Saturday, 26 September 2015

کائناتِ حُسن کا ہر ہر ذرّہ دہلیزِ مصطفیٰ ﷺ کا ادنیٰ سا بھکاری ہے

 کائناتِ حُسن کا ہر ہر ذرّہ دہلیزِ مصطفیٰ ﷺ کا ادنیٰ سا بھکاری ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات حسن و کمال کا سرچشمہ ہے۔ کائناتِ حُسن کا ہر ہر ذرّہ دہلیزِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادنیٰ سا بھکاری ہے۔ چمنِ دہر کی تمام رعنائیاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے دم قدم سے ہیں۔ ربِ کریم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہ جمالِ بے مثال عطا فرمایا کہ اگر اُس کا ظہورِ کامل ہو جاتا تو اِنسانی آنکھ اُس کے جلووں کی تاب نہ لا سکتی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمالِ حسن و جمال کو نہایت ہی خوبصورت اَنداز میں بیان کیا ہے۔

1۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

رأيتُ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في ليلة إضحيان، فجعلت أنظر إلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و إلي القمر، و عليه حلة حمراء، فإذا هو عندي أحسن من القمر.

’’ایک رات چاند پورے جوبن پر تھا اور اِدھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تشریف فرما تھے۔ اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرخ دھاری دار چادر میں ملبوس تھے۔ اُس رات کبھی میں رسول اللہا کے حسنِ طلعت پر نظر ڈالتا تھا اور کبھی چمکتے ہوئے چاند پر، پس میرے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاند سے کہیں زیادہ حسین لگ رہے تھے۔‘‘

1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 118، ابواب الأدب، رقم : 2811
2. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 39، رقم : 10
3. دارمي، السنن، 1 : 44، مقدمه، رقم : 57
4. ابو يعلي، المسند، 13 : 464، رقم : 7477
5. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 196
6. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 150، رقم : 1417
7. ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 167

2۔ حضرت براء بن عازب صفرماتے ہیں :

ما رأيتُ من ذي لمة أحسن في حلّة حمراء من رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم .

’’میں نے کوئی زلفوں والا شخص سرخ جوڑا پہنے ہوئے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ حسین نہیں دیکھا۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، 4 : 1818، کتاب الفضائل، رقم : 2337
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 219، ابواب اللباس، رقم : 1724
3. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 598، ابواب المناقب، رقم : 3635
4. ابو داؤد، السنن، 4 : 81، کتاب الترجل، رقم : 4183
5. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 31، رقم : 4
6. دارمي، السنن، 1 : 33
7. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 300
8. ابن عساکر، السيرة النبويه، 2 : 160
9. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 412، رقم : 9325
10. نسائي، السنن، 8 : 183، کتاب الزينه، رقم : 5233
11. ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 : 450
12. ابن قدامه، المغني، 1 : 341
13. شوکاني، نيل الاوطار، 1 : 151

3۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے کسی شخص نے پوچھا :

أکان وجه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم مثل السيف؟

’’کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ مبارک تلوار کی مثل تھا؟ ‘‘

تو اُنہوں نے کہا :

لا، بل مثل القمر.

’’نہیں‘‘، بلکہ مثلِ ماہتاب تھا۔‘‘

1. ترمذي، الشمائل المحمديه : 2، باب ما جاء في خلق رسول اﷲ
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 598، أبواب المناقب، رقم : 3636
3. بخاري، الصحيح، 3 : 1304، کتاب المناقب، رقم : 3359
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 281
5. ابن حبان، الصحيح، 14 : 198، رقم : 6287
6. دارمي، السنن، 1 : 45، رقم : 64
7. ابو يعليٰ، المسند، 13 : 451، رقم : 7456
8. روياني، المسند، 1 : 225، رقم : 310
9. ابن الجعد، المسند، 1 : 375، رقم : 2572
10. بخاري، التاريخ الکبير، 1 : 10
11. ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 : 417
12. ابن کثير، البدايه و النهايه، 4 : 381
13. ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 6 : 573، رقم : 3359
14. ابو علا مبارک پوري، تحفة الاحوذي، 10 : 80

4۔ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اﷲ عنہا مکہ مکرمہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعداز وِلادت پہلی زیارت کے تاثرات بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں :

فأشفقتُ أن أوقظه من نومه لحسنه و جماله، فدنوتُ منه رويداً، فوضعتُ يدي علي صدره فتبسّم ضاحکاً، ففتح عينيه ينظر إليّ، فخرج من عينيه نورٌ حتي دخل خلال السماء.

