Wednesday 23 September 2015

نبی کریم ﷺ کا آخری خطاب میری اُمّت شرک نہیں کرے گی

نبی کریم ﷺ کا آخری خطاب میری اُمّت شرک نہیں کرے گی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہداءِ اُحد پر (دوبارہ) آٹھ سال بعد اس طرح نماز پڑھی گویا زندوں اور مُردوں کو الوداع کہہ رہے ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا : میں تمہارا پیش رو ہوں، میں تمہارے اُوپر گواہ ہوں، ہماری ملاقات کی جگہ حوضِ کوثر ہے اور میں اس جگہ سے حوضِ کوثر کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے تمہارے متعلق اس بات کا ڈر نہیں ہے کہ تم (میرے بعد) شرک میں مبتلا ہو جاؤ گے بلکہ تمہارے متعلق مجھے دنیاداری کی محبت میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ حضرت عقبہ فرماتے ہیں کہ یہ میرا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آخری دیدار تھا (یعنی اس کے بعد جلد ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہو گیا)۔ ‘‘

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المغازي، باب : غزوة أحد، 4 / 1486، الرقم : 3816

’’حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میں تمہارا پیش رو اور تم پر گواہ ہوں۔ بیشک خدا کی قسم! میں اپنے حوض (کوثر) کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور بیشک مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں (یا فرمایا : زمین کی کنجیاں) عطا کر دی گئی ہیں اور خدا کی قسم! مجھے یہ ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے ڈر اس بات کا ہے کہ تم دنیا کی محبت میں مبتلا ہو جاؤ گے۔ ‘

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : علامات النَّبُوَّةِ فِي الإِسلام، 3 / 1317، الرقم : 3401

’’حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے تمہارے متعلق اس بات کا تو ڈر ہی نہیں ہے کہ تم میرے بعد شرک کرو گے بلکہ مجھے ڈر ہے کہ تم دنیا کی محبت میں گرفتار ہو جاؤ گے اور آپس میں لڑو گے اور ہلاک ہو گے جیسا کہ تم سے پہلے لوگ ہوئے۔ حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آخری بار تھی جب میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منبر پر جلوہ افروز دیکھا (یعنی اس کے بعد جلد ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہو گیا)۔ ‘‘

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : اثبات حوض نبينا صلي الله عليه وآله وسلم وصفاته، 4 / 1796، الرقم

1 comment:

  1. اس حدیث میں امت کے شرک میں مبتلا ہونے کی نفی نہیں ہے ،بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ پوری کی پوری امت کبھی شرک میں مبتلا نہیں ہو گی ،بلکہ ہر دور میں کچھ لوگ ایسے موجود رہیں گے جو شرک سے بچنے والے ہونگے۔ جبکہ کچھ لوگ شرک بھی کریں گے ،جیسا کہ خود نبی کریمﷺ نے خبر دی ہے:
    «لا تقوم الساعة حتى تلحق قبائل من أمتي بالمشرکین وحتى تعبد قبائل من أمتي بالأوثان»

    ''قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک میری اُمّت کے قبائل مشرکین سے نہ مل جائیں اور یہاں تک کہ میری اُمت کے قبائل بتوں کی عبادت نہ کریں۔''
    اس حدیث میں بھی اُمت کے افراد میں شرک کے پائے جانے کا واضح ثبوت ہے اور اس کو قربِ قیامت کے ساتھ خاص قرار دینا حدیث میں معنوی تحریف کے مترادف ہے۔
    دوسری جگہ آپ نے فرمایا:
    «لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَضْطَرِبَ أَلَيَاتُ نِسَاءِ دَوْسٍ عَلَى ذِي الْخَلَصَةِ » البخاری 7116 ومسلم 2906

    اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہو گی جب تک قبیلہ دوس کی عورتوں کی سرینیں ذی الخلصہ بت کے گرد طواف نہیں کریں گی۔
    اس حدیث میں بھی اُمت کے افراد میں شرک کے پائے جانے کا واضح ثبوت ملتا ہے۔
    فرمانِ الٰہی ہے:
    ﴿الَّذينَ ءامَنوا وَلَم يَلبِسوا إيمـٰنَهُم بِظُلمٍ أُولـٰئِكَ لَهُمُ الأَمنُ وَهُم مُهتَدونَ ٨٢ ﴾.... سورة الانعام

    ''وہ جو ایمان لائے اور اپنے ایمان میں کسی ناحق کی آمیزش نہ کی، انہی کے لیے امان اور وہی راہ پر ہیں۔''
    اس آیتِ مبارکہ میں ظلم سے مراد شرک ہے جس کی وضاحت نبی کریم ﷺ نے فرمائی ہے۔ جیساکہ صحیح مسلم میں سیدنا عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں:
    جب یہ آیت نازل ہوئی کہ''جن مؤمنین نے اپنے ایمان کے ساتھ ظلم نہیں کیا...'' تو صحابہ کرام اس آیت سے بہت پریشان ہوئے اور رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: ''ہم میں سے کون شخص ہے جو ظلم نہیں کرتا؟'' رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے (جو تم سمجھے) بلکہ اس آیت میں ظلم سے مراد شرک ہے جس طرح لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ''اے بیٹے! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا ،یقیناً شرک کرنا ظلم عظیم ہے۔
    یہ آیت ایمان والوں سے متعلق ہے۔ اسی لیے صحابہ نے اسے اپنے متعلق سمجھ کر پریشانی کا اظہار کیا ۔ چنانچہ نبی ﷺ نے ظلم کے مفہوم کو واضح کیا اور اُمت میں شرک کے وجود کو ردّ نہیں فرمایا بلکہ باقی رکھا اورنہ ہی اسے قربِ قیامت کے ساتھ خاص قرار دیا ۔لہٰذا اس آیت میں شرکِ اکبر کی بات ہے اوراُمت میں اس کے وجود کا اثبات بھی۔
    مذکورہ بالا دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ امت مسلمہ کے بعض افراد میں شرک کا وقوع ہو گا،اگرچہ عمومی طور پر ساری امت اس میں مبتلا نہ ہو گی۔
    هذا ما عندي والله اعلم بالصواب

    ReplyDelete

غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں

غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں محترم قارئینِ کرام : بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ وہابی تو اللہ تعالیٰ کا نام ...