے درہم برابر ہونے کا پتہ دے دیا ۔ولایت اور نبوت کےلئے حجابات کچھ حیثیت نہیں رکھتے اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اپنے عاشق حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں تو دوسری طرف دیوانہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ بھی اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو کوائف سے جمال و واقعات سے بے خبر نہ تھے ۔
احکام شریعت کا دار و مدار ظاہر پر پے ۔ اسی لئے تو عاشق و معشوق میں میں حجاب نہ ہونے کے باوجود حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کو تابعی کہا گیا صحابہ نہ کہا گیا ۔

حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کمالِ محبت

اللہ تعالیٰ نے حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کو فطرت سلیمہ اور طبع صالح عطا فرمائی تھی جونہی آپ کے کانوں تک نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کی خبر پہنچی تو دل نے فوراً صداقت کی گواہی دی اور آپ نے اسلام قبول کرلیا پھر تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاقِ حسنہ اور اوصافِ حمیدہ سن کر آپ کے دل میں چراغ محبت فروزاں ہوگیا ۔

نہ تنہا عشق از دیدار خیزد
بساکیں دولت از گفتار خیزد
ترجمہ : عشق صرف دیدار سے ہی پیدا نہیں ہوتا، بعض دفعہ محبوب کی باتیں سننے سے بھی آتش عشق بھڑک اٹھتی ہے۔ حضرت خواجہ کے من میں یہ آگ ایسے بھڑکی کہ اس نے دنیا و مافیہا سے بے نیاز کردیا۔

دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی

آپ پر ہر وقت وارفتگی کی حالت طاری رہتی لیکن اس سکرو مستی کے باوجود خوداری کا عالم یہ تھا کہ کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرتے۔ شتر بانی اور گٹھلیاں چن کر گزر اوقات کرتے۔ فجر کی نماز کے بعد اونٹ لے کر شہر سے باہر نکل جاتے اور رات کو واپس لوٹتے ۔

حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ تابعین میں شمار ہوتے ہیں بلکہ کتابوں میں آپ کو سید التابعین اور خیرالتابعین کے لقب سے یاد کیا گیا ہے۔ آپ کو سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری مجلس نصیب نہ ہوسکی اس لئے صحابیت کا درجہ نہ پاسکے روایات میں ہے کہ آپ کی والدہ ضعیف و ناتواں تھیں چلنے پھرنے سے معذور تھیں۔ انہیں چھوڑ کر طویل سفر پر روانہ نہ ہوسکتے تھے۔ اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر نہ ہوسکے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مقام رضا اور مقام محبوبیت پر فائز ہونے والے اولیاء کے لئے بُعدِ مکانی اور بُعدِ زمانی کوئی حیثیت نہیں رکھتا چنانچہ یہ لوگ حضوری کی لذت سے سرفراز ہوتے ہیں بقولِ شاعر ۔

گر در یمنی، بامنی، پیش منی
ور بے معنی، پیش منی در یمنی
ترجمہ : اگر تو یمن میں رہتا ہے اور تیرا قلبی تعلق میرے ساتھ جڑا ہوا ہے تو تو میرا ہم نشین ہے اور اگر میرے سامنے بھی بیٹھا ہے لیکن تعلق قلبی میرے ساتھ استوار نہیں تو میرے لئے یمن میں بیٹھا ہوا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ ابوجہل قریب رہ کر بھی دور رہا اور حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ یمن میں رہتے ہوئے بھی دیدار اور حضوری کی لذت سے سرشارہے ۔

تذکرۃ الاولیاء میں یہ روایت درج ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے استفسار پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا چشم ظاہری کی بجائے چشم باطن سے انہیں میرے دیدار کی سعادت حاصل ہے ۔

محبوب کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی والہانہ محبت اور عاشقانہ اداؤں کو سنا تو تحسین فرمائی۔ روایات میں ہے کہ محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی کبھی فرط محبت میں اپنے پیراہن کے بند کھول کر یمن کی طرف رخ کرکے فرماتے : انی لا جد نفس الرحمن من قبل اليمن .
ترجمہ : مجھے یمن کی طرف سے رحمت کی خوشبو آرہی ہے ۔
یہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ ہی تھے جن کی بدولت یمن سے نسیم رحمت فضاؤں کو معطر کرتی تھی۔ چنانچہ مولانا جامی اسے شعر کے قالب میں یوں بیان کرتے ہیں ۔

