Sunday 27 September 2015

مذہبی علوم اور اُن کے اِصلاح طلب پہلو

0 comments
مذہبی علوم اور اُن کے اِصلاح طلب پہلو
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
1۔ علمِ تفسیر

یہ اِس سلسلے کا پہلا علم ہے۔ اس کا موضوع قرآن حکیم ہے جو یقینا تفسیر سے متمیز ہے۔ کیوں کہ قرآن وہ حقیقت ہے جس کے علم کا نام تفسیر ہے، یعنی قرآن نص ہے اور تفسیر اس کی تعبیر، جس کا مسئلہ یہ ہے کہ قرآن کیا ہے؟

2۔ علمِ حدیث

اِس کا موضوع سنتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ جس کا مسئلہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول و عمل کیا تھا؟

3۔ علمِ فقہ

اِس کا موضوع انسانی زندگی سے متعلق اوامر و نواہی ہیں۔ جس کا مسئلہ یہ ہے کہ کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے؟ کتبِ حدیث اور بالخصوص کتبِ سنن کے اُسلوبِ تبویب کو دیکھنے سے واضح ہوتا ہے کہ مجموعی طور پر علمِ حدیث کی تدوین کا اصل محرک بھی فقہ ہی تھا۔ گویا انسانی زندگی کو منظم کرنے والا ضابطہ اور اس کی اصل سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کرنے کے لیے اَحادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جمع اور مرتب کیا گیا۔

4۔ علمِ کلام

اس کا موضوع عقائد ہیں۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ عقائد کی عقلی اساس کیا ہے؟ اس کا وظیفہ (function) عقائدِ صحیحہ کی تائید اور عقائدِ باطلہ کی تردید میں اِستدلال فراہم کرنا ہے۔

5۔ تصوف

اِس کا موضوع طریقت ہے۔ جس کا مسئلہ یہ ہے کہ اَحکامِ فقہ کی بجا آوری میں اخلاص کیسے پیدا ہو گا؟

6۔ تاریخ

تاریخِ اسلام کا موضوع دو اَدوار کے بیان پر مشتمل ہے: دورِ رسالت اور دورِ مابعد رسالت۔ بحیثیت علم کے تاریخ کا مسئلہ اُمت کے عروج و زوال کے اَسباب کی جستجو ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ اِنسانی اِستعداد کے یہ زائیدہ مذہبی علوم زندگی میں نتائج پیدا کرنے میں مؤثر نہیں رہے۔ حتی کہ اِسلام کے عقیدہ و عمل کا کوئی اثر ہماری حیاتِ اجتماعی پر باقی نہیں رہا۔ عقائد اَوہام میں اور عبادات رسوم و ظواہر میں بدل کر رہ گئی ہیں۔ ان کا علاقہ عملی زندگی سے یکسر منقطع ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی مذہبی اور غیر مذہبی (religious and secular) کے دو شعبوں میں تقسیم ہو گئی ہے اور اس کی ثنویت و غیریت کو کسی سطح پر ختم نہیں کیا جا سکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سب کے سب علوم اس سوال کا جواب ہیں کہ یہ کیا ہے؟

علم کا ایک تقاضا ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔ اِس تقاضے کے غالب آنے کی وجہ سے علم بالوحی اِنسانی اِستعداد کے زائیدہ علم کے نمونے پر ڈھل گیا اور علم کا ایک ویسا ہی شدید مطالبہ ہم آہنگی کے تقاضے کے تحت نظر انداز کر دیا گیا جو یہ تھا کہ مماثل فضائل کے درمیان امتیازات کو ملحوظ رکھا جائے۔ اس تقاضے کے نظر انداز ہو جانے سے علم بالوحی کے اِس مسئلے کی نوعیت سے صرفِ نظر ہو گیا کہ زندگی پسندیدہ نمونے پر ڈھلے کیسے؟ اس سوال سے صورتِ حال کا اثر یہ ہوا کہ:

