Sunday 27 September 2015

مرتبہ علم نبوت ﷺ

0 comments
مرتبہ علم نبوت ﷺ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
تکمیل علم کا انسانی دعویٰ بے معنی سی چیز ہے۔ علم تو ایک سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں۔ علم اکتسابی (Earning Knowledge) بھی ہوتا ہے اورعطائی (God Gifted) بھی اللہ رب العزت اپنے برگزیدہ رسولوں اور نبیوں کو اپنی قدرت کاملہ سے علم کا نور عطا کرتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ختمی مرتبت محبوب رب دوجہاں ہیں، اللہ کے آخری رسول ہیں اور کائنات کا ذرہ ذرہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین مبارکہ کی خیرات ہے۔ رب کائنات نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کن کن علوم سے نوازا اور کتنا نوازا، یہ ہمارے حیطہء شعور سے باہر ہے۔

سب کچھ عطا کیا ہے خدا نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو
سب کچھ ریاض دامن خیر البشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہے

جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا گیا ہے کہ ہر علم والے کے اوپر ایک علم والا ہے۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئیے کہ تمام مراتب علم جہاں پہنچ کر ختم ہوجاتے ہیں وہاں سے مرتبہ علم نبوت کا آغاز ہوتا ہے۔ مرتبہ علم نبوت ساری کائنات کے مراتب علم سے ارفع ہوتا ہے۔ اس کے اوپر مرتبہ علم الوہیت ہے جس کا تصور بھی ذہن انسانی میں آنا محال ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مقدسہ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہیکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عظیم مرتبہ علم پر فائز تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ سے بھی ہمیں عجز و انکساری ہی کا درس ملتا ہے۔ مخلوقات خدا میں سے کوئی بھی مخلوق حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بحر علم کے ایک قطرے کا بھی مقابلہ نہیں کرسکتی۔ ارشاد خداوندی ہے :

وَمَا اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا O (بنی اسرائبل، 17 : 85)

اور تمہیں بہت ہی تھوڑا ساعلم دیا گیا ہے۔

علم کی ساری وسعت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامن پاک کا ایک حصہ ہے، علم پیدا ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مقدسہ سے ہوا۔ آپ نے فرمایا کہ

انا مدينة العلم و علی بابها . (مستدرک حاکم، 3 : 124)

میں شہر علم ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔

ایک اور موقع پر فرمایا :

انا دارالحکمة و علی بابها . (جامع الترمذی، ابواب المناقب، 2 : 214)

میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔

چنانچہ کتاب بشرمیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی سرچشمہء علم و عرفاں ٹھہرے۔ منبر پر کھڑے ہوکر کائنات کی ابتدا سے لیکر قیامت تک کے حقائق و حالات بیان کرنا، ہر سائل کے سوال کا جواب دینا، صرف اور صرف تاجدار کائنات کے علم معتبر ہی کا خاصہ ہے۔ اُس عالم کائنات نے تو ہم غلاموں کی حوصلہ افزائی، ہمیں تواضع اور انکساری کا درس دینے اور نتیجہ علم سمجھانے کے لئے اپنے غلاموں، ادنی شاگردوں اور اپنی صحبت مقدسہ سے فیض یاب ہونے والوں سے فرمایا کہ اپنے دنیاوی امور میں تم مجھ سے بہتر جانتے ہو۔ قربان جائیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تواضع و انکساری پر کہ آپ کے دامن اطہر میں عجز و انکساری کے پھول کھلتے تھے۔ آپ کے ہر ہر عمل سے اظہار بندگی ہوتا تھا۔ ہر لفظ بارگاہ خداوندی میں تشکر و امتنان کا مظہر بن جاتا تھا تو پھر عام انسانوں بلکہ پوری کائنات کی کیا حقیقت رہ جاتی ہے۔ آج کا انسان اپنے کس علم پر اتراتا ہے، کس علم کے غرور سے اس کی بھویں تن جاتی ہیں اور وہ اپنے محدود، بہت ہی محدود علم کے بل پوتے پر رعونت اور تکبر کا پیکر بن جاتا ہے۔ لہذا عجز و انکسار ی اور اپنے دامن کے خالی ہونے کا احساس نتیجہ علم کے طور پر انسان کی زندگی میں ظاہر ہونا چاہئے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