Saturday 26 September 2015

نبی اکرم نور مجسّم ﷺ کے پسینے کی خوشبوئے دلنواز

نبی اکرم نور مجسّم ﷺ کے پسینے کی خوشبوئے دلنواز
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
1۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

کان ريح عرق رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ريح المسک، بأبي و أمي! لم أر قبله و لا بعده أحدا مثله.

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک پسینے کی خوشبو کستوری سے بڑھ کر تھی، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا نہ کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے میں نے دیکھا اور نہ بعد میں دیکھا۔‘‘

ابن عساکر، السيرة النبويه، 1 : 319

حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک پسینہ کائناتِ ارض و سماوات کی ہر خوشبو سے بڑھ کر خوشبودار تھا۔ یہ خوشبو خوشبوؤں کے جھرمٹ میں اعلیٰ اور افضل ترین تھی۔ پسینے کی خوشبو لاجواب اور بے مثال تھی۔

2۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

ما شممت عنبراً قط ولا مسکا و لا شيئا أطيب من ريح رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم .

1. مسلم، الصحيح، 4 : 1814، کتاب الفضائل، رقم : 2330
2. بخاري، الصحيح، 3 : 1306، کتاب المناقب، رقم : 3368
3. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 368، ابواب البر والصلة، رقم : 2015
4. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 200
5. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 315، رقم : 31718
6. ابو يعلي، المسند، 6 : 463، رقم : 3866
7. عبد بن حميد، المسند، 1 : 378، رقم : 1268
8. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 154، رقم : 1429
9. ابو نعيم، مسند أبي حنيفه، 1 : 51
10. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 285، رقم : 346
11. ابن حبان، الصحيح، 14 : 221، رقم : 6303

’’میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کے پسینے) کی خوشبو سے بڑھ کر خوشبودار عنبر اور کستوری یا کوئی اور خوشبودار چیز کبھی نہیں سونگھی۔‘‘

3۔ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک پسینے کا ذکرِ جمیل حضرت علی رضی اللہ عنہ ان الفاظ میں فرماتے ہیں :

کان عرق رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في وجهه اللؤلؤ، و ريح عرق رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أطيب من ريح المسک الأذفر.

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور پر پسینے کے قطرے خوبصورت موتیوں کی طرح دکھائی دیتے اور اس کی خوشبو عمدہ کستوری سے بڑھ کر تھی۔‘‘

صالحي، سبل الهدي والرشاد، 2 : 86
(5) عطر کا بدلِ نفیس۔۔۔ پسینہ مبارک

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم جسمِ اطہر کے مقدس پسینے کو محفوظ کرلیتے اور وقتاً فوقتاً اُسے بطور عطر استعمال میں لاتے کہ اُس جیسا عطر روئے زمین پر دستیاب نہیں ہو سکتا۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنھم سے روایت ہے کہ آقائے محتشم حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر ہمارے ہاں تشریف لایا کرتے تھے۔ عموماً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے ہاں قیلولہ بھی فرماتے۔ ایک دن میری والدہ ماجدہ حضرت امِ سلیم رضی اﷲ عنھا کسی کام سے گھر سے باہر گئی ہوئی تھیں، اُن کی عدم موجودگی میں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے گھر میں جلوہ افروز ہوئے اور قیلولہ فرمایا :

فقيل لها : هذا النبي صلي الله عليه وآله وسلم نائم في بيتک علي فراشک.

’’انہیں اطلاع ملی کہ آپ کے ہاں تو سرور کونین حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم استراحت فرما رہے ہیں۔‘‘

انہوں نے یہ مژدۂ جانفزا سنا تو جلدی جلدی اپنے گھر کی طرف لوٹیں اور دیکھا کہ سیدالمرسلین حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم استراحت فرما رہے ہیں اور جسمِ مقدس پر پسینے کے شفاف قطرے موتیوں کی طرح چمک رہے ہیں اور یہ قطرے جسمِ اطہر سے جدا ہوکر بستر میں جذب ہو رہے ہیں۔

آگے حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

جاء ت أمي بقارورة فجعلت تَسلُت العرق فيها.

