Thursday 24 September 2015

فضائل و مسائل قربانی حصّہ دوم

فضائل و مسائل قربانی حصّہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
قربانی کے جانور

قربانی کے جانور تین قسم کے ہیں-اونٹ ، گائے، بکری، ہر قسم میں اس کی جتنی نوعیں ہیں سب داخل ہیں، نر، مادہ، خصی اور غیر خصی سب کا ایک حکم ہے یعنی سب کی قربانی ہوسکتی ہے-بهینس گائے میں شمار ہے اس کی بهی قربانی ہوسکتی ہے-بهیڑ اور دنبہ بکری میں داخل ہیں انکی بهی قربانی ہو سکتی ہے ( بہارشریعت حصہ 15 بحوالہ فتاوی ہندیہ، کتاب الاضحیہ باب خامس) وحشی جانور جیسے نیل گائے اور ہرن کی قربانی نہیں ہوسکتی؛

قربانی کے جانور کی عمر

اونٹ پانچ سال کا، گائے دو سال کیبکرا  ایک سال کا۔  اس سے عمر کم ہو تو قربانی جائز نہیں، اگر مقررہ عمر سے زیادہ ہو تو جائز بلکہ افضل ہے، دنبہ یا بهیڑ کا چھ  ماہ  کا  بچہ اگر اتنا بڑا (فربہ صحت مند) ہو کہ دور سے دیکهنے میں سال بهر کا معلوم ہوتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے ۔
( فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 443 :  بہارشریعت حصہ 15 بحوالہ درمختار کتاب الاضحیہ)

قربانی کے جانور کو عیب سے خالی ہونا چاہئیے، تهوڑا سا عیب ہو( مثلاً کان چرا ہوا ہو یا کان میں سوراخ ہو ) تو قربانی ہوجائے گی مگر مکروہ ہوگی، اگر عیب زیادہ ہو(تفصیل آگے آرہی ہے) تو قربانی نہیں ہوگی جس جانور کے پیدائشی سینگ نہ ہوں اس کی قربانی جائز ہے،سینگ تهے مگر جڑ تک ٹوٹ گیا قربانی ناجائز ہے، اگر اس سے کم ٹوٹا تو قربانی جائز ہے،جس  جانور کے پیدائشی کان نہ ہوں یا ایک کان نہ ہو، اسکی قربانی ناجائز ہے، جس جانور میں جنوں (پاگل) اس حد کا ہو کہ چرتا نہ ہو، اتنا کمزور ہو کہ ہڈیوں میں مغز نہ رہا، اندها،   یا ایسا کانا کہ اس کا کانا پن ظاہر ہے، ایسا بیمار جسکی بیماری ظاہر ہو،   اتنا لنگڑا کہ خود اپنے پاؤں سے  ذبح کرنے کی جگہ تک نہ جاسکے، ایسا جانور کہ جس کے کان، دم،  یا  دم چکی ( دنبے کی گول چپٹی دم) ایک تہائی( 1/3) سے زیادہ کٹے ہوئے ہوں، جانور کی ناک کٹی ہو،  دانت نہ ہوں، تهن کٹے ہوئے ہوں یا خشک  ہوگئے ہوں، ( گائے یا بهینس میں دو تهن بکری میں  ایک تهن کا خشک ہونا ناجائز ہونے کےلئے کافی ہے)جس

جانور کا دودھ علاج کے ذریعے خشک کردیا گیا ہو،  خنثی جانور یعنی جس میں نر اور مادہ دونوں علامتیں پائی جاتی ہوں، ( اس کا گوشت کسی طرح پکائے نہیں پکتا فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 255)  اور جلالہ جو صرف غلیظ کهاتا ہو(حدیث پاک میں جلالہ کا گوشت کهانے اور اس کا دودھ پینے سے منع فرمایا گیا، جامع الترمذی،  کتاب الاطعمہ) یا جس جانور کا ایک پاؤں کاٹ دیا گیا ہو ان سب کی (جو ابهی بیان ہوئے) قربانی ناجائز ہے۔

(تفصیل کےلئے دیکهئے،الہدایہ کتاب الاضحیہ،   درمختار کتاب الاضحیہ: فتاوی ہندیہ (اسے فتاوی عالمگیری بهی کہتے ہیں،  کتاب الاضحیہ،  فتاویٰ رضویہ جلد20 بہار شریعت حصہ 15)۔

