Sunday 27 September 2015

مقصد کے اعتبار سے علوم کی تقسیم

0 comments
مقصد کے اعتبار سے علوم کی تقسیم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جب یہ بنیادی بات طے پاگئی کہ ہر وہ علم جس سے معرفت الہی میسر آئے، اور قرب الہی نصیب ہو صحیح معنوں میں وہی علم ہے تو اس اعتبار سے جب ہم علوم کی تقسیم کریں گے تو صرف علم القرآن، علم التفسیر، علم الحدیث، علم الفقہ، علم النحو، علم الصرف اورعلم التصوف وغیرہ ہی دینی علوم نہیں ٹھہریں گے بلکہ حیاتیات (Biology)، طبیعیات (Physics)، نفسیات (Psychology)، کیمیا (Chemistry)، سیاسیات (Politics)، عمرانیات (Sociolgy)، معاشیات (Economics)، تاریخ (History)، قانون (Law)، نیوکلئیرٹیکنالوجی (Nuclear Technology)، کمپیوٹر سائنسز (Computer Sciences)، انتظامیات (Management)، تجارت (Commerce) اور ابلاغیات (Mass Communication) کے علوم بھی دینی علوم کے زمرے میں شمار ہوں گے۔ شرط صرف یہ ہے کہ ان علوم کے حصول سے مقصود اللہ کی رضا ہو اور یہ علوم معرفت الہیہ اور قرب الہی کا وسیلہ بنیں، لہذا ہر وہ شخص جو اپنے حصول علم کا آغاز اللہ کے نام سے کرے اور اس کا مقصد علم کے ذریعہ اللہ کا قرب حاصل کرنا ہو تو وہ دنیا کے کسی بھی خطے، کسی بھی شعبے میں علم حاصل کر رہا ہو وہ دین الہی کا طالب علم ہی کہلائے گا کیونکہ ان تمام علوم کا ہر ہر گوشہ کسی نہ کسی اعتبار سے اپنے دامن میں خدا کی معرفت کی کوئی نہ کوئی صورت ضرور رکھتا ہے۔ حرف حق کی تلاش ہی کو خدا کی تلاش سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی انسان عقل سلیم کی جملہ توانائیوں کے ساتھ دنیا کے دیگر علوم کی تحصیل میں آگے بڑھتا چلا جائے تو اس کے ہر سفر علم کی انتہا خدا کی معرفت پر منتج ہوتی نظر آئے گی۔ وہ اپنے سفر علم میں جوں جوں ادراک و شعور کے مراحل طے کرتا چلا جائے گا توں توں اس پر خدا کی وحدانیت، اس کی ربوبیت، اس کی الوہیت اور اس کی عظمت کے ان گنت گوشے آشکار ہوتے چلے جائیں گے۔ لہذا ہرمعلم اورمتعلم، ہر استاد اور شاگرد، ہر مربی اور مربوب، جو شغل علم سے وابستہ ہوتا ہے اسے جان لینا چاہیے کہ وہ تعلیم و تربیت کے میدان میں صرف اس لئے قدم رکھ رہا ہے کہ اس کی یہ چند روزہ زندگی اپنے خالق حقیقی کی معرفت، اس کے قرب اور اس ذات تک رسائی کا ذریعہ ثابت ہو۔

علم کا میدان کھلا ہے

علم ایک سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں۔ علم روشنی کے مسلسل سفر کا نام ہے۔ اسے تفہیمات کے کسی محدود خانے میں مقید نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ہم پہلی آیت کے لفظ ’’خلق،، کے معنی و مفہوم پر غور کریں تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ تحصیل علم کے لئے مخصوص علوم کا انتخاب نہیں کیا گیا بلکہ علم کا میدان کھلا رکھا گیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے :

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَO

 (اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھیئے جس نے (ہرچیز کو) پیدا فرمایا ۔ (العلق، 96 : 1)

