Thursday 24 September 2015

قرآن مجید کی روشنی میں یاد منانے کی اَہمیت

0 comments
قرآن مجید کی روشنی میں یاد منانے کی اَہمیت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
قرآن حکیم نے انسان کو جو نظامِ ہدایت عطا کیا ہے اُس کے قیام و استحکام کی بنیاد بھی اسی یاد پر رکھی گئی ہے۔ چنانچہ وہ انسان جو اﷲ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لے آتا ہے وہ ہدایتِ الٰہی کے ماضی اور مستقبل پر بھی ایمان لاتا ہے۔ قرآن حکیم فرماتا ہے :

وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَO

’’اور وہ لوگ جو آپ کی طرف نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا (سب) پر ایمان لاتے ہیں، اور وہ آخرت پر بھی (کامل) یقین رکھتے ہیں o‘‘ البقرة، 2 : 4

یہاں ’’آپ سے پہلے نازل کی گئی‘‘ کتابوں پر ایمان ’’یاد‘‘ کی بنیاد پر ایمان کا جزو لاینفک بن گیا ہے جب کہ مومن کا باقی زندگی میں اُسی ہدایت کو ’’یاد رکھتے ہوئے‘‘ اور ہر قدم اس کی اتباع اور پیروی کرتے ہوئے گزارنا تکمیلِ ایمان کے لیے لازم ہے۔

اِنسان اِنتخابِ عمل کے دوراہے پر کھڑا ہے، جب وہ کسی عمل کا اِرادہ کرتا ہے تو جو کچھ اسے یاد ہوگا اسی کے مطابق اس سے عمل سرزد ہوگا۔ یہاں ایک لطیف نکتہ یہ بھی سمجھنے والا ہے کہ دل کی کیفیات یا قلبی اَعمال جنہیں ہم محبت، خشیت، عجز و نیاز اور تسلیم و رضا کے الفاظ استعمال کر کے ان کا تصور قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ’’یاد‘‘ یا ’’یادوں‘‘ سے منسلک ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ جذبات ہیں مگر خیالات کے تحرک کے بغیر وجود میں نہیں آتے۔ اس کے لیے اللہ رب العزت نے انسان کو یاد کی نعمت عطا کر رکھی ہے۔ جب کفار و مشرکین کو دعوتِ ایمان دی جاتی تو ہمیشہ جواب میں یہی کہتے کہ ہم اُس مسلک پر چلنا چاہتے ہیں جو ہمارے آباء و اَجداد اور اَسلاف سے نسلاً بعد نسلٍ چلا آ رہا ہے۔ یعنی وہ ماضی کی ’’یاد‘‘ سے اِنقطاع پر تیار نہ ہوتے تھے۔ اس پر انہیں یاد دلایا جاتا کہ تمہارے باپ دادا کا راستہ منزل تک نہیں جاتا، وہ بھی غلط راستے پر چل رہے تھے اور وہ اپنے باپ دادا کا ذکر کرتے تھے۔ ان کے پاس بھی پیغامِ ہدایت آیا لیکن انہوں نے اﷲ اور اس کے رسول کی تکذیب کی اور برباد ہوگئے۔ قرآن حکیم میں ہے :

فَأَنجَيْنَاهُ وَالَّذِينَ مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَقَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِينَ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا وَمَا كَانُواْ مُؤْمِنِينَ O الأعراف، 7 : 72

’’پھر ہم نے ان کو اور جو لوگ ان کے ساتھ تھے اپنی رحمت کے باعث نجات بخشی اور ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا اور وہ ایمان لانے والے نہ تھےo‘‘

یہاں کفار و مشرکین کو ’’یاد دلایا‘‘ جا رہا ہے کہ تمہارے اَسلاف نے غلط راستہ اختیار کیا اور برباد ہوگئے۔ لہٰذا وہ راستہ اپناؤ جس کی طرف تمہارے اسلاف کو بھی دعوت دی گئی تھی۔ مسلمانوں پر بھی لازم قرار دیا گیا کہ سابقہ انبیاء و رسل جو پیغامِ الٰہی لے کر تشریف لائے وہ یہی پیغام ہے جو قرآن میں ہے۔ لہٰذا پہلی کتابوں پر ایمان لانا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا قرآن حکیم پر ایمان لانا ضروری ہے۔
ملتِ اِبراہیمی