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے حسن و جمال کی وجہ سے میں نے جگانا مناسب نہ سمجھا پس میں آہستہ سے ان کے قریب ہو گئی۔ میں نے اپنا ہاتھ ان کے سینہ مبارک پر رکھا پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرا کر ہنس پڑے اور آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھنے لگے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں سے ایک نور نکلا جو آسمان کی بلندیوں میں پھیل گیا۔‘‘

نبهانی، الانوار المحمديه : 29

5۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ دلرُبا کو چاندی سے ڈھال کر بنائی گئی دِیدہ زیب اشیاء سے تشبیہ دیتے ہوئے حضرت انس اور حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں :

کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کأنّما صِيغَ من فضة.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (مجموعی جسمانی حسن کے لحاظ سے) یوں معلوم ہوتے تھے گویا چاندی سے ڈھالے گئے ہیں۔‘‘

1. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 241
2. ابن جوزي، الوفاء : 412
3. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 10 : 297، رقم : 5437
4. ابن کثير، البدايه والنهايه، 6 : 19
5. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 22
6. مناوي، فيض القدير، 5 : 69

3۔ کسی آنکھ میں مشاہدۂ حسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاب نہ تھی

ربِ کائنات نے وہ آنکھ تخلیق ہی نہیں کی جو تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کا مکمل طور پر مشاہدہ کر سکے۔ اَنوارِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس لئے پردوں میں رکھا گیا کہ اِنسانی آنکھ جمالِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاب ہی نہیں لا سکتی۔ اللہ ربّ العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حقیقی حسن و جمال مخلوق سے مخفی رکھا۔

1۔ اِمام زرقانی نے اپنی کتاب میں امام قرطبی رحمۃ اﷲ علیہ کا یہ ایمان افروز قول نقل کیا ہے :

لم يظهر لنا تمام حسنه صلي الله عليه وآله وسلم، لأنّه لو ظهر لنا تمام حسنه لما أطاقت أعيننا رؤيته صلي الله عليه وآله وسلم.

’’حضور کا حسن و جمال مکمل طور پر ہم پر ظاہر نہیں کیا گیا اور اگر آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تمام حسن و جمال ہم پر ظاہر کر دیا جاتا تو ہماری آنکھیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوؤں کا نظارہ کرنے سے قاصر رہتیں۔‘‘

زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 5 : 241

2۔ قولِ مذکور کے حوالے سے اِمام نبہانی رحمۃ اﷲ علیہ حافظ اِبن حجر ہیتمی رحمۃ اﷲ علیہ کا قول نقل کرتے ہیں :

وَ ما أحسن قول بعضهم : لم يظهر لنا تمام حسنه صلي الله عليه وآله وسلم .

’’بعض ائمہ کا یہ کہنا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تمام حسن و جمال ہم (یعنی مخلوق) پر ظاہر نہیں کیا گیا نہایت ہی حسین و جمیل قول ہے۔‘‘

نبهاني، جواهر البحار، 2 : 101

1۔ نبی بے مثال صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کا ذکرِ جمیل حضرت عَمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اِن اَلفاظ میں کرتے ہیں :

وَ ما کان أحد أحبّ إليّ مِن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و لا أجل في عيني منه، و ما کنت أطيق أن أملأ عيني منه إجلالا له و لو سئلت أن أصفه ما أطقت لأني لم أکن أملأ عيني منه.

’’میرے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کوئی شخص محبوب نہ تھا اور نہ ہی میری نگاہوں میں کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حسین تر تھا، میں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس چہرہ کو اُس کے جلال و جمال کی وجہ سے جی بھر کر دیکھنے کی تاب نہ رکھتا تھا۔ اگر کوئی مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محامد و محاسن بیان کرنے کے لئے کہتا تو میں کیونکر ایسا کرسکتا تھا کیونکہ (حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ جہاں آرا کی چمک دمک کی وجہ سے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آنکھ بھر کر دیکھنا میرے لئے ممکن نہ تھا۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، 1 : 112، کتاب الإيمان، رقم : 121
2. ابو عوانه، المسند، 1 : 70، 71، رقم : 200
3. ابراهيم بن محمد الحسيني، البيان والتعريف، 1 : 157، رقم : 418
4. ابن سعد، الطبقات الکبري، 4 : 259
5. ابو نعيم، المسند المستخرج علي صحيح الامام مسلم، 1 : 190، رقم : 315
6. قاضي عياض، الشفاء، 2 : 30

