قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، جس طرح اللہ رب العزت کی ذات حدود سے ماوراء ہے اسی طرح اس کے کلام کے معنی و مفہوم کی بھی کوئی حد نہیں۔ قرآن ایک سمندر ہے، اس سے کسبِ فیض کرنے کا انحصار آیاتِ قرآنیہ پر غوروفکر کرنے والے کی استعداد و قابلیت پر ہے۔ اس سمندر میں غوطہ زنی کرنے والا اگر صرف مفسر ہوگا تو تفسیر کے موتی چن کر لے آئے گا۔۔۔ اگر فلسفی ہوگا تو فلسفے کے موتی چن کے لائے گا۔۔۔ اگر نحوی ہوگا تونحو کے موتی چن کر لائے گا۔۔۔ اگر عالم ہوگا تو علم کے موتی چن کر لائے گا۔۔۔ اگر عارف اور عاشق ہوگا تو عرفان اور عشق کے موتی چن کے لے آئے گا۔۔۔ اگر نسبتِ عشق کا حامل ہوگا تو عشق والی تفسیر کرے گا۔۔۔ اگر نسبتِ معرفت کا حامل ہوگا تو معرفت والی تفسیر کرے گا۔
قرآن مجید کی متعدد آیاتِ مبارکہ سے ہمیں مقامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آشنائی نصیب ہوتی ہے۔ مقامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آگہی کی حامل ایسی ہی ایک آیتِ مبارکہ سورۃ الفاتحہ میں بھی ہے۔ ارشاد فرمایا:
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ . (الفاتحة:5)
اس آیت کا عمومی ترجمہ اور تفسیر جو بیان کی جاتی ہے، وہ تو یہ ہے کہ اللہ کے بندے اس دعا کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں کہ
’’مولا ہمیں سیدھا راستہ دکھا‘‘ ۔
مگر متعدد ائمہ، تابعین اور مفسرین کے نزدیک یہ آیت کریمہ آقا علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی۔
صراطِ مستقیم ۔۔۔ ذاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
قاضی عیاض اپنی کتاب ’’الشفاء‘‘ میں ص54 پر بیان فرماتے ہیں کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کے ذریعے بندہ خدا کی بارگاہ میں صرف یہ عرض کرتا ہے کہ مولا! وہ دکھادے جسے تو صراط مستقیم کہتا ہے۔۔۔ ہماری آنکھوں سے پردہ ہٹادے اور اس ذات کا جلوہ دکھادے جسے تو صراط مستقیم کہہ رہا ہے۔ صراط مستقیم کی ہدایت کی یہ دعا سورۃ الفاتحہ میں آئی ہے۔ سورۃ فاتحہ کا مقام ومرتبہ اللہ رب العزت نے اس قدر بلند رکھا کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
لا صلوة لمن لا يقراء بفاتحه الکتاب.
(ابن حبان، الصحيح،5:82، رقم:1782)
’’اس شخص کی نماز ہی نہیں جس نے سورۃ فاتحہ نہ پڑھی۔‘‘
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس دعا میں وہ کون سی خاص بات، خاص نسبت، معرفت اور ذات کا تعلق بیان کیاجارہا ہے کہ اللہ رب العزت نے اس خاص دعا کو سورۃ فاتحہ میں شامل کردیا۔
امام ابولعالیہ حضرت عبداللہ ابن عباس کی روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ سے پوچھا گیا کہ اللہ رب العزت نے بندے کو فرمایا ہے کہ وہ صراط مستقیم کے الفاظ کے ساتھ میری بارگاہ میں دعا مانگے، صراط مستقیم سے مراد کیا ہے؟ آپ فرماتے ہیں:
صِرَاطُ الْمُسْتَقِيْم هُوَ مُحَمَّد صلی الله عليه وآله وسلم.
’’صراط مستقیم ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے‘‘
اس معنی کی رُو سے جب بندہ دعا کرتے ہوئے عرض کرتا ہے:
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ.
