Saturday 26 September 2015

اَنبیائے سابقین علیہم السّلام کے جملہ شمائل و خصائص اور محامد و محاسن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں

 اَنبیائے سابقین علیہم السّلام کے جملہ شمائل و خصائص اور محامد و محاسن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سب سے محبوب اور مقرب نبی ہیں، اِس لئے باری تعالیٰ نے اَنبیائے سابقین کے جملہ شمائل و خصائص اور محامد و محاسن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس میں اِس طرح جمع فرما دیئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم افضلیت و اکملیت کا معیارِ آخر قرار پائے۔ اِس لحاظ سے حسن و جمال کا معیارِ آخر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی ذات ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِس شانِ جامعیت و کاملیت کے بارے میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :

أُوْلَـئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ.

’’(یہی) وہ لوگ (پیغمبرانِ خدا) ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی ہے، پس (اے رسولِ آخرالزماں!) آپ اُن کے (فضیلت والے سب) طریقوں (کو اپنی سیرت میں جمع کر کے اُن) کی پیروی کریں (تاکہ آپ کی ذات میں اُن تمام انبیاء و رُسل کے فضائل و کمالات یکجا ہو جائیں)۔‘‘

القرآن، الانعام، 6 : 90

آیتِ مبارکہ میں ہدایت سے مُراد انبیائے سابقہ کے شرعی اَحکام نہیں کیونکہ وہ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہی منسوخ ہو چکے ہیں، بلکہ اِس سے مُراد وہ اَخلاقِ کریمانہ اور کمالاتِ پیغمبرانہ ہیں جن کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام مخلوق پر فوقیت حاصل ہے۔ چنانچہ وہ کمالات و اِمتیازات جو دِیگر انبیاء علیھم السلام کی شخصیات میں فرداً فرداً موجود تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں وہ سارے کے سارے جمع کر دیئے گئے اور اِس طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جملہ کمالاتِ نبوّت کے جامع قرار پا گئے۔

1۔ علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ مذکورہ آیت کے تحت اِمام قطبُ الدین رازی رحمۃ اﷲ علیہ کے حوالے سے رقمطراز ہیں :

أنه يتعين أن الإقتداء المأمور به ليس إلا في الأخلاق الفاضلة و الصفات الکاملة، کالحلم و الصبر و الزهد و کثرة الشکر و التضرع و نحوها، و يکون في الآية دليل علي أنه صلي الله عليه وآله وسلم أفضل منهم قطعا لتضمنها، أن اﷲ تعالٰي هدي أولئک الأنبياء عليهم الصلٰوة و السلام إلٰي فضائل الأخلاق و صفات الکمال، و حيث أمر رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أن يقتدي بهداهم جميعًا امتنع للعصمة أن يقال : أنه لم يتمثل، فلا بدّ أن يقال : أنه عليه الصلٰوة والسلام قد امتثل و أتي بجميع ذالک، و حصل تلک الأخلاق الفاضلة التي في جميعهم، فاجتمع فيه من خصال الکمال ما کان متفرقاً فيهم، و حينئذٍ يکون أفضل من جميعهم قطعا، کما أنه أفضل مِن کل واحدٍ منهم.

’’یہ اَمر طے شدہ ہے کہ اِس آیت میں شریعت کے اَحکام کی اِقتداء کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ اَخلاقِ حسنہ اور صفاتِ کاملہ مثلاً حلم، صبر، زُہد، کثرتِ شکر، عجز و اِنکساری وغیرہ کے حاصل کرنے کا حکم ہے۔ یہ آیتِ مقدسہ اِس اَمر پر قطعی دلیل کا درجہ رکھتی ہے کہ اِس اِعتبار سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام انبیاء و رُسل سے اَفضل و اَعلیٰ ہیں کیونکہ ربِ کائنات نے جو اَوصاف اور فضیلتیں اُن نبیوں اور رسولوں کو عطا کی ہیں اُن کے حصول کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم فرمایا گیا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عصمت کے پیشِ نظریہ نہیں کہا جا سکتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن (فضیلتوں) کو حاصل نہیں کیا بلکہ یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ خصائص اور کمالات جو دِیگر انبیاء و رُسل میں جدا جدا تھے اُن سب کو اپنی سیرت و کردار کا حصہ بنا لیا، اِس لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس طرح ہر نبی سے اُس کے اِنفرادی کمالات کے اعتبار سے اَفضل ہوئے اُسی طرح تمام انبیاء و رُسل سے اُن کے اِجتماعی کمالات کے اعتبار سے بھی افضل قرار پائے۔‘‘

آلوسي، روح المعاني، 7 : 217

درجِ بالا عبارت تحریر کرنے کے بعد علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :

هو إستنباطٌ حسنٌ.