1۔ علمِ تفسیر

علمِ تفسیر اِس جستجو سے دست بردار ہو گیا کہ قرآن حکیم جس نمونے پر انسانی زندگی کو ڈھالنا چاہتا ہے، وہ کیسے ڈھلے گی؟ یعنی قرآن حکیم جس طرح کا انسان چاہتا ہے، وہ کس طرح میسر آئے گا؟

2۔ علمِ حدیث

علمِ حدیث اِنسانی استعداد کے زائیدہ علم کے نمونے پر ڈھل گیا تو یہ جستجو پیش نظر نہ رہ سکی کہ جن عملی نتائج تک علم بالوحی پہنچانا چاہتا ہے، اس تک پہنچنے میں حدیث سے کیا رہنمائی ملتی ہے۔ اسے سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدود سے آج پھر کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے؟

3۔ علمِ فقہ

علم فقہ کے انسانی استعداد کے زائیدہ علم کے نمونے پر ڈھل جانے سے قرآنی اَحکام کے بارے میں اس مقصد سے صرفِ نظر ہو گیا کہ اَوامر و نواہی کے مطابق اور جائز و ناجائز کے امتیاز پر زندگی عملاً کیسے استوار ہو گی؟ اگر تفسیر، حدیث اور فقہ کے مروّجہ علوم کے دائرہ کار پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت اَظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ یہ تمام مذہبی علوم صرف حلال و حرام، جائز و ناجائز، مستحب و مکروہ اور پسندیدہ و ناپسندیدہ یعنی انسانی اعمال کے لیے صحت اور عدم صحت کی حدود کے بیان تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ انسانی احوال کو بدلنے کی تدبیر ان کے موضوع سے خارج ہے۔ لیکن اس وقت تک عالمِ اسلام کو یہ مسئلہ درپیش ہے کہ فرد اور معاشرہ دونوں ان امور کو جان لینے کے باوجود تمرد اور اِنحراف کے راستے پر گامزن ہیں۔

مسلمانوں کو اِجتماعی زندگی اِنتشار، اِضمحلال اور اِنحطاط کا شکار ہے، جس سے نکلنے کی آرزو کے باوجود وہ اس سے نکل نہیں پاتے اور اصلاح کی تمام فکری اور عملی کوششیں بے نتیجہ ثابت ہو رہی ہیں۔ یہ متداول علوم غلط اور صحیح کی نشان دہی اور امتیاز کر دینے کے باوجود اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہیں کہ صحیح راستے پر کس طرح گامزن ہوا جائے؟ مطلوبہ نمونہ کمال کے مطابق زندگی کس طرح بسر ہو؟ اور اَحوالِ زندگی کا جو معاملہ بگڑ چکا ہے، اسے پھر سے کس طرح سنوارا جائے؟ گویا اسلام جس تباہی سے بچانا چاہتا ہے، ملتِ اسلامیہ اس تباہی وہلاکت سے کیسے بچے؟ محض مقصد اور نصب العین کا بیان کر دینا ہی کافی نہیں، جب تک اس مقصد کے حاصل کرنے کی تدبیر اور حتمی طریقِ کار بیان نہ کیا جائے، کسی علم کی تاثیر وافادیت مسلّم نہیں ہو سکتی۔

4۔ علم الکلام

اِس علم کا وظیفہ زیادہ سے زیادہ ان شکوک کو باطل کرنا ہے جو عقائدِ صحیحہ کی نسبت ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن یقینِ کامل اور رسوخ فی الایمان علمِ کلام کے حوالے سے پیدا نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ یقین ہمیشہ نتائج کی تجربی توثیق اور شہادت سے میسر آتا ہے جب کہ ایمان بالغیب کی حیثیت ایمانِ وہبی کی ہے، جس کی بنیاد صاحبِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان ہے۔ اس کی وضاحت اس میں ہے کہ غایتِ تخلیق، غایتِ بعثت اور غایتِ نزولِ قرآن ایک ہی ہے۔ عملی نتائج ان کائناتی قوانین سے متعین ہوتے ہیں جو نظامِ تکوین میں متعین کر دیے گئے ہیں اور ایمان بالغیب وہ ایمان ہے جو عملی جد و جہد سے پہلے درکار ہے۔ اس کے بغیر مقصد کے لیے جان کی بازی نہیں لگائی جا سکتی۔

