اَربابِ علم و دانش نے علم کی تعریف یوں کی ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
العلم إدراک الشیء بحقيقته.
’’علم کسی چیز کو اس کی حقیقت کے اعتبار سے جان لینے کا نام ہے۔‘‘
یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ علم کا اطلاق ایسے قضیے پر ہوتا ہے جو محکوم اور محکوم بہ پر مشتمل ہو، جس کے متوازی خارج میں ویسی ہی حقیقت موجود ہو جیسی قضیے میں بیان ہوئی ہے۔ اب ہر قضیہ علم نہیں ہو سکتا۔ جس قضیے پر علم کا اطلاق ہوتا ہے وہ ایسا قضیہ ہے جو کلی ہو، وجوبی ہو اور وجودِ خارجی کے حوالے سے صحت کا مصداق ہو۔ مثلاً تمام اِنسان فانی ہیں، یہ قضیہ علم ہے مگر انسان حیوان ناطق ہے، یہ قضیہ علم نہیں کیوں کہ یہ قضیہ، قضیہ تحلیلہ ہے۔ یعنی پہلے سے معلوم بات کی تحلیل اور تجزیہ کر کے اسے دوبارہ بیان کر دیا گیا ہے۔ اس قضیے میں محکوم بہ کو محکوم کے تجزیے سے فراہم کیا جاتا ہے جس کے متوازی خارج میں اس کے مصداق کا وجود ضروری نہیں ہے۔ چوں کہ حیوانِ ناطق ہی کو انسان کہتے ہیں اس لیے انسان کا تجزیہ کر کے اسے حیوانِ ناطق کہنا علم نہیں ہے۔ جیسے یہ کہنا کہ تمام اَجسام متحیز ہیں یعنی تمام اجسام میں موٹائی، لمبائی اور چوڑائی ہوتی ہے۔ اسی موٹائی ، چوڑائی اور لمبائی یعنی تحیز ہی کو جسم کہتے ہیں۔ چنانچہ اَجسام کو متحیز کہہ دینا قضیہ تحلیلہ ہوا، یہ قضیہ علمیہ نہیں کہلائے گا۔ جب کہ ممکن ہے کہ علم ایک طرف ناظر اور دوسری طرف منظور ہو۔ ناظر میں علم کی استعداد ہو اور منظور ایسا ہو جو ناظر کی استعدادِ علم سے جانا جا سکتا ہو۔ ان چاروں شرائط میں سے کوئی ایک شرط بھی پوری نہ ہو تو علم ناممکن ہو گا۔ جیسے ذاتِ باری تعالیٰ کا علم اس لیے ناممکن ہے کہ ہماری کوئی استعداد اس کے ادراک کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔ جس دور میں یہ موقف پیشِ نظر رہا ہے کہ صرف عقل ذریعہ علمِ حقیقت ہے، قضیہ تحلیلہ کو علم سمجھا جاتا رہا ہے، حالاں کہ وہ علم نہیں تھا۔ لہٰذا تمام ورائے محسوسات حقائق کا علم ممکن نہیں۔ ان پر ایمان لایا جا سکتا ہے، مزید یہ کہ ان کے ہونے کا یقین ہو سکتا ہے مگر علم نہیں ہو سکتا۔ جیسے:
الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ. البقره، 2: 3
’’جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔‘‘
اور
وَبِالآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ. البقره، 2: 4
’’اور وہ آخرت پر بھی (کامل) یقین رکھتے ہیںo‘‘
اِسی طرح ایمانِ مجمل اور ایمانِ مفصل دونوں میں بیان ہونے والے حقائق علم کے مصداق نہیں۔ اس لیے انہیں ایمان باللہ اور ایمان بالغیب سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہاں ایک اور بات بھی ذہن نشین رہے کہ مذکورہ بالا چاروں شرائطِ علم کو سمجھنے سے تین مختلف چیزیں سامنے آتی ہیں۔ ایک وہ حقیقت جسے جانا جا رہا ہے، جسے ہم نے منظور کا نام دیا ہے اور جو معلوم کی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسرا وہ قضیہ جو اس منظور کے علم پر مشتمل ہے اور تیسری وہ استعداد جو ادراک کا ذریعہ ہے۔ گویا حقیقت، علم اور ذریعہ علم تینوں چیزیں مختلف ہیں۔ ان میں کوئی التباس نہیں ہونا چاہیے۔ اس امتیاز کے پیشِ نظر غور کریں تو تفسیر، حدیث، فقہ، کلام، تصوف، تاریخِ اسلام، فلسفہ، معاشیات، سیاسیات، طبیعات اور حیاتیات وغیرہ پر علم کا اطلاق ہو گا جب کہ ان کے ذرائع اور موضوعات الگ الگ ہوں گے۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں
غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں محترم قارئینِ کرام : بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ وہابی تو اللہ تعالیٰ کا نام ...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
شانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کی روشنی میں محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْ...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...
No comments:
Post a Comment