کیا خصی جانور کی قربانی جائز ہے؟  کیونکہ اس میں رگیں کوٹ دی جاتی ہیں، یہ عیب کے زمرے میں نہیں آتا؟

جواب:   خصی جانور کی قربانی جائز اور سنت سے ثابت ہے، حضرت جابر حضرت ابوہریرہ اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنهم سے مروی  ہے   کہ سید عالم ﷺ   نے ذبح کے دن دو مینڈهے سینگ والے، چت کبرے، خصی کیے ہوئے ذبح کیے۔

 (مسندِ امام احمد، مسند انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ، جلد 4 صفحہ 5:  سنن ابوداؤد، کتاب الضحایا، باب مایستحب من الضحایا:   سنن ابن ماجہ، ابواب الاضاحی باب اضاحی رسول اللہﷺ:  مشکوتہ باب فی الاضحیہ فصل ثانی)۔

امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ  اسی طرز کے سوال کہ خصی جانور کی قربانی جائز ہے؟  کے جواب میں فرماتے ہیں،  جائز ہے کہ اس کی کمی سے اس جانور میں عیب نہیں آتا بلکہ وصف بڑھ جاتا ہے کہ خصی جانور کا گوشت بہ نسبت فحل کے زیادہ اچها ہوتا ہے۔

ہندیہ (فتاوی عالمگیری) میں خلاصہ سے منقول ہے کہ ذکر کٹا (جانور) جو جفتی کے قابل نہ رہا وہ قربانی میں جائز ہے۔
( فتاوی رضویہ جلد20 صفحہ 458)

کیا بهینس بهی قربانی کا جانور ہے؟   اگر ہے تو اس کا کیا ثبوت ہے؟

جواب:  لغت عرب میں بهینس کو “جاموس” کہتے ہیں (المنجد) اس کا شمار گائے کی نوع یعنی قسم میں ہوتا ہے،  الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ   نے اپنی مایہ ناز کتاب ” هادی الاضحیہ بالشاتہ الهندیہ”  میں بهینس کی قربانی  کے جواز میں کثیر کتب فقہ سے استدلال فرمایا۔ ان  میں ہدایہ،   خانیہ،  رمز الحقائق،   تکملہ طوری ، مسخلص الحقائق،  شرح ملا مسکین، طحاوی علی الدر، شرح نقایہ برجندی،  جامع الرموز، جامع المضمرات،مجمع الانہر عن المحیط،  فتح اللہ المعین عن التبیین،  بحرالرائق، ولوالجیہ، هندیہ عن البدائع؛ ردالمحتار  شامل ہیں ان کتب کے نام گنوا کے فرماتے ہیں، ضرورت پر ساری کتابیں پیش کی جاسکتی ہیں۔  الحمدللہ ساری کتابیں میری ذاتی ہیں۔ (  فقیر بارگاہ رضا راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ سیدی اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ  کی برکت سے مذکورہ کتب میں سے اکثر اس حقیر کے پاس بهی ہیں)

ان میں سے چند عبارات پیش خدمت ہیں۔   علامہ طوری لکهتے ہیں”الجاموس لانہ نوع من البقر”۔   یعنی  بهینس گائے کی نوع سے ہے۔( تکملہ من البحرا لرائق، کتاب الاضحیہ جلد 8 صفحہ 177)

امام برہان الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” ویدخل فی البقر الجاموس۔(ہدایہ کتاب الاضحیہ جلد 4 صفحہ 449)
فتاوی ہندیہ میں ہے، والجاموس نوع من البقر۔
( فتاویٰ ہندیہ کتاب الاضحیہ باب خامس جلد5 صفحہ 297)

ان تمام عبارات کا خلاصہ یہی ہے کہ جاموس یعنی بهینس گائے کی قسم سے ہے اور قربانی کا جانور ہے، اسکی عمر بهی قربانی کے دو سال ہے۔

گابهن (حاملہ) بکری یا گائے کی قربانی جائز ہے؟   اور اگر اس کے پیٹ سے زندہ بچہ نکلے اس کےلئے شریعت کا کیا حکم ہے؟

