Sunday, 20 September 2015

رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کے اسمِ مبارکہ کو سنتے ہی انگوٹھے چومنا









رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کے اسمِ مبارکہ کو سنتے ہی انگوٹھے چومنا

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

کچھ لوگ اس عمل کو اپنے بغض اور نادانی میں عجب عجب نام دیتے ہیں اور جو لوگ انگوٹھوں کو چومتے ہیں ان کو بدعتی، کافر اور مشرک تک بک دیتے ہیں، یا کہتے ہیں یہ تو بریلویت ہے۔ تو عرض یہ ہے کہ ذرا غور سے پڑھیئے گا۔

اس سے تو ہم سب واقف ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی تبرکات کو صحابہ اپنے پاس حرز جاں بنا کر رکھتے تھے۔کتب دینیہ کے مطالعہ سے بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ وہ اعمال جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم پر دلالت کرتے ہیں ان کے لیئے اگرچہ شرعی دلیل نہ بھی ملے تب بھی کرنے والے کو اجر و ثواب ملتا ہے۔ امام مالک رضی اللہ عنہ کے پاس کونسی شرعی دلیل تھی جس کی وجہ سے وہ حدیث کو بحالتِ قیام اور نہایت زیب و زینت میں پڑھاتے ہیں اور مدینہ شریف سے باہر نہیں جاتے اور نہ ہی مدینہ شریف میں سواری پر ہوتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ یعنی مجبور ہوکر کہنا ہی پڑے گا کہ تعظیمِ مصطفی علیہ التحیہ والثناء میں جو عمل کیاجاتا ہے اس پر اجر وثواب ہے۔

منجملہ ان کے انگوٹھے چومنا یہ بھی ایک تعظیم ہے کہ کسی کے نام پر انسان جھوم جائے اور عقیدت کا اظہار کرے تو وہ محبت کی ایک دلیل ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نامِ اقدس کو سن کر عاشقِ نبی جھوم جاتا ہے اور محبت وعقیدت سے سر جھکا رہا ہے اور انگوٹھے چوم رہا ہے۔ اس پر اگرچہ اس کے پاس دلیل نہ بھی ہوتی تب بھی شرعاً گرفت نہ تھی کیونکہ ایسے عمل سے شرعاً کسی قانونِ شرعی کے خلاف نہیں کرنا پڑتا ہے۔ بحمدہ تعالیٰ ایسے عاشِ صادق کے لیئے بہت بڑے دلائل ہیں، اسے مجبور کرتے ہیں کہ اپنے محبوب کا نام سنتے ہی عقیدت کا نذرانہ پیش کرے۔ اگر کوئی روکے تو اسے اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہ شعر سنا دیجئے

نجدی کہتا ہے کہ کیوں تعظیم کی ، یہ ہمارا دین تھا پھر تجھ کو کیا؟

ہمارا عقیدہ:۔

نبی پاک صاحب لولاگ سید کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا اسمِ گرامی بوقتِ اذان و اقامت سن کر انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر رکھنا مستحب ہے۔ یہی ہمارا مذہب ہے اسی پر ہمارے دلائل قائم ہوتے ہیں۔ بہتان تراشی کا جواب ہمارے پاس نہیں کہ بڑی دلیری سے کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ اہلسنت انگوٹھے چومنا واجب مانتے ہیں۔یہ نرا جھوٹ اور افتراء سے زیادہ کچھ نہیں، ہم چونکہ اس عمل مبارک کو (مستحب) مانتے ہیں اس پر احادیث واقوال ،فقہاء وصلحاء موجود ہیں جو کہ درج کیئے جارہے ہیں۔

۱۔ قال علیہ الصلوٰۃ والسلام من سمع اسمی فی الاذان فقبل ظفری ابھامیہ ومسح علی عینیہ لم یعم ابدا۔ (مضمرات)

یعنی ؛۔ جس نے اذان میں میرا نام سن کر انگوٹھوں سے لگا کر چوما اور آنکھوں سے لگایا تو وہ کبھی اندھا نہیں ہوگا۔

۲۔ قال علیہ السلام من سمع اسمی ووضع ابھامیہ علیٰ عینیہ فانا طالبہ فی صفوف القیامۃ وقائدہ الی الجنۃ (صلوٰۃ مسعودی)۔

یعنی ؛۔ جس نے میرا نام سن کر انگوٹھوں کو آنکھوں سے لگایا تو میں اس کو قیامت میں صفوں سے تلاش کرکے بہشت میں لے جاؤں گا۔

۳۔ قال الطاؤس انہ سمع من الشمس محمد بن ابی نصر البخاری حدیث من قبل عند سماعہ من المؤذن کلمۃ الشھادۃ ظفری ابھامیہ ومسھا علیٰ عینیہ وقال عند المس ۔ اللھم احفظ حدقتی ونورھما ببرکۃ حدقتی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ونورھما لم یعم۔ (المقاصد الحسنہ۔ ص285)۔

یعنی؛۔ طاؤس فرماتے ہیں انہوں نے خواجہ شمس الدین ابی نصر البخاری سے یہ حدیث سنی کہ جو شخص مؤذن سے کلمہ شہادت سن کر انگوٹھوں کے ناخن چومے اور آنکھوں سے لگائے اور یہ دعا پڑھے (اللھم احفظ حدقتی الخ) تو وہ اندھا نہ ہوگا۔

۴۔ عن الخضر علیہ السلام انہ قال حین یسمع المؤذن یقول اشھدان محمداً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرحباً بحبیبی وقرۃ عینی محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ثم یقبل ابھامیہ ویجعلھما علیٰ عینیہ لم یرمد ۔ (بحوالہ عقائد حسنہ)۔

یعنی؛۔ حضرت خضر علیہ السلام سے مروی ہے کہ جس نے مؤذن کے قول (اشھد ان محمدا! الخ) سن کر مرحبا بحبیبی الخ کہہ کر انگوٹھوں کو چوما اور ان کو آنکھوں پر پھیرا تو اس کی آنکھیں کبھی نہیں دکھیں گی۔

۵۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے مؤذن کے قول اشھد ان محمد رسول اللہ کو سن کر انگوٹھوں کو چوما اور آنکھوں سے لگایا تو رسولِ کریم علیہ السلام نے فرمایا؛۔

من فعل فعل خلیلی فقد حلت لہ شفاعتی

کشف الخفاء، باب الجز۲، الجز ۲، الصفحۀ ۲۰۶ . مقاصد حسنه ص ۳۸۴

یعنی جس طرح میرے خلیل صدیق نے کیا جو بھی ایسے ہی کرے گا اس کے لیئے میری شفاعت واجب ہوگئی۔ (موضوعاتِ کبیر)

