Wednesday 23 September 2015

خوارجی گروہ

خوارجی گروہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
قرآن کریم وہ پیاری کتاب ہے جس میں شک کی گنجائش نہیں۔ قرآن پاک نے ہمیشہ غور و فکر کی دعوت پیش کی اللہ تعالی کی طرف رجوع لانے کی ترغیب دلائی۔ لیکن ہر پڑھنے والا اور قرآن پاک میں سطحی نظر کرنے والا یہ نہ سمجھے کہ کلام الہی عزوجل کی تلاوت کرنے والے تمام ہی افراد مقصد کو پالینگے نہیں قطعاً ایسا نہیں خود قرآن پاک نے اسکی وضاحت کی چنانچہ ارشاد ہوا۔
یضل بہ کثیر ا و یھدی بہ کثیرا۔ ( ابقرۃ 26)۔
ترجمہ : بہت سے لوگ اس قرآن سے گمراہ ہوجاتے ہیں اور بہت سے لوگ اس سے ہدایت پاتے ہیں۔
گمراہ گروہوں میں ایک خارجی گروہ ہے جس کے بارے میں علامہ امام عبد الرحمن بن جوزی جن کا سن وصال 597 ہجری ہے آج سے تقریباً آٹھ سو سال قبل آپ نے کتاب تلبیس ابلیس لکھی یہ کتا ب عربی میں ہے اس کتاب میں آپ خارجیوں کے حالات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ خارجی وہ لوگ تھے جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے زمانے میں ظاہر ہوئے یہ کلمہ بھی پڑھتے نمازیں بھی پڑھتے تھےقرآن کی تلاوت بھی کرتے تھے اور اس کثرت سے اللہ عزوجل کی عبادت کرتے تھے کہ جب حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے اس گروہ کو دیکھا تو فرمایا:میں نے ان سے بڑھ کر عبادت میں کوشش کرنے والی کوئی قوم نہ دیکھی ۔ سجدوں کی کثرت سے ان کی پیشانیوں پر زخم پڑ گئے تھے۔
لیکن قرآن مجید فرقان حمید کو غلط سمجھنے کی وجہ سے یہ ایسے گمراہ ہوئے کہ انہوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ والکریم اور صحابہ کرام علیھم الرضوان پر شرک کا الزام لگا دیا اور کہنے لگے کہ حضر ت علی رضی اللہ عنہ اسلام سے خارج ہیں نعوذباللہ من ذالک اور وہ جس آیت کو بنیاد بناتے تھے وہ قرآن مجید فرقان حمید کی یہ آیت ہے۔
اِن الحکم الا للہ۔ ترجمہ ۔ فیصلہ گرنے والا تو صرف اللہ تعالی ہے۔
پس منظر یہ ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے ایک جھگڑے کو ختم کرنے کے لئے کسی کو فیصلہ کرنے والا مقرر کیا تو خارجی کہنے لگے کہ فیصلہ کرنے والا تو صرف اللہ تعالی ہے۔ تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔آپ کے پوچھنے پر کہ کیوں مشرک کہتے ہو ، خارجی جو اللہ تعالی کی کثرت سے عبادت بھی کرنے والے تھے بظاہر کلمہ بھی پڑھتے تھے لیکن قرآن کو غلط سمجھنے کی وجہ سے گمراہ ہوئے وہ کہنے لگے جب اللہ تعالی فرماتا ہے کہ فیصلہ کرنے والا وہی ہے تو پھر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کیسے فیصلہ کرنے والا مقرر کیا ۔تو حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا۔
وان خفتم شقاق بینھمافابعثوا حکما من اھلہ و حکما من اھلھا۔ (سورۃ النسائ، آیت نمبر 35)
ترجمہ : جب میاں بیوی کے درمیان جھگڑا ہوجائے اور تم ان میں صلح چاہو تو انکے تنازع کو حل کرنے کے لیے ایک حکم شوہر کی طرف سے مقرر کیا جائے اور دوسرا حکم بیوی کی طرف سے مقرر کیا جائے۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے خارجیوں ! ذرا سوچو کہ رب العالمین عزوجل دو حکم کے تقر ر کا فرما رہا ہے تو اللہ عزوجل کے سوا کسی اور کو فیصلہ کرنے والا مقرر کرنا شرک ہوتا تو قرآن کبھی بھی اس کی دعوت نہ دیتا اور ا''ان الحکم الا للہ "" سے مراد یہ ہے کہ حقیقی فیصلہ کرنے والا تو اللہ عزوجل ہی ہے ۔ کتنا پیارا انداز تھا حضرت عبداللہ کا مگر افسوس خارجیوں کی اکثریت اپنی ضد پر قائم رہی صرف چند خارجی ایسے تھے جنہوں نے توبہ کی ۔