جواب:  سیدی اعلی حضرت اما احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں ” دودھ کے جانور یا گابهن کی قربانی اگرچہ صحیح ہے مگر ناپسند ہے، حدیث میں اس سے ممانعت فرمائی۔ (یہ حدیث سنن ابن ماجہ ابواب الذبآئح میں ہے)۔ فتاوی رضویہ جلد20 صفحہ 370)
اس لئیے   گابهن جانور کی قربانی سے اجتناب کرنا بہتر ہے، اور اگر پیٹ سے زندہ بچہ نکل آئے تو اسے ذبح کیا جاسکتا ہے اور اس کا گوشت کهانا بهی جائز ہے، اگر مرا ہوا بچہ ہو تو اسے پهینک دے مردار ہے۔ ( بہارشریعت حصہ 15)

اجتماعی قربانی

گائے (بهینس) اور اونٹ میں سات افراد شریک ہوسکتے ہیں، تمام شرکاء صحیح العقیدہ ہوں، اور سب کی نیت “تقرب” یعنی اللہ تعالی کا حق ادا کرنا مقصود ہو،  گائے کے شرکاء میں اگر ایک شخص کی نیت فقط گوشت حاصل کرنا ہو تو کسی کی بهی قربانی نہیں ہوگی ۔
( بہارشریعت حصہ 15 بحوالہ درمختار و رد المحتار کتاب الاضحیہ)

اگر کوئی شخص سات حصوں میں سے کچھ حصے عقیقے کےلئے مقرر کرلے تو جائز ہے کہ عقیقہ بهی تقرب کی ایک صورت ہے۔
(ردالمحتار،  کتاب الاضحیہ جلد 9 فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 595؛ بہارشریعت حصہ 15)

عام طور پر دیکهنے میں آتا ہے کہ تمام گهر والوں کی طرف سے ایک بکرا قربان کردیا جاتا ہے، جبکہ صاحب نصاب ہونے کے سبب اس گهر کے کئی افراد پر قربانی واجب ہوتی ہے  اس صورت میں ایک بکرا بهیڑ وغیرہ سب کو کفایت نہیں کریگا، جو جو صاحب نصاب ہیں خواہ مرد ہو یا عورت سب کی طرف سے الگ الگ قربانی کیجائی۔
 (تفصیل کےلئے دیکهئے فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 369)

میت کی طرف سے ایصال ثواب   کی نیت سےقربانی کرنا جائز ہے، اس میں چند باتیں ملحوظ خاطر رہیں۔ (1) اگر میت کی طرف سے قربانی کرنے والا خود صاحب نصاب ہے اور ایک ہی جانور کی استطاعت رکهتا ہے، تو اسے قربانی اپنی طرف سے کرنی چاہئے، کہ اس پر واجب ہے میت پر واجب نہیں، اور واجب کا ترک گناہ ہے۔ (2)  میت کی طرف سے قربانی  کی  تو اس کا گوشت خود بهی کها سکتا ہے رشتہ داروں کو اور غربا میں تقسیم کرسکتا ہے  (3) اگر مرنے والے کی وصیت و حکم پر قربانی کی تو اس صورت میں تمام گوشت صدقہ کردے خود نہیں کها سکتا۔
(فتاویٰ رضویہ جلد20  صفحہ 456 ؛ بہارشریعت حصہ 15)

اجتماعی قربانی میں تمام شرکا  کے درمیان گوشت وزن کرکے تقسیم کیا جائے، اندازے سے تقسیم کرنا جائز نہیں،اور ایک دوسرے کو کم یا زیادہ معاف کردینا بهی کافی نہیں، ہاں ایک ہی فیملی کے افراد کہ ایک ہی گهر میں رہتے اور مل جل کر کهاتے ہیں تو وزن کرنے کی حاجت نہیں۔
 (تفصیل کےلئے دیکهئے بہارشریعت حصہ 15)

بے احتیاطی سے بچنے کےلئے اس طرح حیلہ کیا جاسکتا ہے کہ شرکائے قربانی سارا گوشت ایسے بالغ مسلمان کو جو اس قربانی میں شریک نہ ہو ہبہ کردیں، یہ شخص سب میں اندازے سے گوشت تقسیم کرسکتا ہے۔
 (تفصیل، بہارشریعت حصہ 15 و ردالمحتار کتاب الاضحیہ جلد 9)

