علم کی تعریف و اقسام
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
علم کی تعریف
فنی اعتبار سے علم کا مادہ ’’ع ل م،، ہے جس کے معنی ’’جاننا،، کے ہیں گویا : اَلْعِلْمُ اِدْرَاکُ الشَّيئِ بِحَقِيْقَتِه.
’’علم کسی شے کو اس کی حقیقت کے حوالے سے جان لینے کا نام ہے۔،،
یعنی علم ایک ایسا ذہنی قضیہ اور تصور ہے جو عالم خارج میں موجود کسی حقیقت کو جان لینے سے عبارت ہے۔ علم کا اطلاق ایسے قضیے پر ہوتا ہے جو محکوم اور محکوم بہ پر مشتمل ہو اور جس کے متوازی خارج میں ایسی ہی حقیقت موجود ہو جیسی قضیے میں بیان ہوئی ہو، لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر قضیہ علم نہیں ہو سکتا، وہی قضیہ علم کہلائے گا جو کلی اور وجوبی ہو اور موجود خارج کے حوالے سے صحت کا مصداق ہو۔
ارکان علم
مندرجہ بالا تعریف کے مطابق علم کے ارکان کی تعداد چار ہے۔
1۔ ناظر (Observer)
جو شخص علم کے بارے میں جاننا چاہتا ہے وہ ناظر کہلاتا ہے۔ یہ امتیاز اور درجہ اشرف المخلوقات یعنی حضرت انسان کو حاصل ہے۔ اسے معروف اصطلاح میں طالب علم بھی کہتے ہیں، یعنی کچھ جاننے کی جستجو میں رہنے والا طالب علم کہلاتا ہے۔ علم ایک بحر بیکراں ہے۔ کوئی شخص کلی علم حاصل کر لینے کا دعویٰ نہیں کر سکتا البتہ علم کا طالب جب کچھ نہ کچھ جان لے تو اسے عالم کہا جا سکتا ہے۔
2۔ منظور (Object)[L : 3]
منظور وہ شے ہے جسے جانا جا رہا ہو۔ اس سے مراد کوئی حقیقت (Reality) ہوسکتی ہے، خواہ یہ عقلی وجود رکھتی ہو یا حسی۔ یہ کائنات رنگ و بو اور اس کے مادی اور غیر مادی موجودات و حقائق منظور کا درجہ رکھتے ہیں۔
3۔ استعداد نظر (Observing Capability)
اس سے مراد یہ ہے کہ ناظر جو مشاہدہ (Observation) کر رہا ہے اس میں کسی چیز کو جاننے کی صلاحیت اور اور استعداد کس قدر موجود ہے۔ علم کا یہ تیسرا رکن ہے۔ اگر منظور (وہ حقیقت جس کے بارے میں جانا جا رہا ہو) حسی نوعیت کی ہو تو ناظر کو حواس خمسہ کی استعداد حاصل ہونی چاہئے تاکہ وہ حواس خمسہ سے اس چیز کو اپنے حیطہ ادراک میں لے سکے۔ اس کے برعکس اگر منظور (Object) عقلی نوعیت کا ہو تو ناظر میں استعداد عقلی کا ہونا ضروری ہے۔ اس استعداد کے بغیر عقلی نوعیت کے Object کا حیطہ ادراک میں آنا ممکن نہیں۔ اگر منظور Object ایسا ہو کہ اس کے لئے وجدان ضروری ہے تو ناظر کو بھی ایسی ہی وجدانی استعداد کا حامل ہونا چاہئے۔ ان صلاحیتوں سے بالاتر بھی ایک استعداد وحی کی ہے جو صرف اور صرف انبیاء کا خاصہ ہے۔ عام آدمی کا اس استعداد سے بہرہ ور ہونا ممکن ہی نہیں یہ صلاحیت کلی طور پر عطائی (God Gifted) ہے جو اللہ رب العزت کے انبیاء اور رسولوں سے مختص ہے۔
4۔ منظوریت (Objectivity)
علم کے ارکان میں چوتھا اور آخری رکن منظوریت (Objectivity) ہے۔
اس سے مراد وہ اصلیت اور مقصدیت ہے جسے جاننے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس حقیقت کے لئے لازم ہے کہ وہ اس قابل ہو کہ ناظر کی کسی بھی مخصوص استعداد سے معلوم ہو سکے۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں
غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں محترم قارئینِ کرام : بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ وہابی تو اللہ تعالیٰ کا نام ...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
شانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کی روشنی میں محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْ...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...
No comments:
Post a Comment