Wednesday 23 September 2015

عالمی برداشت کے کلچر کا فروغ (Culture of Tolerance at International Level)

عالمی برداشت کے کلچر کا فروغ (Culture of Tolerance at International Level)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آج کی جدید دنیا مختلف النوع انتہا پسندی کے رجحانات کے تحت برداشت کے کلچر سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔ ان رجحانات میں ایک بنیاد پرسی بھی ہے جس کا سبب سیاسی، اقتصادی، سماجی اور مذہبی محرومیاں ہیں :

Fundamentalism is more than a political protest against the West or the prevailing establishment. It also reflects deep-seated fear of modern institutions and has paranoid visions of demonic enemies everywhere. It is alarming that so many people in so many different parts are so pessimistic about the world that they can only find hope in fantasies of apocalyptic catastrophe. Fundamentalism shows a growing sense of grievance, resentment, displacement, disorientation, and anomie that any humane, enlightened government must attempt to address.(1)

’’بنیاد پرستی مغرب یا موجود اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سیاسی احتجاج سے زیادہ بھی کچھ ہے۔ یہ جدید اداروں سے گہرے خوف اور ہر طرف پھیلے ہوئے دشمنوں کو اپنے مصائب کا ذمہ دار سمجھنے کا مظہر بھی ہے۔ یہ بات بہت خوفناک ہے کہ دنیا کے اتنے زیادہ حصوں میں اتنے لوگ دنیا کے بارے میں اتنے مایوس ہیں کہ انہیں کسی ناگہانی انقلاب کے تصورات میں ہی امید کی کرن نظر آتی ہے۔ بنیاد پرستی شکایات، رنجیدگی، شعوری انتقالیت، بیگانگی اور بے ضابطگی کا اظہار ہے جس کا ازالہ اور اصلاح کرنا کسی بھی ہمدرد اور روشن خیال حکومت کی ذمہ داری ہے۔‘‘

(1) Simon Murden, Sulture in World Affairs in John Baylis & Steve Smith's The Globalization of World Politics, OUP, 2001, p. 461.

تاہم یہ امر ایک المیے سے کم نہیں کہ بین الاقوامی سطح پر انسانیت کو در پیش مسائل کا صحیح تجزیہ کرنے کی بجائے اسلام کو ثقافی نزاع کا سبب قرار دیا جارہا ہے :

In much of the post-cold war discourse on cultural conflict, it was Islam that came into the frame. Islam, seem to represent a particular source of conflict both as a homeland and as a diaspora. Certainly, Islamic peoples were locked in violent conflicts against adjoining civilizations and secular states across the Balkans, West and East Africa, the Middle East, the Caucasus, Central Asia, India, Indonesia, and the Philippines, with their efforts to promulgate Islamic law a particularly explosive issue.(1)

’’سرد جنگ کے بعد ثقافتی نزاع پر ہونے والے مباحثے میں اسلام ہی مرکز توجہ بنا۔ اسلام اندرون ملک اور ممالک سے باہر آبادی میں تنازعہ کے سبب کے طور پر سامنے آیا۔ یقیناً مسلمان متصل تہذیبوں اور سیکولر ریاستوں کے ساتھ بلقان، مغربی اور مشرقی افریقہ، مشرق وسطی، قفقار، وسط ایشیاء، انڈیا، انڈونیشیا اور فلپائن کے ساتھ شدید تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں۔ اس کوشش کے ساتھ کہ وہاں اسلامی قانون کو جو کہ سلگتا ہوا مسئلہ ہے فروغ دیں۔‘‘

(1) Simon Murden, Sulture in World Affairs in John Baylis & Steve Smith's The Globalization of World Politics, OUP, 2001 p. 463.

ان مذکورہ بالا مسائل کا حل بنیاد پرستی اور غلط فہمیوں پر نظام کو فروغ دینے کی بجائے عالمی برداشت کے کلچر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ گویا یہ صرف عالم اسلام ہی نہیں بلکہ عالم انسانیت کی بنیادی ضرورت ہے کہ مستقبل میں بقائے باہمی کے امقانا ت کو روشن کرنے کے لئے برداشت کے کلچر کو فروغ ملے جو سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملنے والی سے ہی ممکن ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی تعلیمات اور اسوہ و سیرت کے ذریعے انسانیت کو وہ نظام زندگی، حقوق و فرائض، احکام و آداب اور امر و نواہی عطا فرمائے ہیں جن کو عملاً اپنانے اور نافذ کرنے سے مذکورہ بالا مسائل حل ہوجاتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...