5۔ علمِ تصوف

اِس علم کا موضوع عملی زندگی میں اخلاص اور للہیت پیدا کرنا ہے۔ جس کا مسئلہ یہ ہے کہ اتباعِ شریعت میں حسنِ نیت اور خلوص کیسے پیدا ہوگا؟ مگر جب سے تصوف عمل کی بجائے ماورائی حقیقت کا علم بنا ہے، اس کے نتائج عملی زندگی پر مرتب ہونا بند ہو گئے ہیں۔ اب علمِ تصوف کی تاثیر اور نتیجہ خیزی اُسی وقت برآمد ہو سکتی ہے جب انسانی زندگی پہلے شریعت کے سانچے میں ڈھل جائے۔ اس کے بعد اس میں تشرع اور ریاکاری کے خاتمہ کے لیے تصوف اپنا انقلاب انگیز کردار ادا کر سکتا ہے۔

6۔ علمِ تاریخ

تاریخِ اِسلام بھی عروج و زوال کی توجیہ کا علم بن کر رہ گئی ہے جس میں جبر کا شائبہ غالب ہے۔ اس کی جستجو عروج و زوال کو بطور واقعہ موضوع بنا کر ہو سکتی ہے لیکن اس توجیہ میں مسلط ہو جانے والے زوال کے رُخ کو عروج کی سمت پھیرنا داخل نہیں ہے، جب کہ اِس وقت عالمِ اسلام کا مسئلہ یہ ہے کہ زوال کو عروج میں کیسے بدلا جائے؟ یہ مسئلہ اُس وقت حل ہو گا جب تاریخ کو تجدیدِ ملل اور تخلیقِ اُمم کا عمل قرار دیا جائے جو قرآن حکیم کا نقطہ نظر ہے۔ جیساکہ سورہ ہود کے آخر میں مذکور ہے:

وَكُـلاًّ نَّقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنبَاءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهِ فُؤَادَكَ. هود، 11: 120

’’اور ہم رسولوں کی خبروں میں سے سب حالات آپ کو سنا رہے ہیں جس سے ہم آپ کے قلبِ (اَطہر) کو تقویت دیتے ہیں۔‘‘

اللہ تعالیٰ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اَنبیاے سابقین کے واقعات اس لیے بیان کرتا ہے کہ ان سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلبِ اَطہر کو تسکین اور تقویت ملے۔ مگر انبیاے سابقین کے قصوں سے دل کو تقویت اور تسکین اُسی وقت میسر آسکتی ہے جب ہر قصے سے یہ نتیجہ برآمد ہو کہ غلبہ اَصحابِ حق ہی کو حاصل ہوتا رہا ہے اور یہ نتیجہ برآمد ہو سکتا ہے جب اَصحابِ حق کا غلبہ اور اَصحابِ باطل کی شکست کسی ایسے قانون سے متعین ہو جو ناقابلِ تغیر اور ناقابلِ شکست ہو اور اس کی خلاف ورزی ممکن نہ ہو۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِينَ وَكَفَى بِرَبِّكَ هَادِيًا وَنَصِيرًا.