’’میری والدہ ماجدہ نے ایک شیشی لے کر اس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینے کو جمع کرنا شروع کر دیا۔‘‘

اس اثنا میں والی کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری امی جان کو مخاطب کر کے فرمایا :

ما هذا الذي تصنعين؟

’’تو يہ کيا کر رہي ہے؟ ‘‘

امی جان نے احتراماً عرض کی :

هذا عرقک نجعله في طيبنا و هو من أطيب الطيب.

’’(یا رسول اللہ صلی اﷲ علیک وسلم!) یہ آپ کا مبارک پسینہ ہے، جسے ہم اپنے خوشبوؤں میں ملاتے ہیں اور یہ تمام خوشبوؤں سے بڑھ کر خوشبودار ہے۔‘‘

ایک روایت کے مطابق حضرت ام سلیم رضی اﷲ عنہا کا جواب کچھ یوں تھا :

نرجو برکته لصبياننا.

’’ہم اسے (جسمِ اطہر کے پسینے کو) اپنے بچوں کو برکت کے لئے لگائیں گے۔‘‘

حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

أصبتِ.

’’تو نے درست کیا۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، 4 : 1815، کتاب الفضائل، رقم : 2331
2. نسائي، السنن، 8 : 218، کتاب الزينه، رقم : 5371
3. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 221
4. بيهقي، السنن الکبريٰ، 1 : 254، رقم : 1135
5. طيالسي، المسند، 1 : 276، رقم : 2078
6. عبد بن حميد، المسند، 1 : 378، رقم : 1268
7. طبراني، المعجم الکبير، 25 : 119، رقم : 289
8. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 154، رقم : 1429
9. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 8 : 428
(6) خوشبو والوں کا گھر

ایک صحابی سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان ہوں، عنقریب میری بیٹی کی شادی ہونے والی ہے لیکن میرے پاس اسے دینے کے لئے کوئی خوشبو نہیں، یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سلسلے میں میری مدد فرمایئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا :

إيتني بقارورة واسعة الرأس و عود شجرة.

’’ایک کھلے منہ والی شیشی اور لکڑی کا کوئی ٹکڑا لے آؤ۔‘‘

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی سنتے ہی وہ صحابی مطلوبہ شیشی اور لکڑی لے کر پھر خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لکڑی سے اپنی مبارک کلائی کا پسینہ۔۔۔ جو خوشبوؤں کا خزینہ تھا۔۔۔ اس شیشی میں جمع فرمایا۔ وہ شیشی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک پسینے سے بھر گئی۔ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

خذه و أمر بنتک تطيب به.

’’اِسے لے جا اور اپنی بیٹی سے کہہ کہ اسے خوشبو کے طور پر استعمال کرے۔‘‘

خوش نصیب صحابی وہ شیشی جس میں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی کلائی مبارک کا پسینہ اپنے دستِ اقدس سے جمع فرمایا تھا لے کر اپنے گھر پہنچے اور گھر والوں کو عطائے رسول کی نوید سنائی۔ اس صحابی کے افرادِ خانہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کلائی مبارک کے پسینے کو بطور خوشبو استعمال فرمایا تو ان کے گھر کی فضا جسمِ اقدس کے پسینے کی خوشبو سے مہک اٹھی، در و دیوار جھوم اٹھے۔ یہ مقدس خوشبو صرف ان کے گھر تک محدود نہ رہی بلکہ ساکنانِ شہرِ خنک نے بھی اس خوشبوئے رسول کو محسوس کیا اور اس کی کیفیت میں گم رہے۔ پورے شہر میں ان کا گھر بیت المطیبین (خوشبو والوں کا گھر) کے نام سے مشہور ہو گیا، کتب احادیث میں درج ہے :

فکانت اذا تطيب شم أهل المدينة رائحة ذلک الطيب فسموا بيت المطيبين.