’’سابقہ انبیاء کرام کی یاد منانا‘‘ اور ان کی نبوت و رسالت کا اِقرار کرنا بھی ہمارے ایمان کا لازمی جزو ہے۔ چنانچہ اسلام کو قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر ’’ملتِ ابراہیمی‘‘ کہا گیا ہے :

1. وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلاَّ مَن سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ O البقرة، 2 : 130

’’اور کون ہے جو ابراہیم (علیہ السلام) کے دین سے رُوگرداں ہو سوائے اُس کے جس نے خود کو مبتلائے حماقت کر رکھا ہو، اور بیشک ہم نے انہیں ضرور دنیا میں (بھی) منتخب فرما لیا تھا، اور یقیناً وہ آخرت میں (بھی) بلند رتبہ مقرّبین میں ہوں گےo‘‘

2. وَقَالُواْ كُونُواْ هُودًا أَوْ نَصَارَى تَهْتَدُواْ قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ O البقرة، 2 : 135

’’اور (اہلِ کتاب) کہتے ہیں : یہودی یا نصرانی ہو جاؤ ہدایت پا جاؤ گے، آپ فرما دیں کہ (نہیں) بلکہ ہم تو (اس) ابراہیم (علیہ السلام) کا دین اختیار کیے ہوئے ہیں جو ہر باطل سے جدا صرف اللہ کی طرف متوجہ تھے، اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھےo‘‘

3. قُلْ صَدَقَ اللّهُ فَاتَّبِعُواْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَO

’’فرما دیں کہ اللہ نے سچ فرمایا ہے، سو تم ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کی پیروی کرو جو ہر باطل سے منہ موڑ کر صرف اللہ کے ہو گئے تھے، اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھے o‘‘آل عمران، 3 : 95

4. وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ واتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَاتَّخَذَ اللّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلاً O  النساء، 4 : 125

’’اور دینی اعتبار سے اُس شخص سے بہتر کون ہو سکتا ہے جس نے اپنا رُوئے نیاز اللہ کے لیے جھکا دیا اور وہ صاحبِ احسان بھی ہوا، اور وہ دینِ ابراہیم (علیہ السلام) کی پیروی کرتا رہا جو (اللہ کے لیے) یک سُو (اور) راست رَو تھے، اور اللہ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا مخلص دوست بنا لیا تھا (سو وہ شخص بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسبت سے اللہ کا دوست ہوگیا)o‘‘

5. قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِّلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ O الأنعام، 6 : 161

’’فرما دیجئے : بے شک مجھے میرے رب نے سیدھے راستے کی ہدایت فرما دی ہے، (یہ) مضبوط دین (کی راہ ہے اور یہی) اﷲ کی طرف یک سُو اور ہر باطل سے جدا ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت ہے، اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھےo‘‘

6. ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَO

’’پھر (اے حبیبِ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی کہ آپ ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کی پیروی کریں جو ہر باطل سے جد اتھے، اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھےo النحل، 16 : 123

7. وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلَاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُO

’’اور اﷲ (کی محبت و طاعت اور اس کے دین کی اشاعت و اقامت) میں جہاد کرو جیسا کہ اس کے جہاد کا حق ہے۔ اس نے تمہیں منتخب فرما لیا ہے اور اس نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔ (یہی) تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کا دین ہے۔ اس (اﷲ) نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے، اس سے پہلے (کی کتابوں میں) بھی اور اس (قرآن) میں بھی تاکہ یہ رسولِ (آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر گواہ ہو جائیں اور تم بنی نوع انسان پر گواہ ہو جاؤ، پس (اس مرتبہ پر فائز رہنے کے لیے) تم نماز قائم کیا کرو اور زکوٰۃ ادا کیا کرو اور اﷲ (کے دامن) کو مضبوطی سے تھامے رکھو، وہی تمہارا مددگار (و کارساز) ہے، پس وہ کتنا اچھا کارساز (ہے) اور کتنا اچھا مددگار ہےo‘‘الحج، 22 : 78