بوئے جاں می آید از سوئے یمن
از دم جاں پرور اویس قرن

مسلم شریف کی روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے عمر! یمن کی طرف سے ایک شخص آئے گا جس کا نام اویس ہوگا اس کے جسم پر پھلبہری کے داغ ہوں گے صرف ایک داغ درہم کے برابر رہ جائے گا۔ اس کی والدہ بھی ہیں جن کا وہ بے حد خدمتگار ہے اس کی شان یہ ہے کہ جب بھی وہ اللہ کی قسم کھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے پورا کردیتا ہے ۔

تذکرۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کا زمانہ قریب آیا تو صحابہ رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ آپ کا مرقع (گدڑی) کس کو دیا جائے فرمایا اویس قرنی کو ۔

چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے تلاش بسیار کے بعد حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کا پتہ معلوم کرلیا۔ حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کے قبیلے کے ہی ایک آدمی نے کہا وہ تو پاگل اور دیوانہ ہے۔ وہ اس لائق نہیں کہ خلیفہ وقت ان سے ملاقات کرے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہم اسی سے ملنا چاہتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ وہ اونٹ چرانے جنگل کی طرف نکل گئے ہیں۔ دونوں صحابی رضی اللہ عنہ جب وہاں پہنچے تو وہ نفل نماز ادا کررہے تھے۔ آہٹ پاکر حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ نے نماز مختصر کردی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کے ہاتھ پر برص کی علامت دیکھ کر پہچان لیا اور ہاتھ کو بوسہ دیا اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو سلام بھیجا ہے پیراہن مبارک بھی بھیجا ہے۔ حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ نے نہایت تعظیم و تکریم سے وہ پیراہن مبارک لے کر اپنے سرپر رکھ لیا اور پھر ان مہمانوں سے الگ ہوکر اللہ کی بارگاہ میں پیراہن مبارک کے وسیلے سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی بخشش کے لئے اس وقت تک دعا کرتے رہے جب تک آپ کو قبولیت دعا کا الہام نہ ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے قبیلہ مضر اور ربیعہ کی بکریوں کی تعداد کے برابر امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بخشنے کا وعدہ فرمایا ۔

حضرت شیخ فریدالدین عطار رحمۃ اللہ علیہ اور ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دست مبارک پر بیعت کی ان کی طرف سے جنگ صفین میں حصہ لیا اور جام شہادت نوش کیا ۔

حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ شہرت اور نام و نمود سے کنارہ کش رہتے اور مستور رہنے کی کوشش کرتے۔ والدہ کے وصال کے بعد حالت یہ تھی کہ اگر ایک جگہ آپ کے روحانی مقامات اور کمالات کا دنیا کو پتہ چل جاتا تو وہاں نقل مکانی کرجاتے اور چھپتے پھرتے آپ اس حدیث قدسی کا مصداق تھے ۔

اوليائی تحت قبائی لا يعرفهم غيری .
ترجمہ : میرے دوست میرے قبا کے نیچے ہیں جنہیں میرے سوا کوئی نہیں پہچانتا ۔

کیمیائے سعادت میں ہے کہ حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ بعض راتیں رکوع میں اور بعض سجدے میں گزار دیتے اور فرماتے یہ رات رکوع والی ہے اور یہ رات سجدے والی۔ کسی نے پوچھا کہ حضرت اس قدر قوت آپ میں کیسے آگئی کہ اتنی لمبی راتیں رکوع اور سجدے میں گزار دیتے ہیں۔ فرمایا کاش ازل تا ابد ایک ہی رات ہوتی جو میں رکوع اور سجدے میں گزار دیتا ۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اتنے فضائل کی حامل شخصیت سے صدر اول کے لوگوں کا بے خبر رہنا ممکن نہیںورنہ روایات میں بکثرت ان کا ذکر ہوتا۔ جبکہ امر واقع یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ملاقات کے علاوہ کسی اور صحابی کی ملاقات کا ذکر نہیں ملتا۔