تو اس کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اے مولا ہمیں معرفتِ مقام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عطا کردے۔۔۔ ہمیں وہ روشنی، ہدایت، نور اور وہ رستہ عطا کردے جو معرفتِ حقیقتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک لے جائے۔ اور ہمیں مقام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حقیقت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آشنا کردے۔
اس بات کو امام ابن جریر طبری نے تفسیر طبری، حافظ ابن کثیر نے تفسیر ابن کثیر اور امام ابن ابی حاتم نے بیان کیا ہے۔
(تفسير طبری، 1:56، تفسير ابن کثير، 1:66)
امام حاکم نے مستدرک میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ سورۃ الفاتحہ میں مذکور صراط مستقیم کی دعا سے مراد یہ ہے کہ گویا خدا اپنے بندوں کو خود ایک طریقہ، ایک اسلوب اور ایک رستہ دکھارہا ہے کہ اگر ایسی دعا مانگنا چاہتے ہو جو میری بارگاہ میں شرف قبولیت بھی حاصل کرلے تو میری بارگاہ میں صرف یہ کہو کہ اے مولا مجھے صراط مستقیم یعنی مقام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت عطا کردے۔۔۔ مجھے مقام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت عطا کردے۔۔۔ میری آنکھوں سے پردہ ہٹادے کہ میں مقام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خود اپنی نگاہوں سے تک لوں۔ معلوم ہوا مقام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت ہی ہدایت ہے اور مقام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت کا نہ ہونا ضلالت ہے۔
صراط مستقیم کیا ہے؟
صراطِ مستقیم کی ایک وضاحت اللہ رب العزت نے خود بھی اسی مقام پر فرمادی۔ ارشاد فرمایا:
صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ . (الفاتحة:6)
’’ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا‘‘۔
گویا اللہ رب العزت فرمارہا ہے کہ اے بندے! اس طرح دعا مانگ کہ مولا ان کا راستہ دکھا کہ جن پر تو نے انعام کیا ہے۔۔۔ ان کا راستہ دکھا کہ جن کو تو نے بارگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فنا کیا ہے۔۔۔ ان کا راستہ دکھا جن کی نگاہوں کو مقامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آشنا کیا۔۔۔ ان کا راستہ دکھا جو درِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ جھکے رہتے ہیں۔۔۔ ان کا راستہ دکھا جو بارگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چاکر رہتے ہیں۔۔۔ ان کا راستہ دکھا جن کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حضوری عطا کی ہے۔۔۔ ان کا راستہ دکھا جو عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مستغرق رہتے ہیں۔۔۔ ان کا راستہ دکھا جو مقامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سمندر میں غوطہ زن رہتے ہیں۔۔۔ ان کا راستہ دکھا جن کی نگاہوں کے سامنے دن رات چہرہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رہتا ہے۔۔۔ ان کا راستہ دکھا جو مقامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فنا رہتے ہیں۔۔۔ ان کا راستہ دکھا جو اویس قرنی رضی اللہ عنہ ہوں تو باوضو رہ کر دن رات یاد محبوب میں گم رہتے ہیں۔۔۔ ان کا راستہ دکھا جو ابوالعباس مرسی ہوں، جن کا عالم یہ ہے کہ دن رات چہرہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی نگاہوں کے سامنے رہتا ہے اور جس لمحے چہرہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی نگاہوں سے اوجھل ہوجائے، اس لمحہ میں وہ اپنے آپ کو مسلمان ہی نہیں سمجھتے۔
حقیقتِ مقامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
امام ابو عبدالرحمن سلمی سے کسی نے پوچھا کہ اللہ نے حقیقت مقامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کیا ہے، وہ حقیقت کیا ہے؟ آپ فرماتے ہیں کہ اس حقیقت کا ذکر اللہ رب العزت نے قرآن میں کردیا ہے۔ ارشاد فرمایا:
فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقیٰ لَا انْفِصَامَ لَهَا . (البقرة:256)
’’تو اس نے ایک ایسا مضبوط حلقہ تھام لیا جس کے لئے ٹوٹنا (ممکن) نہیں‘‘۔
اس آیت میں مذکور دامن اور مضبوط حلقہ عُرْوَةِ الْوُثْقٰی درحقیقت ذاتِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
پھر پوچھا کہ کسی قسم کا تمسک اختیار کریں؟ فرمایا:
یہ حلقہ اور دامن ایسا ہے جو خدا سے جڑا ہوا ہے، جو اس حلقہ و دامن سے جڑ جاتا ہے وہ بھی خدا سے جڑ جاتا ہے۔ مقام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ ہے کہ جو دامن مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں داخل ہوجائے۔۔۔ جو نسبت میں مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں شامل ہوجائے۔۔۔ جو عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فنا ہوجائے تو دامن مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر ایک عاشق کو اپنے اندر سمو لیتا ہے۔ جب عاشق سچا عاشق ہوکر مقام عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت لے کر درِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر گدا ء بن کر جھک جاتا ہے تو وہ در کبھی غلام کو خالی جھولی نہیں بھیجتا۔
میں شان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گھٹانے یا بڑھانے والا کون ہوں؟ میری کیا مجال کہ میں مقام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بڑھا سکوں۔ مقام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو وہ ہے جس کو بڑھانے والی ذات خود خداوند تعالیٰ کی ہے، جس مقام کو خود خدا بلند کررہا ہو مخلوق کی کیا مجال کہ کوئی اس میں مداخلت کرسکے۔
مقام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو یہ ہے کہ جہاں مقامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، اس مقام سے اوپر تو صرف خدا کا مقام ہے اور مقام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خدا کے مقام کے درمیان کسی اور کا مقام نہیں۔ مقام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اوپر لے جائیں تو کہاں لے جائیں، ظاہر ہے کہ خدا تو بنانہیں سکتے۔ لیکن خدا سے جدا بھی نہیں کرسکتے۔ بس ماجرا صرف اتنا ہے کہ
تم ذاتِ خدا سے نہ جدا ہو نہ خدا ہو
اللہ ہی کو معلوم کیا جانئے کیا ہو
یہ مقام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ ہے جو دن رات خود خدا بلند کررہا ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ . (الانشراح:4)
’’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا‘‘۔
ابن عطا فرماتے ہیں کہ
جَعَلْنٰکَ ذِکْرًا مِنْ ذِکْرِيْ فَمَنْ ذَکَرَکَ ذَکَرَنِيْ . (کتاب الشفاء، 48)
’’محبوب تجھے سراپائے ذکر بنادیا جس نے تیرا ذکر کرلیا اس نے میرا ذکر کرلیا۔‘‘
اطمینانِ قلب کیونکر ممکن ہے ؟
ارشاد فرمایا:
اَلَا بِذِکْرِ اﷲِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ . (الرعد:28)
ٍ ’’جان لو کہ اﷲ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘۔
حضرت عبداللہ ابن عباس سے پوچھا گیا کہ اللہ کے ذکر سے کیا مراد ہے؟ آپ فرماتے ہیں کہ اللہ کے ذکر سے مراد ذاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
گویا خدا یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شمائل کی بات کرو، وہ میرا ذکر ہے۔۔۔ میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات کی بات کرو، وہ میرا ذکر ہے۔۔۔ میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جمال کی بات، کرو وہ میرا ذکر ہے۔۔۔ میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمال کی بات کرو، وہ میرا ذکر ہے۔۔۔ میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ادا کی بات کرو، وہ میرا ذکر ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جتنا میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر بلند کرتے رہو گے اتنا میں تمہارے قلب کو اطمینان بخشتا رہوں گا۔ جیسے جیسے میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کو ارفع و اعلیٰ کرتے رہو گے ویسے ویسے تمہارے دل کو اطمینان ملتا رہے گا کیونکہ درحقیقت ذکر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اللہ ہی کا ذکر ہے۔ اس لئے فرمایا:
فمن ذکرک ذکرنی .
’’جس نے تیرا ذکر کرلیا اس نے میرا ذکر کرلیا‘‘
ذکرِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔۔ حدود سے ماوراء
ذکر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور رفعت مقام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان کی ایک اور شرط بھی ہے اور اس شرط کو اللہ رب العزت نے قرآن میں اس طرح بیان فرمایا:
وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اﷲِ لَا تُحْصُوْهَا . (ابراهيم: 34)
’’اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو (تو) پورا شمار نہ کر سکو گے‘‘۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ اس آیت میں مذکور ’’اللہ کی نعمت‘‘ سے کیا مراد ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ اللہ کی نعمت وہی ہے جو اللہ کی رحمت ہے۔ اللہ کی نعمت وہی ہے جو خدا کا فضل ہے۔ خدا کا فضل بھی ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔۔۔ خدا کی رحمت بھی ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔۔۔ خدا کی نعمت بھی ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ خدا یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ
میں نے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نعمت بنا دیا، اب میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرو مگر کوئی ناپ تول نہ کرو۔۔۔ میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان بیان کرو، کوئی گنتی یا شمار مت کرو۔۔۔ میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توصیف بیان کرو تو اس کا شمار مت کرو۔ ناپے تولے بغیر جو مقام و شان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیان کررہا ہے، قیامت کے روز جب اس کا نامہ اعمال خدا کی بارگاہ میں پیش کیا جائے گا، تب خدا فرمائے گا کہ فرشتو! جب یہ بندہ میرے محبوب کی توصیف بیان کرتے ہوئے ناپ تول نہیں کرتا تھا توآج اس کو جزا دینے کا وقت آیا ہے۔ لہذا میں بھی بغیر حساب کتاب کے اسے جنت میں بھیج رہا ہوں۔ اس لئے کہ یہ بندہ جب میرے محبوب کا ذکر ناپے تولے بغیر کرتا تھا تو آج اس کو اجر بھی ناپے تولے بغیر عطا کروں گا۔
مقام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جستجو اور مقام عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش وہ نعمت ہے کہ جو اس میں لگ جاتا ہے وہ معرفت کے سمندر میں غوطہ زن ہوجاتا ہے۔ اسے اس تلاش میں معرفت کے ہی موتی ملتے ہیں جس کی تلاش میں یہ گم تھا۔
جنت میں داخلہ، ذکرِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشروط
امام قسطلانی المواہب اللدنیہ میں ایک بڑا لطیف نکتہ بیان کرتے ہیں کہ کچھ لوگ جو محض قرآن کے عالم ہوں گے جب ان کا حساب و کتاب ہوگا تو اللہ تعالیٰ حکم صادر کرے گا کہ ان کو دوزخ میں بھیج دو مگر دوزخ میں بھیجنے سے پہلے اللہ رب العزت فرشتوں کو فرمائے گا کہ اس بندے کے دل میں اگر برائے نام بھی ذکر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود ہے تو اس کو بھی نکال دو کیونکہ جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ذکر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوگا وہ کبھی دوزخ میں جل نہیں سکتا۔ جس کی زندگی عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لبریز ہوگی، جس کے جسم کا ذرہ ذرہ عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معمور ہوگا وہ جسم کبھی دوزخ کا ایندھن نہیں بن سکتا۔
پھر جب ان کی سزا کا وقت ختم ہوجائے گا تب اللہ رب العزت جبرائیل امین کو فرمائے گا کہ جبرائیل میرے اس بندے کے دل میں ذکر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوبارہ پیدا کردو۔ اسے ذکر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یاد دلا دو کیونکہ میں اسے اب جنت میں بھیجنا چاہتا ہوں۔ جنت میں اس وقت تک میں اسے نہیں بھیج سکتا جب تک اس کے دل میں ذکرِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود نہ ہو۔
قرآن مجید میں ذکرِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اللہ رب العزت نے مقام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن میں جابجا بیان کیا۔ ماجرا صرف یہ تھا کہ آقا علیہ السلام کی جو ادا خدا کو پسند آجاتی، اس ادا کو قرآن میں بیان فرمادیتا۔
٭ جب خدا کی نگاہ نفسِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پڑی تو نفس مبارک مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر قرآن میں کردیا اور فرمایا:
لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ . (التوبة:128)
’’بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تشریف لائے‘‘۔
٭ جب چہرہ مبارک پر نگاہ پڑی تو اس کا ذکر بھی قرآن میں کردیا:
قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْهِکَ فِی السَّمَآءِ . (البقرة:144)
’’(اے حبیب!) ہم بار بار آپ کے رُخِ انور کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں‘‘۔
٭ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چشمان مقدس پسند آگئیں تو چشمان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر قرآن میں کردیا:
لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْکَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَا بِهِ . (الحجر:88)
’’آپ ان چیزوں کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھئے ‘‘۔
کہ محبوب اپنی ان نگاہوں کو ان چیزوں پر اٹھا کر نہ دیکھئے جو ان کافروں کے لئے بناکر رکھی ہیں۔ آپ کی نگاہوں کو تو میں نے کسی اور جلوے کے لئے سجا کر رکھا ہے۔
٭ آقا علیہ السلام کی بصارت مبارک پر نگاہ پڑی تو پسند آگئی اور قرآن میں ذکر کردیا کہ
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی . (النجم:17)
