مسلہ سماع موتیٰ غیر مقلدین کی ایک دلیل کا جواب
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اہلحدیث غیر مقلد حضرات حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائے پیش کرتے ہیں کہ جس میں حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ بدر کے کافرین نے کنویں میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا خطاب سنا تھا کیونکہ اللہ نے انہیں زندہ کر دیا تھا۔ اور اس بنیاد پر اہلحدیث غیر مقلد وھابی حضرات یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ بدر کے کنویں میں کافرین کا یہ سننا صرف ایک معجزہ تھا ورنہ عموماً مردے نہیں سن سکتے۔
آئیے ذرا غور سے دیکھتے ہیں کہ حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کیا کہہ رہے ہیں اور کیا اس سے یہ معجزہ والا نتیجہ نکالا جا سکتا ہے یا نہیں۔
صحیح بخاری، کتابِ المغازی، باب قتل ابی جہل:
حدثني عبد الله بن محمد سمع روح بن عبادة حدثنا سعيد بن أبي عروبة عن قتادة قال ذكر لنا أنس بن مالك عن أبي طلحة
أن نبي الله صلى الله عليه وسلم أمر يوم بدر بأربعة وعشرين رجلا من صناديد قريش فقذفوا في طوي من أطواء بدر خبيث مخبث وكان إذا ظهر على قوم أقام بالعرصة ثلاث ليال فلما كان ببدر اليوم الثالث أمر براحلته فشد عليها رحلها ثم مشى واتبعه أصحابه وقالوا ما نرى ينطلق إلا لبعض حاجته حتى قام على شفة الركي فجعل يناديهم بأسمائهم وأسماء آبائهم يا فلان بن فلان ويا فلان بن فلان أيسركم أنكم أطعتم الله ورسوله فإنا قد وجدنا ما وعدنا ربنا حقا فهل وجدتم ما وعد ربكم حقا قال فقال عمر يا رسول الله ما تكلم من أجساد لا أرواح لها فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم والذي نفس محمد بيده ما أنتم بأسمع لما أقول منهم قال قتادة
أحياهم الله حتى أسمعهم قوله توبيخا وتصغيرا ونقيمة وحسرة وندما
ترجمہ : ۔
حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ہم سے انس بن مالک نے بیان کیا کہ انہوں نے کہا کہ ابو طلہ نے کہا کہ جنگ بدر کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چوبیس سرداران قریش کی لاشوں کو کنویں میں پھینک دئے جانے کا حکم دیا اور ان کی لاشیں بدر کے کنوؤں میں سے ایک گندے کنویں میں پھینک دی گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاعدہ تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی قوم پر غالب آ جاتے تھے تو وہاں تین دن قیام فرماتے تھے۔ جب بدر کے مقام پر تیسرا دن آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی پر کجاوہ کسا گیا۔ پھر آپ پیدل روانہ ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے اور انہوں نے کہا کہ ہمارا خیال یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی ضرورت کے لئے جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کنویں کے کنارے کھڑے ہو گئے اور ان مشرکوں کو ان کے اور ان کے باپ داداؤں کے نام سے آواز دینے لگے کہ اے فلاں ابن فلانِ اے فلاں ابن فلاں(صحیح مسلم، کتاب "الجنہ و صفت نعیمھا و اہلھا"، میں ان کے نام یوں آئیں ہیں "یا ابو جہل بن ہشام، یا امیہ بن خلف، یا عتبہ" ) ! کیا تم کو یہ بہتر معلوم نہیں ہوتا کہ تم نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی ہوتی؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم سے ہمارے رب نے جو وعدہ کیا تھا وہ ہم نے سچا پایا۔ تو کیا تم نے بھی وہ وعدہ سچا پایا جو تمہارے رب نے تم سے کیا تھا؟ ابو طلحہ نے کہا اس وقت جنابِ عمر رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: یا رسول اللہ! آپ ان جسموں سے مخاطب ہیں کہ جن میں روح نہیں ہے۔ اس پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: اے عمر! اس ذات کی قسم کہ جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے کہ تم اتنا بہتر نہیں سن سکتے جتنا کہ یہ سن رہے ہیں۔
آگے حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ (جو کہ ایک تابعی ہیں) اپنا خیال پیش کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ) اللہ نے ان کفار کو واپس زندہ کر دیا تاکہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سن سکیں اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ان کے لئے ذلت و خواری، حسرت و ندامت کا باعث بنے۔
پہلی اور سب سے اہم بات یہ کہ حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نہیں کہا کہ یہ ایک معجزہ تھا جیسا کہ آجکل اہلحدیث حضرات عام مسلمانوں کو باور کرانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔
دوسرا یہ کہ حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ (ایک تابعی) اس واقعہ کے ڈائریکٹ گواہ نہیں ہیں بلکہ محض یہ ان کا اپنا ذاتی خیال ہے۔ حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ واقعہ حجرت انس (صحابی) رضی اللہ عنہ سے سنا، جنہوں نے یہ واقعہ ابو طلحہ (ایک اور صحابی) سے سنا تھا۔ تو سب سے پہلے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قتادہ کو یہ کیسے پتہ چلا کہ اللہ نے ان کفار کی روحوں کو ان کے جسموں میں واپس بھیجا تھا اور انہیں دبارہ زندگی دی تھی ؟.
