Sunday 27 September 2015

اسلام اور ذریعہ تعلیم

اسلام اور ذریعہ تعلیم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ذریعہ علم اپنے عنوان کے لحاظ سے ایک وسیع تر بحث ہے اور اس کے ہر ہر پہلو پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے۔ چونکہ سورہ علق کی روشنی میں اسلام کے تصور علم کا بیان ہورہا ہے اس لئے ہم اپنے موضوع کو سورہ علق کے مضامین تک ہی محدود رکھیں گے۔ ارشاد باری تعالی ہے :

الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ O (العلق، 96 : 4)

جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایا۔

علم کی روشنی قلم کی نوک سے پھوٹتی ہے۔ حصول علم کی راہ میں قلم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یوں تو حصول علم کے بہت سے دیگر ذرائع بھی ہیں لیکن اللہ رب العزت نے یہاں ان ذرائع کو بیان نہیں کیا بلکہ اس ذریعہ کو بیان کیا ہے جس سے روشنی کے اس سفر کا آغاز ہوا یعنی قلم کا بیان کیا جو علم کے حصول کا موثر اور معتبر ذریعہ ہے۔ چنانچہ علم کے سارے ذرائع اور راستوں کا اشارہ قلم کی طرف بطور نمائندگی کیا گیا ہے۔ قلم کے بیان سے حصول علم کے دیگر ذرائع کی نفی نہیں کی گئی البتہ قلم کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ فروغ علم کی تحریک میں قلم کن کن حوالوں سے اپنی شاندار خدمات پیش کرتے ہوئے کون کون سے کارہائے نمایاں سر انجام دے سکتا ہے۔ یہاں اس نکتے کی وضاحت ضروری ہے کہ دوسرے تمام ذرائع سے جو علم حاصل ہوتا ہے اسے محفوظ کرنے اور آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے کا بہترین ذریعہ بھی یہی قلم ہے لہذا دیگر ذرائع علم کا اجمالاً ذکر بھی فائدہ سے خالی نہ ہوگا۔ انسان کو علم بہم پہنچانے والے درج ذیل ذرائع ہیں :

 (1) حواس خمسہ ظاہری

قوت لامسہ، باصرہ، سامعہ، ذائقہ اور شامہ یعنی انسان چھونے، دیکھنے، سننے، چکھنے اور سونگھنے سے علم حاصل کرتا ہے۔ حصول علم کے ضمن میں ان ذرائع کی افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ یہ وہ پانچ ذرائع علم ہیں جن کی بدولت انسان اپنے گرد و پیش سے ادراک کی سطح پر اپنا تعلق قائم کرتا ہے۔ یہ حواس مادی اور طبعی دنیا (Material and Physical World) میں حقیقتوں کا صرف ادراک (Perception) کرنے تک محدود ہیں۔ ان سے علم کا خام مواد (Raw Material) حاصل ہوتا ہے۔ جو چیز ان کے دائرہ کار سے باہر ہو اس کا ادراک تمام حواس مل کر بھی نہیں کرسکتے۔ علاوہ ازیں یہ حواس شعور، قوت تمیز اور قوت فیصلہ سے بھی محروم ہیں، اس لئے ان پر کلیتاً انحصار نہیں کیا جاسکتا۔

(2) عقل اور حواس خمسہ باطنی

ظاہری حواس خمسہ کے ادراک کو اعتبار کی سند عقل عطا کرتی ہے۔ حواس خمسہ ظاہری سے حاصل ہونے والے خام مواد کو مرتب اور محفوظ شکل میں علم (Knowledge) کا درجہ عقل ہی دیتی ہے۔ عقل کے پانچ گوشے یا حصے ہوتے ہیں جنہیں حواس خمسہ باطنی کہتے ہیں اور وہ درج ذیل ہیں :