۶۔ عن الفقیہ ابی الحسن علی بن محمد من قال حین یسمع المؤزن یقول اشھد ان محمدا رسول اللہ مرحبا بحبیبی وقرۃ عینی محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم ویقبل ابھامیہ ویجھلھما علی عینیہ لم یعم ولم یرمد

کشف الخفاء، الباب الجز ۲، الجز ۲، ص ۲۰۷، و مقاصد حسنه ص ۳۸۴

یعنی حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جو شخص اشھد ان محمداً الخ سن کر مرحبا الخ کہتا ہے اور انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر پھیرتا ہے تو وہ ہمیشہ نہ تو نابینا ہوگا اور نہ ہی اس کی آنکھیں دکھیں گی۔

چند اور احادیث کا ذکر بعد میں کیا جائے گا ویسے کتب احادیث میں اسی قسم کی روایات بہت ہیں لیکن ان سب کے اسی طرح کے مضامین ہیں۔

غلطی کا ازالہ؛۔

اس سے بعض جاہلوں کی جہالت بھی ظاہر ہوگئی جنہوں نے یہ لکھا اور کہا کہ (علماء مبتدعین انگوٹھے چومنے کی اصل روایت جو بڑے کروفر سے بیان کرتے ہیں صرف دو عدد ہیں) یہ ان کی جہالت کا بین ثبوت ہے کہ انہوں نے مطالعہ کیئے بنا صرف دوحدیثیں مانیں حالانکہ اس موضوع پر بہت سی حدیثیں ہیں جنہیں عرض کردیا گیا ہے ان کے علاوہ بھی بہت ہیں۔

چند حکایات

حکایت اول؛۔

حدیث شریف میں ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام بہشت میں تشریف لائے تو فرشتگان ، نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لیئے حاضری دیتے تو حضرت آدم علیہ السلام نے ملائکہ سے حاضری کا سبب پوچھا تو حکم ہوا کہ یہ نورِ محمدی کی زیارت ک لیئے حاضر ہوتے ہیں۔ آدم علیہ السلام کو نورِ محمدی کی زیارت کا اشتیاق ہوا تو بارگاہء ایزدی میں زیارت کی التجا کی۔

فاظھر اللہ وجہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فی صفار ظفری ادم مثل المراۃ فقبل ظفریہ ومسح علیٰ عینیہ

یعنی ؛۔ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا جمال آدم علیہ السلام کے ناخنوں میں ظاہر فرمایا جس پر آدم علیہ السلام نے اپنے انگوٹھوں کو چوما اور آنکھوں پر لگایا۔

اس کے بعد حدیث شریف میں ہے کہ (لم یعم ابداً)۔

یعنی حضرت آدم علیہ السلام اسی عمل کی بدولت تادمِ زندگی نابینا نہ ہوئے۔

حوالہ؛۔ فتاویٰ جواھر، فتاویٰ سراج المنیر، فتاویٰ مفتاح الجنان ، نعم الانتباہ از منیر العین، ص ۱۴۳

اسی طرح کا واقعہ انجیل برنباس ص ۶۰/۶۱ مترجم مطبوعه حميديه لاهور میں بھی ہے۔

انگھوٹے چوم کر آنکھوں پر لگانا حضرت ابوالبشر آدم علیہ السلام کی سنت ہے ۔ اپنے باپ کی سنت پر عمل کرنا اپنے باپ کے ہونے کا ثبوت دینا ہے ورنہ۔۔۔۔۔

حکایت دوم؛۔

حضرت وہب بن منبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں ایک ایسا مرد تھا جس کا پورا ایک سوسال جرم وخطا میں گزرا۔ جب وہ فوت ہوا تو بنی اسرائیل نے اسے ایسے ہی بلاکفن ودفن پھینک دیا۔

فاوحی اللہ الیٰ موسیٰ علیہ السلام ان غسلہ وکفنہ وصل علیہ فی بنی اسرائیل۔

یعنی تو اللہ تعالیٰ کا موسیٰ علیہ السلام کو حکم ہوا کہ اسے غسل دو اور کفنا کر بنی اسرائیل کو بلا کر اس پر نمازِ جنازہ پڑھئے

سبب دریافت کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛۔

لانہ نظر فی التوراۃ فوجد اسم محمد فقبل ووضعہ علیٰ عینیہ وصلی علیہ۔

یعنی اسلیئے کہ اس نے تورات میں میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا اسمِ گرامی دیکھا تو اسے بوسہ دے کر آنکھوں پر رکھا اور درود بھی پڑھا۔

فغفرت لہ ذنوبہ وزوجتہ حوراء

یعنی اسی لیئے میں نے اسے بخش دیا اور اسے حور بھی عنایت کردی۔

حوالاجات۔ اخرجہ فی النعیم فی الحلیہ ج ۴ ص ۴۲ ، سيرۀ الحلبيه ج ۱۰ ص۸۰ ، نزهته المجالس ج ۲ ص ۸۹ ، از تاريخ خميس وغيره وخصائص الکبري ج ۱۰ ص ۱۶

فائدہ؛۔ اس حکایت کو بار بار پڑھیے۔ ہمارے مخالفین تو زندگی بھر ماتھے رگڑ رگڑ کر بھی بہشت نہ لے سکے اور نہ ہی حور۔ جبکہ مالکِ حقیقی قادر ہے کہ اپنے محبوب بندے کے ایک نام لیوا اور عاشق کو بہشت بھی دے دی اور حور بھی ۔ اس سے مخالفین روئیں یا مریں لیکن اس عاشق نے بزبانِ حال کہہ ہی دیا۔

تجھ سے اور جنت سے کیا مطلب وہابی دور ہو
ہم رسول اللہ کے، جنت رسول اللہ کی

ایک شبہ؛۔
انہی باتوں سے لوگ دھوکہ میں آجاتے ہیں کہ گناہ کیئے جاؤ۔ اللہ تعالیٰ تو صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی برکت سے بخش دے گا۔ لہٰذا اب اعمال صالحہ کی ضرورت ہی کیا ہے۔

