Thursday, 8 March 2018

آزاد مَردوں میں سب سے پہلے حضرت سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اسلام لائے

آزاد مَردوں میں سب سے پہلے حضرت سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اسلام لائے

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہم سب سے زیادہ محبوب تھے، اور ہم سے بہتر اور ہمارے سردار تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ گفتگو کرتے رہے یہاں تک کہ فرمایا : مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے حضرت ابو بکر تھے ۔ (ابن حبان، الصحيح، 15 : 279. 278، رقم : 6862)(هيثمي، موار دالظمآن، 1 : 532، رقم : 2199)(بزار، المسند، 1 : 373، رقم : 251)

حضرت عبداللہ بن عمر رضي اللہ عنھما سے روایت ہے کہ جس شخص نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (طبراني، المعجم الاوسط، 8 : 190، رقم : 8365)(هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 43)(واسطي، تاريخ واسط، 1 : 254)

عمرو بن مرہ نے ابراہیم سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پرسب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 224، رقم : 262، 263)(احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 225، رقم : 265)(ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 336، رقم : 36583)(طبري، تاريخ الامم والملوک، 1 : 540)

يوسف بن یعقوب ماجشون سے روایت ہے کہ میں نے اپنے والد اور ربیعہ سے سنا کہ مردوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔
(ابن حبان، الثقات، 8 : 130، رقم : 12577)

ابوارویٰ دوسی سے روایت ہے کہ سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 171)(محاملی، أمالی المحاملی، 1 : 356، رقم : 396)

امام زہری سے روایت ہے کہ آزاد مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے آپ (حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ) ہیں ۔ (بيهقي، السنن الکبريٰ، 6 : 369، رقم : 12872)

محمد بن کعب سے روایت ہے کہ اس اُمت میں سے سب سے پہلے (عورتوں میں) ایمان لانے والی سیدہ خدیجۃ الکبريٰ رضی اللہ عنھا ہیں اور مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ لیکن اپنے اسلام کا اعلان سب سے پہلے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کیا ۔
(احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 226، رقم : 268)

آپ رضی اللہ عنہ پختہ عمر افراد میں سے تھے اور معاشرے میں سماجی اور تجارتی سرگرمیوں کے باعث معروف بھی تھے اس لیے آپ رضی اللہ عنہ کے اظہارِ اسلام کا ہر ایک پر آشکار ہونا ایک فطری امر تھا، سو اس کی شہرت ہوگئی۔ اور سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نو عمر معصوم بچے تھے، آپ رضی اللہ عنہ نے بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہی گھر میں حضرت خدیجۃ الکبريٰ رضی اﷲ عنھا کی طرح پہلے ہی دن سے اسلام قبول کر لیا۔ اغلباً ممکن ہے کہ زمانی اوليّت کے اعتبار سے حضرت خدیجۃ الکبريٰ رضی اللہ عنھا اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ہی سب پر مقدم ہوں مگر اعلانی اوليّت میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ مقدم ہوں ۔

محمد بن کعب سے روایت ہے کہ سب سے پہلے حضرت ابو بکر اور حضرت علی رضی اللہ عنھما اسلام لائے، ان دونوں میں سے اپنے اسلام کا اعلان پہلے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ (کم سنی کے باعث) اپنے باپ کے ڈر سے اپنے اسلام کو چھپاتے تھے، حضرت ابو طالب کو آپ رضی اللہ عنہ کے اسلام کی خبر ہوئی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے، حضرت ابو طالب نے پوچھا کیا تم نے اسلام قبول کر لیا ہے؟جواب دیا ہاں! انہوں نے کہا : اے میرے بیٹے ! اپنے چچا زاد کی خوب مدد کرو۔ راوی فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان دونوں میں سے پہلے اسلام لانے والے ہیں ۔
(فاکهی، اخبار مکة، 3 : 219)

ابو حاتم نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سب سے پہلے ایمان لانے والی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اﷲ عنھا ہیں اس کے بعد حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ایمان لائے اور جو کچھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے اس کی تصدیق کی اور اس وقت وہ دس سال کے بچے تھے، پھر حضرت ابو بکر صدیق ایمان لائے، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ابو طالب سے اپنا اسلام چھپاتے تھے، اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب اسلام قبول کیا تو اس کا اعلان بھی کر دیا پس اسی لیے لوگوں پر مشتبہ ہوگیا کہ ان دونوں میں سے پہلے کس نے اسلام قبول کیا ؟ ۔ (ابن حبان، الثقات، 1 : 52)

قاضی شوکانی نے کہا، یہ بات صحیح ہے کہ بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال تک کل تئیس سال کا عرصہ بنتا ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد تیس سال تک حیات رہے اور آپ رضی اللہ عنہ کی عمر اسلام قبول کرنے کے بعد پچاس سال سے زائد بنتی ہے اور جب آپ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کی عمر ساٹھ سال سے کم تھی پس معلوم ہوا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے بچپن میں ہی اسلام قبول کیا ۔ (شوکاني، نيل الاوطار، 8 : 17)

حضرت ابوامامۃ باہلی سے روایت ہے کہ مجھے عمرو بن عبسہ نے خبر دی کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عکاظ کے مقام پر تشریف فرما تھے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! اِس دین پر آپ کی (اولین) اتباع کس نے کی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اِس پر میری اتباع دو مردوں نے کی ہے ایک آزاد اور ایک غلام، وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ اور بلال رضی اللہ عنہ ہیں۔ حضرت عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نے اس وقت اسلام قبول کیا تھا ۔ (حاکم، المستدرک، 3 : 69، کتاب معرفة الصحابة، رقم : 4419،چشتی)(طبري، تاريخ الأمم والملوک، 1 : 540)

حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں آپ کی بعثتِ مبارکہ کے ابتدائی ایام میں حاضر ہوا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ مکرمہ میں تھے اور اُس وقت تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خفیہ طور پر تبلیغِ دین فرماتے تھے۔ حضرت عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات سن کر عرض کیا، یہ دین کتنا ہی اچھا ہے جو اﷲ نے آپ کو دے کر بھیجا ہے (پھر عرض کیا) اِس دین پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کس نے کی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ایک غلام اور ایک آزاد شخص نے وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور بلال رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (حاکم، المستدرک، 3 : 68، 69، کتاب معرفة الصحابه، رقم : 4418)(حاکم، المستدرک، 1 : 269، رقم : 583)(احمد بن حنبل، المسند، 4 : 111) (ابن خزيمه، الصحيح، 1 : 129، رقم : 260)(طبراني، مسند الشاميين، 2 : 315، رقم : 1410)(بيهقي، السنن الصغريٰ، 1 : 534، رقم : 959)

حضرت ھمام بن حارث رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عمار بن یاسر رضی اﷲ عنھما کو فرماتے ہوئے سنا : میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس دور میں دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ پانچ غلاموں، دو عورتوں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی نہ تھا ۔
(بخاري، الصحيح، 3 : 1338، کتاب المناقب، رقم : 3460)(بخاري، الصحيح، 3 : 1400، کتاب. . . رقم : 3644)(حاکم، المستدرک، 3 : 444، رقم : 5682)(احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 208، رقم : 232)(بزار، المسند، 4 : 244، رقم : 1411) (بيهقي، السنن الکبريٰ، 6 : 369، رقم : 12883،چشتی)(خثيمه، من حديث خثيمه، 1 : 131) (ذهبي، سير اعلام النبلاء، 1 : 428)(مزي، تهذيب الکمال، 21 : 220)(عسقلاني، الاصابه، 4 : 575، رقم : 5708)(محب طبري، الرياض النضره، 1 : 420)

امام شعبی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا یا آپ سے سوال کیا گیا کہ اسلام قبول کرنے کے اعتبار سے پہلا شخص کون ہے؟ تو آپ نے فرمایا، تم نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا ارشاد نہیں سنا !
إذا تذکّرت شجوا من أخي ثقة
فاذکر أخاک أبابکر بما فعلا
خير البريّة أتقاها وأعدلها
بعد النّبيّ وأوفاها بما حملا
ألثّاني ألتّالي المحمود مشهده
و أوّل النّاس منهم صدّق الرّسلا
ترجمہ : جب تم کسی قابل اعتماد بھائی کا تپاک سے ذکر کرو تو ضرور ابو بکر کے کارناموں کی وجہ سے انہیں یاد کرو۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد وہ تمام مخلوق سے بہتر، اللہ سے زیادہ ڈرنے والے، عدل کرنے والے اور اپنے فرائض کو کماحقہ سر انجام دینے والے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ (دو ہجرت کرنے والوں میں سے) دوسرے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیرو ہیں، محفل میں ان کی موجودگی پسندکی جاتی ہے، وہ لوگوں میں سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے سب رسولوں کی تصدیق کی ۔ (حاکم، المستدرک، ، 3 : 67، کتاب معرفة الصحابه، رقم : 4414)(ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 14، رقم : 33885)(ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 336، رقم : 36584)(احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 133، رقم : 103،چشتی)(احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 142، رقم : 119)(طبراني، المعجم الکبير، 12 : 89، رقم : 12562)(شيباني، الآحاد والمثاني، 1 : 84، رقم : 44)(بيهقي، السنن الکبريٰ، 6 : 369، رقم : 12875)(هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 43)(ابن جوزي، صفة الصفوه، 1 : 238)(ابن عبدالبر، الإستيعاب، 3 : 964، رقم : 1633)(محب طبري، الرياض النضره، 1 : 416)

عبداللہ بن حصین تمیمی سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں نے جس کسی کو اسلام کی دعوت دی اس نے کچھ نہ کچھ تردد، ہچکچاہٹ اور تامل کا اظہار ضرور کیا سوائے ابوبکر کے کہ اس نے بغیر کسی تردد و تامل کے فوراً میری دعوت قبول کر لی ۔ (ابن کثير، البداية والنهاية، 3 : 27)(ابن هشام، السيرة النبوية، 2 : 91)(ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 444)(حلبي، السيرة الحلبيه، 1 : 442)(ابن عساکر، تاريخ دمشق، 30 : 44)(محب طبري، الرياض النضرة، 1 : 415)

میں نے اسلام کے بارے میں جس سے بھی گفتگو کی اس نے انکار کیا اور مجھ سے تکرار کی سوائے ابو قحافہ کے بیٹے ابو بکر کے، کیونکہ میں نے اس سے جو بات بھی کہی اس نے قبول کر لی اور اس پر مضبوطی سے قائم رہا ۔ (حلبي، السيرة الحلبيه، 1 : 442) ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق محترم قارئین کرام : علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف فتوی دینے کے سلسلے میں تج...