Saturday 26 September 2015

نبی اکرم ﷺ کے بے مثال جسم کی بے مثال رنگت

نبی اکرم ﷺ کے بے مثال جسم کی بے مثال رنگت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ مبارک کی رنگت سفید تھی، لیکن یہ دودھ اور چونے جیسی سفیدی نہ تھی بلکہ ملاحت آمیز سفیدی تھی جو سُرخی مائل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اطہر کی رنگت کو چاندی اور گلاب کے حسین امتزاج سے نسبت دی ہے، کسی نے سفید مائل بہ سُرخی کہا ہے اور کسی نے سفید گندم گوں بیان کیا ہے۔

1۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا روایت کرتی ہیں :

کان أنورهم لوناً.

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رنگ روپ کے لحاظ سے تمام لوگوں سے زیادہ پُرنور تھے۔‘‘

بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 300

2۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ جسمِ اطہر کی رنگت کے بارے میں بیان کرتے ہیں :

کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أحسن الناس لوناً.

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رنگت کے اعتبار سے سب لوگوں سے زیادہ حسین تھے۔‘‘

1. ابن عساکر، السيرة النبويه، 1 : 321

2۔ یہی روایت ابن سعد نے ’الطبقات الکبريٰ (1 : 9415)‘ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے۔

3۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے :

کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أزهر اللون.

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ سفید چمکدار تھا۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، 4 : 1815، کتاب الفضائل، رقم : 2330
2. دارمي، السنن، 1 : 45، رقم : 61
3. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 228

4۔ حضرت انس بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت ہے :

و لا بالأبيض الأمهق و ليس بالادم.

1. بخاري، الصحيح، 3 : 1303، کتاب المناقب، رقم : 3355
2. مسلم، الصحيح، 4 : 1824، کتاب الفضائل، رقم : 2347
3. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 592، ابواب المناقب، رقم : 3623
4. ابن حبان، الصحيح، 14 : 298، رقم : 6387
5. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 409، رقم : 9310
6. طبراني، المعجم الصغير، 1 : 205، رقم : 328
7. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 148، رقم : 1412
8. ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 : 413، 418
9. ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 6 : 569، رقم : 3354
10. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 31، رقم : 17
11. طبري، تاريخ، 2 : 221

’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ نہ تو بالکل سفید اور نہ ہی گندمی تھا۔‘‘

5۔ حضرت جریری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو طفیل رضی اللہ عنہ کو جب یہ کہتے سنا :

رأيتُ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و ما علي وجه الأرض رجل رأه غيري.

’’میں نے رسولِ محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی ہے اور آج میرے سوا پوری دنیا میں کوئی ایسا شخص موجود نہیں جسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کا شرف نصیب ہوا ہو۔‘‘

تو میں عرض پرداز ہوا :

فکيف رأيته؟

آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیسا دیکھا؟

تو اُنہوں نے میرے سوال کے جواب میں فرمایا :

کان أبيض مليحا مقصَّدًا.

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ مبارک سفید، جاذبِ نظر اور قد میانہ تھا۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، 4 : 1820، کتاب الفضائل، رقم : 2340
2. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 454
3. بزار، المسند، 7 : 205، رقم : 2775
4. بخاري، الأدب المفرد، 1 : 276، رقم : 790
5. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 417، 418
6. فاکهي، اخبار مکه، 1 : 326، رقم : 664

7۔ امام ترمذی حضرت ابو طفیل رحمۃ اﷲ علیہ ہی سے روایت کرتے ہیں :

کان أبيض مليحا مقصداً.

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ مبارک سفید، جاذب نظر اور قد میانہ تھا۔‘‘

1. ترمذي، الشمائل المحمديه : 26
2. خطيب بغدادي، الکفايه في علم الروايه، 1 : 137

8۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أبيض مُشرباً بِحُمْرة.

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ سفیدی اور سُرخی کا حسین امتزاج تھا۔‘‘

1. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 116، رقم : 944
2. ابن عبدالبر، التمهيد، 3 : 8
3. ابن حبان، الثقات، 7 : 448، رقم : 10865
4. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 419
5. مناوي، فيض القدير، 5 : 70
6. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 23
7. امام صالحي، سُبل الهدي والرشاد، 2 : 10

9۔ حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

کان أبيض تعلوه حمرة.

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ سفیدی اور سُرخی کا حسین مرقع تھا۔‘‘

1. روياني، مسند الروياني، 2 : 318، رقم : 1280
2. طبراني، المعجم الکبير، 10 : 183، رقم : 10397
3. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 416
4. ابن عساکر، السيرة النبويه، 1 : 323

10۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

کان لونُ رسولِ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أسمر.

’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رنگت (کی سفیدی) گندم گوں تھی۔‘‘

1. ابن حبان، الصحيح، 14 : 197، رقم : 2686
2. مقدسي، الأحاديث المختاره، 5 : 309، رقم : 1955
3. هيثمي، موارد الظمآن، 1 : 521، رقم : 2115
4. ابن جوزي، الوفا : 410

11۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

أبيض کأنّما صيغ مِن فضّة.