حقیقت یہ ہے کہ خیرالتابعین حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کا ذکر کتب احادیث و طبقات رجال اور کتب صالحین میں اس کثرت اور تواتر سے ملتا ہے کہ انہیں ایک فرضی شخصیت قرار دینے کا دعویٰ کوئی حیثیت نہیں رکھتا ۔

حدیث شریف کی مستند ترین کتاب صحیح مسلم شریف میں آپ کے فضائل بیان کیے گئے ہیں ۔ مسند امام احمد بن حنبل ، دلائل بیہقی ، مسند ابویعلیٰ اور مستدرک حاکم جیسی احادیث کی مستند کتابوں میں حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کا تذکرہ ہونا ان کے وجود کے فرضی ہونے کی نفی کرتا ہے ۔

سرخیلِ قافلۂ عشق حضرت اویسِ قرنی رضی اللہ عنہ کے بارے میں رِوایت منقول ہے کہ وہ اپنی والدہ کی خدمت گزاری کے باعث زندگی بھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں بالمشافہ زیارت کےلیے حاضر نہ ہو سکے ، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ والہانہ عشق و محبت اور وارفتگی کا یہ عالم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے اپنے اُس عاشقِ زار کا تذکرہ فرمایا کرتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو ہدایت فرمائی کہ میرے وِصال کے بعد اویسِ قرنی رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر اُسے یہ خرقہ دے دینا اور اُسے میری اُمت کےلیے دعائے مغفرت کےلیے کہنا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وِصال کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کےلیے اُن کے آبائی وطن ’قرن‘ پہنچے اور اُنہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان سنایا ۔ اثنائے گفتگو حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ نے دونوں جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنھم سے پوچھا کہ کیا تم نے کبھی فخرِ موجودات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دِیدار بھی کیا ہے ؟ اُنہوں نے اِثبات میں جواب دِیا تو مسکرا کر کہنے لگے : لَمْ تَرَيَا مِن رسولِ اللہ صلي الله عليه وآله وسلم اِلَّا ظِلَّه ۔
ترجمہ : تم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کا محض پرتو دیکھا ہے ۔ (نبهاني، جواهر البحار، 3 : 67)

ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ بعض صوفیا کرام کے حوالے سے فرماتے ہیں : قال بعض الصوفية : أکثر الناس عرفوا اللہ عزوجل و ما عرفوا رسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلم ، لأنّ حجابَ البشريّة غطتْ أبصارَهم ۔
ترجمہ : بعض صوفیا فرماتے ہیں : اکثر لوگوں نے اللہ ربّ العزت کا عرفان تو حاصل کرلیا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عرفان اُنہیں حاصل نہ ہو سکا اِس لیے کہ بشریت کے حجاب نے اُن کی آنکھوں کو ڈھانپ رکھا تھا ۔ (ملا علي قاري، جمع الوسائل، 1 : 10،چشتی)

شیخ عبدالعزیز دباغ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وَ إنَّ مجموع نوره صلي الله عليه وآله وسلم لو وضع علي العرش لذاب ... و لو جمعت المخلوقات کُلَّها و وضع عليها ذٰلِکَ النور العظيم لتهافتت و تساقطت ۔
ترجمہ : اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نورِ کامل کو عرشِ عظیم پر ظاہر کر دیا جاتا تو وہ بھی پگھل جاتا۔ اِس طرح اگر تمام مخلوقات کو جمع کرکے اُن پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَنوارِ مقدّسہ کو ظاہر کردیا جاتا تو وہ فنا ہو جاتے ۔ (عبدالعزيز دباغ، الابريز : 272)

سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ : ⏬

شیخ عبدالحق محدّث دِہلوی رحمۃ اللہ علیہ اِسی بات کی نشاندہی کرتے ہوئے فرماتے ہیں : انبیاء مخلوق اند از اسماءِ ذاتیہ حق و اولیاء از اسماءِ صفاتیہ و بقیہ کائنات از صفاتِ فعلیہ و سید رسل مخلوق ست از ذاتِ حق و ظہورِ حق در وے بالذات ست ۔
ترجمہ : تمام انبیاء و رُسل علیہم السلام تخلیق میں اللہ ربّ العزت کے اَسمائے ذاتیہ کے فیض کا پرتو ہیں اور اولیاء (اللہ کے) اَسمائے صفاتیہ کا اور باقی تمام مخلوقات صفاتِ فعلیہ کا پَر تَو ہیں لیکن سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تخلیق ذاتِ حق تعالیٰ کے فیض سے ہوئی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی ذات میں اللہ ربّ العزت کی شان کا بالذّات ظہور ہوا ۔ (محدث دهلوي، مدارج النبوة، 2 : 771،چشتی)

