Sunday 27 September 2015

قرآن مجید اوردیگر علوم میں فرق

قرآن مجید اوردیگر علوم میں فرق
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
قرآن مجید تمام علوم کا سرچشمہ ہے لیکن ایک بنیادی بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ قرآن اور دیگر کتب میں فرق ہے۔ دیگر علوم پر مشتمل تمام کتب میں اپنے موضوع کے اعتبار سے ہی بحث کی جاتی ہے اور ایک Discipline کی کتاب دوسرے Discipline کے متعلق خاموش دکھائی دیتی ہے لیکن قرآن مجید تمام علوم کا خزانہ اور سمندر ہے۔ دیگر تمام علوم کی حیثیت جزوی ہے جبکہ قرآن مجید کا علم غیر محدود اور کلی ہے، اور تمام علوم کے مصادر و ماخذ کی حیثیت کا حامل ہے۔

ایک لطیف حقیقت

قرآن مجید کا علم تحریری صورت میں نظریاتی حیثیت کا حامل ہے۔ کسی بھی Theoryکو پرکھنے اور قابل عمل بنانے کے لیے اسے کسی تجربہ گاہ میں رکھا جاتا ہے۔ قرآنی علم کی تجربہ گاہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مقدسہ قرآن مجید کی عملی صورت میں ہمارے سامنے آئی ہے۔ چونکہ قرآنی علوم لامحدود ہیں اس لئے سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی لا محدود ٹھہری کیونکہ کوئی بھی محدود چیز لا محدود کا احاطہ نہیں کرسکتی۔

4۔ نتیجہ علم

سورہ علق کی تیسری آیت میں نتیجہ علم کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے کہ جب انسان علم حاصل کرتا ہے تو پھر اس کی شخصیت اور اس کے افعال و اطوار پر اس کے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ ان اثرات کو نتیجہ علم کا نام دیا جاتا ہے یا یہ کہ حصول علم کے بعد انسان پر اس کے کیا اثرات مرتب ہونے چاہئیں۔ ارشاد خداوندی ہے۔

إقْرَأْ وَ رَبُّکَ الْاَکْرَمُ O (العلق، 96 : 3)

پڑھئے اور آپ کا رب بڑا ہی بزرگ و برتر ہے۔

ہر عظمت کی عظمت اور ہر بلندی کی بلندی ذات باری تعالیٰ پر ختم ہوجاتی ہے۔ نہ اس کی کوئی ابتدا ہے اور نہ کوئی انتہا، وہ ازل کا بھی مالک ہے اور ابد کا بھی، وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ وہ سب سے اعلیٰ اور برتر ہے۔ اس کا نور کائنات کے ذرے ذرے پر محیط ہے۔ تمام مخلوقات جاندار اور غیر جاندار سب اسی کے حکم کی پابند ہیں۔ آیات مقدسہ میں ناچیز انسان کو سب سے بڑی کائناتی سچائی سے آگاہ کیا جارہا ہے کہ بڑائی، بزرگی اور برتری صرف ذات خداوندی کا خاصہ ہے، انسان محض عاجز و کمتر ہے۔ علم بھی انسان کو عاجزی اور فروتنی کا سبق دیتا ہے، اسے اللہ کی بندگی کا سلیقہ سکھاتا ہے، اس کے جلال و جمال کے ادراک کا ہنر بخشتا ہے۔ جب انسان علم کے نور سے قلب و ذہن کو منور کرلے توقدرتی طور پر اس کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان کی گردن رب ذوالجلال کے سوا کسی اور کے سامنے نہیں جھکتی، خوف خدا کے سوا ہر خوف اس کے دل سے نکل جاتا ہے۔ اسے وقت کے یزیدوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انہیں للکارنے کا شعور عطا ہوتا ہے۔ وہ کسی فرعون کو خاطر میں لاتا ہے اور نہ حاجت روائی کے لئے کسی قارون کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے۔ وہ صرف اللہ اور اس کے رسول معظم کے در کا سائل بننے کا اعزاز حاصل کرتا ہے۔ خدا کی بڑائی اور عظمت کا اعتراف اور اپنے عجز اور کمزوری کا احساس اس کی شخصیت پر یہ نتیجہ ظاہر کرتا ہے کہ

نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے
جہاں ہے تیرے لئے تو نہیں جہاں کے لئے