’’اُن کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی (جس کو تکنا تھا اسی پر جمی رہی)‘‘۔
کہ محبوب آپ کی نظر میں محبت کا یہ کمال تھا کہ ایک لمحہ بھر بھی نہ جھکی اور ادب کا یہ کمال تھا کہ ایک لمحہ بھر بھی حد سے نہ بڑھی۔ ادب بھی تھا، حد بھی تھی، محبت بھی تھی، یہی تو نگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عالم تھا جس پر شاعر نے کیا خوب کہا کہ
یہ احترام تمنا یہ احتیاط جنوں
کہ تیری بات کروں اور تیرا نام نہ لوں
٭ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے کان مبارک پر نظر پڑی تو پسند آگئے اور قرآن میں ذکر کردیا:
وَيَقُوْلُوْنَ هُوَ اُذُنٌ قُلْ اُذُنُ خَيْرٍ لَّکُمْ . (التوبة:61)
’’محبوب وہ آپ کے کان مبارک کا ذکرکرتے ہیں آپ فرمادیں: یہ کان توتمہارے لئے بھلائی کا باعث ہیں‘‘۔
٭ پھر نگاہ، زبان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچ گئی تو زبان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پسند آگئی تو خدا نے فرمادیا:
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰی. اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ يُّوْحٰی . (النجم:3،4)
’’اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے‘‘۔
محبوب جو آپ کی زبان سے نکلتا ہے وہ آپ کی زبان نہیں وہ تو وحی خدا ہوجاتا ہے اگر جلی ہو تو قرآن ہوجاتا ہے اور اگر خفی ہو تو حدیث ہوجاتا ہے۔
٭ نگاہ خدا صدرِ مصطفی تک پہنچی تو پسند آگیا اور قرآن میں ذکر کردیا :
فَـلَا يَکُنْ فِيْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْهُ . (الاعراف:2)
’’سو آپ کے سینہِ (انور) میں اس (کی تبلیغ پر کفار کے انکار و تکذیب کے خیال) سے کوئی تنگی نہ ہو (یہ تو اتاری ہی اس لیے گئی ہے) ‘‘۔
محبوب آپ اپنے سینہ اقدس پر ان کفار کی باتوں کا کوئی حرج نہ لایا کریں کیونکہ آپ پر تو ہر وقت ہماری نگاہ رہتی ہے۔ جب آپ صبر کریں گے، غزوات میں کفارو مشرکین کے ظلم کو برداشت کرتے ہیں تو ہماری نگاہیں آپ کو تکتی رہتی ہیں:
وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ فَاِنَّکَ بِاَعْيُنِنَا . (الطور:48)
’’اور (اے حبیبِ مکرّم! اِن کی باتوں سے غمزدہ نہ ہوں) آپ اپنے رب کے حکم کی خاطر صبر جاری رکھئے بے شک آپ (ہر وقت) ہماری آنکھوں کے سامنے (رہتے) ہیں ‘‘۔
٭ پھر آقا علیہ السلام کے قدم مبارک پر نگاہ پڑی تو قدم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کردیا فرمایا:
عَلَيْکَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰی . (طه:2)
’’ہم نے آپ پر قرآن (اس لیے) نازل نہیں فرمایا کہ آپ مشقت میں پڑجائیں‘‘
قدم تو کئی اور لوگوں کے بھی سوجتے ہوں گے مگر جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک متورم ہوئے تو خدا سے رہا نہیں گیا۔ اسی وقت جبرائیل کو پیغام دے کر بھیج دیا۔
٭ جب آقا علیہ السلام کے پوری کامل صورت پر نگاہ پڑی تو خدا نے صورت مبارک مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر قرآن میں کردیا اور فرمادیا کہ
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ . (التين:4)
’’بے شک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے‘‘ ۔
کہ ہم نے اس انسان یعنی اس ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حسن کا منتہی کمال بنادیا۔
٭ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق پر نگاہ پڑی تو اس اخلاق کا ذکر بھی قرآن میں فرما دیا:
وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍ . (القلم:4)
’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)‘‘۔
اس لئے کہ سب کے اخلاق تو آپ کے قدموں سے پھوٹتے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں وہ اخلاق بن جاتا ہے۔
٭ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمرِ مبارک پر نگاہ پڑی تو عمر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم کھالی، فرمایا:
لَعَمْرُکَ اِنَّهُمْ لَفِيْ سَکْرَتِهِمْ يَعْمَهُوْنَ . (الحجر:72)
’’(اے حبیبِ مکرّم!) آپ کی عمرِ مبارک کی قَسم، بے شک یہ لوگ (بھی قومِ لوط کی طرح) اپنی بدمستی میں سرگرداں پھر رہے ہیں‘‘۔
الغرض قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر ہر ادا کی قسم اُٹھائی ہے ۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب
اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
شانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کی روشنی میں محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْ...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...
No comments:
Post a Comment