Sunday 27 September 2015

اِنسانی علوم کے اِصلاح طلب پہلو

اِنسانی علوم کے اِصلاح طلب پہلو
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اگر ہم انسانی علوم (human sciences) کے اِصلاح طلب پہلو کی طرف توجہ کر یں تو واضح ہو گا کہ یہ پہلو فلسفہ اقدام و خطا کے انداز میں نشو و نما پانے کی وجہ سے تضادات میں الجھ گیا ہے۔ اس کی نشو و نما کی تکمیل کا رُخ اس وقت تک متعین نہیں ہو سکتا جب تک علم بِالوحی سے ہدایت حاصل نہ کی جائے۔ مثلاً سب سے پہلے فلسفے کے مسائل کو حل کرنے کے لیے عقلیت (rationalism) کا منہاج اختیار کیا گیا کہ صرف اور صرف عقل ہی ذریعہ علمِ حقیقت ہے۔ یہ عقل کے ذریعے علمِ حقیقت ہونے کے بارے میں لامحدود یقین کا موقف تھا، جس سے متضاد نتائج برآمد ہوئے اور یہ یقین متزلزل ہو گیا۔ اس کی بجائے حسیت (impericism) کا موقف اختیار کیا گیا تو اس کا اصول یہ تھا کہ حواس ہی ذریعہ علمِ حقیقت ہیں۔ یہ موقف عقل کے باب میں لامحدود بے یقینی کا موقف تھا، جس نے انجامِ کار فلاسفہ کو تشکیک میں مبتلا کر دیا۔ چوں کہ ذہنِ انسانی دیر تک تشکیک میں مبتلا نہیں رہ سکتا اس لیے تنقیدکا اصول سامنے آیا اورفلسفے میں دورِ تنقید (critical era) کی ابتدا ہوئی اور ذہنِ انسانی اس نتیجہ پر پہنچا کہ علمِ یقینی محسوسات تک محدود ہے اور ماورا محسوسات کا نہ تو انکار جائز ہے اور نہ اس کا علمِ یقینی ممکن ہے۔ اس لیے عملی شعور (practical consciousness) کا تقاضا ابھرا کہ انسان کا نصب العین متعین کیا جائے۔ اس مرحلے پر فلسفے کا مسئلہ یہ ہو گیا کہ انسان اس طرح سوچے کہ میں کیا ہوں؟ اور اس کائنات میں میرا مقام و منصب کیا ہے؟ اور اس کے لحاظ سے میرا نصب العین کیا ہے؟ یعنی فلسفے میں جستجو کا رُخ منظور سے ناظر کی جانب پھر گیا۔ اس میں کانٹ (Kant) اور بعد کے فلسفے میں ہیگل (Hegal) اور مارکس (Marx) شامل ہیں جنہوں نے متضاد نصب العین پیش کیے۔ جن کے نظریات کو مختلف قسم کی اِرادیت (volunteerism) سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ان سب کی معذوری یہ ہے کہ نصب العین تو بیان کرتے ہیں لیکن اسے حاصل کرنے کا حتمی ، قطعی اور یقینی طور پر نتیجہ خیز لائحہ عمل بیان کرنے سے قاصر رہے ہیں اور کسی کی جد و جہد میں کامیابی کی ضمانت میسر نہیں آتی۔ یہ سب کچھ اقدام وخطا (trial & error) کے انداز میں غور کرنے کا نتیجہ ہے ۔ یہاں پہنچ کر انسانیت تضادات میں الجھ گئی ہے اور پورا عالم نظریاتی بحران میں مبتلا ہے۔ ان تضادات نے عالمِ اِنسانیت کو نہایت مہلک قسم کے تضادات کے کنارے لا کھڑا کیا ہے۔

No comments:

Post a Comment

غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں

غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں محترم قارئینِ کرام : بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ وہابی تو اللہ تعالیٰ کا نام ...