احساس عجز و انکسار

جب شاخوں کو اذن نمو ملتا ہے اور وہ ثمر بار ہوتی ہیں تو وہ بارگاہ خداوندی میں جھکتی ہیں۔ یہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سجدہ شکر ہوتا ہے لیکن اگر یہ شاخ جھکنے کی بجائے اکڑ جائے تو وہ ٹو ٹ جایا کرتی ہے، اس لئے کہ غرورو تکبر اللہ کے ہاں ناپسندیدہ افعال ہیں۔ اس طرح انسان بھی جب تحصیل علم کی راہ پر نکلتا ہے تو قدرت کے رازہائے سربستہ اس پر منکشف ہونے لگتے ہیں۔ وہ عجز و انکسار کا پیکر بن جاتا ہے اور کلماتِ تشکر و امتنان اس کے ہونٹوں پر حروف دعا بن جاتے ہیں۔ وہ رب ارض و سماوات کے جلال و جبروت کے پانیوں میں ڈوب جاتا ہے۔ وہ عملاً بھی اقرار کرتا ہے کہ وہ ذات اقدس عظیم و کریم ہے، ہر بڑھائی اسی کے لئے ہے، تمام حروف ثناء بھی اس کی چوکھٹ پر سرنگوں ہیں۔ لیکن اس احساس عجز و انکسار کے برعکس اگر علم کا نتیجہ انسان پر یہ مرتب ہو کہ اس کے اندر اپنی بڑائی کا احساس جاگ اٹھے، دنیاوی کامیابیوں اور کامرانیوں کو منجانب اللہ کی بجائے اپنی ذات سے منسوب کرنے لگے، ثمرات کو اپنی محنت اور جدوجہد کا نتیجہ سمجھنے لگے اور غرور و تکبر سے اس کی گردن اکڑ جائے تو وہ صحیح معنوں میں صاحب علم نہیں ہوگا بلکہ وہ تو جہالت کی انتہائی گہرائیوں کا رزق بن رہا ہوگا۔

مذکورہ بالا آیت مبارکہ پر غور کرنے سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ اللہ رب العزت نے لفظ اقرا ء کو دہرایا ہے، اور اس لفظ کے ساتھ اپنی بڑائی کا تذکرہ کیا ہے لہذا خدا کی بڑائی کے اعتراف کا علم کے نتیجہ کے طور پر ظاہر ہونا لازمی ہے۔ اگر علم انسان کی شخصیت پر یہ اثرات مرتب نہ کرسکے کہ وہ (انسان) تو عجز، انکساراورتواضع کا پیکر ہے، وہ فروتر، ناتواں اور خاک کی مانند پست ہے اور ساری بڑائی، عظمت، برتری، بزرگی اور کبریائی کا سزوار صرف اور صرف خالق کائنات ہے تو پھر وہ علم، علم نہیں گمراہی اور جہالت کا پلندہ ہے۔

احساس برتری کا خاتمہ

علم انسان کے اندر احساس بندگی کو اجاگر کرتا ہے، قلب و نظر کو عجز و انکسار کے پانیوں سے دھوتا ہے، انسان کے اندر سے احساس برتری اور غرور و تکبر کو چن چن کر نکال دیتا ہے۔ احساس برتری ایک ایسی نفسیاتی بیماری ہے جس کا علاج تقریباً ناممکن ہے۔ ذہنوں میں خدا بننے کا فتور اسی نفسیاتی بیماری کی کوکھ سے جنم لیتا ہے، فرعونیت اور نمرودیت کا ہر راستہ اسی احساس برتری کی وادی مکرو فریب سے گزرتا ہے۔ علم ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے اس بیماری پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس سے انسان کے اندر احساس برتری کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور وہ اعتدال اور توازن کا دامن اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔ اگر انسان علم حاصل کر کے یہ سمجھنا شروع کردے کہ میں نے سب کچھ جان لیا ہے، تحصیل علم کا عمل مکمل ہوگیا ہے اور میں ایک مکمل عالم بن گیا ہوں تو یہ اس کی بہت بڑی بھول ہے۔ وہ اس علم کی گرد کو بھی نہیں پہنچا بلکہ جہالت کے گرد سفر کر رہا ہے۔

اظہار لا علمی ہی علم کی پہچان ہے

ارباب علم و دانش کا قول ہے کہ ’’اس نادان سے بچو جو اپنے آپ کو دانا سمجھتا ہے۔،، تحصیل علم کا عمل کبھی مکمل نہیں ہوتا، انسان ساری عمر طالب علم ہی رہتا ہے، علم پر مکمل دسترس کا تصور بھی محال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ علم میں اضافے کے ساتھ انسان کے دل میں بے خبری کا احساس بھی جاگز ین ہوجاتا ہے۔ علم کی دولت انسان کے پاس جتنی زیادہ ہوتی ہے اتنا ہی اسے اپنی کم آگہی کا ادراک ہوتا چلا جاتا ہے کہ علم تو ایک وسیع سمندر ہے، میں نے تو ابھی اس سمندر سے ایک قطرہ بھی نہیں لیا۔ جب انسان کا علم اپنے نقطہ کمال کو پہنچتا ہے تو اس پر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ اس کا دامن طلب تو ابھی خالی کا خالی ہی ہے سارا علم تو اللہ کے پاس ہے کہ وہی ہر علم کا سرچشمہ ہے۔

No comments:

Post a Comment

غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں

غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں محترم قارئینِ کرام : بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ وہابی تو اللہ تعالیٰ کا نام ...