Thursday 24 September 2015

حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا جشن مثالی جوش و خروش سے منائیں

0 comments
حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا جشن مثالی جوش و خروش سے منائیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 احادیث میں یوم عاشورہ کے حوالے سے جشنِ میلاد کو عید مسرت کے طور پر منانے پر محدثین نے استدلال کیا ہے۔ یوم عاشورہ کو یہودی مناتے ہیں اور یہ وہ دن ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے جبر و استبداد سے نجات ملی۔ اس طرح یہ دن ان کے لیے یوم فتح اور آزادی کا دن ہے جس میں وہ بطور شکرانہ روزہ رکھتے ہیں اور خوشی مناتے ہیں۔ ہجرت کے بعد جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود مدینہ کا یہ عمل دیکھا تو فرمایا کہ موسیٰ پر میرا حق نبی ہونے کے ناتے ان سے زیادہ ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عاشورا کے دن اِظہارِ تشکر کے طور پر خود بھی روزہ رکھا اور اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ اس پر بھی بہت سی روایات ہیں جس سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ اگر یہود اپنے پیغمبر کی فتح اور اپنی آزادی کا دن جشن عید کے طور پر منا سکتے ہیں تو ہم مسلمانوں کو بدرجہ اولیٰ اس کا حق پہنچتا ہے کہ ہم حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا جشن مثالی جوش و خروش سے منائیں جو اﷲ کا فضل اور رحمت بن کر پوری نسل انسانیت کو ہر قسم کے مظالم اور ناانصافیوں سے نجات دلانے کے لیے اس دنیا میں تشریف لائے۔

1. بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 704، رقم : 1900
2. بخاري، الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قول اﷲ تعالي : وهل أتاک حديث موسي، 3 : 1244، رقم : 3216
3. بخاري، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب اتيان اليهود النبي صلي الله عليه وآله وسلم حين قدم المدينة، 3 : 1434، رقم : 3727
4. مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 795، 796، رقم : 1130
5. أبوداود، السنن، کتاب الصوم، باب في صوم يوم عاشوراء، 2 : 326، رقم : 2444
6. ابن ماجة، السنن، کتاب الصيام، باب صيام يوم عاشوراء، 1 : 552، رقم : 1734
7. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 291، 336، رقم : 2644، 3112
8. أبو يعليٰ، المسند، 4 : 441، رقم : 2567

وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ.

’’اور اُن سے اُن کے بارِ گراں اور طوقِ (قیود)۔ جو اُن پر (نافرمانیوں کے باعث مسلط) تھے۔ ساقط فرماتے (اور اُنہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔‘‘

الأعراف، 7 : 157

آخری بات یہ کہِ اس کائناتِ اَرضی میں ایک مومن کے لیے سب سے بڑی خوشی اِس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ماہِ ولادت آئے تو اسے یوں محسوس ہونے لگے کہ کائنات کی ساری خوشیاں ہیچ ہیں اور اس کے لیے میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی ہی حقیقی خوشی ہے۔ جس طرح اُمم سابقہ پر اس سے بدرجہ ہا کم تر احسان اور نعمت عطا ہونے کی صورت میں واجب کیا گیا تھا جب کہ ان امتوں پر جو نعمت ہوئی وہ عارضی اور وقتی تھی اس کے مقابلے میں جو دائمی اور اَبدی نعمتِ عظمیٰ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہورِ قدسی کی صورت میں اُمتِ مسلمہ پر ہوئی ہے اس کا تقاضا ہے کہ وہ بدرجہ اَتم سراپا تشکر و امتنان بن جائے اور اظہارِ خوشی و مسرت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