جواب؛۔

مولیٰ عزوجل اگر قہار وجبار ہے تو رحیم و کریم بھی ہے اور ستار و غفار بھی ۔ مخالف کے سامنے نبوی وقار چونکہ بالکل نہیں اسی لیئے اسے یہ بات معمولی معلوم ہورہی ہے۔ صحابہ کرام کی زندگی پر نظر ڈالیئے انہوں نے کون سے شاقہ اعمال کیئے کہ امت مصطفویہ کے اغواث و اقطاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس صحابی (جس نے ساری زندگی کفروشرک میں گزاری لیکن آخری لمحات زندگی میں نبی پاک کے رخ انور کی زیارت کرکے کہہ دیا۔ لاالٰہ الااللہ محمد رسول اللہ)۔ کا موازنہ کروگے تو صحابی کیش ان کو فوقیت حاصل ہوگی۔ صرف اسلیئے کہ وقارِ نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کا صدقہ ہے۔ لیکن تاہم مخالف کے اطمنان کے لیئے ثبوت میں ذیل کی سچی اور صحیح حدیث شریف کافی ہے۔

حکایت سوئم؛۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ سابقہ زمانے میں ایک آدمی تھا جس نے ننانوے مرد قتل کیئے۔ ایک عالم سے اپنی توبہ کا سوال کیا تو اس نے ایک راہب کی طرف رہبری کی، اس راہب کی خدمت میں پہنچ کر اپنا ماجرا سنایا۔ راہب نے کہا ایسے کی توبہ قبول نہیں ہوگی، اس نے راہب کو بھی قتل کردیا اب اس پر سو قتل ہوگئے۔ آگے چل کر پھر کسی عالمِ دین سے اپنی توبہ کے متعلق پوچھا تاکہ اس کی توبہ قبول ہوجائے۔ اس نے کہا کیوں نہیں توبہ کے درمیان کون حائل ہوسکتا ہے لیکن فلاں گاؤں جاؤ، وہاں اللہ کے بندے رہتے ہیں جو عبادت گزار ہیں تو ان کے ساتھ رہ کر عبادت کر اپنے گاؤں میں نہ جانا اسلیئے کہ وہ برا مقام ہے۔ وہ مرد چل پڑا جب آدھا سفر طے ہوا تو ملک الموت آپہنچا اس نے اس گاؤں کی طرف سینہ بڑھایا اس کے بعد ملک الموت جان لے کر چل پڑے۔

فاختصمت فیہ ملایکۃ الرحمۃ وملائکۃ العذاب فاوحی اللہ الی ھذہ ان تقربی واوھی اللہ الی ھذہ ان تباعدی وقال قیسوا مابینھما فوجد الی ھذہ اقرب بشبر فغفرلہ

صحیح بخاری، کتاب احادیث الانبیاء ، الباب حدیث الغار، الجز 11 ص 289، حدیث 3211

یعنی ۔ تو رحمت وعذاب کے فرشتے جھگڑنے لگے زمین کے ناپنے کا حکم دے دیا گیا ادھر زمین کو گھٹنے بڑھنے کا حکم دیا۔ وہ شخص زمین مقصود کی طرف ایک بالشت کے برابر قریب پایا گیا اسی وجہ سے اسے بخش دیا۔

اسکے علاوہ بخاری شریف میں ہے کہ ایک بندے کو صرف کتے کو پانی پلانے سے بخشا گیا اور دوسرے کو راستہ سے کانٹے ہٹانے سے بخشا گیا۔

دیکھیئے کہ رب کریم نے اپنے بندوں کو کیسی کریمی سے بخشا اور ہماری پیش کردہ روایت میں تو نبی کریم علیہ السلام کے نام اقدس کا وسیلہ جلیلہ سبھی ہے اور جہاں حبیب کا وسیلہ جلیلہ ہو وہاں تو فضل الٰہی کا کیا کہنا جیسے آدم علیہ السلام کے واقعہ میں ہوا۔

حکایت چہارم

حضرت مولانا روم قدس سرہ مثنوی شریف میں لکھتے ہیں کہ

بود در انجیل نام مصطفیٰ ۔ آن سر پیغمبراں بحر صفا

انجیل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی درج تھا۔ آپ ہی تو انبیاء کے سردار اور بحرصفا ہیں۔

بود ذکر حلیہ ھاؤ شکل اُو ۔ بود ذکر غزووصوم واکل او

تورات میں آپ کی صورت وشکل مبارک کا بیان تھا اورآپ کے جہاد اور خوردونوش و صوم و صلوٰۃ کا بھی ذکر درج تھا۔

طائفہ نصرانیاں بھر ثواب ۔ چوں رسید ندے بدان نام وخطاب
بوسہ داد ندے بداں نام شریف ۔۔ رونھادندے بداں وصف لطیف

عیسائیوں کی ایک جماعت جب اس نام پاک اور خطاب مبارک پر پہنچی تو وہ لوگ بغرض ثواب اسن نام شریف کو بوسہ دیتے اور اس ذکر مبارک پر بطور تعظیم منہ رکھ دیتے۔

اندریں فتنہ گفتم آن گروہ ۔ ایمن از فتنہ بوداز شکوہ
جس گروہ کا بیان ہوا وہ دنیا کے فتنوں اور شکوہوں کے دبدبوں سے محفوظ تھا۔

ایمن از شتر امیران ووزیر ۔ درپناہ نام احمد مستجیر

بادشاہوں اور وزیروں کے شر سے اسلیے محفوظ تھے کہ انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم گرامی کی پناہ نصیب تھی۔

نسل ایشاں نیز ھم بسیار شد ۔ نور احمد ناصر آمد یارشد

یعنی (اسکی تعظیم کی بدولت) ان کی نسل بہت بڑھ گئی اور حضرت احمد مجتبیٰ کا نور ان کا حامی و ناصر تھا۔ (ان کے مقابل ایک دوسرا بے ادب گروہ بھی تھا)۔

واں گروہ دیگر نصرانیاں ۔ نام احمد صلی اللہ علیہ وسلم داشتند ے مستھاں

یعنی ان نصرانیوں میں دوسرے وہ بھی تھے جو نبی کریم کے نام اقدس کی بے ادبی کرتے تھے۔

مستھان وخوار گشتند از فتن ۔ از وزیر شوم رائے شوم فن
انہیں یہ سزا ملی کہ فتنوں سے خوار وذلیل ہوگئے اور وزیرشوم سے بھی انہیں سخت اذیت پہنچی

مستھاں وخوار گشتنداں رفیق ۔ گشتہ محروم از خود وشرط طریق

یعنی وہ گروہ ذلیل و خوار ہوا ۔ اپنی ہستی سے محروم یعنی قتل کیئے گئے اور مذہب سے بھی محروم یعنی عقائد خراب ہوگئے۔