اِسی مسئلے پر اِمام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : لمّا تعلّقت إرادة الحق تعالي بإيجاد خلقه و تقدير رزقه، أبرز الحقيقة المحمدية من الأنوار الصمدية في الحضرة الأحدية، ثم سلخ منها العوالم کلها علوها و سفلها علي صورة حکمه ۔
ترجمہ : جب خدائے بزرگ و برتر نے عالم خلق کو ظہور بخشنے اور اپنے پیمانۂ عطا کو جاری فرمانے کا ارادہ کیا تو اپنے انوارِ صمدیت سے براہ راست حقیقتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بارگاہِ احدیت میں ظاہر فرمایا اور پھر اس ظہور کے فیض سے تمام عالم پست و بالا کواپنے امر کے مطابق تخلیق فرمایا ۔ (قسطلاني، المواهب اللّدنيه، 1 : 55)

اِسی لیے نبی کریم اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا تھا : يا أبابکر! والذي بعثني بالحق! لم يعلمني حقيقة غير ربي ۔
ترجمہ : اے ابوبکر! قسم ہے اُس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، میری حقیقت میرے پروردگار کے سوا کوئی دُوسرا نہیں جانتا ۔ (محمدفاسي، مطالع المسرات : 129)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان مذکورہ بالا تمام اَقوال کی نہ صرف توثیق کرتا ہے بلکہ اُن پر مہرِ تصدیق بھی ثبت کرتا ہے ۔

طبقات کی جن کتابوں میں آپ کا ذکر ملتا ہے ان میں طبقات ابن سعد، امام عبدالوہاب شعرانی کی الطبقات الکبری، ابو نعیم اصفہانی کی حلیۃ الاولیاء نیز تاریخ ابن عساکر، تہذیب التہذیب، لسان المیزان اور میزان الاعتدال وغیرہ میں آپ کے احوال ملتے ہیں۔ کتب اولیاء میں حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی کشف المحجوب، حضرت شیخ فریدالدین عطار کی تذکرۃ الاولیائ، حضرت نوراللہ شوستری کی مجالس المومنین خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ بلکہ اولیاء کاملین کے تذکروں پر مشتمل کوئی کتاب اقلیم عشق کے تاجدار حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتی ۔

حیرت کی بات ہے کہ حضرت کے احوال و آثار اور فضائل و مناقب اس قدر کثرت اور تواتر سے مذکور ہونے کے باوجود بعض لوگ آپ کی شخصیت کے منکر ہیں یہ لوگ اپنے دعویٰ میں بعض ان روایات کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں جو بہت کمزور ہیں اور جن میں باہم تضاد پایا جاتا ہے ۔

چونکہ حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ دنیا کی نظروں سے چھپتے پھرے اور بعض خواص کے علاوہ اہل قرن بھی ان سے واقف نہیں تھے اور جو جانتے تھے وہ بھی انہیں صرف ایک دیوانہ ہی تصور کرتے رہے۔ اس لئے اگر اس دور کے بعض اہل علم نے ان کے بارے عدم واقفیت کا اظہار کیا ہو تو تعجب کی بات نہیں ۔

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول ہے کہ اگر کوئی چیز کسی کے ہاں پایہ ثبوت کونہ پہنچی ہو تو یہ ضروری نہیں کہ دوسروں کو بھی اس کا علم نہ ہو ۔ (رسائل و مکاتیب رسالہ دہم بحوالہ لطائف نفیسہ فی فضائل اویسیہ)