2۔ اِنسانی آنکھ کی بے بسی کا یہ عالم تھا کہ شاعرِ رسول حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ جو اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بیکس پناہ میں درُودوں کے گجرے اور سلاموں کی ڈالیاں پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے تھے وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رُوئے منوّر دیکھ کر اپنی آنکھیں ہتھیلیوں سے ڈھانپ لیا کرتے تھے، وہ خود فرماتے ہیں :

لما نظرتُ إلي أنواره صلي الله عليه وآله وسلم وضعتُ کفي علي عيني خوفاً من ذهاب بصري.

’’میں نے جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَنوار و تجلیات کا مُشاہدہ کیا تو اپنی ہتھیلی اپنی آنکھوں پر رکھ لی، اِس لئے کہ (رُوئے منوّر کی تابانیوں سے) کہیں میں بینائی سے ہی محروم نہ ہو جاؤں۔‘‘

(1) نبهاني، جوهر البحار، 2 : 450

حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمالِ حسن کو بڑے ہی دِلپذیر انداز میں بیان کیا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

وَ أَحْسَنُ مِنْکَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَيْنِيْ
وَ أَجْمَلُ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَاءُ
خُلِقْتَ مُبَرَّأً مِّنْ کُلِّ عَيْبٍ
کَأَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَاءُ

(آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حسین تر میری آنکھ نے کبھی دیکھا ہی نہیں اور نہ کبھی کسی ماں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جمیل تر کو جنم ہی دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تخلیق بے عیب (ہر نقص سے پاک) ہے، (یوں دِکھائی دیتا ہے) جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ربّ نے آپ کی خواہش کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت بنائی ہے۔)

حسان بن ثابت، ديوان : 21

5۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :

آنحضرت بتمام از فرق تا قدم ہمہ نور بود، کہ دیدۂ حیرت درجمالِ با کمالِ وی خیرہ میشد مثل ماہ و آفتاب تاباں و روشن بود، و اگر نہ نقاب بشریت پوشیدہ بودی ہیچ کس را مجال نظر و اِدراکِ حسنِ اُو ممکن نبودی.

’’حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرِ انور سے لے کر قدمِ پاک تک نور ہی نور تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حُسن و جمال کا نظارہ کرنے والے کی آنکھیں چندھیا جاتیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسمِ اَطہر چاند اور سورج کی طرح منوّر و تاباں تھا۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوہ ہائے حسن لباس بشری میں مستور نہ ہوتے تو رُوئے منوّر کی طرف آنکھ بھر کر دیکھنا ناممکن ہو جاتا۔‘‘

محدث دهلوي، مدارج النبوة، 1 : 137

6۔ ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ علماءِ محققین کے حوالے سے فرماتے ہیں :

أنَّ جمال نبينا صلي الله عليه وآله وسلم کان في غاية الکمال... لکن اﷲ سترعن أصحابه کثيرًا من ذالک الجمال الزاهر و الکمال البهر، إذ لو برز إليهم لصعب النظر إليه عليهم.

’’ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسن و جمالِ اَوجِ کمال پر تھا۔۔۔ لیکن ربِ کائنات نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جمال کو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پر مخفی رکھا، اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جمال پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ افروز ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روئے تاباں کی طرف آنکھ اُٹھانا بھی مشکل ہو جاتا۔‘‘

ملا علي قاري، جمع الوسائل، 2 : 9

7۔ ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ ایک دُوسرے مقام پر ’قصیدہ بُردہ شریف‘ کی شرح میں لکھتے ہیں :

أنه إذا ذکر علي ميت حقيقي صارحياً حاضراً، و إذا ذکر علٰي کافر و غافل جعل مؤمنا و هول ذاکرًا لکن اﷲ تعاليٰ ستر جمال هذا الدر المکنون و کمال هذا الجوهر المصون لحکمة بالغة و نکتة سابقة و لعلها ليکون الايمان غيبيًّا و الأمور تکليفيًّا لا لشهود عينيا و العيان بديهيا أولئلا يصيرمزلقة لأقدام العوام و مزلة لتضر الجمال بمعرفة الملک العلاّم.