ان جملہ آیات میں ملتِ اِبراہیمی کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام قید خانہ میں دو قیدیوں کے خوابوں کی تعبیر فرمانے سے پہلے اپنے دین کی تبلیغ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَآئِـي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ. يوسف، 12 : 38

’’اور میں نے تو اپنے باپ دادا، ابراہیم اور اسحق اور یعقوب (علیہم السلام) کے دین کی پیروی کر رکھی ہے۔‘‘

اِن آیات میں سابقہ اَنبیاء کی یاد کو دین کی بنیاد بنایا جا رہا ہے، یعنی اَنبیائے سابقہ اور ان کی اُمتوں کے حالات کو یاد رکھتے ہوئے اَنبیاء کی سنت کی پیروی کرنا بھی سنتِ انبیاء ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :

إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَى نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ. النساء، 4 : 163

’’(اے حبیب!) بے شک ہم نے آپ کی طرف (اُسی طرح) وحی بھیجی ہے جیسے ہم نے نوح (علیہ السلام) کی طرف اور ان کے بعد (دوسرے) پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی۔‘‘

سابقہ اُمتوں اور حضور ختمی مرتبت سے پہلے تشریف لانے والے انبیاء کرام کے احوال اور دین ابراہیم کے حوالے سے حاصل ہونے والا علم اہلِ ایمان کے قلوب و اَذہان میں یاد کی صورت میں منور ہو کر قدم قدم پر ہمارے لیے ہدایت کی روشنی مہیا کرتا ہے۔

یاد کا مضمون انتہائی وسیع ہے اور ۔ انسانی زندگی کی اس بنیادی خوبی کو موثر طریقے سے استعمال میں لانے کے لیے قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر اس مضمون کا ذکر آیا ہے۔ یہاں موضوع سے متعلقہ نکات ذہن نشین کرنے کے لیے اتنا کافی ہے کہ ہم ’’یاد‘‘ کے لیے قرآن حکیم میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان کا مطالعہ کریں۔ اس حوالہ سے ’’ذکر‘‘ کا لفظ قرآن حکیم میں کم و بیش 267 مرتبہ اِستعمال ہوا ہے۔ اس کا مطلب ہے : یاد کرلینا، یاد دلانا، محفوظ کرلینا۔ عبرت اور نصیحت کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے جب کہ قرآن مجید کو بھی ’’ذکر‘‘ کہا گیا ہے۔ قرآن حکیم میں بعض مقامات پر ذکر کے مقابلے میں ’’نسیان‘‘ کا لفظ آیا ہے جس کا مطلب ہے : بھول جانا، بھلا دینا، یا غیر اہم سمجھ کر ترک کر دینا، چھوڑ دینا۔

1. فراهيدي، کتاب العين، 7 : 304، 305
2. ابن منظور، لسان العرب، 15 : 322، 323
3. فيروزآبادي، القاموس المحيط، 4 : 398

اﷲ تعالیٰ نے انسانوں کی راہنمائی کے لیے جو تعلیم نازل فرمائی وہ اصولی طور پر اول تا آخر ایک ہی تھی، لیکن انسانی تحریف و تبدل کی وجہ سے وہ اپنی اصل شکل میں نہ رہی۔ قرآن اس فراموش کردہ تعلیمِ ربانی کی یاد دہانی کراتا ہے تاکہ انسان کی توجہ ان کی طرف مبذول ہوجائے۔ قرآن مجید کے اندر جو احکامات بیان ہوئے ہیں انہیں بھی وہ مختلف پہلوؤں سے سامنے لاکر ایک مقام کی دوسرے مقام پر یاددہانی کراتا ہے۔ اس طرح بار بار یاددہانی سے انسان کے دل میں ان قوانین کی اہمیت اور عظمت کا احساس پیدا کرتا ہے تاکہ انسان ان کی پابندی کی طرف توجہ دے ۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