آیت مذکورہ میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ کس کو پیدا کیا۔ اگر بتا دیا جاتا کہ کس کو پیدا کیا تو مضمون علم کی حدود متعین ہوجاتیں۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ اللہ رب العزت نے علم کا میدان کھلا چھوڑ دیا ہے۔ آیہ کریمہ میں خلق کا لفظ مطلقاً آیا ہے اور تخلیق کو بیان کرنے کے حوالے سے یہ آیت خاموش ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خدائے کائنات نے خلق اور تخلیق کا کوئی رخ متعین نہیں کیا، لہذا اس سے یہ مراد لی جائے گی کہ خالق کائنات نے سب کچھ پیدا کیا۔ لفظ اقراء سے یہ حقیقت بھی آشکار ہوتی ہے چونکہ پیدائش و خلق کا کوئی رخ یا کوئی سمت متعین نہیں کی گئی لہذا تحصیل علم کی بھی کوئی سمت مقرر نہیں۔ علم کا میدان کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس کائنات پست و بالا میں جو کچھ بھی ہے وہ اللہ رب العزت کا تخلیق کردہ ہے، اس لئے انسان کو اپنے علم کے ذریعہ یہ جان لینا چاہئے کہ یہ کائنات رنگ و بو اللہ کے وجود سے قائم ہے، وہی نظام ہستی چلا رہا ہے، وہی بادلوں کو بنجر زمینوں کی طرف اذن سفر دیتا ہے، وہی پتھر میں کیڑے کو رزق دیتا ہے، وہی ہر مشکل میں اپنے بندوں کی دستگیری کرتا ہے، وہ رب کائنات ہے، وہ وحدہ لا شریک ہے، اس کا علم کائنات کے ذرے ذرے پر محیط ہے، وہ ہر علم کا سرچشمہ ہے اور اے انسان! تیرا علم پوری کائنات میں تجھے اللہ کی راہ دکھاتا ہے۔ الذی خلق کے معنی یہ ہیں کہ جب تیری نظر زمین کی وسعتوں کا احاطہ کرے تو تجھے خدائے ذوالجلال کی ان رحمتوں اور برکتوں کا اندازہ ہو جو اس کی تمام مخلوقات پر ہوتی ہیں۔ اس کے فضل و کرم کا مینہ ساری زمینوں کی پیاس بجھاتا ہے۔ تو جب آسمان کی بلندیوں کو دیکھے تو تجھے مالک ارض و سماوات کی عظمت و رفعت کی راہ دکھائی دے۔ فلک پوش پہاڑوں کو دیکھے تو خدائی عظمت و جبروت یاد آئے اور جب تو شاداب فصلوں، گرتے آبشاروں، بہتے دریاؤں اور لہلہاتے ہوئے کھیتوں کا نظارہ کرے تو تجھے قدرت خداوندی کے ساتھ ان شفقتوں اور محبتوں کی یاد بھی آئے جو وہ اپنے بندوں سے روا رکھتا ہے۔ غرض تیری نگاہ اس کی کسی تخلیق پر بھی پڑے تجھے وہ چیز کسی نہ کسی مظہر (Exhibitor) کا شاہکار دکھائی دے۔

اب تک ہم نے پہلی آیت مبارکہ کی روشنی میں اسلام کے تصور علم اور مقصد علم کے تحت جو گفتگو کی ہے اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ جب تک مقصد علم کو نہیں سمجھا جاتا اس وقت تک کسی علم کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں دیا جاسکتا اور نہ اس ضمن میں کوئی اندازہ لگایا جاسکتا ہے لہذا مقاصد علم ہی کسی علم کے دینی اور لا دینی ہونے کا تعین کرتے ہیں۔

3۔ نصاب علم

یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ یہاں لفظ نصاب اپنے ان معروف معنوں میں استعمال نہیں ہور ہا جس کا مطلب سلیبس (Syllabuss) یا Courses of Reading وغیرہ ہوتا ہے بلکہ یہاں لفظ نصاب اپنے وسیع تر معنوں میں استعمال ہو رہا ہے۔