نام احمد صلی اللہ علیہ وسلم چوں چنیں یاری کند ۔ تاکہ نورش چوں مددگاری کند

یعنی نبی پاک کا نام جب ایسی مدد کرتا ہے تو اندازہ کرو کہ ان کا نور کس قدر مددگار ہوتا ہے۔

نام احمد چوں حساے رشد حصین ۔ تاچہ باشد ذات آن روح الامین
جب حضرت احمد مجتبیٰ کا اسم گرامی حفاظت کے لیے مضبوط قلعہ ہے تو اس روح الامین کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ پاک کیسی ہوگی۔

حوالہ۔ مثنوی دفتر اول ص 26 مطبوعہ نولکشور لکھنؤ

حکایت پنجم؛۔

فقیہہ محمد بن البابا رحمتہ اللہ علیہ کے بھائی سے روایت ہے کہ وہ اپنا حال بیان کرتے ہیں کہ ایک ہوا چلی کہ کنکری ان کی آنکھ میں پڑگئی۔ نکالتے تھک گئے ہرگز نہ نکلی۔ اور نہایت شدید درد پہنچایا۔ انہوں نے مؤذن کو اشھدان محمدا ۔ الخ ۔ کہتے ہوئے سنا تو کہا (مرحبا بحبیبی وقرۃ عینی محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم) تو کنکری فوراً نکل گئی۔

حکایت ششم؛۔

حضرت شمس الدین محمد بن صالح مدنی وخطیب وامام مسجد، مدینہ طیبہ نے اپنی تاریخ میں حضرت امجد مصری سے ۔ انہوں نے فرمایا جس نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم پاک اذان میں سن کر انگوٹھا اور انگلی کو ملاے اور نہیں بوسہ دے کر آنکھوں سے لگائے تو اس کی آنکھیں کبھی نہ دکھیں گیں اور حضرت محمد بن صالح نے فرمایا کہ میں نے ایسے ہی محمد بن زرندی سے بھی سنا اور پھر اپنے متعلق کہا

وانا وللہ الحمد والشکر منذ سمعتہ منھما استعملتہ فلم ترمد عینی وارجو ان عافیتھما تدوم وانی اسلم من العمی ان شاء اللہ۔ از مقاصد حسنہ الباب حرف المیم جز 1 ص 203

یعنی؛۔ اللہ ہی کے لیئے حمد شکر ہے جب سے میں نے یہ عمل دونوں صاحبوں سے سنا اپنے عمل میں رکھا۔ آج تک میری آنکھیں نہ دکھیں اور امید کرت اہوں کہ اچھی رہیں گی۔ اور میں کبھی اندھا نہ ہوں گا۔ (انشاء اللہ تعالیٰ)۔

یہ تھے سلف صالحین کے عقائد اور اپنے نبی کریم سے محبت و عقیدت۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ شامی میں ہے۔

یستحب ان یقال عند سماع الاولی من الشھادۃ ؛ صلی اللہ علیک یارسول اللہ، وعند الثانیۃ منھا؛ قرت عینی بک یارسول اللہ ، ثم یقول؛ اللھم متعنی بالسمع والبصر بدع وضع ظفری ابابھامین لی العینین فانہ علیہ السلام یکون قائدًا لہ الی الجنۃ

ردالمختار، کتاب الصلوٰۃ باب فائدۃ التسلیم بعد الاذان۔




یعنی جان لو کہ بے شک اذان کی پہلی شہادت کے سننے پر صلی اللہ علیک یارسول اللہ اور دوسری شہادت کے سننے پر قرۃ عینی بک یارسول اللہ کہنا مستحب ہے۔پھر اپنے انگوٹھوں کے ناخن (چوم کر) اپنی آنکھوں پر رکھے اور کہے اللھم متعنی بالسمع والبصر، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرنے والے کو اپنے پیچھے پیچھے جنت میں لے جائیں گے۔

قھستانی ونحوہ فی الفتاوی الصوفیۃ وفی کتاب الفردوس (من قبل ظفری ابھامہ عند سماع اشھد ان محمدًا رسول اللہ فی الآذان انا فائدہ مدخلہ فی صفوف الجنۃ) وتمامہ فی حواشی البحر للرملی

حاشیہ رد المحتار ص ۳۹۸ ج ۱ دارالفکر بيروت

ایسا ہی کنز العباد امام قہستانی میں اور اسی کی مثل فتاویٰ صوفیہ میں ہے اور کتاب الفردوس میں ہے کہ جو شخص اذان میں اشھدان محمدرسول اللہ سن کر اپنے انگوٹھوں کے ناخنوں کو چومے (اس کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے) کہ میں اس کا قائد بنوں گا اور اس کو جنت کی صفوں میں داخل کروں گا اور اس کی پوری بحث بحرالرقائق کے حواشی رملی میں ہے۔

۲۔ رئیس الفقہاء الحنفیہ علامہ طحطاوی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ شرح مراقی الفلاح میں یہی عبارت اور دیلمی کی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ والی مرفوع حدیث نقل کرکے فرماتے ہیں؛۔

وکذاروی عن الخضر علیہ السلام وبمثلہ یعمل فی الفضائل۔

حاشیہ الطحطاوی علیٰ مراقی الفلاح ص ۲۰۶ کتاب الصلوٰۃ ، باب الاذان، دارالکتب العلمیہ بیروت



یعنی:۔ اور اسی طرح حضرت خضر علیہ السلام سے بھی روایت کیا گیا ہے اور فضائلِ اعمال میں ان احادیث پر عمل کیا جاتا ہے۔

۳۔ علامہ امام قہستانی شرح الکبیر میں کنزالعباد سے نقل کرکے فرماتے ہیں؛۔

ترجمہ؛۔ جان لوبلاشبہ اذان کی پہلی شہادت کے وقت سننے پر صلی اللہ تعالیٰ علیک یارسول اللہ اور دوسری شہادت کے وقت قرۃ عینی بک یارسول اللہ کہنا مستحب ہے۔ پھر اپنے انگوٹھوں کے ناخن چوم کر اپنی آنکھوں پر رکھے اور کہے (اللھم متعنی بالسمع والبصر) تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرنے والے کو اپنے پیچھے پیچھے جنت میں لے جائیں گے۔

۴۔ علامہ الفاضل الکامل الشیخ اسماعیل حقی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی شہرہ آفاق تفسیر روح البیان جلد 4 ص 649 پر لکھتے ہیں؛۔