’’یہ بہت ہی خوبصورت اِستنباط ہے۔‘‘

2۔ آیتِ مذکورہ کے حوالے سے اِمام فخر الدین رازی رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں :

إحتج العلماء بهذه الآية علٰي أن رسولنا صلي الله عليه وآله وسلم أفضل من جميع الأنبياء عليهم السلام.

’’اہلِ علم نے اِس آیتِ مقدسہ سے اِستدلال کیا ہے کہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام انبیاء علیھم السلام سے اَفضل ہیں۔‘‘

رازی، التفسير الکبير، 13 : 70

3۔ اِمام فخر الدین رازی رحمۃ اﷲ علیہ اِس موقف کی وجہِ اِستدلال کا ذِکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

أنه تعالٰی لما ذکر الکل أمر محمد صلی الله عليه وآله وسلم عليه الصلوة والسلام بأن يقتدي بهم بأسرهم، فکان التقدير کأنه تعالٰي أمر محمد صلي الله عليه وآله وسلم صلي الله عليه وآله وسلم أن يجمع من خصال العبودية و الطاعة کل الصفات التي کانت مفرقة فيهم بأجمعهم.

’’آیتِ مذکورہ سے قبل اللہ رب العزت نے دیگر جلیل القدر انبیاء و رسل کا اوصافِ حمیدہ کے ساتھ ذِکر فرمایا اور آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ حکم دیا کہ (محبوب!) اُن (انبیاء و رُسل) کی ذواتِ مطہرہ میں جو بھی فرداً فرداً اَوصافِ حمیدہ ہیں اُن اَوصافِ حمیدہ کو اپنی ذات کے اندر جمع فرما لیجئے۔‘‘

رازي، التفسير الکبير، 13 : 71

اِمام فخرالدین رازی رحمۃ اﷲ علیہ ایک دُوسرے مقام پر آیتِ مذکورہ کا مفہوم اِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں :

فکأنه سبحانه قال : ’’إنا أطلعناک علي أحوالهم و سيرهم، فاختر أنت منها أجودها و أحسنها، وکن مقتديا بهم في کلها.‘‘ و هذا يقتضي أنه اجتمع فيه من الخصال المرضية ما کان متفرقاً فيهم فوجب أن يکون أفضل منهم.

’’گویا اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’اے نبی مکرم! ہم نے آپ کو انبیاء و رُسل کے اَحوال اور سیرت و کردار سے آگاہ کر دیا۔ اَب آپ ان تمام (انبیاء و رُسل) کی سیرت و کردار کو اپنی ذات میں جمع فرما لیں۔‘‘ اِسی آیت سے یہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ تمام اَخلاقِ حسنہ اور اَوصاف حمیدہ جو متفرق طور پر انبیاء و رُسل میں موجود تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ مطہرہ میں اپنے شباب و کمال کے ساتھ جمع ہیں، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام انبیاء و رُسل سے اَفضل ماننا لازمی ہے‘‘۔

رازي، التفسير الکبير، 6 : 196

4۔ رسولِ اوّل و آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محامد و محاسن کے ضمن میں شیخ عبدالحق محدث دِہلوی رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں :

آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم را فضائل و کمالات بود، کہ اگر مجموع فضائلِ انبیاء صلوات اﷲ علیھم اجمعین را در جنب آن بنہند راجح آید۔

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محاسن و فضائل اِس طرح جامعیت کے مظہر ہیں کہ کسی بھی تقابل کی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محاسن و فضائل کو ہی ترجیح حاصل ہو گی‘‘۔

محدث دهلوي، شرح سفر السعادت : 442

اِس کائناتی سچائی کے بارے میں کوئی دُوسری رائے ہی نہیں کہ جملہ محامد و محاسن اور فضائل و خصائل جس شان اور اِعزاز کے ساتھ آقائے محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس میں ہیں اِس شان اور اِعزاز کے ساتھ کسی دُوسرے نبی یا رسول کی ذات میں موجود نہ تھے۔

5۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ ایک دُوسرے مقام پر رقمطراز ہیں :

خلائق درکمالاتِ انبیاء علیھم الصلٰوۃ و السلام حیران، و انبیاء ہمہ در ذاتِ وے۔ کمالاتِ انبیاءِ دیگر محدود و معین است، اما ایں جا تعین و تحدید نگنجد و خیال و قیاس را بدرکِ کمالِ وے را نہ بود.

’’(اللہ رب العزت کی) تمام مخلوقات کمالاتِ انبیاء علیہم السلام میں اور تمام انبیاء و رُسل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس میں متحیر ہیں۔ دِیگر انبیاء و رُسل کے کمالات محدُود اور متعین ہیں، جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محاسن و فضائل کی کوئی حد ہی نہیں، بلکہ ان تک کسی کے خیال کی پرواز ہی ممکن نہیں۔‘‘ محدث دهلوي، مرج البحرين

No comments:

Post a Comment

غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں

غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں محترم قارئینِ کرام : بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ وہابی تو اللہ تعالیٰ کا نام ...