کائنات کی ہر شے کا تعلق تخلیق کی نسبت سے باری تعالیٰ کے ساتھ ہے اس لئے کہ وہ ہر شے کا خالق و مالک ہے لہذا ہمارے علم کا تعلق بھی ہر شے سے ہونا چاہئے۔ یہ زمین اور آسمان، یہ چاند اور سورج، یہ ستارے اور سیارے، یہ سمندروں کی وسعت، یہ دریاؤں کی روانی، موجوں کی طغیانی، آبشاروں کا ترنم، قُمریوں کا تکلم، کلیوں کا تبسم، شمس و قمر کا طلوع و غروب، یہ شجر و حجر کی شادابی، یہ برگ و ثمر کی رنگینی، الغرض پوری کائنات ہست و بود سب کچھ خلق ہے اور صرف رب کی ذات اس عظیم تخلیق کی خالق ہے۔ نہ کوئی اس کا شریک ہے اور نہ کوئی اس کا ساجھی، وہ یکتا و تنہا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان کس چیز کا علم حاصل کرے کہ اسے معرفت الہی اور قرب الہی نصیب ہو؟

الذی خلق : کے اطلاق اور عمومیت میں نصاب علم کی وسعت کا ذکر ہے۔ واضح طور پر اشارہ کیا جارہا ہے کہ اپنے رب کے نام سے ہر اس شے کا علم حاصل کر جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔
ہر تخلیق نصاب علم ہے

اللہ رب العزت نے جو کچھ تخلیق کیا ہے یا کائنات میں خالق و مالک کی ذات کے علاوہ جو کچھ ہے وہ ہمارے علم کے دائرہ نصاب میں آتا ہے۔ اگر انسان اس کرہ ارضی کے بارے میں علم حاصل کرتا ہے تو اسے ارضیات کا نام دیا جائے گا اور زمین کے اندر اور اس کی سطح پر رونما ہونے والے تمام تغیرات، تمام معدنیات اور ا سکے وسائل زیر بحث آئیں گے۔ اگر نفس انسانی کے اندرونی احوال و کیفیات، شعور و لا شعور کی مباحث اور Conscious Process کو چھوتا ہے تو یہ علم، علم نفسیات کہلائے گا۔ اگر مادہ اور اس کے مظاہر طبیعی (Physical Phenomena) میں حرکت وغیرہ کا علم حاصل کرتا ہے تو یہ طبیعیات کا علم ہوگا۔ اگر انسان کی حقیقت کے مبداء و منتہا کا عقل کی بنیاد پر تجزیہ کرتا ہے اور کائنات کی ماہیت اصلی اور انسان کے مقام و منصب کے اعتبار سے اس کے طرز عمل کا مطالعہ کرتا ہے تو اس علم کو فلسفہ کہیں گے۔ اگر کائنات میں موجود مختلف اشیا کی کیمیائی ترکیب کا جائزہ لیتا ہے تو یہ علم علم کیمیا (Chemistory) بن جائے گا۔ اگر ان کی زندگی کے حیاتیاتی پہلوؤں کا تجزیہ کرتاہے اور مظاہر حیاتیات (Biological Phenomena) کا مطالعہ کرتا ہے تو یہ علم بیالوجی کہلاتا ہے۔ اس طرح جدید و قدیم علوم کی ایک طویل فہرست ہے جو کائنات کے کسی نہ کسی پہلو کے بارے میں انسان کو غور و فکر کی دعوت دیتی ہے اور انکشافات کی نئی دنیا آباد کرتی ہے۔ مختصراً یوں کہا جاسکتا ہے کہ ہر وہ شے جو خدائے بزرگ و برتر کی تخلیق کی مظہر ہے وہ علم کے نصاب میں شامل ہے، یعنی خالق و مالک کی ہر تخلیق نصاب علم ہے۔

ایک غلط فہمی کا ازالہ

اب تک کی بحث سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اسلام نے صرف قرآن مجید، تفسیر، احادیث، فقہ، تصوف وغیرہ تک ہی نصاب علم کو محدود نہیں کیا بلکہ اسلام سائنسی علوم اور اپنے عہد کی جدید ترین ٹیکنالوجی کو بھی شامل نصاب کرتا ہے۔ لفظ علق کا استعمال بھی سائنسی علوم کے نصاب میں شامل ہونے کی دلیل ہے۔ علق کا معنی جما ہوا خون بھی کیا جاتا ہے۔ یہ ایک حیاتیاتی اصول ہے جس کا عمل تخلیق کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ خلاصہ بحث یہ ہوا کہ اسلام کے تصور علم میں نصاب کی بھی کوئی حد نہیں ہے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