’’جب بھی وہ خوش نصیب خاتون خوشبو لگاتی تو جملہ اہل مدینہ اس مقدس خوشبو کو محسوس کرتے، پس اس وجہ سے وہ گھر ’خوشبو والوں کا گھر‘ سے مشہور ہو گیا۔‘‘

یوں نسبتِ رسول نے ان کا نام تاریخ اسلام میں ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا۔

1. ابو يعلي، المسند، 11 : 185، 186، رقم : 6295
2. طبراني، المعجم الاوسط، 3 : 190، 191، رقم : 2895
3. ابو نعيم، دلائل النبوه، 1 : 59، رقم : 41
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 255، 256
5. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 283
6. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 44، رقم : 27
7. مناوي، فيض القدير، 5 : 80
8. صالحي، سبل الهدي والرشاد، 3 : 86
(7) اب تک مہک رہے ہیں مدینے کے راستے

حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جدھر سے گزرتے وہ راستے بھی مہک اُٹھتے، راہیں قدم بوسی کا اعزاز حاصل کرتیں اور خوشبوئیں جسمِ اطہر کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتیں۔ مدینے کی گلیاں آج بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشبوؤں سے معطر ہیں۔ شہرِدلنواز کے بام و در سے لپٹی ہوئی خوشبوئیں آج بھی کہہ رہی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہی راستوں سے گزرا کرتے تھے، انہی فضاؤں میں سانس لیا کرتے تھے، اسی آسمان کے نیچے خلقِ خُدا میں دین و دُنیا کی دولت تقسیم فرمایا کرتے تھے۔

1۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :

کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إذا مرّ في طريق من طرق المدينة وجدوا منه رائحة الطيب، و قالوا : مرّ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من هذا الطريق.

سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 67

’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ کے جس کسی راستے سے گزر جاتے تو لوگ اس راہ میں ایسی پیاری مہک پاتے کہ پُکار اُٹھتے کہ ادھر سے اللہ تعالیٰ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا گزر ہوا ہے۔‘‘

2۔ امام بخاری رحمۃ اﷲ علیہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں :

لم يکن النبي صلي الله عليه وآله وسلم يمر في طريق فيتبعه أحد إلا عُرف أنه سلکه من طيب عرفه.

’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس راستے سے بھی گزر جاتے تو بعد میں آنے والا شخص خوشبو سے محسوس کر لیتا کہ ادھر سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر ہوا ہے۔‘‘

بخاري، التاريخ الکبير، 1 : 399 - 400، رقم : 1273
(8) آرزوئے جاں نثارانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

اظہارِ عشق کے انداز بھی مختلف ہوتے ہیں، خوشبوئے وفا کے پیرائے بھی جدا جدا ہوتے ہیں، کبھی کوئی صحابی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چادر مانگ لیتے ہیں کہ میں اس سے اپنا کفن بناؤں گا اور کوئی حصولِ برکت کے لئے جسمِ اطہر کے پسینے کو شیشی میں جمع کر لیتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ہاں قیلولہ فرماتے تو آپ رضی اللہ عنہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقدس پسینہ اور موئے مبارک جمع کر لیتے تھے اور اُنہیں ایک شیشی میں ڈال کر خوشبو میں ملا لیا کرتے تھے۔ حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنھم کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے مجھے وصیت کی :

أن يجعل في حنوطه من ذٰلک السُّکِ.

’’(اُن کے وصال کے بعد) وہ خوشبو ان کے کفن کو لگائی جائے۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، 5 : 2316، کتاب الاستيذان، رقم : 5925
2. ابن ابي شيبه، المصنف، 2 : 461، رقم : 11036

ان کی اس آرزو کو بعد از وصال پورا کیا گیا۔ حضرت حمید سے روایت ہے :

لما توفي أنس بن مالک جعل في حنوطه مسک فيه من عرق رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم .

’’جب حضرت انس رضی اللہ عنہ وصال کر گئے تو ان کی میت کے لئے اس خوشبو کو استعمال کیا گیا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینے کی خوشبو تھی۔‘‘

1. بيهقي، السنن الکبريٰ، 3 : 406، رقم : 6500
2. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 249، رقم : 715
3. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 7 : 25
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 3 : 21
5. شيباني، الاحآد والمثاني، 4 : 238، رقم : 2231

No comments:

Post a Comment

غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں

غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں محترم قارئینِ کرام : بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ وہابی تو اللہ تعالیٰ کا نام ...