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن پاک کا غلط مفہوم سمجھ لیا جائے تو بسا اوقات انسان کتنی غلط راہ پر چلا جاتا ہے ۔ کہ وہ قوم عبادت بھی کررہی ہے مگر حضرت علی اور صحابہ کرام علیھم الرضوان کو مشرک سمجھ کر خود دائرہ اسلام سے خارج بھی ہورہی ہے ۔ ان کی عبادتیں ضائع ہورہی ہیں۔
قرآن پاک میں کئی مثالیں ہیں کہ بظاہر ایک آیت کا مطلب غلط سمجھ لیا جائے تو وہ دوسری آیت سے ٹکراتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ قرآن پاک کی آیتیں آپس میں ٹکراتی نہیں ہیں بلکہ مفہوم کو غلط سمجھنے کی وجہ سے انسان غلط فہمی کا شکار ہو جاتا ہے۔
قل حسبی اللہ۔ (سورۃ توبہ) ترجمہ : فرما دیجیئے میرے لئے اللہ عزوجل کافی ہے۔
اب اگر کوئی اس آیت کا یہ مطلب لے کہ اللہ عزوجل کافی ہے اللہ عزوجل کے سوا دوسرے کو کافی کہنا شرک ہے تو قرآن مجید فرقان حمید پر اعتراض واقع ہوتا ہے۔ کیونکہ دوسرے مقام پر فرمایا گیا۔
یا یھاالنبی حسبک اللہ و من اتبعک من الموئ منین۔ (سورہ الانفال)۔
ترجمہ۔ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو اللہ عزوجل بھی کافی ہے اور آپ کی پیروی کرنے والے نیک صالح مومنین بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کافی ہیں۔
ایک طرف فرمایا گیا فرمادیجئیے میرے لئے اللہ عزوجل کافی ہے اور دوسری طرف فرمایا گیا کہ اے نبی ﷺ آپ کو اللہ عزوجل بھی کافی ہے اور آپ کی پیروی کرنے والے نیک صالح مومنین بھی آپﷺ کو کافی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جب اللہ عزوجل کافی ہے تو کسی اور کی کیا حاجت اور کیا ضرورت اس کا جواب مفسرین نے بڑا پیارا دیا فرمایا جہاں یہ کہا جائے کہ اللہ عزوجل کافی ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ حقیقی طور پر سب کچھ دینے والا اللہ عزوجل ہی ہے اور جہاں یہ کہا جائے کہ نیک مومنین کافی ہیں تو اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ عزوجل کی عطا سے کافی ہیں۔
بلاشبہ مشرک ظلم عظیم کا مرتکب مغفرت اور بخشش سے محروم صریح گمراہ ہمیشہ جہنم میں سڑنے والا بدبخت نامراد اور یقینااسلام کے دائرے سے خارج ہے۔مشرک کی مذمت بلکل حق ہے لیکن کسی مسلمان کو مشرک کہنا اس پر شرک کا ناحق الزام لگانا بہت بڑا گناہ ہے۔ جوسکی مسلمان پر ناحق شرک کا الزام لگائے وہ دائرہ اسلام سے باہر ہوجائے گا۔ تفسیر ابن کثیر میں حدیث پاک ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا ایک شخص قرآن پڑھتا ہوگا قرآن کا نور اس کے چہرہ پر ہوگا اسلام پر عمل کرنے والا ہوگا مگر وہ قرآن کے نور سے محروم ہوجائے گااور اسلام سے بھی دور ہوجائے گا صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺایسا کیوں ہوگا آپ ﷺ نے فرمایا یہ اپنے پڑوسی مسلمان پر شرک کا الزام لگائے گاپھر صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی مشرک کون ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا یہ الزام لگانے والا خود دائرہ اسلام سے خارج ہوگا۔ کیونکہ مسلمان شرک سے بری ہے اس پر شرک کا الزام لگانا گویا کہ اپنے آپ کو اسلام سے دور کرنا ہے۔
اب جو شخص قرآن مجید کو سمجھے بغیر ایک ہی آیت کو پڑ ھ کر شرک کا فتوہ لگانے لگ پڑھے اس کو سوچ لینا چاہے اور کہ وہ کیا کر رہا ہے کہیں اس نے قرآن مجید کو سمجھنے میں غلطی تو نہیں کی ۔ اس طرح علم غیب جہاں ذاتی کا ذکر ہے وہاں دوسروں کی نفی ہے لیکن جہاں عطائی کا ذکر ہے وہا اللہ تعالی خود فرما رہا ہے کہ جس کو چاہتا ہے غیب کا علم عطا فرماتا ہے۔

No comments:

Post a Comment

غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں

غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں محترم قارئینِ کرام : بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ وہابی تو اللہ تعالیٰ کا نام ...