الفرقان، 25: 31

’’اور اِسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے جرائم شعار لوگوں میں سے (ان کے) دشمن بنائے تھے (جو ان کے پیغمبرانہ مشن کی مخالفت کرتے اور اس طرح حق اور باطل قوتوں کے درمیان تضاد پیدا ہوتا جس سے انقلاب کے لیے سازگار فضا تیار ہو جاتی تھی) اور آپ کا رب ہدایت کرنے اور مدد فرمانے کے لیے کافی ہےo’’

پیغمبرانہ دعوت کے راستے میں کی جانے والی مزاحمت سے دعوت کے خاطرخواہ نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ اس کا اعلان قرآن حکیم یوں کرتا ہے:

لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ . المجادلہ، 58: 21

’’یقینا میں اور میرے رسول ضرور غالب ہو کر رہیں گے۔‘‘

لہٰذا تاریخ کی اِصلاح یوں ہوگی کہ زوال کا رخ عروج کی طرف پھیرنے کے لیے قرآن مجید سے رہنمائی حاصل کی جائے جو مذکورہ بالا قانون کے حوالے کے بغیر میسر نہیں آ سکتی۔ چنانچہ مذہبی علوم کی جو نشو و نما اب تک ہو چکی ہے، اس کی صحیح سمت مقرر کرنے کے لیے علم بِالوحی سے رہنمائی طلب کی جائے تاکہ زوال و اِنحطاط میں مبتلا ملت کے غلبہ و عروج کی طرف بڑھنے کے لیے مذہبی علوم کا جائزہ لے کر ان کی نشو و نما کی تکمیل کا رُخ متعین کیا جا سکے۔ کیوں کہ علم بِالوحی دَر حقیقت عمل کا علم ہے۔ گویا یہ نصب العین اور اس کے حاصل کرنے کے نتیجہ خیز طریقہ کار کا علم ہے۔ جب اس طریقہ کار سے نتائج پیدا ہو جائیں جو اِنسانی اِستعداد کے زائدہ علوم کے موضوعات ہیں، تو ان کی توجیہ کی ضرورت پیش آئے گی۔ اگر مطلوبہ نتائج پیدا ہی نہیں ہوئے تو ان کی توجیہ عملاً کیسے اثر پیدا کر سکتی ہے؟ توجیہ کے ڈھب پر مرتب ہونے والے تمام علوم موجودہ اَقدارِحیات کی حفاظت تو کر سکتے ہیں مگر مٹی ہوئی اَقدار کو زندہ نہیں کر سکتے۔

اِصلاح کی ضرورت کیوں پیدا ہوئی؟

یہ اَمر ملحوظ رہے کہ ہمارے تمام متداولہ مذہبی علوم اُسی دور میں مرتب و مدون ہوئے تھے جب اِسلام کا سیاسی غلبہ بحال تھا۔ شریعت، طریقت اور مسالک اپنے اپنے میدانوں میں مؤثر طور پر فریضہ سر انجام دے رہے تھے۔ چناں چہ اُس وقت مسلمانوں کی حیاتِ اِجتماعی میں موجودہ اَقدار(existing values) کو محفوظ کیا جا رہا تھا۔ لیکن جب سے ہمارے ہاتھوں سے سیاسی غلبہ چھن گیا، ان علوم کے پیچھے قوتِ نافذہ باقی نہ رہی، غلبہ اِستعمار اور طویل دورِ غلامی نے ہماری اَقدارِ حیات کو مٹا کر ختم کر دیا بلکہ ان کی جگہ منفی اور غیر اِسلامی اَقدار نے لے لی۔ چناں چہ اب سیاسی اور معاشی سطح پر اس صورتِ حال یعنی status quo کو بحال رکھتے ہوئے محض توجیہی علوم کی مدد سے ختم شدہ اَقدار کو زندہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ علوم تو موجودہ اَقدار کو محفوظ کرنے کے لیے معرضِ وجود میں آئے تھے، ان سے آج حیاتِ ملی کو اَز سرِ نو زندگی نہیں بخشی جا سکتی۔ آج ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ مذہبی علوم کے ذریعے معیاری دین اور معمول بہ دین میں اِمتیاز پیدا کیا جائے اور پھر اس اِمتیاز کی روشنی میں اُن کی تکمیل کا رُخ دوبارہ متعین کیا جائے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