Sunday 27 September 2015

اسلام کا تصور علم اور مقاصد علم (Concept and Objects of Knowledge)

0 comments
اسلام کا تصور علم اور مقاصد علم
(Concept and Objects of Knowledge)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سورہ مبارکہ کی پہلی آیت پر اگر تھوڑا سا غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ وحی کا آغاز جس لفظ اور کلمہ سے ہو رہا ہے اس کا تعلق پڑھنے سے ہے۔ اس حرف آغاز کا مطلب یہ ہوا کہ خدائے ذوالجلال نے اپنی ہدایت کا آغاز ہی تحصیل علم کے حکم سے کیا ہے لہذا حصول علم ہی وہ پہلا قدم ہے جہاں سے مرتبہ نبوت کا آغاز ہوتا ہے۔ اسی طرح جب ہم پانچویں آیت کے آخری الفاظ پر غور کرتے ہیں تو مرتبہ نبوت کی انتہا بھی حصول علم پر ہی ہوتی نظر آتی ہے۔ گویاہم ایک اعتبار سے کہہ سکتے ہیں کہ نبوت کا آغاز بھی علم ہے اور منتہابھی علم ہی ہے اور باقی جو کچھ ہے وہ بھی علم ہی کے دامن میں ہے، لہذا اس سے علم اور پڑھنے لکھنے کی حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے، ہدایت آسمانی کے فروغ کے لئے حصول علم کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے اور جہالت کے اندھیروں کے خلاف مسلسل جہاد کی ترغیب ملتی ہے۔

اعتبار کی سند کس علم کو ملے گی؟

یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ علم اور تعلیم محض خواندگی (Literacy) کا نام نہیں ہے، یعنی تھوڑا زیادہ پڑھ لکھ لینا یا مختلف پیشہ وارانہ پہلوؤں (Professional Aspects) پر تھوڑا زیادہ عبور حاصل کر لینا وغیرہ فی نفسہ مقصود بالذات نہیں ہے۔ یہ اتنا بڑا مقصد اور منصب ہے کہ علم کا ابرکرم پوری کائنات پر محیط ہے ہم کہہ سکتے ہیں اس کائنات پست و بالا میں دامن علم سے خارج کوئی شے نہیں۔ آسمانوں اور زمینوں کی ہر شے دائرہ علم میں ہے، لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ پہلی آیت مقدسہ میں تحصیل علم کے حوالے سے بیان کیا جا رہا ہے کہ :

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَO

 (اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھیئے۔

 (العلق، 96 : 1)

ارشاد خداوندی ہے کہ میرے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے پڑھنے لکھنے کا آغاز رب کائنات کے بابرکت نام سے کیجئے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی علم شرف قبولیت حاصل کرے گا جس کی تحصیل کا آغاز خدائے ذوالجلال کے بابرکت نام سے ہوا، یعنی ایسا علم جس کی بنیاد اللہ کے نام پر رکھی جائے اور جس میں اسلامی عقیدے اور نظریے کو مرکزی حیثیت (Central Status) حاصل ہو۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ علم حاصل کرنے سے مراد دینی اور روحانی علوم کا حصول ہی نہیں بلکہ تمام سائنسی علوم بھی اس کے دائرہ کار میں آ جاتے ہیں۔ جدید ترین ٹیکنالوجی کا حصول بھی علم کے زمرے میں آتا ہے۔ تاریخ اسلام شاہد و عادل ہے کہ مسلمان سائنسدانوں نے سائنسی علوم کی بنیاد ڈال کر حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان پر پورا پورا عمل کیا کہ

أطْلِبُوا الْعِلْمَ وَلَوْ بِالصِّينِ فَاِنَّ طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيْضَةٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ.

علم حاصل کرو خواہ چین جانا پڑے۔ بے شک علم حاصل کرنا ہر مسلم پر فرض ہے ۔ (جامع بيان العلم و فضله، 1 : 7)

اس کے ساتھ ساتھ قرآن حکیم میں جابجا تسخیر کائنات کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ کائنات کا یہ سفر جدید علوم میں مہارت حاصل کئے بغیر ممکن نہیں۔ البتہ علوم جدیدہ کا حصول بھی اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہونا چاہئے اور اعتبار کی سند بھی اسی علم کو عطا ہو گی۔

علم اور معرفت الہی

جس علم کی تحصیل کا آغاز اللہ رب العزت کے پاک نام سے ہو گا اور اسلامی عقیدے و نظریے کو مرکزیت حاصل ہو گی اس علم کے ذریعے اللہ تعالی کی معرفت نصیب ہو گی۔ لہذا وہی علم صحیح معنوں میں علم کہلائے گا جو انسان کو اپنے مالک و خالق کے نزدیک کر دے، اللہ کی معرفت عطا کر دے، اس کی حقیقی بندگی اور اس تک رسائی عطا کر دے اور آخرکار اس کے حکم کی تعمیل میں اس کے حکم کے نفاذ تک لے آئے۔ اس کے برعکس ایسا علم جو بندے کو اپنے رب سے دور لے جاتا ہے وہ اللہ کے نزدیک علم نہیں۔ جدید ترین علوم اور جدید ترین سائنسی انکشافات اذہان کو علمی اور عملی دونوں حوالوں سے اپنے خالق حقیقی کے بہت قریب لے آتے ہیں۔ ایک سائنسدان جو کھلے دل و دماغ کا مالک ہو بنیادی طور پر توحید پرست ہوتا ہے۔ گو علم کی تعریف جاننا ہے لیکن وہی جاننا مرتبہ علم کو پہنچتا ہے جس کے حصول سے خدا شناسی کا گوہر میسر آئے اور جو قرب الٰہی کا باعث بنے۔

جہالت کیا ہے ؟ (What is Ignorance)

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جہالت کیا ہے؟ کیا کچھ نہ جاننے کا نام جہالت ہے؟ ہم نے دیکھا کہ وہی جاننا اسلام کی نظر میں علم ہے جو انسان کو اس کے رب کی معرفت کا پتہ دیتا ہے لہذا جو جاننا خدا سے دور کر دے اور جو علم خدا کے قرب، خدا سے آگاہی و شناسائی اور اس کی معرفت کا ذریعہ نہ بن سکے وہ علم نہیں حقیقت میں جہالت ہے۔ دنیوی اعتبار سے اگر کوئی شخص بے شمار ڈگریوں کا حامل ہو لیکن اس کا یہ علم اسے اللہ کی معرفت سے بیگانہ کر دے تو وہ شخص عالم ہو کر بھی جاہل ہی کہلائے گا اور اس کا وہ علم، علم نہیں بلکہ جہالت ہے۔ ابوجہل کو اس لئے ابوجہل نہیں کہتے کہ وہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتا تھا بلکہ وہ اس وقت کے اعتبار سے پڑھا لکھا شخص کہلاتا تھا لیکن اسے ابوجہل اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کا جاننا معرفت الہی کا ذریعہ نہ بن سکا اس لئے کہ اسلام کے تصور علم میں حصول علم کا آغاز ہی اللہ کی معرفت سے ہوتا ہے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