1. ترمذي، الشمائل المحمديه : 25، رقم : 11
2. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 22

’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفید رنگت والے تھے گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم مبارک چاندی سے ڈھالا گیا ہو۔‘‘

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں :

اما لونِ آنحضرت روشن و تاباں بود و اتفاق دارند جمہور اصحاب بربیاض لونِ آں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، و وصف کردند او را بابیض و بعضے گفتند کان ابیض ملیحا و در روایتے ابیض ملیح الوجہ و ایں احتمال داردکہ مراد وصف کہ بیاض و ملاحت و صفت زائدہ برائے بیان حسن و جمال و لذت بخشی و دلربائی دیدار جان افزای ویا باشد.

عبدالحق محدث دهلوي، مدارج النبوه، 1 : 26

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک رنگ خوب روشن اور چمکدار تھا۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اس پر متفق ہیں کہ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ سفید تھا، اسی چیز کو احادیثِ نبوی میں لفظ ’’ابیض‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے اور بعض روایات میں ’’کان ابیض ملیحا‘‘ اور بعض روایات میں ’’ابیض ملیح الوجہ‘‘جیسے الفاظ بھی ملتے ہیں۔ ان سے مراد بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رنگ کی سفیدی بیان کرنا مقصود ہے، باقی ملاحت کا ذکر بطور صفتِ زائدہ ہے اور اس لئے اس کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے جو لذت اور تسکینِ روح و جاں حاصل ہوتی ہے، اس پر دلالت کرے۔‘‘

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حُسن و جمال بے مثال تھا۔ جسمِ اطہر کی رنگت، نور کی کرنوں کی رِم جھم اور شفق کی جاذبِ نظر سُرخی کا حسین امتزاج تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حُسن و جمال کو کائنات کی کسی مخلوق سے بھی تشبیہ نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی الفاظ میں جلوہ ہائے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نقشہ کھینچا جا سکتا ہے، اس لئے کہ ہر لفظ اور ہر حرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ اقدس سے فروتر ہے۔ یہاں جذبات واحساسات کی بیساکھیاں بھی ٹوٹ جاتی ہیں۔
روایات میں تطبیق

امام عبدالروف مناوی رحمۃ اﷲ علیہ ان تمام روایات کو بیان فرمانے کے بعد رقمطراز ہیں :

فثبت بمجموع هذه الروايات أن المراد بالسمرة حمرة تخالط البياض، و بالبياض المثبت ما يخالط الحمرة، و أما وصف لونه في أخبار بشدة البياض فمحمول علي البريق و اللمعان کما يشير إليه حديث کأن الشمس تحرک في وجهه.

’’ان تمام روایات سے ثابت ہوا کہ جن میں لفظ سمرہ کا ذکر ہے، وہاں اس سے مراد وہ سُرخ رنگ ہے جس کے ساتھ سفیدی کی آمیزش ہو، اور جن میں سفیدی کا ذکر ہے اس سے مُراد وہ سفید رنگ ہے جس میں سُرخی ہو اور بعض روایات میں جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک رنگ کو بہت زیادہ سفید بیان کیا گیا ہے، اس سے مراد اس کی چمک دمک ہے، جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور میں آفتاب محوِ خرام رہتا ہے۔‘‘

مناوي، حاشيه برجمع الوسائل، 1 : 13

ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ ’جمع الوسائل‘ میں امام عسقلانی رحمۃ اﷲ علیہ کے حوالے سے بیان فرماتے ہیں :

قال العسقلاني : تبين من مجموع الروايات أنّ المراد بالبياض المنفي ما لا يخالطه الحمرة، و المراد بالسمرة الحمرة التي يخالطها البياض.

’’امام عسقلانی نے فرمایا : ان تمام روایات سے واضح ہوتا ہے کہ صرف سفیدی سے مراد وہ سفید رنگت ہے جس میں سرخی کی آمیزش نہ ہو اور ’’سمرہ‘‘ سے مراد وہ سرخ رنگ ہے جس کے ساتھ سفیدی کی آمیزش ہو۔‘‘ ملا علي قاري، جمع الوسائل، 1 : 13

2 comments:

  1. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete

  2. 30 October 2020 at 05:11
    # 1
    SHAFIQ SAEED :
    ڈاکٹر فیض احمد چشتی صاحب کیا بات درست ہے کہ آقا کریم ﷺکے چہرۂ انور کے چار رنگ تھے ، پہلا جسم مبارک کا زاتی رنگ ، 2-اللہ کے نور کا رنگ ، 3-انبیاء کرام کا رنگ -چوتھا یاد نہیں آرہا،اگر یہ بات درست ہے تو اس کا حوالہ بھی ضرور بتا دیجیئے جزاک الل

    ReplyDelete

غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں

غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں محترم قارئینِ کرام : بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ وہابی تو اللہ تعالیٰ کا نام ...