’’اگر خدائے رحیم و کریم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسمِ مبارک کی حقیقی برکات کو آج بھی ظاہر کردے تو اُس کی برکت سے مُردہ زندہ ہوجائے، کافر کے کفر کی تاریکیاں دُور ہوجائیں اور غافل دل ذکرِ الٰہی میں مصروف ہوجائے لیکن ربِ کائنات نے اپنی حکمتِ کاملہ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِس اَنمول جوہر کے جمال پر پردہ ڈال دیا ہے، شاید ربِ کائنات کی یہ حکمت ہے کہ معاملات کے برعکس اِیمان بالغیب پردہ کی صورت میں ہی ممکن ہے اور مشاہدۂ حقیقت اُس کے منافی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کو مکمل طور پر اِس لئے بھی ظاہر نہیں کیا گیا کہ کہیں ناسمجھ لوگ غلُوّ کا شکار ہوکر معرفتِ اِلٰہی سے ہی غافل نہ ہو جائیں۔‘‘

ملا علي قاري، الزبدة في شرح البردة : 60

8۔ شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے والدِ ماجد شاہ عبدالرحیم رحمۃ اﷲ علیہ کو خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی تو اُنہوں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! زنانِ مصر نے حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھ کر اپنے ہاتھ کاٹ لئے اور بعض لوگ اُنہیں دیکھ کر بیہوش بھی ہو جاتے تھے، لیکن کیا سبب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر ایسی کیفیات طاری نہیں ہوتیں۔ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’میرے اللہ نے غیرت کی وجہ سے میرا جمال لوگوں سے مخفی رکھا ہے، اگر وہ کما حقہ آشکار ہو جاتا تو لوگوں پر محوِیت وبے خودی کا عالم اِس سے کہیں بڑھ کر طاری ہوتا جو حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھ کر ہوا کرتا تھا۔‘‘

شه ولي الله، الدرّ الثمين : 39

9۔ اِمام محمد مہدی الفاسی رحمۃ اﷲ علیہ نے الشیخ ابو محمد عبدالجلیل القصری رحمۃ اﷲ علیہ کا قول نقل کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں :

و حسن يوسف عليه السلام وغيره جزء من حسنه، لأنه علي صورة اسمه خلق، و لو لا أن اﷲ تبارک و تعاليٰ ستر جمال صورة محمد صلي الله عليه وآله وسلم بالهيبة و الوقار، و أعميٰ عنه آخرين لما استطاع أحد النظر إليه بهذه الأبصار الدنياوية الضعيفة.

’’حضرت یوسف علیہ السلام اور دیگر حسینانِ عالم کا حسن و جمال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کے مقابلے میں محض ایک جز کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسم مبارک کی صورت پر پیدا کئے گئے ہیں۔ اگر اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن کو ہیبت اور وقار کے پردوں سے نہ ڈھانپا ہوتا اور کفار و مشرکین کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے اندھا نہ کیا گیا ہوتا تو کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ان دنیاوی اور کمزور آنکھوں سے نہ دیکھ سکتا۔‘‘

محمد مهدي الفاسي، مطالع المسّرات : 394

10۔ مولانا اشرف علی تھانوی شیم الحبیب کے حوالے سے اِس بات کی تائید یوں کرتے ہیں :

أقول : و أمَّا عَدَمُ تعشُّقِ العوام عليه کما کان علي يوسف عليه السلام فلغيرة اﷲ تعاليٰ حتي لم يظهر جماله کما هو علي غيره، کما أنه لم يظهر جمال يوسف کما هو إلا علي يعقوب أو زليخا.

’’میں کہتا ہوں کہ (باوُجود ایسے حسن و جمال کے) عام لوگوں کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اُس طور پر عاشق نہ ہونا جیسا حضرت یوسف علیہ السلام پر عاشق ہوا کرتے تھے بسبب غیرتِ الٰہی کے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جمال جیسا تھا غیروں پر ظاہر نہیں کیا، جیسا خود حضرت یوسف علیہ السلام کا جمال بھی جس درجہ کا تھا وہ بجز حضرت یعقوب علیہ السلام یا زلیخا کے اوروں پر ظاہر نہیں کیا۔‘‘

(2) اشرف علي تهانوي، نشر الطيب : 217

بقول شاعر :

خدا کی غیرت نے ڈال رکھے ہیں تجھ پہ ستر ہزار پردے
جہاں میں لاکھوں ہی طور بنتے جو اِک بھی اُٹھتا حجاب تیرا

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...