حضور نبی اکرم نور مجسّم ﷺ پیکرِ نظافت و لطافت ہیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جسمانی وجاہت اور حسن و رعنائی قدرت کا ایک عظیم شاہکار تھی جس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نفاست پسندی اور نظافت و طہارت کی عادت شریفہ نے چار چاند لگا دیئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرتاپا پاکیزگی کا پیکر تھے۔ جسم اطہر ہر طرح کی آلائشوں سے پاک و صاف تھا۔
1۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم رقيق البشرة.
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسمِ اقدس نہایت نرم و نازک تھا۔‘‘
ابن جوزي، الوفا : 409
2۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عم محترم حضرت ابوطالب فرماتے ہیں :
واﷲ ما ادخلته فراشي فاذا هو في غاية اللين.
’’خدا کی قسم! جب بھی میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ساتھ بستر میں لٹایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر کو نہایت ہی نرم و نازک پایا۔‘‘
رازي، التفسير الکبير، 31 : 214
3۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
ما مَسِسْتُ حريرًا ولا ديباجا ألين من کف رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم .
’’میں نے کسی ایسے ریشم یا دیباج کو مَس نہیں کیا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک ہتھیلی سے زیادہ ملائم ہو۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، 3 : 1306، کتاب المناقب، رقم : 3368
2. مسلم، الصحيح، 4 : 1815، کتاب الفضائل، رقم : 2330
3. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 368، ابواب البر والصلة، رقم : 2015
4. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 230، رقم : 13823
5. ابن حبان، الصحيح، 14 : 211، رقم : 6303
6. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 315، رقم : 31718
7. ابو يعلي، المسند، 6 : 128، رقم : 3400
8. عبد بن حميد، المسند، 1 : 378، رقم : 1268
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ظاہری صفائی و پاکیزگی کا بھی خصوصی اہتمام فرماتے تھے، نفاست پسندی میں اپنی مثال آپ تھے۔ اگرچہ جسمِ اطہر ہر قسم کی آلائش سے پاک تھا اور قدرت نے اس پاکیزگی کا خصوصی اہتمام فرمایا تھا، تاہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے لباس اور جسم کی ظاہری پاکیزگی کو بھی خصوصی اہمیت دیتے تھے۔
شبِ میلاد جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے اس وقت بھی ہر لمحہ پاکیزگی اور طہارت کا مظہر بن گیا، عام بچوں کے برعکس جسمِ اطہر ہر قسم کی آلائش اور میل کچیل سے پاک تھا۔
4۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ محترمہ سیدہ آمنہ رضی اﷲ عنھا فرماتی ہیں :
ولدته نظيفاً ما به قذر.
خفاجي، نسيم الرياض، 1 : 363
’’میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس طرح پاک صاف جنم دیا کہ آپ کے جسم پر کوئی میل نہ تھا۔‘‘
5۔ ایک دوسری روایت میں مذکور ہے :
ولدته أمّه بغير دم و لا وجع.
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بغیر خون اور تکلیف کے جنم دیا۔‘‘
ملا علي قاري، شرح الشفا، 1 : 165
تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر کی سی شانِ نظافت اللہ رب العزت نے آج تک کسی کو عطا نہیں کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاں حسن و جمال کے پیکر اتم تھے وہاں نظافت و طہارت میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔
9۔ بے سایہ پیکرِ نور
کتب احادیث میں درج ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقدس جسم اتنا لطیف تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ نہ تھا۔
1۔ قاضی عیاض رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :
کان لا ظلّ لشخصه في شمس و لا قمر لأنه کان نورًا.
’’سورج اور چاند (کی روشنی میں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اطہر کا سایہ نہ تھا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سراپا نور تھے۔‘‘
1. قاضي عياض، الشفا، 1 : 522
2. ابن جوزي، الوفا : 412
3. خازن، لباب التأويل في معاني التنزيل، 3 : 321
4. نسفي، المدارک، 3 : 135
5. مقري، تلمساني، فتح المتعال في مدح النعال : 510
2۔ امام سیوطی رحمۃ اﷲ علیہ الخصائص الکبريٰ میں روایت نقل فرماتے ہیں :
ان ظله کان لا يقع علي الأرض، وأنه کان نورًا فکان إذا مشي في الشمس أو القمر لا ينظر له ظلّ.
1. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 122
2. ابن شاهين، غاية السؤل في سيرة الرسول، 1 : 297
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سراپا نور تھے، پس جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سورج یا چاند کی روشنی میں چلتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ نظر نہ آتا۔‘‘
3۔ امام زرقانی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :
لم يکن لها ظل في شمس و لا قمر.
زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 5 : 524
’’شمس و قمر (کی روشنی) میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ نہ ہوتا۔‘‘
10۔ پیکرِ دلنواز کی خوشبوئے عنبریں
تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاں خوشبو کو پسند فرماتے وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بدن مبارک سے بھی نہایت نفیس خوشبو پھوٹتی تھی جس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا مشامِ جاں معطر رہتا۔ جسمِ اطہر کی خوشبو ہی اتنی نفیس تھی کہ کسی دوسری خوشبو کی ضرورت نہ تھی۔ دُنیا کی ساری خوشبوئیں جسمِ اطہر کی خوشبوئے دلنواز کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھیں۔ ولادتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں سیدہ آمنہ رضی اﷲ عنھا سے بہت سی روایات مروی ہیں۔
امام ابو نعیم رحمۃ اﷲ علیہ اور خطیب رحمۃ اﷲ علیہ نے صبحِ میلاد کے حوالے سے تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ کا ایک دلنشین قول یوں نقل کیا ہے :
نظرتُ إليه فإذا هو کالقمر ليلة البدر، ريحه يسطع کالمسک الأذفر.
زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 5 : 531
’’میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اقدس کو چودھویں رات کے چاند کی طرح پایا، جس سے تروتازہ کستوری کے حلّے پھوٹ رہے تھے۔‘‘
(1) وادئ بنو سعد میں خوشبوؤں کے قافلے
حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رضاعت کے لئے اپنے گھر کی طرف لے کر چلیں تو راستے خوشبوؤں سے معطر ہو گئے۔ وادئ بنو سعد کا کوچہ کوچہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بدنِ اقدس کی نفیس خوشبو سے مہک اٹھا۔
1۔ حضرت حلیمہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں :
و لما دخلت به إلي منزلي لم يبق منزل من منازل بني سعد إلا شممنا منه ريح المسک.
’’جب میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے گھر لائی تو قبیلہ بنو سعد کا کوئی گھر ایسا نہ تھا کہ جس سے ہم نے کستوری کی خوشبو محسوس نہ کی۔‘‘
صالحي، سبل الهدي والرشاد، 1 : 387
2۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بچپن کے بارے میں ایک روایت حضرت ابوطالب کے حوالے سے بھی ملتی ہے، وہ فرماتے ہیں :
فإذا هو في غاية اللين وطيب الرائحة کأنه غمس في المسک.
رازي، التفسير الکبير، 31 : 214
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسمِ اطہر نہایت ہی نرم و نازک اور اس طرح خوشبو دار تھا جیسے وہ کستوری میں ڈبویا ہوا ہو۔‘‘
3۔ خوشبوؤں کا قافلہ عمر بھر قدم قدم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمرکاب رہا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أحسن الناس لوناً وأطيب الناس ريحاً.
ابن عساکر، السيرة النبويه، 1 : 321
’’رسول اﷲا رنگ کے لحاظ سے سب لوگوں سے زیادہ حسین تھے اور خوشبو کے لحاظ سے سب سے زیادہ خوشبودار۔‘‘
(2) خوشبو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیکرِ اطہر کا حصہ تھی
اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ خوشبو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اطہر کی تھی نہ کہ وہ خوشبو جو آپ استعمال کرتے۔ ذاتِ اقدس کسی خوشبو کی محتاج نہ تھی بلکہ خود خوشبو جسمِ اطہر سے نسبت پاکر معتبر ٹھہری۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوشبو کا استعمال نہ بھی فرماتے تب بھی جسمِ اطہر کی خوشبو سے مشامِ جاں معطر رہتے۔
1۔ امام نووی رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں :
کانت هذه الريح الطيبة صفتها و إن لم يمس طيبا.
نووي، شرح صحيح مسلم، 2 : 256
’’مہک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اطہر کی صفات میں سے تھی، اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوشبو استعمال نہ بھی فرمائی ہوتی۔‘‘
2۔ امام اسحاق بن راہویہ رحمۃ اﷲ علیہ اس بات کی تصریح کرتے ہیں :
ان هذه الرائحة الطيبة کانت رائحة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من غير طيب.
صالحي، سبل الهدي والرشاد، 2 : 88
’’یہ پیاری مہک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ مقدسہ کی تھی نہ کہ اُس خوشبو کی جسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم استعمال فرماتے تھے۔‘‘
3۔ امام خفاجی رحمۃ اﷲ علیہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس منفرد خصوصیت کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں :
ريحها الطيبة طبعياً خلقياً خصه اﷲ به مکرمة و معجزة لها.
خفاجي، نسيم الرياض، 1 : 348
’’اللہ تعالیٰ نے بطور کرامت ومعجزہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اطہر میں خلقتاً اور طبعاً مہک رکھ دی تھی۔‘‘
4۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں :
یکے از طبقاتِ عجیبِ آنحضرت طیبِ ریح است کہ ذاتی وے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بود بی آنکہ استعمال طیب از خارج کند و ہیچ طیب بداں نمی ر سد.
محدث دهلوي، مدارج النبوه، 1 : 29
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک صفات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بغیر خوشبو کے استعمال کے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اطہر سے ایسی خوشبو آتی جس کا مقابلہ کوئی خوشبو نہیں کر سکتی۔‘‘
5۔ علامہ احمد عبدالجواد الدومی رحمۃ اﷲ علیہ رقمطراز ہیں :
کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم طيبا من غير طيب، و لکنه کان يتطيب و يتعطر توکيدا للرائحة و زيادة في الإذکاء.
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسمِ اقدس خوشبو کے استعمال کے بغیر بھی خوشبودار تھا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے باوجود پاکیزگی و نظافت میں اضافے کے لئے خوشبو استعمال فرمالیتے تھے۔‘‘
دومي، الاتحافات الربانيه : 263
6۔ شیخ ابراہیم بیجوری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :
و قد کان صلي الله عليه وآله وسلم طيب الرائحة، و ان لم يمس طيبا کما جاء ذلک في الأخبار الصحيحة لکنه کان يستعمل الطيب زيادة في طيب الرائحة.
’’احادیثِ صحیحہ سے یہ بات ثابت ہے کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اطہر سے خوشبو کی دلآویز مہک بغیر خوشبو لگائے آتی رہتی۔ ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوشبو کا استعمال فقط خوشبو میں اضافہ کے لئے کرتے۔‘‘
ابراهيم بيجوري، المواهب اللدنيه علي الشمائل المحمديه : 109
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں
غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں محترم قارئینِ کرام : بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ وہابی تو اللہ تعالیٰ کا نام ...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
شانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کی روشنی میں محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْ...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...
No comments:
Post a Comment