وقصص الانبیاء وغیرھا ان ادم علیہ السلام اشتاق الیٰ لقاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم حین کان فی الجنۃ فاوحی اللہ تعالیٰ الیہ ھو من صلبک ویظھر فی اٰخر الزمان فسال بقاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم حین کان فی الجنۃ فاوحی اللہ الیہ فجعل اللہ النور المحمدی فی اصبعہ المسبحۃ من یدہ الیمنی فسبح ذلک النور فلذالک سمیت تلک الاسبع مسبحۃ کما فی الروض الفائق او اظھر اللہ تعالی جمال حبیبہ فی صفاء ظفری ابھامیہ مثل المراۃ فقیل ادم ظفری ابھامیہ ومسح علیٰ عینیہ فصار اصلاً لذریتہ فلما اخبر جبریل النبی صلی اللہ علیہ وسلم بھذہ القصۃ قال علیہ السلام من سمع اسمی فی الاذان فقبل ظفری ابھامیہ ومسح علی عینیہ لم یعم ابدا ۔

ترجمہ؛۔
قصص الانبیاء وغیرہ کتب میں ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام کو جنت میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کا اشتیاق ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ وہ تمہارے صلب سے آخر زمانہ میں ظہور فرمائیں گے تو حضرت آدم نے آپ کی ملاقات کا سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کے داہنے ہاتھے کے کلمے کی انگلی میں نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم چمکایا تو اس نور نے اللہ کی تسبیح پڑھی اسی واسطے اس انگلی کا نام کلمے کی انگلی ہوا۔ جیسا کہ روض الفائق میں ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کے جمال کو حضرت آدم علیہ السلام کے دونوں انگوٹھوں کے ناخنوں میں مثل آئینہ کے ظاہر فرمایا تو حضرت آدم نے اپنے انگوٹھوں کو چوم کر آنکھوں پر پھیرا۔ پس یہ سنت ان کی اولاد میں جاری ہوئی پھر جبرئیل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی تو آپ نے فرمایا، جو شخص آذان میں میرا نام سن کر اور اپنے انگوٹھوں کو چوم کر آنکھوں سے لگائے تو وہ کبھی اندھا نہ ہوگا۔


۵۔ اسی تفسیر روح البیان میں لکھا ہے کہ؛۔

در محیط آوردہ کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم بمسجد درآمد ونزدیک ستون بنشت وصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ در برابر آنحضرت نشستہ بود بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ برخاست باذان اشتغال فرمود چوں گفت اشھد ان محمد رسول اللہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ھردو ناخن ابھامین خود رابرھردوچشم خودنھا دہ گفت قرۃ عینی بک یارسول اللہ چوں بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ فارغ شد حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمودہ کہ یا ابابکر ھر کہ بکند ایں چنیں کہ تو کردی خدائے بیامرزد گناھاں جدید اوراقدیم۔ اگر بعمد بودہ باشد اگر بخطا۔

ترجمہ؛۔

یعنی محیط میں آیا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے اور ایک ستون کے قریب بیٹھ گئے ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی آپ کے برابر بیٹھے تھے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اٹھ کر آذان دینا شروع کی جب انہوں نے اشھد ان محمد رسول اللہ کہا تو حضرت ابوبکر نے اپنے دونوں انگوٹھوں کے ناخنوں کو اپنی دونوں آنکھوں پر رکھا اور کہا (قرۃ عینی بک یارسول اللہ)۔ جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان دے چکے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوبکر!جو شخص ایسا کرے جیسا کہ تم نے کیا ہے خدا تعالیٰ اس کے گناہوں کو بخش دے گا۔

۶۔ امام شمس الدین سخاوی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ ، امام محمد بن الصالح مدنی کی تاریخ سے نقل فرماتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا میں نے حضرت مجد مصری کو جو کاملین صالحین میں سے تھے فرماتے سنا کہ

من صلی علی النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ازا سمع ذکرہ فی الاذان وجمع اصبعیہ المسبحۃ والابھام وقبلھا ومسح بھما عینیہ لم یرمد ابدا

یعنی جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر پاک اذان میں سن کر درود بھیجے اور کلمہ کی انگلیاں اور انگوٹھے ملا کر ان کو بوسہ دے اور آنکھوں پر پھیرے اس کی کبھی آںکھیں نہ دکھیں گی۔

۷۔ یہی امام سخاوی ان ہی امام محمد بن صالح کی تاریخ سے نقل فرماتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا عراق کے بہت سے مشائخ سے مروی ہوا ہے کہ جب انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر پھیرے تو یہ درود شریف پڑھے

صلی اللہ تعالیٰ علیک یاسیدی یارسول اللہ یا حیبیب قلبی ویا نوربصری ویاقرۃ عینی۔ انشاء اللہ تعالیٰ

یعنی کبھی آنکھیں نہ دکھیں گی اور یہ مجرب ہے۔ اس کے بعد امام مذکور فرماتے ہیں کہ جب سے میں نے یہ سنا ہے یہ مبارک عمل کرتا ہوں آج تک میری آنکھیں نہ دکھی ہیں اور نہ انشاء اللہ دکھیں گی۔ بحوالہ المقاصد الحسنہ۔

۸۔ یہی امام سخاوی حضرت ابوالعباس احمد بن ابی بکر دادالیمانی کی کتاب (موجبات الرحمۃ وعزائم المغفرۃ) سے نقل فرماتے ہیں کہ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا؛۔

من قال حین یسمع المؤذن یقول اشھد ان محمداً رسول اللہ : مرحباً بحبیبی وقرۃ عینی محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثم یقبل ابھامیہ ویجعلھما علی عینیہ لم یرمد ابداً۔ بحوالہ مقاصدالحسنہ

یعنی جو شخص مؤذن سے اشھدان محمد رسول اللہ سن کر کہے مرحبا الخ پھر دونوں انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر رکھے وہ کبھی اندھا نہ ہوگا اور نہ اسکی آنکھیں دکھیں گی۔

۹۔ امام سخاوی ہی نے اسی مقاصد الحسنہ میں ایسی ہی حدیث فقیہ محمد بن سعید خولانی رحمتہ اللہ علیہ سے روایت کی ہے جو کہ سیدنا امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔

۱۰۔ امام سخاوی ہی نے امام طاؤس سے بھی نقل فرمایا جو کہ انہوں نے شمس الدین محمد بن ابی نصر بخاری خواجہ حدیث سے یہ حدیث سنی جس مین تھوڑے سے الفاظ کے فرق کے ساتھ یہی انگوٹھے کے چومنے کا قصہ بیان کیا ہے۔ اور منیر العین فی حکم تقبیل الابھامین میں شیخ المشائخ رئیس المحققین سید العلماء الحنفیہ بمکۃ المکرمہ مولانا جمال الدین عبداللہ بن عمر مکی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے فتاوے میں لکھتے ہیں۔

