Sunday 27 September 2015

جھکنا ہی بلندی کی پہچان ہے

جھکنا ہی بلندی کی پہچان ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جب بارگاہ خداوندی سے انسان کو علم عطا ہوتا ہے تو وہ احساس ممنونیت کے پانیوں میں ڈوب جاتا ہے۔ اس کی جبین اپنے مالک کے حضور جھک جاتی ہے اور وہ سجدہء شکر بجا لاکر اپنی بندگی کا اظہار کرتی ہے۔ اگر علم اور عبادت کے زعم میں وہ حکم عدولی پر اتر آئے اور اس کی گردن اکڑجائے تو وہ شیطان مردود بن جاتا ہے، اس لئے کہ جھکنا ہی بلندی کی پہچان ہے۔ جب انسان اپنے اللہ کے سامنے جھکتا ہے تو پھر اللہ رب العزت اسے عزت اور بلندی عطا فرماتے ہیں۔ مخلوق خدا اس کی طرف علم کی پیاس بجھانے کے لئے کشاں کشاں چلی آتی ہے۔ انسان اپنے آپ کو جھکاتا چلا جاتا ہے اور اپنے علم کی پیاس بڑھاتا چلا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے بلند کرتا چلا جاتا ہے۔

حکیم الامت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ :

مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے

خلاصہ بحث یہ ہوا کہ علم کا نتیجہ تواضع، انکساری، عجز اور اظہار لا علمی کی صورت میں بندے کی شخصیت پر مرتب ہوتا ہے۔ عجز و انکساری کے جذبات اور ممنونیت کا احساس تشکر کے آنسو بن کر اس کی آنکھوں سے ٹپک پڑتے ہیں۔ علم اور تکبر کا باہمی کوئی تعلق (Relation) نہیں۔ جس دل میں تکبر آجائے وہاں علم کا بسیرا نہیں ہوتا۔ جہاں غرور اور نخوت کا ایک ذرہ بھی موجود ہو علم وہاں سے کوچ کر جاتا ہے۔ اس کے برعکس علم کو جہاں عاجزی اور انکساری نظر آتی ہے اسے وہاں رہنا عزیز ہوتا ہے۔ وہاں اسے راحت اور سکون ملتا ہے۔

No comments:

Post a Comment

غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں

غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں محترم قارئینِ کرام : بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ وہابی تو اللہ تعالیٰ کا نام ...