    حس مشترک
    حس واہمہ
    حس خیال
    حس متصرفہ
    حس حافظہ

ان تمام حصوں میں باہمی نظم و ضبط اور افہام و تفہیم مثالی ہوتا ہے۔ گویا یہ عقل کی زنجیر کی پانچ مضبوط کڑیاں ہیں جو حواس خمسہ ظاہری سے حاصل ہونے والے ادراک کو مربوط شکل میں پیش کرتی ہیں، یعنی یہ حواس خمسہ باطنی ادراک (Perception) کو علم (Conception) کی صورت دیتے ہیں۔ ان حقائق کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ حواس خمسہ ظاہری عقل کے محتاج ہیں اور عقل بھی حواس خمسہ ظاہری کی محتاج ہے۔ گویا دونوں گاڑی کے دو پہیئے ہیں، دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ اگر ایک پہیہ بھی متحرک نہ رہے تو علم و آگہی اور شعور کے سفر کا جاری رہنا ممکن نہ رہے۔

(3) وجدان (Ecstasy)

اس کائنات میں بہت ساری حقیقتیں اور علوم ایسے ہیں جو حواس خمسہ ظاہری اور عقل کے حیطہ ادراک میں کبھی نہیں آتے۔ اللہ رب العزت نے انسان کو ذریعہ علم کے طور پر ایک اور باطنی سرچشمہ بھی عطا کیا ہے جسے وجدان کہتے ہیں۔ وجدان حصول علم کا ایک ایسا باطنی ذریعہ ہے جس کے ذریعے انسان غیبی حقائق اور مستقبل میں ظہور پذیر ہونے والے واقعات کا مشاہدہ کرتا ہے۔ چشم بصیرت اور چشم روحانیت دونوں مل کر وجدان کا دروازہ کھولتے ہیں۔ وجدان کا دائرہ بھی نفسی اور طبعی کائنات (Psychic and Physical World) تک ہے۔ وجدان کے بھی پانچ گوشے ہوتے ہیں جنہیں لطائف خمسہ کہتے ہیں، یعنی :

    لطیفہ قلب
    لطیفہ روح
    لطیفہ سر
    لطیفہ خفی
    لطیفہ اخفی

وجدان کے لئے تزکیہ نفس کی مختلف ریاضتوں اور مشقتوں کے ذریعہ نفسانی حجابات کو مرتفع کرنا پڑتا ہے گویا تزکیہ نفس وجدان کو مقامات بلند عطا کرتا ہے اور اس سے انسان کی دل کی آنکھ بینا ہوجاتی ہے، حقائق پر سے پردے اٹھنا شروع ہوجاتے ہیں اور وجدان کشف کی صورت میں ایک موثر ذریعہ علم کے طور پر منصہ شہود پر آجاتا ہے یہ کیفیت کسی مرد حق (کامل)کی صحبت سے ملتی ہے، لیکن انسانی وجدان کی پرواز بھی نفسی اور طبیعی کائنات تک ہی محدود ہے۔ یہاں پہنچ کر انسان کے تمام ذرائع علم ختم ہوجاتے ہیں۔

(4) وحی الہی

جہاں انسان کے تمام ذرائع علم کی حد ختم ہوتی ہے وہاں سے وحی الہی کی سرحد کا آغاز ہوتا ہے۔ حواس خمسہ ظاہری، عقل اور وجدان سے ماورا تمام حقائق کا علم صرف وحی الہی کی صورت میں حاصل ہوتا ہے۔ یہ عطائے پروردگار ہے اور صرف اس کے نبیوں اور رسولوں کے لئے مخصوص ہے۔ عام آدمی اس ذریعہ علم تک رسائی کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اس ذریعہ علم کا عَلَم انبیا کے سروں پر سایہ فگن ہوتا ہے۔ وحی الہی کا دروازہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا اور قیامت تک یہ دروازہ کسی پر نہیں کھلے گا۔ اب ہمیشہ کے لئے اس ذریعہ سے علم و عرفان کا نور حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اطہر ہی سے لیا جائے گا۔ چنانچہ ایسے تمام حقائق جو چشم عالم سے مخفی تھے، جن کی جستجو انسان ازل سے کرتا آیا ہے اور جس کی حتمی معرفت سے انسان کے حواس عقل اور وجدان سب قاصر ہیں، ان تمام حجابات کو اللہ تعالیٰ نے انوار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اٹھا دیا اور پیکر نبوت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ جلیلہ سے قدرت نے قیامت تک کے لئے انسانوں کو وہ سرچشمہ علم عطا کردیا جس پر علم کی ہر انتہا کو ختم کردیا گیا، جسے شہر علم کہا گیا کہ علم کے سارے راستے اس شہر علم کی دہلیز پر آکر ختم ہوجاتے ہیں۔ علومِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر انسانی علم کے پایہ تکمیل تک پہنچنے کا تصور بھی محال ہے۔