سئلت عن تقبیل الابھامین ووضعھما علی العینین عند ذکر اسمہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الاذان ھل ھو جائز ام لا اجیب بما نصہ نعم تقبیل الابھامین ووضعھا علی العینین عند ذکر اسمہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الاذان جائز بل ھو مستحب صرح لہ مشائخنا۔



یعنی مجھ سے سوال ہوا کہ اذان مین حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم مبارک کے ذکر کے وقت انگوٹھے چومنا اور آنکھوں پر رکھنا جائز ہے یا نہیں؟۔ میں نے ان لفظوں میں جواب دیا کہ ہاں آذان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک سن کر انگوٹھے چومنا اور آنکھوں سے لگانا جائز بلکہ مستحب ہے ۔ ہمارے مشائخ مذہب نے اس کے مستحب ہونےکی تصریح فرمائی ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔ مزید حوالہ جات اور عکس جلد ہی شامل کردیئے جائیں گے انشاء اللہ تعالیٰ العزیز۔



Kissing the Thumbs

الحمد للّٰه الذي نورعيون المسلمين بنورعين اعيان المرسلين، والصّلاة والسلام علي نورالعيون سرورالقلب المحزون محمد نالرفيع ذكره في الصلاة والاذان، والجيب اسمه عند اھل الايمان، وعلى اٰله وصحبه والمشروحة صدورھم لجلال اسراره والمفتوحة عيونھم بجمال انواره، واشھد ان لاالٰه الا اللّٰه وحده لاشريك له، وان محمّدا عبده ورسوله بالھدى ودين الحق ارسله صلى اللّٰه تعالٰى عليه وعلٰى اٰله وصحبه اجمعين، وعلينا معھم وبھم ولھم يا ارحم الراحمين اٰمين

When hearing the Muazzin proclaim, “Ash’hadu anna Muhammad ar­-Rasoolullah” it is preferred (Mustahab) to kiss the two thumbs or the shahaadat finger and place them on the eyes. There are many spiritual, religious and worldly benefits associated to this, as well as numerous Ahadith documenting its practice. Doing so is even practiced by the Sahaaba, and Muslims everywhere perform it in the belief that it is Mustahab. It is stated in the book, Salaat al-Mas’oodi:

روي عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال من سمع اسمي في الاذان ووضع ابھاميه على عينيه فانا طالبه في صفوف القيمه و قائده الى الجنه

”The Noble Messenger is reported to have said, “On the Day of Qiyaamat, I shall search for the person who used to place his thumbs on his eyes when hearing my name during the Adhaan. I shall lead him into Jannat.” [Salat al-Mas’oodi, Vol 2, Chapter 20]

Allama Ismail Haqqi Rahmatullahi Tala Aleh writes under the verse 58 of Surah al Maidah,

وضعف تقبيل ظفرى ابهاميه مع مسبحتيه والمسح على عينيه عند قوله محمد رسول الله لانه لم يثبت فى الحديث المرفوع لكن المحدثين اتفقوا على ان الحديث الضعيف يجوز العمل به فى الترغيب والترهيب

“Kissing the nails of the thumbs and the shahadat finger when saying “Muhammad ar­-Rasoolullah SallAllaho Alaihi wa Sallam has been classified as weak (zaeef) because it is not proven from a marfoo’ Hadith. However, Muhadditheen have agreed that to act upon a zaeef Hadith to incline people towards deeds and instill fear within them is permitted.”

[Tafseer Rooh al-Bayaan, Vol 3, Page 282]



Shaami states,

يستحب أن يقال عند سماع الأولى من الشهادة : صلى الله عليك يا رسول الله ، وعند الثانية منها : قرت عيني بك يا رسول الله ، ثم يقول : اللهم متعني بالسمع والبصر بعد وضع ظفري الإبهامين على العينين فإنه عليه السلام يكون قائدا له إلى الجنة ، كذا في كنز العباد . قهستاني ، ونحوه في الفتاوى الصوفية . وفي كتاب الفردوس من قبل ظفري إبهامه عند سماع أشهد أن محمدا رسول الله في الأذان أنا قائده ومدخله في صفوف الجنة وتمامه في حواشي البحر للرملي

“On the testimony (of Prophethood) in Adhaan, it is Mustahab to say “Sallallaahu Alaika Ya Rasoolallah SallAllaho Alaihi wa Sallam on the first and “Quratu Aini bika Ya RasoolAllah SubHanuhu wa Ta’ala on the second. Then, place the nails of your thumbs on your eyes and say, “Allahumma Matti’ni bis-Sam’i wal-Basr.” The Holy Prophet SallAllaho Alaihi wa Sallam will lead the person who does this into Jannat. The same has been documented by Kanzul­lbaad, Qohistaani and in Fataawa Soofia. Kitaabul-Firdaus states that the Prophet SallAllaho Alaihi wa Sallam has said, I shall lead into Jannat the person who kisses his thumbnails when hearing “Ash’hadu anna Muhammad ar-Rasoolullah. I will also place him amongst the ranks of the inmates of Janna’. The complete discussion on this has been given in the marginal notes on Bahr ar-Raaiq of Ramli.”

[Radd al Muh’tar, Baab al-Adhan, Vol. 3, Page 233]

This extract has given the reference of 5 books Kanz al-Ibaad, Fataawa Soofia, Kitaab al-Firdaus, Qohistaani and the marginal notes on Bahr ar-Raaiq. All of them have ruled this practice to be Mustahab.

In the book “al Maqasid al Hasanah Fil Hadisil Atwirah Alas Sunnah”. Imam Sakhawi Rahmatullahi Tala Aleh states,

ذكره الديلمي في الفردوس من حديث أبي بكر الصديق أنه لما سمع قول المؤذن ( أشهد أن محمدا رسول الله ) قال هذا وقبل باطن الانملتين السبابتين ومسح عينيه فقال ( من فعل مثل ما فعل خليلي فقد حلت عليه شفاعتي ) ولا يصح

“Dailmi reports that Hadrat Abu Bakr Siddique Radi ALLAHu Ta’ala Anho once said ‘When I heard the Muazzin say Ash’hadu anna Muhammad ar­-Rasoolullah SallAllaho Alaihi wa Sallam, I said the same, kissed the inner-side of my Kalima finger and placed it on my eyes. When the Holy Prophet SallAllaho Alaihi wa Sallam noticed this, he said. My intercession becomes obligatory upon he who does the same as my beloved.’ This Hadith hasn’t reached the classification of Sahih.”

