علوم کی اِصلاح کا رُخ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس صورت حال کی اصلاح علم بِالوحی کی روشنی میں یوں ہو سکتی ہے کہ نصب العین اور اس کے حصول کے لائحہ عمل اور اس لائحہ عمل میں کامیابی سے سازگار تصورِ کائنات کی جستجو کر کے فلسفیانہ فکر کی نشوونما کی تکمیل کا رخ پھر سے متعین کیا جائے اور اس طرح حتماً اور یقیناً کامیاب ہونے کا اعتماد بحال کیا جائے اور قدیم اور جدید فلسفے سے پیدا ہونے والی مایوسی و نااُمیدی کو اُمید و یقین اور وثوق و اعتماد میں بدل دیا جائے۔
اِنسانی اِستعداد کی زائیدہ اَخلاقیات (ethics) کی نشو و نما کی تکمیل کا رُخ یوں متعین کیا جائے کہ فضائلِ اَخلاق، اس کے معیار اور ان کی مابعد الطبیعی اَساس کی جستجو سے پہلے اَخلاقیات کا مسئلہ یہ قرار پائے کہ زندگی اَخلاق کے نمونہ کمال پر کیسے ڈھلے؟ اور جب یہ مسئلہ علم بِالوحی کی روشنی میں حل ہو جائے تو پھر اَخلاقی فضائل کے نمونہ کمال پر ڈھلی ہوئی زندگی کے مشاہدے سے اس کے مضمرات اور معیار کو متعین کیا جائے۔
اسی طرح عمرانیات (sociology) کی صحیح نشو و نما کی تکمیل کا رُخ اُس وقت متعین ہو گا جب پہلے علم بِالوحی کی روشنی میں یہ مسئلہ حل کیا جائے کہ نوعِ انسانی کی وحدت کے تصور پر مبنی اَخلاقی جدّ و جہد کرنے اور رُوحانیت پر یقین رکھنے والے اَفراد پر مشتمل ایسا معاشرہ وجود میں کیسے لایا جائے جس میں فرد اور معاشرہ ہر قسم کے خوف و غم سے محفوظ رہیں۔ جب یہ مسئلہ علم بِالوحی کی روشنی میں حل ہو جائے تو پھر یہ جستجو کی جائے کہ مثالی معاشرہ کیا ہوتا ہے؟ کیسے وجود میں آتا ہے؟ اور کس طرح ترقی کرتا ہے؟ کیسے زوال پذیر ہوتا ہے؟ اور پھر اس کے زوال کو عروج میں کیسے بدلا جا سکتا ہے؟
اسی طرح معاشیات (economics) سے جو مسئلہ حل نہیں ہو سکتا وہ یہ ہے کہ عادلانہ معیشت کیسے پیدا ہو گی؟ جب علم بِالوحی کی روشنی میں عادلانہ معیشت پیدا کرنے کا طریق دریافت ہو جائے تو پھر یہ مسئلہ بھی حل ہو گا کہ غیر منصفانہ معیشت کا میلان کیسے پیدا ہوتا ہے اور اس کی اصلاح کیسے ہو سکتی ہے؟
تاکہ علم معاشیات میں اس معاشی عدل کے میسر آنے کی ضمانت مل جائے جو اَفراد کی معاشی تخلیق کی جد و جہد میں تعطل کو حتمی طور پر رفع کر دے۔
اِسی طرح سیاست کامسئلہ یہ ہے کہ ریاست اور اس کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں اور ان کا وظیفہ کیا ہے؟ مگر اب تک جس سیاسی فکر کی نشو و نما ہوئی ہے اس سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکا کہ سیاسی تناقض سے پاک ریاست یعنی ایک فلاحی ریاست کیسے وجود میں آئے جس میں ظلم و اِستبداد راہ نہ پا سکے؟ اور سیاسی کام ذاتی مفادات کے تحفظ کی خاطر نہیں بلکہ دوسروں کی بہتری کے لیے ہو۔ یہ مسئلہ علم بِالوحی کی روشنی میں حل کر کے اس کے بعد ریاست کی ماہیت اور اس کے کردار کو سمجھنے کی صحیح کوشش کی جائے، جس کی شرائط یہ ہوں گی کہ سیاسی زندگی میں پہلے اصلاح طلب پہلو کو متعین کیا جائے، پھر اس نصب العین کو واضح کیا جائے جس کے حوالے سے سیاسی زندگی اصلاح پذیر ہو گی۔ اس کے بعد اس کی عملی اساس مہیا کی جائے۔ پھر نمونہ کمال فراہم کیا جائے۔ پھر اس محرک کی جستجو کی جائے جو استقامت دلا دے اور انحراف نہ کرنے دے۔
اس کے بعد مثالی ریاست کو سمجھنے کی شرائط پیدا ہوں گی کیوں کہ فلاحی ریاست وجود میں آ چکی ہو گی اور اس فلاحی ریاست میں حاکم اور محکوم دونوں میں سے کسی ایک کا بھی محرکِ عمل مطالبہ حقوق (demand of right) نہیں ہو گا بلکہ ان کی تمام تر جد و جہد اِیتائے حقوق یعنی فرائض کی انجام دہی کے لیے ہو گی۔ کیوں کہ مطالبہ حقوق کے طرزِ عمل سے حقوق کا تصادم کبھی ختم نہیں ہو سکتا اور طبقاتی منافرت سے پاک معاشرہ کبھی وجود میں نہیں آ سکتا۔
اس لیے مذہبی علوم کی اصلاح کا امکان بھی صرف اس صورت میں ہے کہ ان کی نشو و نما کا رُخ اقدام و خطا سے متعین ہونے کی بجائے علم بِالوحی سے متعین کیا جائے۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں
غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں محترم قارئینِ کرام : بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ وہابی تو اللہ تعالیٰ کا نام ...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
شانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کی روشنی میں محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْ...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...
No comments:
Post a Comment