6۔ حد علم یا وسعت علم :  Scope of Knowledge

سورہ علق کی روشنی میں اسلام کے تصور علم، مقصد علم، نصاب علم، ذریعہ علم اور نتیجہ علم پر اجمالاً بحث کے بعد اگر ذہن انسانی میں یہ سوال پیدا ہو کہ خدائے بزرگ و برتر نے انسان کو کیا کچھ سکھایا ہے اور اسے کن کن اشیا کا علم عطا کیا ہے؟ یا یہ کہ قرآن نے علم کی کوئی حد متعین کی ہے یا نہیں؟ تو سورہ علق کی پانچویں آیت میں ان سوالات کا مدلل جواب موجود ہے۔ فرمایا :

عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ يَعْلَمْ O (العلق، 96 : 5)

جس نے انسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔

گویا قرآن نے انسان کے علم کی کوئی حدمقرر نہیں کی۔ اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کو وہ تمام کچھ سکھا دیا جس کا اس سے قبل انہیں ادراک نہیں تھا۔ یعنی کائنات کی تمام اشیاء اور کائنات کی جن حقیقتوں کے بارے میں انسان کچھ نہیں جانتا تھا خدائے علیم و خبیر نے انسان کو ان اشیاء اور ان حقیقتوں سے آگاہ کیا۔ ذہن انسانی میں شعور و آگہی کے ان گنت چراغ روشن کئے تاکہ وہ خیر و شر میں تمیز کر سکے۔ اللہ رب العزت انسان کو ہر ہر پیشے کا علم عطا کرتا ہے۔ اس کے بے حد علم کی بارش تو ہر انسان کے لئے عام ہے لیکن ہر انسان اپنے اپنے ظرف اور اپنے اپنے سامان طلب کے مطابق بارگاہ خداوندی سے نوازا جاتا ہے۔ یہ توانسان کی اپنی ہمت اور کوشش ہے کہ وہ کہاں تک رحمت خداوندی سے اکتساب شعور کرتا ہے۔ علم کے سمندر سے کہاں تک اپنی پیاس بجھاتا ہے۔ اس نے تو میدان علم کی کوئی حد متعین نہیں فرمائی۔ علم کے سمندر کی وسعت کا اندازہ اس ارشاد خداوندی سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ فوق کل ذی علم علیم یعنی ہر علم والے کے اوپر ایک اور علم والا ہے۔ یہ کہہ کر بات ہی ختم کردی کہ انسان حصول علم کی شاہراہ پر جہاں تک جانا چاہے جاسکتا ہے۔ علم کے اس وسیع و عریض سمندر سے فیض یاب ہوسکتا ہے اس پر کوئی قدغن نہیں لگائی گئی۔ جس طرح اللہ کی اپنی ربوبیت و اُلوہیت میں اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی رسالت میں کوئی حد نہیں اسی طرح علم کی بھی کوئی حد نہیں۔ علم کی چادر کائنات کی ہر شے پر محیط ہے۔ انسان کو جہاں تک رسائی حاصل ہوتی ہے وہ حصول علم کی شاہراہ پر اتنا ہی آگے بڑھتا ہے اور جب اپنے ظرف کے حساب سے اپنے حاصل کردہ علم کی انتہا تک پہنچتا ہے تو وہ نقطہ اس کے لئے مقام حیرت بن جاتا ہے اور حیرت کا کمال خاموشی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے :

اگر خموش رہوں میں تو تو ہی سب کچھ ہے
جو کچھ کہا تو ترا حسن ہو گیا محدود

No comments:

Post a Comment

غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں

غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں محترم قارئینِ کرام : بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ وہابی تو اللہ تعالیٰ کا نام ...