آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ اقدس
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضور نبی اکرم اکی ذاتِ اقدس قُدرتِ خُداوندی کا شاہکارِ عظیم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تخلیق ربِ کائنات کی جملہ تخلیقی رعنائیوں کا مرقعِ زیبائی ہے۔ مخلوقات کے تمام محامد و محاسن کا نقطۂ کمال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روئے مقدس جمالِ خُداوندی کا آئینہ دار ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرکزِ نگاہِ خاص و عام ہیں۔ ’’اِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا (آپ ہر وقت ہماری نگاہوں میں رہتے ہیں‘‘) کا خطابِ خداوندی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعزازِ لازوال ہے۔
اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کا ذکر بڑی محبت اور اپنائیت کے انداز میں فرمایا۔ اسلام کے ابتدائی دور میں تقریباً سترہ ماہ مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے رہے۔ اس پر یہود طعنہ زن ہوئے کہ مسلمان اور ان کا نبی یوں تو ہمارے دین کے مخالف ہیں مگر نماز کے وقت ہمارے ہی قبلہ کی طرف رخ کرتے ہیں۔ یہ بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعتِ مبارکہ پر گراں گزری اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلبِ اطہر میں تبدیلیء قبلہ کی خواہش پیدا ہوئی جو کہ اتنی شدت اختیار کر گئی کہ اس کو پورا ہوتا دیکھنے کے لئے دورانِ نماز چہرۂ اقدس اٹھا کر بار بار آسمان کی طرف دیکھتے۔ اللہ رب العزت کو اپنے محبوب بندے کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ عین نماز کی حالت میں تبدیلیء قبلہ کا حکم وارد ہوا، جس میں باری تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ اقدس کا خصوصی ذکر فرمایا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ.
’’اے حبیب! ہم بار بار آپ کے رُخِ انور کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں، سو ہم ضرور بالضرور آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس پر آپ راضی ہیں، پس آپ اپنا رخ ابھی مسجد حرام کی طرف پھیر لیجیئے۔‘‘
القرآن، البقره، 2 : 144
ایک اور مقام پر اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روئے زیبا کا تذکرہ استعاراتی اور علامتی زبان میں انتہائی دلنشین انداز سے کرتے ہوئے باری تعالیٰ نے یوں ارشاد فرمایا :
وَ الضُّحٰیO وَ الَّيْلِ اِذَا سَجٰیO مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَ مَا قَلٰیO
’قسم ہے چاشت (کی طرح چمکتے ہوئے چہرۂ زیبا) کیO اور سیاہ رات (کی طرح شانوں کو چھوتی ہوئی زلفوں) کیO آپ کے رب نے (جب سے آپ کو منتخب فرمایا ہے) آپ کو نہیں چھوڑا اور نہ (جب سے آپ کو محبوب بنایا ہے) ناراض ہی ہوا ہےO‘‘
القرآن، الضحٰی، 93 : 1 - 3
ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ ان آیات مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
والانسب بهذا المقام في تحقيق المرام أن يقال أن في الضحي إيماء إلي وجهه صلي الله عليه وآله وسلم کما أن في الليل أشعارا إلي شعره عليه الصلوة والسلام.
’’اس سورت کا نزول جس مقصد کے لئے ہوا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ یہ کہاجائے کہ ضُحٰی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور اور لیل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک زلفوں کی طرف اشارہ ہے۔‘‘
ملا علي قاري، شرح الشفا، 1 : 82
امام زرقانی رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
الضُّحٰی : بوجهها، و الليل : شعره.
’’ضحی سے مُراد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روئے منور اور لَیْل سے مُراد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک زلفیں ہیں۔‘‘
زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 8 : 444
امام فخرالدین رازی رحمۃ اﷲ علیہ پہلے سوال اُٹھاتے ہیں : کیا کسی مفسر نے ضحٰی کی تفسیر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انوراور لیل کی تفسیر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زُلفوں کے ساتھ کی ہے؟ اور پھر خود ہی جواب مرحمت فرماتے ہیں :
نعم، و لا إستبعاد فيه و منهم من زاد عليه، فقال : و الضُّحيٰ : ذکور أهل بيته، و الليل : أناثهم.