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ اللہ نے کفار کو زندہ کرنے کے لیے ان کی ارواح دوبارہ ان کے جسموں میں داخل کیں۔ حضرت عمر جو کہ اُس موقع کے چشم دید گواہ ہیں (اور اسی طرح دیگر صحابہ) ان میں سے کسی ایک نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا ہے کہ اللہ نے ان کفار کو دوبارہ زندہ کیا۔ .
یہ حدیث بہت سے صحابہ سے مروی ہے مثلاً عبداللہ ابن عمر، ابو طلحہ، حضرت عائشہ ؓ وغیرہ۔ مگر ان میں سے ایک نے بھی کفار کو دوبارہ زندہ کرنے کی ذرا سی بھی بات نہیں کی ہے۔
چناچہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر قتادہ کو یہ الہام کیسے ہوا کہ اللہ نے کفار کو دوبارہ زندہ کیا تھا ؟ کیا اللہ نے قتادہ پر وحی نازل کی تھی اور جبرئیلؑ نے انہیں آ کر بتایا تھا کہ اللہ نے اُن کفار کو زندہ کیا تھا؟ اگر قتادہ پر ایسی وحی نہیں ہوئی تھی تو یہ صرف اور صرف قتادہ کا اپنا خیال ہے جس کی اسلامی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔
حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کا گمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور جنابِ عمر کے واضح الفاظ کے بالکل متضاد ہے
جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کو مخاطب کیا تو حضرت عمر شک و شبہ میں مبتلا ہو کر الجھن میں پڑ گئے اور اپنے اس شک و شبہ کو مٹانے کے لیے ہی وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دوبارہ تصدیق کرنے کے لیے یہ سوال کر رہے ہیں کہ:
حضرت عمر نے پوچھا: یا رسول اللہ! آپ ان جسموں سے مخاطب ہیں جو کہ روحوں سے خالی ہیں۔
جبکہ قتادہ کا گمان یہ ہے کہ اللہ نے ان کی روحوں کو واپس کر کے ان کو دوبارہ زندہ کیا۔
تو ان دونوں میں سے صحیح کون ہے؟
اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کو دیکھئیے کہ وہ حضرت عمر کے اس شک و شبہ کا کتنا واضح جواب دے رہے ہیں:
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: اُس ذات کی قسم کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم میری بات کو اتنا بہتر نہیں سن سکتے کہ جتنا کہ یہ مردے سن رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر واقعی یہ روحوں کے پلٹائے جانے کا کیس ہوتا، تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر واجب تھا کہ حضرت عمر کو صاف صاف اس کے متعلق بتاتے۔ یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا منصبِ رسالت ہے جو کہ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم دین کے معاملے میں لوگوں کے شکوک وشبہات کا ازالہ کریں۔ مگر یہاں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب صاف صاف ظاہر کر رہا ہے کہ قتادہ اپنے اس گمان میں غلط ہیں۔
غیر مقلد وھابی حضرات سے گذارش : ۔ آپ چاہیں تو حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید کر سکتے ہیں کہ مردوں کو وقتی طور پر زندہ کیا گیا تھا ۔ لیکن یاد رہے اس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول کا رد ہو گا کیوں کہ انہوں نے کہا تھا کے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ ایسے جسموں سے مخاطب ہیں جن میں جان نہیں ہے ۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں
غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں محترم قارئینِ کرام : بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ وہابی تو اللہ تعالیٰ کا نام ...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
شانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کی روشنی میں محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْ...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...
No comments:
Post a Comment