آفاقی اَقدارکا قیام (Establishing Universal Values)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آج کے دور کا یہ المیہ ہے کہ بین الاقوامی تعلقات اور سیاسی روابط کی بنیاد ان اقدار پر رکھ دی گئی جو مقامی اور محدود مفادات ہی کی حفاظت کرنے والی ہیں۔ اسلام اپنے مزاج کے لحاظ سے محدود اور مقامی مفادات کا تحفظ کرنے والی اقدار کی بجائے آفاقی اور انسانی اقدار کا امین نظام حیات ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے ایک مغربی مفکر لکھتا ہے :
Christianity and Islam -offer universal values to the community of mankind. When aliens are made in societies about 'cultural authenticity', they are most often made about religious totems.(1)
’’عیسائیت اور اسلام بنی نوع انسان کیلئے آفاقی اقدار پیش کرتے ہیں۔ جب معاشرے میں اجنبی عناصر سے ثقافتی ثقاہت کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو اکثر و بیشتر اس کا تعلق مذہبی نشانات سے ہوتا ہے۔‘‘
(1) Simon Murden, Culture in World Affairs in John Baylis & Steve Smith's The Globalization of World Politics, OUP, 2001, p. 457.
فطری امر تو یہ تھا کہ آج ایک عادلانہ، منصفانہ اور انسانیت نواز عالمی نظام کا قیام اسلام ہی کا منصب ہوتا جیسے کہ اسلام کے غلبہ کاابتدائی دور میں رہا۔ لیکن اسلام کے اپنے اس فطری منصب سے انحراف کا نتیجہ یہ ہے کہ عالمی نظام کی تشکیل ان اقوام و ملل کے ہاتھوں میں چلی گئی جو آج تک نسلی، لسانی اور جغرافیائی بندہنوں سے آزاد نہیں ہو سکی۔ اس امر کا اظہار آج کے مغربی سیاسی مفکرین کی تحریروں سے بھی ہوتا ہے۔
A universal civilization, Huntington argues, is purely a Western dream; civilizations have been maintaining and even reinforcing their distinctions throughout the late 20th century However, if civilizations do adapt to meet new conditions, especially material conditions, as the modern view might suggest and if life within the world's major civilizations is gradually encountering similar, if not identical, material conditions, then those civilizations should tend to converge, at least to some degree, in the face of those similar challenges.(1)
’’ہنٹنگٹن کے مطابق عالمی تہذیب خالصتاً مغربی خواب ہے۔ پوری بیسویں صدی کے دوران تہذیبیں اپنے امتیازات کو قائم رکھنے اور انہیں نافذ کرنے کے لیے جدوجہد کرتی رہیں۔ تاہم اگر تہذیبیں نئے حالات کو اختیار کر لیں، خصوصاً مادی صورتحال کو جیسا کہ جدید نکتہ نظر تجویز کرے گا اور اگر دنیا کی بڑی تہذیبوں میں زندگی بتدریج اس طرح کی گو غیر مماثل مادی صورتحال کا سامنا کرے تو ان تہذیبوں کو کم از کم اس درجے تک ان ایک جیسے چیلنجز کا سامنا کرنے کیلئے اکٹھا ہو جانا چاہیے۔‘‘
(1) Christian Stracke; The Clash of Civilizations and the Remaking of the World Order, Journal of International Affairs, Vol. 51, 1997.
یہی وجہ ہے کہ مغرب کے تصادم پر مبنی سیاسی فلسفے کا اثر ان اقوام کے فکر وعمل میں بڑا واضح نظر آتا ہے۔ مثلا یورپ کے سیاسی طرز فکرو عمل کو متعین کرنے میں کئی حوالوں سے سیموئل ہنٹٹنگٹن کی فکر نے کلیدی کردار ادا کیا :
Huntington's focus upon an Islamic threat to the EU paralleled the approach of European strategists. His explicit identification of a "danger" to the Union from outside and from inside was not an approach that senior EU figures pursued publicly : it did however complement the position taken by populist politicians and by organizations of the extreme Right.(1)
’’ہنٹٹنگٹن کا اسلامی دنیا کو یورپی یونین کے لیے خطرہ قرار دینا یورپی حکمت عملی کے متوازی رہا۔ یورپی یونین کے لیے اندرون اور بیرون کی طرف سے خطرے کی اس واضح نشاندہی ایسا نقطہ نظر نہ تھا جسے پوری یونین کی اعلیٰ شخصیات قبول اور اختیار کر لیتیں۔ تاہم اس مؤقف کو اتنی تقویت ضرورملی کہ اسے انتہائی دائیں بازو کے عوامی سیاستدانوں، تنظیموں نے اختیار کیا۔‘‘
(1) Philip Marfleet, The "Clash" Thesis : War and Ethnic Boundaries in Europe, Arab Studies Quarterly, vol. 25, 2003.
جبکہ آج کے عالمی سیاسی منظر نامہ اس امر کا متقاضی ہے کہ بین الاقوامی تعلقات کی بنیاد ایسے اقدار پر رکھی جائے جو بقائے باہمی کی ضامن ہوں۔ اس تقاضے کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے ایک مغربی مفکر لکھتا ہے :
For the furtherance of peace in this world and the reception of human rights into all cultures, these difficult questions should be discussed in a dialogical way, that is, openly with mutual understanding, reciprocal witnessing and critical questioning. In such a dialogue western individualism will be subject to correction.(1)
’’دنیا میں امن کے فروغ اور تمام ثقافتوں میں انسانی حقوق کے فروغ کے لئے ان مشکل سوالات کو مکالماتی طور پر زیر بحث لانے کی ضرورت ہے یعنی وسیع طور پر باہمی افہام و تفہیم، باہمی شہادتوں اور تنقیدی سوالات کے ذریعے۔ ایک ایسے مکالمے میں انجام کار مغربی تصور فرد کو اپنی تصحیح کرنا ہوگی۔‘‘
(1) Abd Allah Ahmad Na'im, Human Rights and religious Values, p. vii.
یہ تصور کہ دنیا کا موجودہ عالمی نظام جس فکر پر مبنی ہے وہ کئی حوالوں سے محل نظر ہے آج مغرب کے سلیم الفکر مفکرین میں عام ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیموئل ہنٹٹنگٹن کا پیش کردہ نظریہ تنقید کا نشانہ بھی بن رہا ہے :
Even Huntington's most ardent admirers have viewed the thesis in this light : Robert Kaplan, for example, sees it as an analysis of American security needs set "in the most tragic, pessimistic terms.(2)
’’ہنٹنگٹن کے بہت پر جوش مداح بھی اس کے نظریئے کو تنقید کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ مثلاً رابرٹ کیپلین، اسے امریکی تحفظ کا ایسا تجزیہ قرار دیتا ہے جو بہت ہی المیاتی اور مایوس کن انداز سے کیا گیا ہے۔‘‘
(2) Philip Marfleet; The "Clash" Thesis : War and Ethnic Boundaries in Europe, Arab Studies Quarterly, Vol. 25, 2003.
اندریں حالات انسانیت کو آفاقی اقدار پر مبنی نظام کی احتیاج صرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا کردہ تعلیمات پر مبنی نظام ہی پوری کر سکتا ہے۔ جس کا سب سے بڑا ثبوت حقوق انسانی کا ہمہ گیر چارٹر خطبہ حجۃ الوداع ہے۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب
اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
شانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کی روشنی میں محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْ...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...
No comments:
Post a Comment