Thursday, 24 September 2015

اُممِ سابقہ بھی جس دن کوئی نعمت انہیں میسر آتی اس دن کو بطورِ عید مناتی تھیں

اُممِ سابقہ بھی جس دن کوئی نعمت انہیں میسر آتی اس دن کو بطورِ عید مناتی تھیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اُممِ سابقہ بھی جس دن کوئی نعمت انہیں میسر آتی اس دن کو بطورِ عید مناتی تھیں۔ قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس دعا کا ذکر ہے جس میں وہ بارگاہِ اِلٰہی میں یوں ملتجی ہوتے ہیں :

رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيداً لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا.

القرآن، المائدة، 5 : 114

’’اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے خوانِ (نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے اترنے کا دن) ہمارے لیے عید (یعنی خوشی کا دن) ہوجائے ہمار ے اگلوں کے لیے (بھی) اور ہمارے پچھلوں کے لیے (بھی)۔‘‘

یہاں مائدہ جیسی عارضی نعمت پر عید منانے کا ذکر ہے۔ عیسائی لوگ آج تک اتوار کے دن اس نعمت کے حصول پر بطور شکرانہ عید مناتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ کیا نزولِ مائدہ جیسی نعمت کی ولادت و بعثتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی نسبت ہو سکتی ہے؟ اس نعمتِ عظمیٰ پر تو مائدہ جیسی کروڑوں نعمتیں نثار کی جاسکتی ہیں۔

’’صحیح بخاری‘‘ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ہے کہ جب ایک یہودی نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ جس دن آیت۔ اَلْیَومَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ۔ نازل ہوئی اس دن کو بطور عید مناتے ہیں؟ اگر ہماری تورات میں ایسی آیت اترتی تو ہم اسے ضرور یومِ عید بنا لیتے۔ اس کے جواب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم اس دن اور جگہ کو جہاں یہ آیت اتری تھی خوب پہچانتے ہیں۔ یہ آیت یومِ حج اور یومِ جمعۃ المبارک کو میدانِ عرفات میں اتری تھی اور ہمارے لیے یہ دونوں دن عید کے دن ہیں۔

1. بخاری، الصحيح، کتاب الإيمان، باب زيادة الإيمان ونقصانه، 1 : 25، رقم : 45
2. مسلم، الصحيح، کتاب التفسير، 4 : 2313، رقم : 3017
3. ترمذي، الجامع الصحيح، أبواب تفسير القرآن، باب من سورة المائدة، 5 : 250، رقم : 3043
4. نسائي، السنن، کتاب الإيمان، باب زيادة الإيمان، 8 : 114، رقم : 5012

اس پر سوال کیا جاسکتا ہے کہ اگر تکمیلِ دین کی آیت کے نزول کا دن بطورِ عید منانے کا جواز ہے تو جس دن خود محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے اسے بہ طور عید میلاد کیوں نہیں منایا جاسکتا؟ یہی سوال فضیلتِ یومِ جمعہ کے باب میں اَربابِ فکر و نظر کو غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔

رِوایات میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے میلاد کی خوشی میں بکرے ذبح کرکے ضیافت کا اہتمام فرمایا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعد اَز بعثت اپنا عقیقہ کیا۔ اس پر امام سیوطی (849۔ 911ھ) کا اِستدلال ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عقیقہ آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب آپ کی ولادت کے سات دن بعد کرچکے تھے اور عقیقہ زندگی میں صرف ایک بار کیا جاتا ہے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ضیافت اپنے میلاد کے لیے دی تھی عقیقہ کے لیے نہیں۔

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...