قربانی کا گوشت خود بهی کها سکتا ہے، اور غنی و فقیر کو بهی کهلا سکتا ہے۔   گوشت کے تین حصے کرلینا مستحب ہے، ایک حصہ غرباء کےلئے ایک رشتہ دار وں اور دوست احباب کےلئے، اور ایک حصہ اپنے گهر والوں کےلئے، کل صدقہ کرنا بهی جائز اور کل (گوشت) گهر ہی  رکھ لے یہ بهی جائز ہے، اگر کنبہ بڑا ہو اور صاحب وسعت نہیں ہے  تو بہتر یہ ہے کہ سارا گوشت اپنے بال بچوں ہی کےلئے رکھ چهوڑے ۔
(بہارشریعت حصہ 15 بحوالہ فتاوی ہندیہ کتاب الاضحیہ باب خامس)

حلال جانور کے سب اجزا حلال ہیں مگر بعض کہ حرام یا ممنوع یا مکروہ ہیں،  ان کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے، رگوں کا خون،  پِتّا،  پهکنا،   علامات نر و مادہ،  بیضے،   غدود،  حرام مغز،  گردن کے دو پٹهے کہ شانوں تک کهنچے ہوتے ہیں،  جگر کا خون،  تلی کا خون،  گوشت کا خون کہ ذبح کے گوشت میں سے نکلتا ہے،   دل کا خون،  پت یعنی وہ زرد پانی کہ پتے میں ہوتا ہے،   ناک کی رطوبت کہ بهیڑ میں اکثر ہوتی ہے،  پاخانہ کا مقام،   اوجهڑی،  آنتیں،  نطفہ،  وہ نطفہ کہ خون ہوگیا،  وہ کہ گوشت کا لوتهڑا ہوگیا،   وہ کہ پورا جانور بن گیا اور مردہ نکلا،  یا بے ذبح مرگیا۔
( فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 240)

بہتر یہ ہے کہ قربانی (ذبح) اپنے ہاتھ سے کرے اگر اچهی طرح ذبح کرنا جانتا ہو، اگر خود ذبح کرنا نہیں جانتا تو کسی صحیح العقیدہ مسلمان سے ذبح کرائے،  اور وقت قربانی وہاں موجود ہو، دوسرے سے ذبح کروایا اور خود اپنا ہاتھ بهی چهری پر رکھ دیا، کہ دونوں (قصاب اور مالک قربانی) نے ملکر ذبح کیا تو دونوں پر بسم اللہ  کہنا واجب ہے، ایک نے بهی جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ کا نام ترک کیا یا یہ خیال کرکے چهوڑ دیا کہ دوسرے نے کہہ لیا ہے مجهے کہنے کی ضرورت نہیں دونوں صورتوں میں جانور حلال نہ ہوا۔
(بہارشریعت حصہ 15 بحوالہ درمختار کتاب الاضحیہ)

عورت، سمجھ دار نابالغ،  گونگا،   ان سب کا ذبیحہ حلال ہے اگر اچهی طرح ذبح کرنا جانتے ہوں ۔(فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 242)

جانور کو بهوکا پیاسا ذبح نہ کریں،  اور ایک جانور کے سامنے دوسرے کو ذبح نہ کیا جائے، چهری پہلے سے تیز کرلی جائے ایسا نہ ہو کہ اسے زمین پر گرا کر اس کے سامنے تیز کی جائے،   گائے وغیرہ کو گرانے سے  پہلے ہی قبلہ رخ کا تعین کرلیا جائے، جس جگہ جانور کو لٹانا یا گرانا ہے اسے صاف کرلیا جائے کہ وہاں کنکر روڑے وغیرہ نہ ہوں، الغرض جانور کو ہر طرح کی اذیت و تکلیف سے بچایا جائے۔

سید عالمﷺ نے ارشاد فرمایا’  جب تم ذبح کرو تو احسن طریقہ سے ذبح کرو، تم میں سے کسی شخص کو چاہئیے کہ وہ چهری تیز کرے اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے”۔(صحیح مسلم کتاب الصید والذبائح)