[al Maqasid al Hasanah, Hadit 1021, Dar al Kutb Ilmiyah (Berut – Lebenon), Page 384]

Quoting the book Moojibaat ar-RaHmah, Imam Sakhaawi (rta) further writes.

عن الخضر عليه السلام أنه من قال حين يسمع المؤذن يقول أشهد أن محمدا رسول الله مرحبا بحبيبي وقرة عيني محمد بن عبد الله ثم يقبل ابهاميه ويجعلهما على عينيه لم يرمد أبدا

“It is reported from Hadrat Khidr Alaihis Salam , “If a person says “Marhaban bi-Habibi Quratu Aini Muhammad ibn Abdullah” when hearing the Muazzin say “Ash’hadu anna Muhammadur-Rasoolullah, then kisses his thumbs and places them on his eyes, never will they (the eyes) be sore.”

[al Maqasid al Hasanah, Hadit 1021, Dar al Kutb Ilmiyah (Berut – Lebenon), Page 384]

He further writes that Abul Abbas Ahmad said that Muhammad ibn Baabaa, narrating his personal experience, states.

أنه هبت ريح فوقعت منه حصاة في عينه فأعياه خروجها وآلمته أشد الألم وأنه لما سمع المؤذن يقول أشهد أن محمدا رسول الله قال ذلك فخرجت الحصاة من فوره

“Once, due to a heavy wind blowing, a pebble hit my eye and refused to come out. I experienced major pain because of it.” When Muhammad ibn Baabaa heard the Muazzin say “Ash ‘hadu anna Muhammad ar-Rasoolullah, ” he said this “Quratu Aini … ‘and, immediately, the pebble fell out.”

[al Maqasid al Hasanah, Hadit 1021, Dar al Kutb Ilmiyah (Berut – Lebenon), Page 384]

Allama Shams Muhammad ibn Saalih Madani reports Imam Amjad to have said.

من صلى على النبي إذا سمع ذكره في الاذان وجمع أصبعيه المسبحة والابهام وقبلهما ومسح بهما عينيه لم يرمد أبدا

“If the person who hears the name of the Noble Messenger SallAllaho Alaihi wa Sallam in the Adhaan joins his Kalima finger and his thumbs,” “Kisses and places them on his eyes, never will they be sore.”

[al Maqasid al Hasanah, Hadit 1021, Dar al Kutb Ilmiyah (Berut – Lebenon), Page 384]

Imam Amjad Rahmahumullahi Tala Aleh who was an accomplished scholar in Egypt, further states,

بعض شيوخ العراق أو العجم أنه يقول عندما يمسح عينيه صلى لله عليك يا سيدي يا رسول الله يا حبيب قلبي ويا نور بصري ويا قرة عيني وقال لي كل منهما منذ فعله لم ترمد عيني

“Some non-Arab and Iraqi Mashaaikh have said that by this practice, the eyes will never be sore.” “From the time I have brought this into practice even my eyes have not ached.” [al Maqasid al Hasanah, Hadit 1021, Dar al Kutb Ilmiyah (Berut – Lebenon), Page 384]

Ibn Saalih Radi ALLAHu Ta’ala Anho states,

وأنا ولله الحمد والشكر منذ سمعته منهما استعملته فلم ترمد عيني وأرجو أن عافيتهما تدوم وأني أسلم من العمى إن شاء لله

“From the time I heard this benefit. I brought this action into practice. Since then, my eyes haven’t become sore and it is my hope that, Insha-Allah, they will never be and I will be saved from being blind.”

[al Maqasid al Hasanah, Hadit 1021, Dar al Kutb Ilmiyah (Berut – Lebenon), Page 385]

Imam Hasan Radi ALLAHu Ta’ala Anho states,

من قال حين يسمع المؤذن يقول أشهد أن محمدا رسول الله مرحبا بحبيبي وقرة عيني محمد بن عبد الله ويقبل إبهاميه ويجعلهما على عينيه لم يعم ولم يرمد

”The eyes of he who says ‘Marhaban bi-Habibi wa Quratu Aini Muhammad ibn Abdullah’ when hearing the Muazzin say “Ash’hadu anna Muhammad ar-Rasoolullah and kisses and places his thumbs on them will never pain nor will he become blind.”

[al Maqasid al Hasanah, Hadit 1021, Dar al Kutb Ilmiyah (Berut – Lebenon), Page 385]

In short, the book alMaqaasid al Hasanah confirms this practice by many Imams and Scholars of the Deen.

Sharah Niqaaya states,

واعلم انه يستحب أن يقال عند سماع الأولى من الشهادة : صلى الله عليك يا رسول الله ، وعند الثانية منها : قرت عيني بك يا رسول الله ، وضع ظفري الإبهامين على العينين فإنه عليه السلام يكون قائدا له إلى الجنة ، كذا في كنز العباد

“It should be known that it is preferable (Mustahab) to say “Quratu Aini bika Ya Rasoolallah and place the thumbs on the eyes when hearing the first part of the second shahaadat. The Holy Prophet SallAllaho Alaihi wa Sallam wilt lead the person who does so into Jannat. Kanz al-Ibaad says likewise.” [Jami’ ar-Rumooz, Fasl al Adhan, Maktaba Islamiya (Iran), Vol 1, Page 125]

Maulana Jamaal ibn Abdullah ibn Umar Makki Rahmatullahi Tala Aleh states in his Fataawa,

تقبيل الابھامين ووضعھما على العينين عند ذكر اسمه عليه السلام في الاذان جائز بل مستحب صرح به مشائخنا

“Taqbeelul-Ibhaamain (kissing and placing the thumbs on the eyes when hearing the blessed name of Rasoolullah SallAllaho Alaihi wa Sallam in Adhaan) not just permissible, but Mustahab. Our Mashaaikh have elucidated this.”

Allama Muhammad Taahir Rahmatullahi Tala Aleh classifying this Hadith as Ghair-Sahih, also states,

وروي تجربة عن كثيرين

“There are many reports of this benefit being experienced.” [Khatima Majma’ BiHar al-Anwaar, Vol 3, Page 511]
There are many other quotations besides these that can also be presented. For the sake of conciseness. we make do with only these. Hadrat Sadr al-Afadhil, Maulana Sayyed Muhammad Na’eem al-Din Muraadabadi states that a very ancient copy of the Injeel (New Testament) has been discovered. It is known as the Gospel of Barnabas and has been translated into almost every language. The majority of its rulings and laws resemble Islamic commands. It’s written inside that when Hadrat Adam Alaihis Salam wished to see the Noor of the Beloved Mustapha SallAllaho Alaihi wa Sallam (Rooh al-Quds). The Noor was made bright on the nails of his thumbs. Hadrat Adam Alaihis Salam then kissed and placed them on his eyes out of love and appreciation.