اصولاً ہر زمانے میں ان اشخاص کے حالات و واقعات لوگوں کے علم میں آتے ہیں جو کسی حیثیت سے نمایاں ہوں۔ شہرت کو ناپسند کرنے والے عزت نشینوں کے بارے میں ایک عرصہ تک اہل قلم تک کو واقفیت نہیں ہوتی اور اس کا ایک واضح ثبوت صحابہ کرام کا دور ہے۔ خود صحابہ کرام کے متعلق یہ دعویٰ محال ہے کہ یہ صحابی سے اس عہد کے لوگ آگاہ تھے یا ان کے تمام حالات و واقعات احاطہ تحریر میں لائے گئے۔ آج صرف انہیں صحابہ کے حالات بقدر سعی و جستجو معلوم ہیں۔ جنہوں نے کوئی علمی یا عملی کارنامہ سرانجام دیتے یا سلسلہ روایت میں جن کا کہیں نام آگیا ۔ بعض کے صرف نام ہی معلوم ہیں اور یہی صورت حال مدت مدید تک حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ ایسے گوشہ نشین تابعی کے ذکر و اذکار سے متعلق رہی اس لئے ان کی شخصیت کے متعلق شک پیدا کرنے والی روایات بنظر تحقیق مشتبہ قرار دی جاسکتی ہیں ۔ ان روایات کی کوئی سند نہیں دی گئی اور یہ بات محدثانہ اصول کے خلاف ہے چنانچہ ایسی تمام تر روایات ساقط الاعتبار اور ناقابل استناد ہیں ۔

اب رہا یہ سوال کہ حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی ولایت کے اخفا کی وجہ کیا تھی اور آپ دور صحابہ میں کیوں مستور الحال رہے ؟ تو اس کا ایک جواب تو وہی ہے جو ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے مرقات شرح مشکوۃ میں بیان فرمایا کہ چونکہ حضرت خواجہ مستجاب الدعوات تھے (اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان کی خدمت میں حاضر ہوکر دعا کرانے کی تلقین فرمائی تھی نیز ان کے بارے فرمایا تھا کہ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو قسم اٹھادیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم پوری فرمادیتا ہے۔ (معینی) چونکہ ایسے لوگوں کی خدمت میں ہر نیک و بد اور مجرم بھی دعا کا طالب ہوتا ہے اور یہ جمالی مردان خدا کسی کو انکار نہیں کرسکتے یہ ممکن نہ تھا کہ نیک کےلیے دعا کرتے اور دوسروں کو نظر انداز کردیتے ۔ چونکہ یہ بات حکمت الہٰی کے خلاف تھی اس لئے ان کا حال پوشیدہ رہا۔ دوسری وجہ مستور رہنے کی مولف لطائف نفیسیہ یہ بیان کرتے ہیں کہ اولیاء کی ایک جماعت کا اپنے آپ کو چھپانا اس غیرت کی وجہ سے ہوتا ہے جو محب کو اپنے محبوب کے بارے ہوتی ہے۔ چنانچہ حضرت محی الدین ابن عربی کتاب فتوحات میں لکھتے ہیں : طائفہ محبان میں غیرت بہت زیادہ ہوتی ہے اس لئے وہ بسبب غیرت چھپے ہوئے ہوتے ہیں کیونکہ غیرت محبت کا ایک وصف ہے چنانچہ یہ لوگ اپنے محب ہونے کو ظاہر نہیں ہونے دیتے ۔ حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں رجال الغیب میں شامل تھے اور یہ لوگ مستورالحال ہوتے ہیں ۔ چنانچہ حضرت ملا علی قاری معدن العدنی میں لکھتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں قطب ابدال حضرت اویس رضی اللہ عنہ تھے کیونکہ وہ مخفی الحال تھے امام یافعی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت شدہ رشک غیرت کی وجہ سے قطب ابدال لازماً مستور الحال ہوتا ہے انہیں کے بارے میں حق تعالیٰ فرماتا ہے ۔ اولياء تحت قبائی لا يعرفهم غيری . (لطائف نفیسہ) ۔ (مزید حصہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

ماہِ رجبُ المرجب کی فضیلت و اہمیت

ماہِ رجبُ المرجب کی فضیلت و اہمیت محترم قارئینِ کرام : اسلامی سال کے بارہ مہینے اپنے اندر کوئی نہ کوئی تاریخی اہمیت ضرور رکھتے ہیں ۔ اسی طر...