’’ہاں، یہ تفسیر کی گئی ہے اور اس میں کوئی بُعد نہیں اور بعض (مفسرین) نے اس میں اضافہ فرمایا ہے کہ وَالضُّحیٰ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہلِ بیت کے مرد حضرات اور وَاللَّیْلِ سے اہلِ بیت کی خواتین مراد ہیں۔‘‘
رازي، التفسير الکبير، 31 : 209
دیگر تفاسیر مثلاً ’تفسیر نیشا پوری (3 : 107)‘، ’تفسیر روح المعانی (30 : 178)‘، ’تفسیر روح البیان (10 : 453)‘ اور ’تفسیر عزیزی (پارہ عم، ص : 310)‘ میں بھی ضحٰی سے چہرۂ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور لیل سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گیسوئے عنبریں مراد لئے گئے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضور نبی اکرم اکی ذاتِ اقدس قُدرتِ خُداوندی کا شاہکارِ عظیم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تخلیق ربِ کائنات کی جملہ تخلیقی رعنائیوں کا مرقعِ زیبائی ہے۔ مخلوقات کے تمام محامد و محاسن کا نقطۂ کمال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روئے مقدس جمالِ خُداوندی کا آئینہ دار ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرکزِ نگاہِ خاص و عام ہیں۔ ’’اِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا (آپ ہر وقت ہماری نگاہوں میں رہتے ہیں‘‘) کا خطابِ خداوندی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعزازِ لازوال ہے۔
اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کا ذکر بڑی محبت اور اپنائیت کے انداز میں فرمایا۔ اسلام کے ابتدائی دور میں تقریباً سترہ ماہ مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے رہے۔ اس پر یہود طعنہ زن ہوئے کہ مسلمان اور ان کا نبی یوں تو ہمارے دین کے مخالف ہیں مگر نماز کے وقت ہمارے ہی قبلہ کی طرف رخ کرتے ہیں۔ یہ بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعتِ مبارکہ پر گراں گزری اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلبِ اطہر میں تبدیلیء قبلہ کی خواہش پیدا ہوئی جو کہ اتنی شدت اختیار کر گئی کہ اس کو پورا ہوتا دیکھنے کے لئے دورانِ نماز چہرۂ اقدس اٹھا کر بار بار آسمان کی طرف دیکھتے۔ اللہ رب العزت کو اپنے محبوب بندے کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ عین نماز کی حالت میں تبدیلیء قبلہ کا حکم وارد ہوا، جس میں باری تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ اقدس کا خصوصی ذکر فرمایا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ.
’’اے حبیب! ہم بار بار آپ کے رُخِ انور کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں، سو ہم ضرور بالضرور آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس پر آپ راضی ہیں، پس آپ اپنا رخ ابھی مسجد حرام کی طرف پھیر لیجیئے۔‘‘
القرآن، البقره، 2 : 144
ایک اور مقام پر اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روئے زیبا کا تذکرہ استعاراتی اور علامتی زبان میں انتہائی دلنشین انداز سے کرتے ہوئے باری تعالیٰ نے یوں ارشاد فرمایا :
وَ الضُّحٰیO وَ الَّيْلِ اِذَا سَجٰیO مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَ مَا قَلٰیO
’قسم ہے چاشت (کی طرح چمکتے ہوئے چہرۂ زیبا) کیO اور سیاہ رات (کی طرح شانوں کو چھوتی ہوئی زلفوں) کیO آپ کے رب نے (جب سے آپ کو منتخب فرمایا ہے) آپ کو نہیں چھوڑا اور نہ (جب سے آپ کو محبوب بنایا ہے) ناراض ہی ہوا ہےO‘‘
القرآن، الضحٰی، 93 : 1 - 3
ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ ان آیات مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
والانسب بهذا المقام في تحقيق المرام أن يقال أن في الضحي إيماء إلي وجهه صلي الله عليه وآله وسلم کما أن في الليل أشعارا إلي شعره عليه الصلوة والسلام.
’’اس سورت کا نزول جس مقصد کے لئے ہوا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ یہ کہاجائے کہ ضُحٰی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور اور لیل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک زلفوں کی طرف اشارہ ہے۔‘‘
ملا علي قاري، شرح الشفا، 1 : 82
امام زرقانی رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
الضُّحٰی : بوجهها، و الليل : شعره.
’’ضحی سے مُراد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روئے منور اور لَیْل سے مُراد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک زلفیں ہیں۔‘‘
زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 8 : 444
امام فخرالدین رازی رحمۃ اﷲ علیہ پہلے سوال اُٹھاتے ہیں : کیا کسی مفسر نے ضحٰی کی تفسیر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انوراور لیل کی تفسیر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زُلفوں کے ساتھ کی ہے؟ اور پھر خود ہی جواب مرحمت فرماتے ہیں :
نعم، و لا إستبعاد فيه و منهم من زاد عليه، فقال : و الضُّحيٰ : ذکور أهل بيته، و الليل : أناثهم.
’’ہاں، یہ تفسیر کی گئی ہے اور اس میں کوئی بُعد نہیں اور بعض (مفسرین) نے اس میں اضافہ فرمایا ہے کہ وَالضُّحیٰ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہلِ بیت کے مرد حضرات اور وَاللَّیْلِ سے اہلِ بیت کی خواتین مراد ہیں۔‘‘
رازي، التفسير الکبير، 31 : 209
دیگر تفاسیر مثلاً ’تفسیر نیشا پوری (3 : 107)‘، ’تفسیر روح المعانی (30 : 178)‘، ’تفسیر روح البیان (10 : 453)‘ اور ’تفسیر عزیزی (پارہ عم، ص : 310)‘ میں بھی ضحٰی سے چہرۂ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور لیل سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گیسوئے عنبریں مراد لئے گئے ہیں۔
No comments:
Post a Comment