Besides the Ulama of the Hanafi Mad’hab, Ulama from the Shafee and Maaliki Mad’habs have also ruled the kissing of the thumbs (Taqbeel al-Ibhaamain) to be Mustahab. A famous Shafa’ee book of Fiqh, I’aanatut-Taalibeen ‘Alaa Hali alfaazi Fat’hil-Mu’een, states,

ثم يقبل ابھاميه و يجعلھما على عينيه لم يعم ولم يرمد ابدا

“Then kiss and place your thumbs on your eyes. By doing so, never will you become blind nor will your eyes be sore,’ [I’aanatut-Taalibeen, Page 247, Egyptian Edition]

Another famous book of the Maaliki Mad’hab, Kifaayat at-Taalib ar­Rabbani Ii Risaalati Ibn Abi Zaid Qeerwaani Radi ALLAHu Ta’ala Anho, after saying much about this practice, states,

عينيه لم يعم ولم يرمد ابدا

“Never will the eyes of the person who does so pain, nor will he become blind.” [Kifaayat at-Taalib ar-­Rabbani, Vol 1, Page 169, Egyptian Edition]

Shaikh Ali Saeed Adawi Rahmatullahi Tala Aleh writes in his commentary of this extract,

لم يبين موضع التقبيل من ابھامين الا انه نقل عن الشيخ العالم المفسر نور الدين الخراساني قال بعضهم لقيته وقت الاذان فلما سمع الموذن يقول اشھد ان محمدا رسول الله قبل ابھامي نفسه و مسح بالظفرين اجفان عينيه من الماق الي ناحيه الصدع ثم فعل ذلك عند كل تشھد مرة فسالته عن ذلك ففقال كنت افعله ثم تركته فمرضت عيناي فرئيته صلى الله عليه وسلم مناما فقال لما تركت مسح عينيك عند الاذان ان اردت ان تبرء عيناك فعد في المسح فاستيقظت و مسحت فبرئت ولم يعاود في مرضھا الي الان

“The writer didn’t mention when the thumbs should be kissed. However, it is reported that some people met Allama Mufassir Nooruddin Khorasaani Radi ALLAHu Ta’ala Anho at the time of Adhaan. When he heard the Muazzin say “Ash’hadu anna Muhammad ar-Rasoolullah he kissed and placed his thumbs on the eyelashes and comer of his eyes, right until the temples. He did this on every shahaadat. When the people asked him about this practice of his, he replied, “I used to kiss my thumbs but stopped after a while. My eyes later became sore. I then saw the Holy Prophet SallAllaho Alaihi wa Sallam in a dream and he said to me, “Why did you stop kissing your thumbs and placing them on the eyes during the Adhaan? If you want your eyes to stop paining, resume this practice.” Thus, from then on, I continued this action and gained comfort. The pain didn’t return from the time I recommenced this.” [Nahjul-Istamia, Page 177]

Important Note: Direct narrations and Ahadith have been presented regarding this practice in Adhaan. Takbeer (lqaamat) is in the likeness of Adhaan, and it has even been called Adhaan in the Ahadith. Therefore, kissing and placing the thumbs during the Takbeer is also beneficial and a means of blessings but during Salah or a Khutba or whilst listening to the Qur’an it should not be done!

Not performing it during salah is evident and the impermissibility during listening to the khutba or the Qur’an is because one should have utmost attention at these times and refrain from any unnecessary movements. When the verse Maa kaana muhammadun abaa ahadim mir rijalikum is recited, so many people kiss their thumbs, it is as if birds have gathered to sing and they do it to such an extent that people from afar cannot even hear some words of the holy Qur’an. Even if there is no harm to place the thumbs on the lips and then place them on the eyes at this time; there is no ruling to make a sound during the kiss of reverence – like when one kisses the black stone, the ka’aba, the Qur’an or the hands and feet of the pious. There is no rule to make the noises like a flock of birds.

Conclusion:

This entire discussion establishes that kissing and placing the thumbs during the Adhaan, etc. is Mustahab. It is found as the Sunnat of’ Hadrat Adam Alaihis Salam, Abu Bakr Siddique Radi ALLAHu Ta’ala Anho and Imam Hasan Radi ALLAHu Ta’ala Anho. Even Imams of the Shafa’ee and Maaliki Mad’habs have ruled it to be Mustahab. In every era, Muslim deemed this practice to have this very ruling, along with the following benefits,

The eyes of a person who does this are saved from being sore.

1. Insha-Allah, he will never become blind.
2. It is an excellent cure to remove something problematic to the eyes. These benefits have been experienced several times.
3. The Prophet SallAllaho Alaihi wa Sallam will intercede for the one who practices this.
4. Sayyiduna Rasoolullah SallAllaho Alaihi wa Sallam will also search for the person who used to perform it and lead him into Jannah.

As long as no explicit proof of its prohibition is found, It cannot be stopped. Muslims deeming something preferable (Mustahab) is sufficient proof for it being so. However, for certification of Karaahat (i.e. to deem something Makrooh), a specific proof is needed! So, Calling this practice Haraam is sheer ignorance and an act of prejudice and strait-mindedness of a person afflicted with the blindness of Faith (Eiman). May Allah protect us from falling to this depth of depravity and deviation from the right path… Aameen!!

والله سبحانه وتعالى اعلم ورسوله اعلم بالصواب
Almighty Allah SubHanuhu wa Ta’ala and His Beloved Rasool Sallallaho Alaihi wa Aalihi wa Sallam knows the best!
Reference Books:

1. al-Ataya an-Nabawiyah Fi Fatawa ar-Radawiyyah [New 33 Volume Edition], Vol 5, Page 429-436 by AlaHadrat Ash-Shah Imam aHmad Rida al-Qadiri Rahmatullahi Tala Aleh

2. Munīr al-Áyn fī Ĥukmi Taqbīl al-Ibhāmayn by AlaHadrat Ash-Shah Imam aHmad Rida Khan al-Qadiri Rahmtullahi Tala Aleh

3. Ja-AlHaq, Chapter 24 by Hakeem al-Ummah Hadrat Allama Mufti aHmad Yaar Khan Naeemi Rahmatullahi Tala Aleh

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...