اور مسند امام احمد میں ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ بارگاہ رسالت ﷺ  میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوئے، یارسول اللہﷺ  مجهے بکری ذبح کرنے پر  رحم آتا ہے ،  فرمایا اگر اس پر رحم کرو گے اللہ تعالیٰ بهی تم پر رحم فرمائے گا،  ذبح کرنے میں چار رگیں کٹ جائیں یا کم سے کم تین رگیں کٹ جائیں، اس سے زیادہ نہ کاٹیں کہ چهری گردن کے مہرہ تک پہنچ جائے کہ یہ بے وجہ کی تکلیف ہے، جب تک جانور مکمل طور پر ٹهنڈا نہ ہوجائے نہ اس کے پاؤں کاٹیں نہ کهال اتاریں۔

بعض قصاب اور گهروں میں جانے آرڈر بهگتانے اور مال کمانے کی غرض سے عجلت میں ہوتے ہیں، اور گائے کو ذبح کرتے ہی گردن سے چهری گهونپ کر دل کی رگیں کاٹتے ہیں،  یا بکرے کی گردن بعد ذبح چٹخا دیتے ہیں؛ اس ظلم سے انہیں روکا جائے۔
( مذکورہ مسائل کی تفصیل جاننے کےلئے فتاویٰ رضویہ جلد20 اور بہار شریعت حصہ 15 کا مطالعہ فرمائیں)

قربانی کی کهال ہر اس کام میں صرف کرسکتے ہیں جو قربت و کار خیر و باعث ثواب ہو؛مساجد و مدارس اہل سنت  کو دے سکتے ہیں، کهال بیچ کر اس رقم سے کتب دینیہ خرید کر مدارس وغیرہ کے طلبہ کو دے سکتے ہیں اگرچہ وہ طلبہ غنی ہوں کہ کتاب باقی رہ کر کام آتی ہے، حاجت مند بیواؤں، یتیموں،   مسکینوں کو کهال یا اس سے حاصل شدہ رقم دے سکتے ہیں،   قربانی کرنے والا کهال کو باقی رکهتے ہوئے اپنے کام میں لا سکتا ہے مثلاً اسکی جا نماز، چهلنی (آٹا چهاننے کا آلہ) تهیلی،  مشکیزہ،  دسترخوان،  ڈول،   یا کتابوں کی جلد بندی میں لگا سکتا ہے۔  اگر کسی نے کهال اپنے خرچ میں لانے کےلئے بیچی تو حاصل شدہ دام خبیث ہیں لہذا یہ رقم مسجد یا مسجد کے کسی کام میں نہ لگائی جائے بلکہ فقیر مسلمان پر صدقہ کردی جائے ۔
( مذکورہ مسائل فتاویٰ رضویہ کی جلد 20 سے اخذ کئے گئے ہیں)

سیدی اعلی حضرت  امام احمد رضا  رحمۃ اللہ علیہ سے سوال پوچها گیا کہ زید پردیس میں ہے اس کی جانب سے اس کا کوئی عزیز قربانی کردے تو فرض زید پر سے اتر جائے گا؟

آپ نے جواب عطا فرمایا کہ ” قربانی و صدقہ فطر عبادت ہے اور عبادت میں نیت شرط ہے تو بلا اجازت ناممکن ہے ” ہاں اجازت کےلئے صراحتاً ہونا ضروری نہیں دلالت کافی ہے،  مثلاً زید اس کے عیال میں ہے، اس کا کهانا پہننا سب اس کےپاس ہوتا یا یہ (زید کیطرف سے قربانی کرنے والا) اس کا وکیل مطلق ہے، اس کا کار و بار یہ کیا کرتا ہے، ان صورتوں میں ادا ہوجائے گی۔
( فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 453) ۔

بیرون ملک رہنے والے لوگ اپنے کسی عزیز یا  دوست کو اپنی طرف سے قربانی کرنے کی اجازت دیں یعنی انہیں اپنا وکیل کر لیں تو انکی طرف سے  قربانی ہوجائے گی۔

No comments:

Post a Comment

غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں

غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں محترم قارئینِ کرام : بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ وہابی تو اللہ تعالیٰ کا نام ...